ضرب المثل اور کہاوتیں

سیما علی

لائبریرین
پیارے بچو! سینکڑوں سال سے بہت سی کہاوتیں یا ضرب المثل چلی آ رہی ہیں جنہیں ہم آج بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کہاوتوں یا مثالوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی ایسی وجہ، واقعہ یا کہانی چھُپی ہے جس کے منظرعام پر آنے کے باعث وہ کہاوت یا مثل کی شکل اختیار کر گئی۔ یہ کہاوتیں اور مثالیں حقائق پر مبنی ہیں اور حالات و ماحول کے مطابق استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علماء ان کہاوتوں یا مثالوں کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ یوں تو یہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں مگر چند معروف کہاوتوں کا تفصیلاً ذکر کرتے ہیں۔ ایک عام مثال کہی جاتی ہے کہ

کوّا چلا ہنس کی چال

اپنی بھی چال بھُولا‘‘۔ یہ اس وقت کہی جاتی ہے ،جب کوئی شخص اپنی حیثیت سے بڑھ کر کوئی کام کرے اور اس میں نقصان اٹھائے۔ کہتے ہیں ایک بار کسی دیوتا نے پرندوں کی ایک سلطنت قائم کرنے کا سوچا اور منادی کرا دی کہ فلاں روز سب پرندے حاضر ہوں جو ان سب میں حسین ہو گا اس کو بادشاہ بنایا جائے گا۔ ایک کالے کوے کو بادشاہ بننے کی بڑی تمنا تھی۔ اس نے ہنس کو خوبصورت سمجھ کر اس کے ادھر اُدھر گرے ہوئے پر اٹھائے اور اپنے تمام بدن پر سجا لئے۔ جب تمام پرندے حاضر ہو گئے تو کالا کوا بھی ہنس کے بھیس میں آیا اور پھر خوبصورت ہونے کی وجہ سے اسی کا انتخاب بھی ہو گیا۔ پرندوں نے اس کی چال سے سمجھ لیا کہ یہ ہنس نہیں ہے بلکہ اس کی چال کچھ کوے جیسی لگتی ہے چنانچہ انہوں نے فوراً اس کے سارے پر نوچ لئے جس کے باعث کوا اپنی اصل شکل میں سامنے آ گیا لہٰذا اسی وقت سے یہ مثل بھی مشہور ہو گئی کہ ’’کوّا چلا ہنس کی چال‘‘۔ تو بچو! یہ مثل بھی بہت مشہور ہے اور اکثر بولی جاتی

دال میں کچھ کالا ہے

کسی پوشیدہ بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے یہ مثل بولتے ہیں یعنی ظاہراً تو کچھ نہ ہو لیکن باطن میں کوئی نہ کوئی عیب یا خرابی ضرور ہو۔ کہتے ہیں کہ ایک سوداگر بچہ تجارت کی غرض سے کسی شہر میں گیا۔ جاتے وقت لوگوں نے اس کو آگاہ کر دیا تھا کہ جہاں جا رہے ہو وہاں کے لوگ انتہائی جھگڑالو اور شرپسند ہیں ان سے ہوشیار رہنا۔ سوداگر بچے نے اس شہر میں پہنچ کر ایک سرائے میں قیام کیا اور چند دنوں کے لئے ایک ملازم بھی رکھ لیا۔ اگلے دن ایک کانے آدمی نے سوداگر بچے سے آ کر کہا کہ غالباً آپ کے والد کا انتقال ہو گیا ہے شاید اسی وجہ سے آپ خود یہاں تشریف لائے ہیں؟ وہ بیچارے جب بھی یہاں تشریف لاتے تو اسی سرائے میں قیام کرتے تھے۔ سوداگر بچہ اس کانے شخص کی باتوں سے سمجھ گیا کہ اب یہ کوئی دغا بازی کرنے والا ہے اس لئے وہ ہوشیار ہو گیا۔تھوڑی دیر کے بعد کانے نے کہا۔ آپ کے والد آنکھوں کی تجارت کرتے تھے۔ ان کے پاس میں نے اپنی ایک آنکھ گروی رکھ کر کچھ روپے لئے تھے اب آپ وہ روپے لے کر میری آنکھ واپس کر دیجئے۔ سوداگر بچہ یہ سن کر بہت گھبرایا اور اس کانے کو کل کا وعدہ کر کے اس وقت تو ٹال دیا۔ اگلے دن جب آیا تو سوداگر بچہ اس کا جواب دینے کے لئے تیار ہو چکا تھا۔ اس نے کانے سے کہا کہ میرے پاس والد مرحوم کی گروی رکھی ہوئی سینکڑوں آنکھیں ہیں۔ میں رات بھر تمہاری آنکھ تلاش کرتا رہا لیکن نہ مل سکی۔ اب صرف یہی طریقہ ہے کہ تم دوسری آنکھ بھی مجھے دے دو تاکہ میں اس کے ساتھ ملا کر تلاش کر لوں اور تمہیں دے دوں۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کہیں کسی دوسرے کی آنکھ بدل نہ جائے۔ کانے نے جب یہ سنا تو سمجھ گیا کہ یہاں دال گلنا دشوار ہے۔ وہ سوداگر بچے سے اپنی جان چھڑوا کر وہاں سے رفوچکر ہو گیا۔ سوداگر بچہ جب اس شرپسند اور منافقوں کے شہر سے دلبرداشتہ ہو کر نکلنے لگا تو اس نے ملازم کو تنخواہ دینا چاہی۔ ملازم نے کہا کہ حضور نے ملازمت دیتے وقت کہا تھا کہ کچھ دیں گے، روپوں کا معاہدہ نہیں ہوا تھا اس لئے مجھے روپے نہیں بلکہ کچھ چاہئے۔ سوداگر بچہ سوچنے لگا اور ایک ترکیب اس کے ذہن میں آ ہی گئی۔ اس نے ملازم کو بازار بھیج کر ٹال دیا اور اس روز کی پکی ہوئی مسور کی دال ایک کوزے میں بھری۔ پھر تھوڑی سی کالی مرچیں ڈال کر کوزے کو الماری میں رکھ دیا۔ ملازم جب واپس آیا تو سوداگر بچے نے کہا کہ دیکھو تو الماری میں کیا رکھا ہے؟ حضور اس میں دال ہے۔ سوداگر بچے نے کہا! اور کیا ہے؟ ملازم بولا۔ کالا کالا معلوم ہوتا ہے۔ سوداگر بچے نے کہا! کالا کالا کیا ہے؟ ملازم نے کہا! کچھ ہے۔ سوداگر بچے نے اسی وقت کہا! جس کچھ دینے کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا، وہ یہی ہے۔ تم اس کو لے لو اور اپنے گھر کا راستہ لو۔ اس وقت سے یہ مثل مشہور ہو گئی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ایسی ہی مثال آپ نے اکثر سنی ہو گی

