صوفی محمد کی دھمکی یا پالیسی

آخر کار مولانا صوفی محمد نے وہ کچھ کہہ ہی ڈالا جس کی توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان میں کفر کا نظام رائج ہے۔ لیکن انہوں نے یہ بات پہلی مرتبہ نہیں کی، بلکہ پچھلے ہفتے جب نظام عدل ریگولیشن کو پارلینمٹ میں پیش کیا جا رہا تھا تو انہوں ایک 'فتوی' جاری کیا تھا کہ مخالفت کرنے والوں کو کافر اور پاکستان کو دارالحرب قرار دیا جائے گا۔

لیکن اس بیان میں اور حالیہ بات میں ایک فرق ضرور ہے۔ پہلے بیان کو دھمکی سمجھا گیا تھا جبکہ حالیہ بات بظاہر پالیسی معلوم ہو رہی ہے۔ مولانا صوفی محمد کی یہ سوچ کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں کیونکہ وہ تو سنہ انیس نوے سے ہی اس ملک کے نظام اور اداروں کو کفری قراردیتے آ رہے ہیں لیکن آج انکی بات کو اس لیے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیئے کیونکہ اس وقت سات قبائلی ایجنسیوں اور پشاور اور چند اضلاع کو چھوڑ کر پورے صوبے پر طالبان نے بندوق کے زور سے اپنی عملداری قائم کردی ہے۔

سوات کے طالبان نے تو پاکستانی فوج کے ساتھ ڈیڑھ سال تک جاری رہنے والی مسلح آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے فوج، سیکولر حکمران جماعتوں، پیپلز پارٹی اور عوامی نینشل پارٹی کے گھٹنے ٹیک دیئے اور اس شکست کی توثیق نظام عدل ریگولیشن کی منظوری کی شکل میں پارلیمنٹ سے بھی کرا لی۔اس شکست کی خوبصورت تشریح ممتاز کالم نویس اور رکنِ قومی اسمبلی ایاز امیر نے نظام عدل ریگولیشن کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے دوران بحث میں حصہ لیتے وقت کی کہ' اسکا مطلب ہے کہ طالبان کی بندوقیں ہماری مسلح افواج کی بندوقوں سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئی ہیں۔'

اب تو پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ(ن) کے سربراہ اور پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف بھی ماننے لگے ہیں کہ ’یہ ایک حقیقت ہے کہ سوات کامعاہدہ دراصل عسکریت پسندوں کی طرف سے ہم پر مسلط کیا گیا ہے کیونکہ اس کے سوا حکومت کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔‘

وزیر اعلی پنجاب کی سنیئر صحافیوں، مدیروں اور کالم نگاروں سےگفتگو کی تفصیلات پڑھی جائیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ شہباز شریف کے الفاظ سےانسانی تصویر بنانے کی کوشش کی جائے تو مولانا صوفی محمد اورمولانا فضل اللہ کی تصویر ابھر کر سامنے آئے گی۔
شہباز شریف صاحب نے جس عدلیہ کی بحالی کی تحریک سے پرویز مشرف اور صدر آصف علی زرداری کو سیاسی شکست دیکر نہ صرف اپنی سیاسی انا کو تسکین اور سیاسی قوت حاصل کی بلکہ خود کواور میاں نواز شریف کو رکن اسمبلی بننے کا اہل بھی بنادیا، اب وہی عدلیہ انہیں غیر مؤثر دکھائی دے رہی ہے۔ لگتا ہے کہ شاید شہباز شریف مولانا فضل اللہ اور وہ صوفی محمد کے گن پوائنٹ پر نافذ کیے جانے والے نظام عدل کو درست سمجھ کر اسے پورے ملک تک وسیع کرنے کی موہوم خواہش بھی رکھتے ہیں۔

آج کل اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے طالبان کے حوالے سے کردار پر نظر دوڑائی جائے تو آپ کو متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ ایسی کوئی جماعت نہیں ملے گی جو طالبان کی کھل کر مخالفت کر رہی ہو۔ میڈیا پر طالبان حامی سوچ حاوی ہے اور مباحثوں میں ایسے لوگوں کو بلانے کی کوشش کی جاتی ہے جو امریکہ کی مخالفت میں اس حد تک جائیں کہ انہیں طالبان کے خودکش حملے، ناک کان کاٹنے، صوفیوں کے مزاروں، مساجد اور جرگوں کو نشانے بنانے، عورتوں کو کوڑے مارنے کے واقعات میں بھی ہزاروں میل دور ببٹھےامریکہ اور یہود و ہنود کی شکست نظر آجا ئے۔

