ضمیمۂ دیوانِ غالب

جیہ

لائبریرین
ضمیمۂ دیوانِ غالب​
از نوائے سروش (نسخۂ مہر)​
نوٹ از مولانا مہر:
یہ غزلیں مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہیں لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے
 

جیہ

لائبریرین

1

آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ
پھول ہنس ہنس کے گلستاں میں فنا ہوجاتا
کاش ناقدر نہ ہوتا ترا اندازِ خرام
میں غبارِ سرِ دامانِ فنا ہوجاتا
یک شبہ فرصتِ ہستی ہے اک آئینۂ غم
رنگِ گل کاش! گلستاں کی ہَ۔وا ہوجاتا
مستقل مرکزِ غم پہ ہی نہیں تھے ورنہ
ہ۔م کو ان۔دازۂ آئ۔ینِ ف۔ن۔ا ہ۔وج۔ات۔۔ا
دستِ قدرت ہے مرا خشت بہ دیوارِ فنا
گر فنا بھی نہ میں ہوتا تو فنا ہوجاتا
حیرت اندوزئ اربابِ حقیقت مت ہوچھ
جلوہ اک روز تو آئینہ نما ہوجاتا

2

بدتر از ویرانہ ہے فصلِ خزاں میں صحنِ باغ
خانۂ بلبل بغیر از خندۂ گل بے چراغ
پتّا پتّا اب چمن کا انقلاب آلودہ ہے
نغمۂ مرغِ چمن زا ہے صدائے بوم و زاغ
ہاں بغیر از خوابِ مرگ آسودگی ممکن نہیں
رختِ ہستی باندھ تا حاصل ہو دنیائے فراغ
شورِ طوفانِ بلا ہے خندۂ بے اختیار
کیا ہے گل کی بے زبانی کیا ہے یہ لالے کا داغ
چشمِ پُر نم رہ، زمانہ منقلِب ہے اے اسد
اب یہی ہے بس مے شادی سے پُر ہونا ایاغ

3

خزینہ دارِ محبت ہوئ ہوائے چمن
بنائے خندۂ عشرت ہے بر بِنائے چمن
بہ ہرزہ سنجئ گلچیں نہ کھا فریبِ نظر
ترے خیال کی وسعت میں ہے فضائے چمن
یہ نغمۂ سنجئ بلبل متاعِ زحمت ہے
کہ گوشِ گل کو نہ راس آئے گی صدائے چمن
صدائے خندۂ گل تا قفس پہنچتی ہے
نسیمِ صبح سے سنتا ہوں ماجرائے چمن
گل ایک کاسۂ دری۔وزۂ مسرّت ہے
کہ عندلیبِ نواسنج ہے گدائے چمن
حریفِ نالۂ پرورد ہے، تو ہو، پھر بھی
ہے اک تبسّمِ پنہاں ترا بہائے چمن
ب۔ہ۔ار راہ رو ج۔ادۂ فن۔ا ہ۔ے اسد
گلِ شگفتہ ہیں گویا کہ نقشِ پائے چمن

4

کرم ہی کچھ سببِ لطف و التفات نہیں
انہیں ہنساکے رلانا بھی کوئ بات نہیں
کہاں سے لاکے دکھائے گی عمرِ کم مایہ
سیہ نصیب کو وہ دن کہ جس میں رات نہیں
زبان حمد کی خوگر ہوئ تو کیا حاصل
کہ تیری ذات میں شامل تری صفات نہیں
خوشی، خوشی کو نہ کہہ، غم کو غم نہ جان اسد
قرار داخلِ اجزائے کائنات نہیں

5

جوں شمع ہم اک سوختہ سامانِ وفا ہیں
اُور اس کے سواکچھ نہیں معلوم کہ کیا ہیں
اک سرحدِ معدوم میں ہستی ہے ہماری
سازِ دل بشکستہ کی بیکار صدا ہیں
جس رخ پہ ہوں ہم، سجدہ اسی رخ پہ ہے واجب
گو قبلہ نہیں ہیں مگر اک قبلہ نما ہیں
مت ہوجیو اے سیلِ فنا ان سے مقابل
جانبازِ الم نقش بہ دامانِ بقا ہیں
پائ ہے جگہ ناصیۂ بادِ صبا پر
خاکستر پروانۂ جانبازِ فنا ہیں
ہر حال میں ہیں مرضئ صیّاد کے تابع
ہم طائرِ پر سوختہ رشتہ بہ پا ہیں
اے وہم طرازانِ مجازی و حقیقی
عشّاق فریبِ حق و باطل سے جدا ہیں
ہم بے خودئ شوق میں کرلیتے ہیں سجدے
یہ ہم سے نہ پوچھو کہ کہاں ناصیہ سا ہیں
اب منتظرِ شوقِ قیامت نہیں غالب
دنیا کے ہر ذرّے میں سو حشر بپا ہیں​
 

