طارق ہاشمی۔۔۔۔درد کرتا ہے سفر آنکھ کے اندر کی طرف

سپرانومی

محفلین
درد کرتا ہے سفر آنکھ کے اندر کی طرف
اشک گرتے ہیں مگر آنکھ کے اندر کی طرف

جس سے کچھ لوگ گزرتے ہیں سرِ قریہء جاں
کہیں کھلتا ہے وہ در آنکھ کے اندر کی طرف

دل کے پاتال میں سو درد نظر آئیں گے
جھانک کچھ اور مگر آنکھ کے اندر کی طرف

تو نے مژگاں پہ جہاں نام لکھا دیکھا تھا
اسی کوچے میں ہے گھر آنکھ کے اندر کی طرف

میرے دل سے وہ کبھی جا نہیں سکتا باہر
کوئی آ جائے اگر آنکھ کے اندر کی طرف

جا نکلتی ہے کسی اور جہاں میں طارقؔ
دل کی اک راہ گزر آنکھ کے اندر کی طرف​
 
Top