اس ملک میں اے این پی ،پیپلز پارٹی اور سول سوسائٹی کی بعض تنظمیں ایسی تھیں جن سے یہ امید کی جاسکتی تھی کہ وہ مسلح مذہبی شدت پسندی کے سامنے ڈٹ جائیں گی لیکن اے این پی اور پیپلز پارٹی تو اب شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نظر آ رہی ہیں اور جب کبھی بھی طالبان کی انسانی حقوق کی پامالی کی کوئی خبر منظر عام پر آتی ہے تو دونوں جماعتوں کے وزراء اور قائدین آستینیں چڑھا کر پہلے تو اس عمل کو چھپانے کی سعی کرتے ہیں اور اگر ایسا مکمن نہیں ہو پاتا تو پھر دلائل سے اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوات میں لڑکی کو کوڑوں کی سزا اور بونیر میں طالبان کے کنٹرول کے بعد وقوع پزیر ہونے والے واقعات کو حتی المقدور چھانے کی کوششیں اس رویے کی بہترین مثالیں ہیں۔
اب تو مستقبل کے سیاسی منظر نامہ میں رنگ بھرنے کے لیے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کو بھی رہا کردیاگیا جنہوں نے جمعہ کے خطبے میں شہباز شریف اور مولانا صوفی محمد کی طرح یہ بات کہی کہ نظام عدل اب پورے ملک میں نافذ ہوگا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تمام مذہبی، سیکولر اور مذہبی رجحان رکھنے والی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ، مولانا صوفی محمد، مولانا فضل اللہ اور طالبان کی دیگر قیادت اگر فکری طور پر نہیں تو مقاصد کے لحاظ سے ایک ہی صف میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ انگریزی کاایک مقولہ ہے کہ ’بندوق خود نہیں لڑتی بلکہ اسکے پیچھے بیٹھا ہوا شخص لڑتا ہے
بشکریہ بی بی سی اردو
 

طالوت

محفلین
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ غیرشرعی ہیں

090419141902_sufi_mohd_217.jpg

بی بی سی اردو

کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد نے کہا کہ پاکستان میں کفر کا نظام رائج ہے اور ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ بت خانے ہیں جہاں کبھی فیصلہ قرآن وسنت کے مطابق نہیں ہوا ہے۔

اتوار کو ضلع سوات کے صدر مقام مینگورہ میں نظام عدل کے حوالے سے منعقدہ ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا صوفی محمد نے کہا کہ آئین پاکستان کے مطابق ملک کا سپریم قانون قران و سنت کو بتایا گیا ہے اور کوئی فیصلہ اس سے متصادم نہیں ہوسکتا لیکن افسوس کہ آج تک سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں کوئی بھی فیصلہ قران و سنت کے مطابق نہیں ہوا ہے۔

صوفی محمد کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ غیر شرعی ادارے ہیں اس لیے ایسے عدالتوں میں قاضی کورٹس کے فیصلے چیلنج نہیں کئے جاسکتے بلکہ اس کےلیے دارلقضاء قائم کیا جا رہا ہے جس میں اپیلیں دائر کی جا سکیں گی۔

صوفی محمد کا کہنا تھا کہ شرعی نظام ہی اصل میں امن کی ضمانت ہوتی ہے اور جب یہ نظام پورے مالاکنڈ ڈویژن میں عملی طورپر نافذ ہوجائے گا ، شرعی فیصلے ہونگے تو امن خود بخود قائم ہوجائےگا۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ چار دن کے اندر درالقضاء اور ایک ماہ کے دوران مالاکنڈ ڈویژن میں ڈویژن، ضلع اور تحصیل کی سطح پر قاضی تعینات کئے جائیں جبکہ ریگولر یا عمومی عدالتوں کے ججوں کو علاقے سے فوری طور پر چلے جانا چاہیے اور علاقے میں شرعی فیصلوں کا آغاز کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ شرعی عدالتی نظام کے مکمل نافذ کے باوجود بھی اگر سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں امن قائم نہیں ہوسکا تو پھر وہ سزا کا مستحق ہوگا۔

تحریک کے سربراہ نے کہا کہ حکومت نےمالاکنڈ میں شریعت کے نفاذ کا وعدہ تو پورا کردیا ہے اور وہ اس پر خوش بھی ہیں لیکن اب اس نظام کی کامیابی کےلیے کوششیں ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

مقامی صحافیوں کے مطابق اجتماع میں ٹی این ایس ایم کے کارکنوں اور مالاکنڈ ڈویژن کے عوام نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر مینگورہ میں تمام بازار اور تجارتی مراکز بند تھے۔

بشکریہ بی بی سی اردو
-------------------------------------------------------------------------------
کم عقلی کی انتہا ہے ۔۔ جن عدالتوں کی بحالی پر پاکستان کے سب ظالم و جابر جرنل کو رخصت ہونا پڑا ، لوگوں کی جانیں گئیں ، ذہنی و جسمانی اذیتیں سہی گئیں ، موصوف کی نظر میں غیر شرعی ہیں ۔۔ لعنت ہو !
وسلام
 

علی ذاکر

محفلین
یہ ہماری قوم ہے جہاں لگاؤ آنکھیں بند کر کے لگ جاتے ہیں بلا سوچے بلا سمجھے !