انگور کھٹے ہیں

یہ اس وقت کہتے ہیں جب کہیں پر کسی کا بس نہ چلے تو وہ کہے کہ میں یہ کام کرنا ہی نہیں چاہتا یا پھر خود کو اعلیٰ کردار ظاہر کرے کہ میں دو نمبر قسم کے کام نہیں کرتا۔اس کی کہانی کچھ یوں ہے کسی دیوار پر انگوروں کی بیل تھی اور اس پر انگوروں کے گچھے لٹک رہے تھے۔ ایک لومڑی کا وہاں سے گذر ہوا۔ انہیں دیکھ کر اس کے منہ میں پانی آ گیا۔ وہ قریب گئی۔ اس نے دیکھا کہ انگور کافی اونچے ہیں۔ اس نے بہت اچھل کود کی کہ کسی طریقے سے انگوروں تک پہنچ جائے مگر انگور اونچے ہونے کی وجہ سے وہ ان کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ آخر تھک گئی۔ جب بس نہ چلا تو یہ کہہ کر چل دی کہ یہ سب انگور تو کھٹے ہیں۔ انہیں کھانے سے کیا فائدہ۔بچو یہ مثل بھی بہت مشہور ہے اور عام بولی جاتی ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ایک مرتبہ ایک بندر کسی دودھ والے کی دکان سے پیسوں کا غلہ اٹھا کر لے گیا اور ایسے درخت پر جا بیٹھا جو دریا کے کنار ے تھا۔ وہ غلے سے پیسے نکال کر کبھی خشکی پر پھینک دیتا اور کبھی دریا میں اِس کو دیکھ کر کسی تماشائی نے کہا کہ یہ ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر رہا ہے‘‘۔ یعنی دودھ والے نے دودھ میں جتنا پانی ملایا اس کے پیسے دریا میں پھینک دئیے اور دودھ کی قیمت خشکی پر۔ تاکہ دودھ والا آ کر اٹھا لے۔

چور کی داڑھی میں تنکا

کہتے ہیں کسی زمیندار کی بھینس چوری ہو گئی۔ زمیندار نے قاضی کے پاس جا کر فریاد کی اور مشکوک آدمیوں کے نام بتائے۔ قاضی نے ان سب کو جمع کر کے کہا کہ جس نے بھینس چرائی ہے مجھے معلوم ہو چکا ہے کیونکہ اس کی داڑھی میں تنکا ہے۔ ان لوگوں میں چور بھی موجود تھا اس نے سوچا کہیں میری داڑھی میں تنکا نہ ہو، اس نے فوراً ہی اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا ۔ جبکہ باقی لوگ ہاتھ نیچے کئے کھڑے تھے اس حرکت پر وہ فوراً ہی پکڑ لیا گیا۔ اس نے اقرار جرم کر لیا اور اسے بھینس واپس کرنا پڑی۔ یہ والی مثال تو آپ خوب جانتے ہوں گے کہ

بلی شیر کی خالہ ہے
اب بلی شیر کی خالہ کیسے ہے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ ایک دن شیر نے بلی سے کہا کہ ہمارا خاندان ایک ہے اور آپ رشتے میں ہماری خالہ ہیں اس لئے ہمیں شکار کرنے کے تمام طریقے بتائیں تاکہ ہم بھی شکار کرنے میں تجربہ کار ہو جائیں۔ بلی نے شیر کو شکار کرنے کے طریقے سکھانا شروع کر دئیے۔ بلی نے کہا کہ میں نے آپ کو شکار کرنے کے تمام طریقے سکھا دئیے ہیں اب آپ ایک تجربہ کار شکاری ہیں۔ شیر نے کہا کہ خالہ جان کوئی طریقہ رہ تو نہیں گیا؟ بلی نے کہا نہیں سب سکھا دئیے۔ یہ سنتے ہی شیر بلی کا شکار کرنے کے لئے اس پر جھپٹا۔ بلی پھرتی سے ایک درخت پر چڑھ گئی۔ شیر منہ تکتا رہ گیا اور بولا۔ خالہ جان درخت پر چڑھنے کا طریقہ تو آپ نے سکھایا ہی نہیں۔ بلی بولی اگر یہ بھی سکھا دیتی تو آج اپنی جان کیسے بچاتی۔ تو بچو! وہ مثالیں اور کہاوتیں جن کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی، واقعہ یا سبق موجود ہے۔ اس لئے جب بھی کوئی بات ہوتی ہے تو ان ضرب المثل کو موقع کی مناسبت سے دہرایا جاتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
کہاوتیں آ سے
(۱ ) آبنوس کا کندہ : کُندہ یعنی بھاری ٹکڑا۔آبنوس ایک سخت اور سیاہ قسم کی لکڑی کو کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے سیاہ فام( بالکل کالے) آدمی کو آبنوس کا کُندہ کہتے ہیں۔