جیہ

لائبریرین

6

نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں
یہ بھی اے چرخِ ستمگار! کروں یا نہ کروں
مجھ کو یہ وہم کہ انکار نہ ہو جائے کہیں
ان کو یہ فکر کہ اقرار کروں یا نہ کروں
لطف جب ہو کہ کروں غیر کو بھی میں بدنام
کہیئے کیا حکم ہے سرکار! کروں یا نہ کروں

7

وضعِ نیرنگئ آفاق نے مارا ہم کو
ہوگئے سب ستم و جَور گوارا ہم کو
دشتِ وحشت میں نہ پایا کسی صورت سے سراغ
گردِ جولانِ جنوں تک نے پکارا ہم کو
عجز ہی اصل میں تھا حاملِ صد رنگِ عروج
ذوقِ پست۔ئ مصیبت نے ابھارا ہم کو
ضعف مشغول ہے بیکار بہ سعئ بیجا
کرچکا جوشِ جنوں اب تو اشارہ ہم کو
صورِ محشر کی صدا میں ہے افسونِ امّید
خواہشِ زیست ہوئ آج دوبارا ہم کو
تختۂ گور سفینے کے مماثل ہے اسد
بحرِ غم کا نظر آتا ہے کنارا ہم کو

8

حسنِ بے پروا گرفتارِ خود آرائ نہ ہو
گر کمیں گاہِ نظر میں دل تماشائ نہ ہو
ہیچ ہے تاثیرِ عالم گیرئ ناز و ادا
ذوقِ عاشق گر اسیرِ دامِ گیرائ نہ ہو
خود گدازِ شمع آغازِ فروغِ شمع ہے
سوزشِ غم درپئے ذوقِ شکیبائ نہ ہو
تار تارِ پیرہن ہے اک رگِ جانِ جنوں
عقلِ غیرت پیشہ حیرت سے تماشائ نہ ہو
بزمِ کثرت عالمِ وحدت ہے بینا کے لئے
بے نیازِ عشق اسیرِ زورِ تنہائ نہ ہو
ہے محبت رہزنِ ناموسِ انساں اے اسد
قامتِ عاشق پہ کیوں ملبوسِ رسوائ نہ ہو

9

نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
لبوں پہ جان بھی آجائے گی جواب کے ساتھ
مجھے بھی تاکہ تمنّا سے ہو نہ مایوسی
ملو رقیب سے لیکن ذرا حجاب کے ساتھ
ن۔ہ ہو ب۔ہ ہ۔رزہ روادارِ س۔ع۔ئ ب۔ے ہ۔ودہ
کہ دورِ عیش ہے مانا خیال و خواب کے ساتھ
ب۔ہ ہر ن۔م۔ط غ۔مِ دل باع۔ثِ مس۔رّت ہے
نموئے حیرتِ دل ہے ترے شباب کے ساتھ
ل۔گاؤ اس کا ہ۔ے ب۔اع۔ث ق۔۔یامِ مس۔تی کا
ہَوا کو لاگ بھی ہے کچھ مگر حباب کے ساتھ
ہ۔زار ح۔یف ک۔ہ اتن۔ا ن۔ہیں ک۔وئ غالب
کہ جاگنے کو ملا دے وے آکے خواب کے ساتھ