صمۃ بکمہُ !

مع السلام
 

علی ذاکر

محفلین
ان ہی کی حکومت رہے گی جناب !

جب تک ہماری قوم میں شعور نہیں آتا جب تک ھم کسی بات کی تھقیق کیئے بغیر نہیں مانیں گے تب تک !

مع السلام
 

قیصرانی

لائبریرین
علماء‌کرام نے دین اور دنیا کو الگ الگ بنا کر بھی الگ نہیں ہونے دیا۔ خیر صوفی محمد کی بات اس حوالے سے بجا ہے کہ ہمارے قوانین اسلامی نہیں برطانوی زیادہ ہیں۔ تاہم جو اسلام صوفی محمد کا ہے، اس سے تو بہتر ہوگا کہ یہی غیر اسلامی نظام ہی چلتا رہے
 

محسن حجازی

محفلین
بی بی سی پر موجود اس تجزئیے کی غیر جانبدای سے میں اتفاق نہیں کرتا۔
خاص طور پر:
اس ملک میں اے این پی ،پیپلز پارٹی اور سول سوسائٹی کی بعض تنظمیں ایسی تھیں جن سے یہ امید کی جاسکتی تھی کہ وہ مسلح مذہبی شدت پسندی کے سامنے ڈٹ جائیں گی لیکن اے این پی اور پیپلز پارٹی تو اب شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نظر آ رہی ہیں اور جب کبھی بھی طالبان کی انسانی حقوق کی پامالی کی کوئی خبر منظر عام پر آتی ہے تو دونوں جماعتوں کے وزراء اور قائدین آستینیں چڑھا کر پہلے تو اس عمل کو چھپانے کی سعی کرتے ہیں اور اگر ایسا مکمن نہیں ہو پاتا تو پھر دلائل سے اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوات میں لڑکی کو کوڑوں کی سزا اور بونیر میں طالبان کے کنٹرول کے بعد وقوع پزیر ہونے والے واقعات کو حتی المقدور چھانے کی کوششیں اس رویے کی بہترین مثالیں ہیں۔

حالانکہ موجودہ پی پی پی کی حکومت کے سرکردہ افراد امریکہ اور بھارت کے آگے جس قدر لیٹ گئے ہیں اس قدر تو مشرف دور میں بھی جھکاؤ نہیں تھا۔ رحمان ملک، حسین حقانی، بابر اعوان، لطیف کھوسہ، فاروق ایچ نائیک، آصف علی زرداری ان سب کی واضح مثالیں ہیں۔
میں نہیں سمجھتا کہ اس معاہدے کے پیچھے کوئی بڑی سازش کارفرما نہ ہو۔

بنیادی طور پر سوات کا معاہدہ، مولانا عبدالعزیز کا رہا کرنا, صوفی محمد کا اجتماع وغیرہ کسی بڑی سازش اور کسی بڑے پلان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ میرا وجدان مجھے بتاتا ہے کہ یہ بھوت آیا بھوت آیا قسم کی صورتحال ہے۔
عدالتی نظام کو مسترد کیا جانا اور اس کی جگہ ایک اور نظام پر اصرار میری رائے میں واضح طور پر ریاست کی مکمل ناکامی پر دلالت کرتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی و معاشرتی ہی نہیں بلکہ ہم زبردست ذہنی انحطاط کا شکار ہیں۔
 

خرم

محفلین
محسن بھیا گیم تو چل رہی ہے لیکن اس گیم کے باہر والے لفافے پر "شریعت" کا لیبل لگا کر جو زہر قوم کو پلایا جارہا ہے اس میں یہ "دینی" طبقہ بھی اتنا ہی قصوروار ہے جتنا زرداری، مشرف وغیرہا۔
 

خرم

محفلین
یہ اطلاع تو نہیں ہے نا طالوت بھیا۔ یہ تو حقیقت ہے جو اظہر من الشمس ہے۔ وگرنہ یہ مفتے مولوی، یہ زردار و شریف سیاستدان اور یہ ماٹھے کھوٹے جرنیل یہ سب ہم پر مسلط ہوتے بھلا۔
 

زینب

محفلین
صوفی محمد ان پڑھ جاہل بندہ ہے اسے تو ان الفاظ کا مطلب بھی پتا نہین ہو گا جو اس نے کہے۔۔آپ لوگ ایویں ای رولا دال رہے ہو
 
مگر جب یہی بات ہم لوگ کہتے ہیں تو جواب میں کتابچے پوسٹ کیئے جاتے ہیں کتابچے بھی وہ جن میں آدھا سچ ہوتا ہے باقی آدھا بیان ہی نہیں کیا جاتا
 
Top