( ۲ ) آب آب کر مر گئے، سرہانے دَھرا رہا پانی : اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ کوئی شخص ہندوستان سے باہر گیا اور وہاں سے فارسی سیکھ کر واپس آیا۔ اپنی فارسی دانی پر اس کو بہت ناز تھا۔اتفاق سے وہ بیمار ہو گیا اور طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ وہ پیاس کی شدت میں ’’آب آب‘‘ کہہ کر پانی مانگتا رہا لیکن کوئی اس کی بات نہ سمجھ سکا اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہو گیا حالانکہ پانی اُس کے سرہانے ہی رکھا ہوا تھا۔ اس مناسبت سے گویا کہاوت میں تنبیہ ہے کہ گفتگو ہمیشہ ایسی زبان میں کرنی چاہئے جس کو لوگ سمجھتے ہوں۔ اپنی قابلیت کے زعم میں ایسی زبان استعمال کرنا سرا سر نادانی ہے جس سے لوگ نا واقف ہوں۔

(۳) آ بنی سر آپنے، چھوڑ پرائی آس : آ بنی سر آپنے یعنی مصیبت اپنے سر پر آ ہی پڑی ہے۔ ایسے میں کسی اور سے اُمید لگانی بیکار ہے۔ جو کچھ کرنا ہے خود ہی کرنا اور بھگتنا ہے۔

(۴) آ بیل مجھے مار : کسی مصیبت کو جان بوجھ کر اپنے سر پر بلانا ایسا ہی ہے جیسے راہ چلتے بیل کو چھیڑ کر حملہ کی دعوت دی جائے۔ اس حوالے سے یہ کہاوت حماقت یا کم عقلی کا استعارہ ہے۔

(۵) آب آید، تیمم برخواست : پانی اگر مل جائے تو پھر تیمم کرنے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ اجازت۔گویا اگر کسی رعایت کی وجہ ہی باقی نہ رہے تو پھر وہ رعایت بھی اٹھ جاتی ہے، یا زیادہ اہم چیز مل جائے تو کم اہم چیز کی مانگ اور ضرورت نہیں رہ جاتی۔

( ۶ ) آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے : بڑے کارنامے آبِ زر یعنی سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔

( ۷ ) آپ جانیں اور آپ کا ایمان : یعنی آپ اپنی نیت دیکھ کر خود ہی فیصلہ کریں کیونکہ نتائج کے بھی آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ اسی کہاوت کی ایک دوسری شکل ہے کہ’’ آپ جانیں اور آپ کا کام۔‘‘

( ۸ ) آپ سے آتی ہے تو آنے دو : یہ کہاوت ایسے موقع پر استعمال کی جاتی ہے جب کوئی شخص کسی نا جائز چیز کو اپنے لئے جائز قرار دینے کا حیلہ تلاش کر رہا ہو۔ اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ ایک مولوی صاحب کے گھر میں پڑوسی کا مرغ آ گیا۔ ان کی بیوی نے مرغ پکڑ لیا اور ذبح کر کے پکا بھی لیا۔ جب مولوی صاحب شام کو کھانے پر بیٹھے تو مرغ دیکھ کر پوچھا کہ ’’یہ کہاں سے آیا؟ ‘‘ بیوی کے بتانے پر انھوں نے فرمایا کہ ’’یہ تو حرام ہے، بھلا میں کسی اور کا مال اس طرح نا جائز طور پر کیسے کھا سکتا ہوں ؟ ‘‘ بیوی نے جواب دیا کہ’’ سو تو ٹھیک ہے لیکن سالن تو ہمارے ہی پیسوں کا بنا ہوا ہے۔اس میں کیا قباحت ہے؟ ‘‘ مولوی صاحب کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور انھوں نے بیوی سے کہا کہ وہ اُن کو صرف سالن نکال دے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا لیکن احتیاط کے باوجود ایک بوٹی پیالے سے لڑھک کر مولوی صاحب کی پلیٹ میں آ گری۔ بیوی نے اس کو نکالنا چاہا تو مولوی صاحب نے کہا کہ’’ نہیں نہیں ! جو بوٹی آپ سے آتی ہے اُس کو آنے دو۔ ‘‘ بیوی نے کہا کہ’’ وہ مرغ بھی تو آپ سے ہی ہمارے گھر آ گیا تھا۔‘‘ مولوی صاحب کی نیت تو پہلے ہی ڈانوا ڈول تھی۔ فوراً بیوی کی بات پر راضی ہو گئے اور دونوں مفت کا مرغ ہضم کر گئے۔

(۹) آپ کھائے، بَلّی کو بتائے : کوئی شخص غلط کام تو خود کرے لیکن اپنے آپ کو معصوم ظاہر کرنے کے لئے نام دوسروں کا لے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔

(۱۰) آپ میاں صوبیدار، گھر بیوی جھونکے بھاڑ : یعنی آپ خود تو شان سے بڑے آدمی بنے پھرتے ہیں لیکن بیوی گھر میں خستہ حال ہے۔ جب کوئی شخص شیخی تو بہت بگھارتا ہو لیکن اندر سے کھوکھلا ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ب کی کہاوتیں
(۱) با اَدب با نصیب، بے اَدب بے نصیب : کہاوت کے معنی اور موقع استعمال ظاہر ہیں۔ اَدب انسانی تعلقات کی بنیاد ہے اور اس کے بغیر کوئی تعلق معتبر نہیں ہے۔

(۲) باپ سے بیر، پُوت سے سگائی : پُوت یعنی بیٹا، سگائی یعنی شادی۔ اگر کوئی شخص کسی سے تعلق منقطع کر لے لیکن اس کے قریبی عزیزوں سے بدستور یگانگت رکھے تو یہ کہاوت بولتے ہیں ۔ اس کہاوت میں طنز اور غصہ دونوں کا پہلو نکلتا ہے۔

( ۳) باپ مارے کا بیر ہے : باپ مارے کا یعنی باپ کو قتل کرنے کا۔ گویا ایسی دشمنی ہے جیسے ایک شخص نے دوسرے کے باپ کو قتل کر دیا ہو۔

