صدائیں --- فاطمہ شیخ

نور وجدان

لائبریرین
صدائیں

جو چلتا جائے
کٹھن مسافت اور آزمائش سے کامرانی کے جال بُنتا چلا ہی جائے

میں ابنِ آدم
میں سُرخرو ہوں، میں ہوں سکندر
ہوا کا جب چاہوں، رُخ بدل دوں
میری خدائی
یہ میرے ہاتھوں کی ہے کمائی
لہو سے اپنے، میں دھرتی سینچوں
میں اپنی روٹی بھی خود کماؤں
میں اپنا لاشہ بھی خود اٹھاؤں

یہ" میں" کی مالا ہی جپتا جائے
یہ گہری دلدل میں دھنستا جائے

جو رکنا چاہے
وہ رک نہ پائے
وہ جال توڑے، فلک جھنجھوڑے
وہ جذبے پٹخے، حجاب نوچے
وہ اپنی ساری تہیں اُدھیڑے
اور اپنے ریشوں پہ لکھتا جائے
یہ "میں" نہیں ہوں
یہ "میں" نہیں ہوں
کہیں نہیں ہوں
کہیں بھی میرا نشان نہیں ہے
کوئی بھی میرا مکاں نہیں ہے
کوئی بھی میرا زماں نہیں ہے

کوئی روایت، کوئی حقیقت نہ کارگر ہے
کہ بے ثمر ہیں، سبھی ادائیں
کہ بے اثر ہیں، سبھی صدائیں

(فاطمہ)

فاطمہ شیخ
 
Top