10

بتائیں ہم تمہارے عارض و کاکُل کو کیا سمجھے
اِسے ہم سانپ سمجھے اور اُسے من سانپ کا سمجھے
یہ کیا تشبیہِ بے ہودہ ہے، کیوں موذی سے نسبت دیں
ہُما عارض کو، اور کاکل کو ہم ظلِّ ہما سمجھے
غلط ہی ہوگئ تشبیہ، یہ تو ایک طائر ہے
اسے برگِ سمن اور اُس کو سنبل کو جٹا سمجھے
نباتاتِ زمیں سے کیا ان کو نسبت؟ معاذاللہ
اسے برق اور اُسے ہم کالی ساون کی گھٹا سمجھے
گھٹا اور برق سے کیوں کر گھٹاکر ان کو نسبت دیں
اسے ظلمات، اُسے ہم چشمۂ آبِ بقا سمجھے
جو کہیے یہ، فقط مقصود تھا خضر و سکندر سے
یدِ بیضا اسے اور اُس کو موسیٰ کا عصا سمجھے
جو اس تشبیہ سے بھی داغ اُن کو آتا ہو
اسے وقتِ نمازِ صبح اور اُس کو عشاء سمجھے
جو یہ نسبت پسندِ خاطرِ والا نہ ہو تو پھر
اسے قندیلِ کعبہ، اُس کو کعبے کی ردا سمجھے
اسد ان ساری تشبیہوں کو رد کرکے یہ کہتا ہے
سویدا اِس کو سمجھے اُس کو ہم نورِ خدا سمجھے​
 

جیہ

لائبریرین

11

نسیمِ صبح جب کنعاں میں بوئے پیرَہن لائ
پئے یعقوب ساتھ اپنے نویدِ جان و تن لائ
وقارِ ماتمِ شب زندہ دارِ ہجر رکھنا تھا
سپیدی صبحِ غم کی دوش پر رکھ کر کفن لائ
شہیدِ شیوۂ منصور ہے اندازِ رسوائ
مصیبت پیشگئ مدّعا دار و رسن لائ
وفا دامن کشِ پیرایہ و ہستی ہے اے غالب
کہ پھر نزہت گہِ غربت سے تا حدِّ وطن لائ

12

وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئ ہے
ازل کے دن سے یہ اے یار ہوتی آئ ہے
جوابِ جنتِ بزمِ نشاطِ جاناں ہے
مری نگاہ جو خونبار ہوتی آئ ہے
نموئے جوشِ جنوں وحشیو! مبارک باد
بہار ہدیۂ انظار ہوتی آئ ہے
دل و دماغِ وفا پیشگاں کی خیر نہیں
جگر سے آہِ شرر بار ہوتی آئ ہے

13

یونہی افزائشِ وحشت کےجو ساماں ہوں گے
دل کے سب زخم بھی ہم شکلِ گریباں ہوں گے
وجہِ مایوسئ عاشق ہے تغافل ان کا
نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے
دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو
بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے
منتشر ہو کے بھی دل جمع رکھیں گے یعنی
ہم بھی اب پیروئے گیسو ئے پریشاں ہوں گے
گردشِ بخت نے مایوس کیا ہے لیکن
اب بھی ہر گوشۂ دل میں کئ ارماں ہوں گے
ہے ابھی خوں سے فقط گرمئ ہنگامۂ اشک
پر یہ حالت ہے تو نالے شرر افشاں ہوں گے
باندھ کر عہدِ وفا اتنا تنفّر، ہے ہے
تجھ سے بے مہر کم اے عمرِ گریزاں! ہوں گے
اس قدر بھی دلِ سوزاں کو نہ جان افسردہ
ابھی کچھ داغ تو اے شمع! فروزاں ہوں گے
عہد میں تیرے کہاں گرمئ ہنگامۂ عیش
گل میری قسمت واژونہ پہ خنداں ہوں گے
خوگرِ عیش نہیں ہیں ترے برگشتہ نصیب
اُن کو دشوار ہیں وہ کام جو آساں ہوں گے
موت پھر زیست نہ ہوجائے یہ ڈر ہے غالب
وہ مری نعش پہ انگشت بہ دنداں ہوں گے


14

نمائش پردہ دارِ طرز بیدادِ تغافل ہے
تسلّی جانِ بلبل کے لئے خندیدنِ گل ہے
نمودِ عالَمِ اسباب کیا ہے؟ لفظِ بے معنی
کہ ہستی کی طرح مجھ کو عدم میں بھی تامّل ہے
نہ رکھ پابندِ استغنا کو قیدی رسمِ عالم کا
ترا دستِ دعا بھی رخنہ اندازِ توکّل ہے
نہ چھوڑا قید میں بھی وحشیوں کو یادِ گلشن نے
یہ چاکِ پیرہن گویا جوابِ خندۂ گل ہے
ابھی دیوانگی کا راز کہہ سکتے ہیں ناصح سے
ابھی کچھ وقت ہے غالب ابھی فصلِ گل و مُل ہے