( ۴) بات رہ جاتی ہے اور وقت گزر جاتا ہے : وقت تو بہر حال گزر ہی جاتا ہے لیکن انسان کی کی ہوئی نیکی یا بدی اس کے بعد لوگوں کو یاد رہ جاتی ہے۔ کہاوت میں نیک کام کرنے کی تاکید مخفی ہے۔

(۵) بات کا بتنگڑ بنا دیا : بتنگڑ یعنی بہت بڑی بات۔یعنی ذرا سی بات کو بڑھا چڑھا کر ایک ہنگامہ بر پا کر دیا۔ اسی مطلب کے لئے دو کہاوتیں اور بولتے ہیں ’’ سوئی کا بھالا بنا دیا‘‘ اور ’’ رائی کا پربت بنا دیا‘‘۔

(۶) بات بدلی، ساکھ بدلی : آدمی کی زبان پر اس کی ساکھ قائم ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی بات پر قائم نہ رہے تو اس کی ساکھ نہیں رہتی۔

( ۷) بات پوچھیں بات کی جڑ پوچھیں : کسی معاملہ کی کھوج میں بال کی کھال نکالی جائے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔

( ۸) بات لاکھ کی، کرنی خاک کی : یعنی بات تو بہت بڑھا چڑھا کر کی لیکن کر کے کچھ بھی نہ دکھا یا۔ اسی مضمون کا شعر دیکھئے:

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا

(۹) بارہ برس دلّی میں رہے اور بھاڑ جھونکا : اگر کوئی شخص عرصہ تک اَچھے اِمکانات سے دوچار رَہے لیکن اُن سے کچھ حاصل نہ کرے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ دلّی کا ذکر وہاں میسر معاشی امکانات اور اس کی تہذیبی مرکزیت کی مناسبت سے کیا گیا ہے۔

( ۱۰ ) بارہ برس بعد گھورے کے بھی دن پھر جاتے ہیں : گھورا یعنی کُوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ۔ وقت کے ساتھ اس مقام پر بھی کوئی کام کی چیز بن جاتی ہے۔ کہاوت کا مطلب یہی ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ کب کسی بدقسمت آدمی کی قسمت بدل جائے گی۔کہاوت میں یہ نصیحت بھی مخفی ہے کہ کسی کو تحقیر سے نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ کل اس کی حیثیت بدل سکتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
پ سے کہاوتیں

(۱) پاگل کے سر کیا سینگ ہوتے ہیں ؟ : پاگل اپنی حرکات سے الگ پہچانا جاتا ہے۔ یہ فقرہ طنزاً بولا جاتا ہے۔

( ۲) پانچ دو سات ہو گئے : یعنی آپس میں مل بیٹھے۔ یہ’’ نو دو گیارہ ہو گئے‘‘ کہاوت کا الٹا ہے۔ نو دو گیارہ ہونے کے معنی بھاگ کھڑا ہونا ہیں جب کہ پانچ دو سات ہونے کے معنی گٹھ جوڑ کر لینے کے ہیں۔

(۳) پانی پیجئے چھان کر اور پیر کیجئے جان کر : یعنی پانی پینے سے پہلے دیکھ لینا چاہئے کہ صاف ہے یا نہیں اور کسی کو اپنا پیر و مرشد بنانے سے قبل جانچ پڑتا ل کر لینی چاہئے کہ کس رتبہ کا آدمی ہے۔ایسا نہ کرنے میں نقصان کا خطرہ ہے۔ یہ کہاوت تنبیہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔

( ۴) پانی سے پہلے پل باندھ رہے ہیں : اس سے پہلے کہ مسئلہ سر پر آ جائے اس کے علاج کی صورت کر رہے ہیں ۔ یہ دانشمندی کی نشانی ہے۔پانی سر پر آ جائے تو اس وقت پل باندھنا کیا معنی رکھتا ہے؟

( ۵) پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی ہیں : جس طرح ایک ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہیں اسی طرح کوئی دو شخص بھی بالکل یکساں نہیں ہیں۔

(۶ ) پانڈے جی پچھتاؤ گے، وہی چنے کی کھاؤ گے : جب کوئی شخص ضد میں کسی کام سے انکار کر دے لیکن بعد میں مجبور ہو کر اس پر بصد اکراہ راضی ہو جائے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے کہ ایک پنڈت جی کو چنے کی روٹی اور دال سخت ناپسند تھے۔ ایک دن جب بیوی نے ان کے سامنے چنے کی دال اور روٹی رکھی تو پنڈت جی نے کھانے سے انکار کر دیا۔بیوی نے سمجھایا کہ ’’گھر میں اس وقت اور کچھ پکا نے کو نہیں ہے۔‘‘ لیکن وہ نہ مانے اور غصہ میں بھنائے ہوئے گھر سے نکل گئے۔ شام تک بھوک نے اتنا برا حال کر دیا کہ ہار کر گھر واپس آئے اور خاموشی سے کھانے کی چٹائی پر بیٹھ گئے۔ بیوی مطلب سمجھ گئی اور اس نے دال روٹی ان کے سامنے رکھ دی۔ پانڈے جی نے بحالت مجبوری اسی سے پیٹ کی آگ بجھائی۔

(۷) پانی پی کر ذات کیا پوچھنا : کسی کے گھر پانی پینے کے بعد اس کی ذات پوچھنا حماقت ہے۔ یعنی جب کسی کا حسن سلوک قبول کر لیا تو اس کی نسبت مین میخ نکالنا مناسب نہیں ہے۔

(۸) پانی سر سے اُونچا ہو گیا : یعنی معاملہ اب اپنے قابو اور اختیارسے باہر ہو گیا ہے۔

( ۹ ) پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں : یعنی ہر طرح سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔

