ضیا کا بھوت (ڈان اردو)

حسان خان

لائبریرین
لگتا یہی ہے کہ جنرل ضیا الحق کے بعد بھی کئی سال بے مصرف ہی گذرے۔ فوجی آمر نے قدامات پسندی اور ملائیت پر مبنی جو مذہبی ورژن ملک پر لاگو کیا تھا، وہ ان کی رخصتی کے طویل عرصے بعد، اب بھی پیچھا چھوڑنے پر تیار نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خود ساختہ مذہبی نظریات اور خود کو درست سمجھنے کی طے شدہ ذہنیت، اب تک صرف مشکلات کھڑی کرتی آئی ہے اور بدقسمتی سے بطور قوم یہ پالیسی اب تک بدستور ہمارے اقدامات کا تعین کررہی ہے۔
ہم نے اب تک کی جن اطلاعات کا مطالعہ کیا ہے، اُن کے مطابق ایسے امیدوار جو پارلیمنٹ تک پہنچنے کے لیے نشست جیتنے پر تو پُرامید ہیں تاہم انہیں اسلام سے متعلق معلومات پر جراح کا سامنا کرنا پڑا؟
ایک لمحے کے لیے اسے ایک طرف رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی معلومات کی بنیاد پر کسی ایسے شخص کی فیصلہ سازی کی اہلیت کا تجزیہ کرنا جو مستقبل میں عوام کا نمائندہ ہوسکتا ہے، شاید ہی یہ عمل اس ضمن میں مددگار ہوسکے۔ کسی شخس کے تقویٰ پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اس کی اہلیت پر توجہ دی جانی چاہیے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس مشق کے پیچھے یہ بنیادی مفروضہ پوشیدہ ہے کہ عوامی عہدے کے امیدوار کے اہلیت کا تعین اس کے کردار، ایمانداری، سچائی یا شاید مالیاتی ریکارڈ کے بجائے، اس کی مذہب سے متعلق معلومات کی بنیاد پر اُجاگر ہونا چاہیے۔
کون با عمل مسلمان ہے اور کون نہیں، امیدواروں کو درکار تفصیلات کی اس چھلنی سے گزارنے کا پیمانہ انتخابی مراحل کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔
آئین کی متنازعہ شق باسٹھ (ای) اس ضرورت کا اظہار کرتی ہے کہ ایک رکنِ پارلیمنٹ ‘تعلیماتِ اسلامی سے بخوبی آگاہ اور فرائض کی ادائیگی’ کرتا ہو، بدقسمتی سے یہ شق بدستور کتاب کا حصہ ہے۔
سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ گذشتہ پانچ برس کے دوران متعدد آئینی ترامیم کے باوجود، یہ شق اب تک کیوں برقرار رکھی گئی، آخر سیاسی لحاط سے اس کے قابلِ عمل ہونے کی وجوہات تو بتائی جائیں۔ کیا پاکستان اب تک تکثیری معاشرے (پلیورلسٹک سوسائٹی) سے متاثر ہے؟
پاکستان کے آنے والے انتخابات ملک کے مستقبل کے حوالے سے، ایک سے زائد وجوہات کی بنا پر نہایت اہم ہیں۔
اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان سے لے کر نگراں حکومتوں اور دیگر تمام متعلقہ شراکت داروں تک، سب کے لیے بہتر یہی ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔
اگر پاکستان سچے اور ایماندار قانون سازوں کا خواہشمند ہے تو پھر الیکشن کمیشن کی جانب سے امیدوار کی باریک بینی سے جانچ پڑتال ہونی چاہیے مگر غیر جانبداری سے، تاہم سوالیہ نشان کے حامل طرزِ عمل کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔

ربط

اصل انگریزی میں پڑھنے کے لیے مندرجہ ذیل ربط دیکھیے۔ اردو میں پوری تحریر کا نہایت ہی بھونڈا ترجمہ کیا گیا ہے۔
http://dawn.com/2013/04/03/the-ghost-of-zia-poll-scrutiny-questions/
 
Top