15

خود جاں دے کے روح کو آزاد کیجئے
تاکے خیالِ خاطرِ جلّاد کیجئے
بھولے ہوئے جو غم ہیں انہیں یاد کیجئے
تب جاکے ان سے شکوۂ بے داد کیجئے
حالانکہ اب زباں میں نہیں طاقتِ فغاں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ فریاد کیجئے
بس ہے دلوں کے واسطے اک جنبشِ نگاہ
اجڑے ہوئے گھروں کو پھر آباد کیجئے
کچھ دردمند منتظرِ انقلاب ہیں
جو شاد ہوچکے انہیں ناشاد کیجئے
شاید کہ یاس باعثِ افشائے راز ہو
لطف و کرم بھی شاملِ بے داد کیجئے
بیگانۂ رسومِ جہاں ہے مذاقِ عشق
طرزِ جدیدِ ظلم ایجاد کیجئے​
 

جیہ

لائبریرین

16

ہم سے خوبانِ جہاں پہلو تہی کرتے رہے
ہم ہمیشہ مشقِ از خود رفتگی کرتے رہے
کثرت آرائ خیالِ ما سوا کی وہم تھی
مرگ پر غافل گمانِ زندگی کرتے رہے
داغہائے دل چراغِ خانۂ تاریک تھے
تا مغاکِ قبر پیدا روشنی کرتے رہے
شورِ نیرنگِ بہارِ گلشنِ ہستی، نہ پوچھ
ہم خوشی اکثر رہینِ ناخوشی کرتے رہے
رخصت اے تمکینِ آزارِ فراقِ ہمرہاں
ہوسکا جب تک غمِ واماندگی کرتے رہے

17

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ خدا خدا کیجے
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی
پہلے دل درد آشنا کیجے
عرضِ شوخی نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے
دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے
موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے

18

سکوت و خامشی اظہارِ ح۔الِ بے زب۔انی ہے
کمی۔نِ درد میں پوش۔یدہ رازِ ش۔ادم۔انی ہے
عیاں ہیں حال و قالِ شیخ سے اندازِ دلچسپی
مگر رن۔دِ قَ۔دَح کش کا ابھ۔ی دورِ جوان۔ی ہے
ثباتِ چند روزہ کارفرمائے غم و حس۔رت
اجل سرمایہ دارِ دورِ عیش و کامرانی ہے
گدازِ داغِ دلِ شمعِ بساطِ خانہ ویرانی
تپش گاہِ محبت میں فروغ جاودانی ہے
وف۔ورِ خود نمائ رہ۔نِ ذوقِ ج۔لوہ آرائ
بہ وہم کامرانی جذبِ دل کی شادمانی ہے
دلِ حرماں لقب کی داد دے اے چرخِ بے پروا
بہ غارت دادۂ رخت و متاعِ کامرانی ہے

19

کس کی برقِ شوخئ رفتار کا دلدادہ ہے
ذرّہ ذرّہ اس جہاں کا اضطراب آمادہ ہے
ہے غ۔رورِ سرکشی صورت نمائے عجز بھی
منقلب ہو کر بسانِ نقشِ پا افتادہ ہے
خانہ ویراں سازئ عشقِ جفا پیشہ نہ پوچھ
نامرادوں کا خطِ تقدیر تک بھی سادہ ہے
خود نشاط و سرخوشی ہے آمدِ فصلِ بہار
آج ہر سیلِ رواں عالم میں موجِ بادہ ہے
زندگانی رہروِ راہِ فنا ہے اے اسد
ہر نفس ہستی سے تا ملکِ عدم اک جادہ ہے

20

اس جور و جفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے
کیا طرفہ تمنّا ہے امیدِ کرم تجھ سے
امّیدِ نوازش میں کیوں جیتے تھے ہم آخر
سہتے ہی نہیں کوئ جب درد و الم تجھ سے
وارفتگئ دل ہے یا دستِ تصرّف ہے
ہیں اپنے تخیّل میں دن رات بہم تجھ سے
یہ جور و جفا سہنا پھر ترکِ وفا کرنا
اے ہرزہ پ۔ژوہی بس عاجز ہوئے ہم تجھ سے
غالب کی وفا کیشی اور تیری ست۔م رانی
مشہورِ زمانہ ہے اب کیا کہیں ہم تجھ سے


اختتام
 
Top