(۱۰ ) پاؤں مین جوتی نہ سر پر ٹوپی : یعنی بالکل مفلس، قلّاش اور پھٹے حالوں ہیں۔

(۱۱ ) پاؤں رکھتے کہیں ہیں ، پڑتا کہیں ہے : یعنی شدید کمزور ی کا عالم ہے کہ قدم رکھنا کہیں چاہتے ہیں اور پڑتا کہیں اور ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ت سے کہاوتیں

۱ ) تا تریاق از عراق آوردہ شود، مار گزیدہ مردہ شود : پہلے زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ سانپ کا زہر ایک دَوا تریاق سے زائل کیا جا سکتا ہے۔ کہاوت کا ترجمہ ہے کہ جب تک عراق سے تریاق لایا جائے گا،سانپ کا کاٹا ہوا آدمی مر چکا ہو گا۔ لفظ عراق، تریاق کا ہم قافیہ ہونے کی وجہ سے لایا گیا ہے اور دُور دَراز کے مقام کی علامت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کا خیال ہو کہ عراق کا تریاق سب سے اچھا اور زود اثر ہوتا ہے۔ کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کسی مسئلہ کے حل کے لئے دُور از کار باتیں اور کارروائی کرو گے وہ مسئلہ ہاتھوں سے نکل چکا ہو گا۔ کسی کام میں فضول دیر لگائی جائے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔

( ۲ ) تدبیر کند بندہ، تقدیر زَند خندہ : انسان تدبیر کیا کرتا ہے اور تقدیر اُس پر ہنستی رہتی ہے۔ گویا کام کا دارو مدار محض انسان کی تدبیر اور کوشش پر نہیں ہے بلکہ قسمت بھی کوئی قوت ہے جو تدبیر کو ناکام بنا کر اپنے فیصلے الگ ہی دیا کرتی ہے۔

(۳ ) تری آواز مکے اور مدینے : مبارکباد، شکریے اور دعا کے طور پر بولتے ہیں۔یہ ایک شعر کادوسرا مصرع ہے ؎

مؤذن مرحبا بروقت بولا تری آواز مکے اور مدینے

( ۴) تگنی کا ناچ نچا دیا : بری طرح پریشان کیا، عاجز کر دیا۔

(۵) تل اوٹ، پہاڑ اوٹ : یعنی نگاہوں سے اوجھل ہو جانے والی چیز چاہے تل ایسی چھوٹی چیز کے نیچے ہی دب جائے بہت جلد ذہن و دماغ سے ایسے اُتر جاتی ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے پیچھے غائب ہو گئی ہو۔’’ آنکھ اوٹ، پہاڑ اوٹ‘‘ بھی اسی معنی میں کہتے ہیں۔

( ۶) تل دھرنے کی جگہ نہیں : یعنی جم غفیر ہے، آدمی پر آدمی چڑھا ہوا ہے۔

( ۷) تلوار کا زخم بھر جاتا ہے، بات کا نہیں بھرتا : بات کا زخم بھرنے کو ایک عمر چاہئے اور بعض اوقات یہ بھی ناکافی ہوتی ہے۔

(۸) تمھارے نیوتے کبھی نہیں کھائے : نیوتا یعنی دعوت۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس فقط باتیں ہی باتیں ہیں ۔جب وقت پڑتا ہے تو آپ کی تہی دامنی کھل جاتی ہے۔

( ۹) تم روٹھے، ہم چھوٹے : یعنی اگر تم نے ہم سے آنکھیں پھیر لیں تو پھر ہمارا تمھارا ساتھ بھی ختم ہو جائے گا۔

(۱۰) تم اپنے حال میں مست، ہم اپنی کھال میں مست : یہ صبر و شکر کا اظہار بھی ہے اور ایسے شخص کی بات کا جواب بھی جو اپنی دولت کے نشہ میں دوسروں کو کم تر سمجھتا ہو۔
 

سیما علی

لائبریرین
ٹ سے کہاوتیں
(۱ ) ٹاٹ کا لنگوٹ، نواب سے یاری : یہ کہاوت اس شخص کے لئے کہتے ہیں جو قلاش ہو لیکن اپنی شیخی میں بڑے لوگوں سے دوستی کا دعویدار ہو۔

(۲) ٹائیں ٹائیں فِش : عوامی بول چال میں ایسے شور و غل کو کہتے ہیں جس کا نتیجہ کچھ نہ نکلے۔

(۳) ٹَٹ پونجیا ہے : ٹَٹ یعنی ٹاٹ یا بوری۔ پونجیا یعنی پونجی والا۔ کہاوت ایک شخص کے بارے میں کہہ رہی ہے کہ اس کی ساری پونجی ٹاٹ کے ایک ٹکڑے پر موقوف ہے گویا وہ از حد مفلس اور قلاش ہے۔

( ۴ ) ٹٹو کو کوڑا اور تازی کو اشارہ : ٹٹو یعنی چھوٹی نسل کا کمزور گھوڑا۔ تازی یعنی اعلیٰ نسل کا گھوڑا۔ ٹٹو کو ہانکنے کے لئے اس کو کوڑا لگانا ہوتا ہے جب کہ تازی گھوڑا مالک کے اشارہ پر چلتا ہے۔ گویا عقل مند کو اشارہ کافی ہوتا ہے جب کہ کم عقل مار سے بھی مشکل سے سمجھتا ہے۔

(۵) ٹکسال باہر ہے : ٹکسال میں جو سکّے ڈھلتے ہیں یا نوٹ چھاپے جاتے ہیں وہ مستند اور سچے ہوتے ہیں اور ملک میں رواج پاتے ہیں۔ ٹکسال باہر کے معنی خلاف رواج یا غیر مستند ہیں۔

(۶) ٹکے گز کی چال : یعنی نہایت سست رفتار۔ اس کو میانہ رَوی اور کفایت شعاری کے معنی میں بھی بولتے ہیں۔ٹکا یعنی ایک روپیہ۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ اتنا سست رفتار کہ ایک روپیہ میں صرف ایک گز ہی چلتا ہے۔

