صحرانوردی (محمد علی)

جاسمن

لائبریرین
صحرا نوردی
محمد علی
صحرانوردی کرنے گئی رات میرے ساتھ
کہنے لگی نجوم کا ہنگام دیکھ کر
آؤ ذرا یہ ریت کے بستر پر لیٹ کر
دیکھیں خلا کی وسعتیں بالکل سمیٹ کر
دیکھو وہ آسمان کے تالاب پہ کنول
اور ہر کنول یہ کہتا ہوں میں ہوں رخِ ازل۔۔
کیوں نہ فلک کی جھیل میں کنکر گرائیں ہم
آو نہ اس دیار میں موجیں بنائیں ہم۔۔
موجیں بنا بنا کے بہائیں بروج میں۔۔
شاید کچھ آئے aliens کی سوجھ بوجھ میں..
موجیں کچھ اس طرح کہ کوئی پیٹرن بنے۔
رسی بنے درخت بنیں ٹارزن بنے۔
شاید وہ منتظر ہوں کوئی رابطہ کرے۔۔
اور رابطہ کرے تو کوئی پارسا کرے۔۔
دیکھو ہمی تو ہیں جو بہت نیک پاک ہیں
دیکھو ہمارے سامنے افلاک چاک ہیں۔
میں جانتی ہوں موج کی نوری بساط میں۔
اک رات کم ہے رابطے کی کائنات میں۔
تم سن رہے ہو نا اے میرے ماہرِ فزکس۔
کچھ دیر چھوڑ دو میری زلفوں کے یہ helix..
دیکھو خلا کی اوڑھ مجھے بھی گیان دو۔۔
آج aliens دکھاؤ گے مجھ کو زبان دو..
میں نے کہا کہ اے میری سوچوں کے آسمان
آساں نہیں سمجھنے میں یہ خلقتِ جہان۔
ہاں ڈھونڈ ہم رہے ہیں کوئی کُرًہِ زمن۔۔
کُرًہ جو math جاننے والوں کا ہو وطن۔

تم لوگ!!!
تم لوگ ان کو math کے سگنل سناؤ گے
فنکشن ٹرگنومٹری یہ سب بتاو گے۔۔
اسطرح aliens تو کوئی تاب ہی نہ دیں۔۔
اللہ کرے وہ چُپ رہیں جواب ہی نہ دیں۔۔
خوفِ ریاضیات سے ڈر ہی نہ جائے وہ۔۔
کرنے سے پہلے رابطہ مر ہی نہ جائیں وہ۔۔
یہ رابطے کی ساری مشینیں کہاں پہ ہیں
یہ math کی کڑواہٹیں جن کی زباں پہ ہیں۔
دے دو مجھے مشینیں سبھی ایک رات کو
تم لوگ جانتے ہی نہیں کائنات کو۔۔
میں تو عدم کا شعر کہوں گی مشین سے۔۔
پھر aliens ملیں گے نہایت ذہین سے..

وہ بولتی رہی کہ یہ اس کا ہی کام تھا
میں تو بڑے سکون سے محو خرام تھا۔۔
دیکھا مجھے تو موج بہا کروہ سو گئی۔
بس ہاتھ آسماں کو لگا کر وہ سو گئی۔۔
تھا خواب جیسے رات سفر میں ہوں کٹ گئی
تھا خواب جیسے جھیل ہو بالکل سمٹ گئی۔۔
اک کاسنی سے مور نے مجھ کو اٹھا دیا
اس کی ہنسی کے شور نے مجھ کو اٹھا دیا
وہ مطمئن تھی اور میں حیرانیوں میں تھا
مثلِ گہر چمکتے ہوئے پانیوں میں تھا
نیلے سے آسماں کادریچہ نہ تھا کوئی
پیروں تلے زمین کا صحرا نہ تھا کوئی۔۔۔
 
Top