( ۷ ) ٹک ٹک دیدم، دَم نہ کشیدم : یہ کہاوت ہندوستانی اور فارسی الفاظ کو ملا کر بنائی گئی ہے۔ مطلب ہے حیرت سے دیکھتے رہ جانا اور دَم نہ مارنا۔

(۸ ) ٹھوکر کھاوے بُدھی پاوے : بُدھی یعنی عقل یا سمجھ۔ ٹھوکر کھا کر ہی سمجھ آتی ہے۔تجربہ بہت بڑا معلم ہے۔

(۹) ٹیڑھے توے کی روٹی : توا اگر ٹیڑھا ہو گا تو روٹی گول اور سڈول نہیں بنے گی۔ بگڑی ہوئی چیز یا کام کے لئے یہ کہاوت بولتے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
ث سے کہاوتیں

۱ ) ثابت نہیں کان،بالیوں کا ارمان : یعنی کان تو کٹے پھٹے ہیں لیکن بالیاں پہننے کا شوق اپنی جگہ ہے۔ مطلب یہ کہ صلاحیت کچھ بھی نہیں لیکن خواب بڑے بڑے ہیں۔

( ۲ ) ثواب نہ عذاب،کمر ٹوٹی مفت میں : یعنی محنت تو بہت کی لیکن سوائے تکلیف کے کچھ حاصل نہ ہوا۔محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ج سے کہاوتیں

۱) جاٹ مرا تب جانئے جب تیرھویں ہو جائے : تیرھویں یعنی کسی کے مرنے کے تیرھویں دِن ہونے والی رسم۔جاٹ بہت سخت جان اور جفا کش مشہور ہیں اس لئے ان کا نام لیا گیا ہے۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ جب تک کسی معاملہ کی اچھی طر ح تصدیق نہ ہو جائے اس پر یقین نہیں کر نا چاہئے اور تحقیق جاری رکھنی چاہئے۔ اس کہاوت کے پس منظر میں ایک حکایت بیان کی جاتی ہے۔ ایک جاٹ نے ایک بنئے سے قرض لیا۔وقت کے ساتھ سود کی وجہ سے قرض کی رقم بڑھتی گئی اور جاٹ کسی طرح اسے ادا نہ کر سکا۔ جب بنئے کے تقاضے بہت بڑھ گئے تو اس نے عاجز آ کر اپنی فرضی موت کی خبر بنئے تک پہنچا دی۔ بنیا کف افسوس ملتا رہ گیا۔حادثہ کی تصدیق کے لئے وہ جاٹ کے گاؤں گیا اور اس کے گھر والوں سے تعزیت بھی کر آیا۔سب نے اپنے عزیز کی موت پر بہت رنج کا اظہار کیا۔ اتفاق سے کچھ دنوں کے بعد بنئے کو ایک قریبی گاؤں میں کسی کام سے جانا پڑا۔وہاں اس نے بازار میں اُس جاٹ کو گھومتے پھرتے دیکھا تو بھوچکا رہ گیا۔لوگوں سے گھبرا کر پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’’ شاہ جی ! جاٹ مرا تب جانئے جب تیرھویں ہو جائے۔‘‘

(۲) جان بچی اور لاکھوں پائے : مشکل وقت میں جان بچ جائے تو یوں سمجھئے کہ لاکھوں روپے مل گئے۔ اسی کو ایک اور شکل میں بھی کہا جاتا ہے کہ’’ جان بچی اور لاکھوں پائے، خیر سے بدّھو گھر کو آئے‘‘۔

(۳) جان ہے تو جہان ہے : اگر زندگی ہے تو سب کچھ ہے ورنہ سب بیکار ہے۔کہاوت کا مطلب اور محل استعمال ظاہر ہے۔

( ۴) جان نہ پہچان، بی بی جی سلام : بغیر کسی جان پہچان کے کوئی کسی سے قرابت جتانے لگے اور کسی صلہ کا اُمیدوار ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔

(۵) جا کو راکھے سائیاں مار سکے نہ کوئے : سائیاں یعنی مالک یا خدا۔ جس کے سر پر اللہ کا سایہ ہو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اِس کی ایک اور شکل بھی عام ہے یعنی’’ جسے اَللہ رکھے، اُسے کون چکھے؟‘‘

( ۶ ) جاٹ کی بیٹی برہمن کے گھر آئی : ہندوؤں میں جاٹ ذات نیچی اور برہمن اونچی مانی جاتی ہے۔ شادیاں اپنی ذات میں ہی ہوتی ہیں۔ چنانچہ کسی جاٹ کی بیٹی کا برہمن کی بہو بن جانا بہت بڑا سانحہ ہے۔کہاوت کا مطلب یہی ہے کہ نہایت کم حیثیت آدمی کو خوش قسمتی سے بڑے اور با عزت لوگوں کی صحبت نصیب ہوئی۔

( ۷ ) جان جائے پر آن نہ جائے : شریف لوگوں کو اپنی عزت جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔جان بھلے ہی چلی جائے لیکن عزت ہر حال میں محفوظ رہنی چاہئے۔

(۸) جب چنے تھے تب دانت نہ تھے، اب دانت ہیں تو چنے نہیں : زندگی میں ہمیشہ دن ایک سے نہیں رہتے۔ اس بات کو ایک مثال واضح کر رہی ہے کہ بچپن میں دانت نہیں تھے تو چنے میسر تھے اور اب جوانی میں منھ میں دانت ہیں تو چنے پاس نہیں ہیں۔

(۹) جتنا گُڑ ڈالو اتنا ہی میٹھا : گُڑ یعنی کچی شکر۔ کوئی چیز بھی ہو اُس میں جس قدر گڑ ڈا لا جائے اُسی قدر وہ میٹھی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ہر کام میں جتنی زیادہ محنت کی جائے اس میں فائدہ اسی مناسبت سے ہو گا۔ محل استعمال ظاہر ہے۔

( ۱۰ ) جتنی دیگ اُتنی کھُرچن : چاول کی دیگ زیادہ پک جائے تو جو چاول جل کر اس کی تلی سے لگ جاتے ہیں ان کو کھرچن کہتے ہیں۔ کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ کام جس قدر بڑا ہو گا اسی مناسبت سے اس میں خرابی ہو سکتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
چ سے کہاوتیں
۱ ) چاندی کی رِیت نہیں،سونے کی توفیق نہیں : رِیت یعنی دستور۔ یعنی وہ وقت آ گیا ہے کہ دینے دلانے کے لئے چاندی کا دستورنہیں رہا کیونکہ وہ سستی ہوتی ہے اور سونا اتنا مہنگا ہے کہ خریدنے کی ہمت نہیں۔ یہ کہاوت اس وقت کہی جا تی ہے جب کسی کو چھوٹا موٹا تحفہ دینا مناسب نہیں معلوم ہوتا اور مہنگا تحفہ خریدنا اپنی مقدرت میں نہیں ہوتا۔

( ۲ ) چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات : پورا چاند بہت کم وقت کے لئے نکلتا ہے جب کہ اس کے بعد آنے والی اندھیری رات لمبی ہوتی ہے۔ زندگی کی خوشیاں بھی ایسی ہی کم مدت کے لئے ہوتی ہیں اور انسانی مشکلات کی مدت طویل ہوتی ہے۔ کہاوت میں عبرت کے ساتھ یہ تنبیہ بھی ہے کہ زندگی کی چار دن کی چاندنی سے جس قدر لطف اندوز ہوا جا سکے اچھا ہے کیونکہ اس کے بعد معلوم نہیں اندھیری رات میں کیا پیش آئے۔ کسی کی شہرت یا دولت کی بے ثباتی کو ظاہر کرنا ہو تو بھی یہ کہاوت بولتے ہیں۔

( ۳ ) چادر دیکھ کر پیر پھیلاؤ : دیکھئے’’ جتنی چادر ہو اُتنے پانو ٔ پھیلانا چاہئے۔ ‘‘

( ۴ ) چار اَبرو صاف : دنیا کے علائق کو ترک کرنے کی علامت کے طور پر بعض فقیرسر کے بال، ابرو، مونچھیں اور داڑھی منڈا لیتے ہیں۔ اسی کوچار ابرو صاف کرنا کہتے ہیں گویا دنیا چھوڑ دی ہے۔

(۵) چاند پر تھوکنا : اگر چاند کی جانب منھ کر کے تھوکا جائے تو تھوک خود اپنے اوپر ہی آ گرتا ہے۔ گویا یہاں یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اپنے سے بڑے شخص کی برائی سے بچنا چاہئے کیونکہ اس کے خراب نتائج برائی کرنے والے شخص کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں۔

(۶) چار چاند لگ گئے : یعنی رونق اور شان بڑھ گئی۔

(۷) چاندی کی جوتی : رِشوت کو چاندی کی جوتی کہا جاتا ہے کیونکہ کسی کو رشوت دینا در اصل اس کو جوتے سے مار نے اور بے عزت کرنے کے مترادف ہے۔ چونکہ چاندی کے روپے رشوت میں دئے جا رہے ہیں اس لئے یہ جوتی چاندی کی ہے۔

(۸) چاک اُتر اپھر نہیں چڑھتا : چاک یعنی لوہے کا وہ چکر جو بیل گاڑی کے پہیے پر چڑھایا جاتا ہے۔ چاک ایک مرتبہ اتر جائے تو پھر نہیں چڑھایا جا سکتا۔ اسی مناسبت سے اگر کوئی کام ایسا بگڑے کہ اصلاح کے قابل نہ رہے تو یہ کہاوت بولتے ہیں۔

( ۹) چام پیارا نہیں کام پیارا ہے : چام یعنی چمڑی یا جسم کی کھال۔ لوگوں کو کام عزیز ہوتا ہے نہ کہ کام کرنے والا۔

(۱۰) چپ کی داد خدا کے ہاں : اگر کسی پر ظلم ہو اور وہ صبر سے اُسے برداشت کر لے تو کہتے ہیں کہ اس کی خاموشی کا صلا اللہ کے یہاں ملے گا۔ کمزور اور غریب آدمی کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اللہ پر بھروسہ کر کے چپ ہو رہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ح سے۔ کہاوتیں
۱) حاتم طائی کی قبر پر لات ماردی : پہلے زمانے میں حاتم طائی نامی ایک شخص اپنی سخاوت اور فیاضی کے لئے مشہور تھا۔ اس کا نام وسیع القلبی کے لئے اب استعارہ بن گیا ہے۔ اگر کوئی کسی پر ذرا سا احسان کرے اور ایسے جتائے جیسے اتنا بڑا کام کبھی کسی نے کیا ہی نہیں ہے تو اس کے بیجا تکبر کو حاتم طائی کی قبر پر لات مارنا کہتے ہیں ۔

(۲ ) حاکم کی اَگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی سے بچنا چاہئے : حاکم کے سامنے بے ضرورت آنا خطرہ سے خالی نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی بات پر بھی خفا ہو سکتا ہے۔اسی طرح گھوڑ ے کے پیچھے کھڑا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ کسی وقت بھی دولتّی مار سکتا ہے۔

( ۳ ) حاکم کے تین اور شحنے کے نو : شحنہ یعنی شہر کوتوال۔ حاکم وقت تک رشوت اس کے کارندوں کے توسط سے ہی پہنچتی ہے جو اپنا حصہ پہلے نکال لیتے ہیں یہ حصہ حاکم سے زیادہ ہی ہوتا ہے کیونکہ اور کسی کو علم ہی نہیں ہوتا کہ کتنی رشوت ملی اور کتنی حاکم کو دی گئی۔

(۴ ) حال کا نہ قال کا، روٹی اور دال کا : ایسے ناکارہ اور خود غرض آدمی کے لئے کہا جاتا ہے جو کسی مصرف کا نہ ہو اور جس کو صرف اپنے مطلب کی ہی فکر ہو۔

( ۵) حرام کا مال گلے میں اٹکے : غلط طریقے سے حاصل کیا ہوا مال آسانی سے ہضم نہیں ہوتا۔حرام خور کا ضمیر ملامت ضرور کرتا ہے۔

( ۶ ) حسابِ دوستاں دَر دِل : دوستوں کا حساب کتاب دل میں ہوتا ہے۔زبان پر آ کر یہ حجت اور تلخی کا باعث ہو سکتا ہے۔

( ۷ ) حصہ تیرا تہائی، اتنا برتن کیوں لائی : یہاں ایک فرضی عورت سے خطاب ہے کہ مال غنیمت میں تیرا حصہ تو صرف ایک تہائی تھا، پھر تو اتنا بڑا برتن کیوں لائی ہے؟ جب کوئی اپنے حق سے زیادہ کا طلبگار ہو تب یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔

(۸) حقہ پانی بند کرنا : پرانے زمانے میں دستور تھا کہ مہمان کی خاطر تواضع حقہ اور ٹھنڈے پانی سے کی جاتی تھی۔ برادری یا محلہ میں اگر کوئی شخص کسی جرم کا مرتکب ہوتا تو بزرگوں کی پنچایت بیٹھتی اور سزا کے طور پر اس کا حقہ پانی بند کر دیتی۔ اس طرح اس کا سوشل بائیکاٹ ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد سب لوگ اس شخص اور اُس کے گھر والوں سے ہر قسم کا رابطہ منقطع کر دیتے تھے۔ جب تک وہ پنچایت کی شرائط پر راضی نہیں ہو جاتے تھے ان کا حقہ پانی بند رہتا تھا۔ گویا اس کہاوت کا مطلب کسی کا مکمل سماجی مقاطعہ یعنی سوشل بائیکاٹ کر دینا ہے۔

( ۹ ) حکم حاکم، مرگ مفاجات : مُفاجات یعنی وہ چیز جو اچانک آ کر پکڑ لے۔ مطلب یہ ہے کہ حاکم وقت کا حکم ایسا ہی ہوتا ہے جیسے اچانک آ جانے والی موت، گویا اس کی تعمیل سے فرار ممکن نہیں ہے۔

( ۱۰ ) حلق سے نکلی خلق میں پہنچی : یعنی جو بات منھ سے نکل جائے وہ آناً فاناً چاروں طرف پھیل جاتی ہے۔یہی بات ایک اور کہاوت منھ سے نکلی،ہوئی پرائی بات میں بھی کہی گئی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
خ سے کہاوتیں


( ۱) خاک نہ دھول، بکائن کے پھول : بکائن ایک خود رو پودا ہے جس کے پھول کسی کام کے نہیں ہوتے۔ اسی مناسبت سے یہ کہاوت ہے کہ جو بات ہو رہی ہے وہ خاک اور دھول کے برابر بھی نہیں ہے جیسے کہ بکائن کے پھول ہوا کرتے ہیں۔

( ۲) خالہ جی کا گھر نہیں ہے : خالہ کے گھر کو ہر شخص اپنا ہی گھر تصور کرتا ہے۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ کام اتنا آسان نہیں ہے جتنا سمجھ رہے ہو۔

( ۳) خالی دماغ شیطان کی کار گاہ ہوتا ہے : آدمی اگر بیکار بیٹھا ہو تو اس کا دماغ فضول اور بے کار خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ اسی لئے دماغ کو کسی کام میں لگائے رکھنا بہتر ہے۔

( ۴ ) خالی ہاتھ منھ کو نہیں جاتا : جس طرح خالی ہاتھ سے بھوک نہیں مٹتی اسی طرح بغیر اپنے فائدہ کے کوئی کسی کا کام نہیں کرتا۔

( ۵ ) خدا کو دیکھا نہیں ،عقل سے تو پہچانا ہے : ا للہ کو کسی نے نہیں دیکھا البتہ اس کی قدرت اور ربوبیت ہر طرف نظر آتی ہے اور یہ ثبوت عقل مند آدمی کے لئے کافی ہے۔

( ۶ ) خدا دیتا ہے تو چھپّر پھاڑ کر دیتا ہے : یعنی اللہ کی بخشش کا کوئی حساب نہیں ہے۔وہ جس کو چاہتا ہے، جتنا چاہتا ہے دیتا ہے۔

( ۷) خدا گنجے کو ناخن نہ دے : اگر گنجے آدمی کے ناخن بڑھے ہوئے ہوں گے تو وہ سر کھجا کھجا کر زخم کر لے گا۔اس لئے ناخن کا نہ ہونا اس کے حق میں بہتر ہے۔ اسی مناسبت سے اگر ظالم اور بد قمار آدمی کے ہاتھ میں طاقت آ جائے تو وہ کمزوروں پر ظلم کرے گا۔ ایسے شخص کے پاس طاقت کا نہ آنا دوسروں کے لئے نعمت سے کم نہیں۔

( ۸) خدا کی چوری نہیں تو بندے کی کیا چوری : جو کام اللہ سے نہیں چھپایا جائے اس کو بندوں سے چھپانے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ کی چوری سے مراد اُس کے قوانین اور ہدایات کے خلاف کام کرنا ہے۔

( ۹ ) خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی : ظلم و ستم کی سزا جلد یا بدیر ملتی ضرور ہے اور جب ملتی ہے تو پہلے سے اس کی اطلاع نہیں ہوتی۔ اسی کو لاٹھی کی آواز کہا گیا ہے کہ سزا ملتی ہے تو مجرم کو پتا بھی نہیں چلتا کہ کب اور کیسے ملی۔

( ۱۰ ) خدا کی باتیں خدا ہی جانے : خدا کی باتیں یعنی غیب کی باتیں یا خدا کے فیصلے۔ ان پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
 
Top