صحت جرم اور صحت جسم سے ملزم کا انکار

یوسف-2

محفلین
پہلے تو ہمیں یہ خبر ملی کہ سنگین غداری کیس میں ملزم پر فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ ملزم نے صحتِ جرم سے انکار کردیا۔پھر یہ خبر ملی کہ ملزم نے بیرونِ ملک جانے کی اجازت چاہی، عدالت نے اجازت نہ دی۔ اس پر ملزم نے اپنی صحتِ جسم سے بھی انکار کردیا۔ دو بارہ آئی سی یو میں گھس گیا۔ جبکہ شنید یہ تھی کہ کم از کم اسپتال سے تو آج رہائی مل جائے گی۔یوں آئی سی یو میں گھس بیٹھنے پر ہمارے ایک دوست کہنے لگے:
’’بڑا اڑیل ملزم ہے۔جرم کی صحت اور اپنی صحت دونوں سے انکاری ہے۔ جب کہ جرم بھی خاصا ’صحت مند‘ تھا اور خود بھی‘‘۔
ملزم کو اسپتال میں داخلہ لیے ہوئے لگ بھگ 90دن ہوگئے ہیں۔ہمارے کالم نگار دوست سلیم فاروقی کو مریض سے زیادہ معالجوں کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ بلکہ معالجوں سے بھی زیادہ علاج گاہ کی بابت متفکر ہیں۔کہتے ہیں کہ اسپتال کی بڑی بدنامی ہو رہی ہے کہ ایک بیمار اُن سے تین ماہ میں بھی ٹھیک نہ ہوسکا۔ مگرہمیں فاروقی صاحب کی تشویش سے اتفاق نہیں ہے۔ بدنامی اسپتال کی نہیں ہو رہی ہے۔بدنامی تو مریض کی ہو رہی ہے۔ کیوں کہ جس مریض کو فوجی اسپتال بھی ٹھیک نہ کر سکے تو ۔۔۔’نا اُمیدی اُس کی دیکھا چاہیے‘ ۔۔۔ طب کی اصطلاح میں ایسے مریض کو ’لا علاج مریض‘ کہتے ہیں۔
خود مریض کے نئے وکیل (بیرسٹر فروغ نسیم) نے بھی عدالت کے رُوبرو ایک درخواست پیش کرتے ہوئے اس امرکا اعتراف کیا ہے کہ اس مریض (کے دل) کا علاج صرف امریکا میں ہو سکتا ہے۔یہ بات ہمارے دل کو بھی لگی۔بقول شاعر:
آپ ہی نے دردِ دل بخشا ہمیں
آپ ہی اس کا مداوا کیجیے
ہم نے مانا کہ ’مسلح افواج کا ادارۂ امراضِ قلب‘ (AFIC) ’مایوس مریضوں کی آخری آرام گاہ‘ نہیں ہے۔مگر مایوس ملزم کو وہاں کمرے کا کرایہ، ڈاکٹروں کی فیس، لیبارٹری ٹسٹ کے اخراجات اور ادویات کی قیمت وغیرہ کچھ بھی ادا کرنے کا بوجھ نہیں اُٹھانا پڑتا۔اُسے وہاں علاج کا استحقاق حاصل ہے۔ پنشن یافتہ ہو جانے کے بعد بھی اس قسم کا استحقاق ’ملازم مریضوں‘ کو حاصل رہتا ہے۔ ہمیں تو علم نہیں، مگر کیا عجب کہ فوجی ملازمت کے قواعد و ضوابط کی رُو سے ملازم مریضوں کے مقابلے میں ’ملزم مریضوں‘ کو وہاں (روپوش) رہنے کا زیادہ (عرصے تک) مستحق سمجھا جاتاہو۔
یہ بات تو طے ہے کہ ادارے کی بدنامی بالکل نہیں ہورہی ہے۔ پھر بھی ایک اخبار کے نمائندے نے مریض سے چُھپ کر مذکورہ اسپتال کے معالجوں سے دریافت کیا کہ کیا واقعی اسپتال میں سی ٹی انجیو گرافی اور مستقل نگہداشت کی سہولت نہیں ہے کہ مریض کو علاج کے لیے امریکا جانا پڑے؟ اس پر ماہرین امراضِ قلب نے جواب دیا کہ دونوں سسٹم ہمارے پاس موجود ہیں اور روزانہ اوسطاً 50مریض ان سے استفادہ کرتے ہیں۔البتہ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ کسی مریض کے اتنے لمبے عرصہ تک اسپتال میں رہنے سے ڈیپریشن سمیت متعدد نفسیاتی مسائل جنم لیسکتے ہیں۔اگر آپ بہت زیادہ بیمار ہیں اور لمبا عرصہ اسپتال میں رہنا پڑے تو مجبوری ہے۔لیکن اگر اسپتال میں رہنے میں آپ کی اپنی مرضی شامل ہوتو نفسیاتی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔جو مریض اپنی مرضی سے لمبا پڑا رہے اُس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ICUکے بعض بیماروں کو پروفیسر عنایت علی خان نے \’I See You\’ کے بیمار قرار دیاہے۔بلکہ ان میں ڈاکٹروں کو بھی شمار کیا ہے۔ کہتے ہیں:
ڈاکٹر پہلے دیکھیں گے سسٹرز کو
آئی سی یو کے بیمار اپنی جگہ
کچھ مریض \’I will see you\’ کے (تکیۂ کلام والے) مریض بھی ہوتے ہیں۔ایسے مریضوں کا انجام یہی ہوتا ہے جو ہو رہاہے۔
لمبے عرصہ تک پڑے رہنے پر ایک کہانی یاد آگئی جو لڑکپن میں پڑھی تھی۔ایک بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کے لیے ایک شاندار شفا خانہ تعمیر کروایا۔ ہرقسم کی سہولتیں، انواع و اقسام کی نعمتیں اور ادویات کے ساتھ ساتھ مقویات کی لذتیں بھی وہاں فراہم کردی گئیں۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد ’مستقل مریض‘ ہوگئی۔ یہ مریض کبھی مانتے ہی نہ تھے کہ وہ ٹھیک ہو گئے ہیں۔ معالج بھی کہتے تھے کہ کسی مریض کو ایسی حالت میں بھلا کیسے شفاخانے سے رخصت کردیں جب وہ تکلیف کی شکایت کر رہا ہو۔ بادشاہ کے لیے یہ صورتِ حال خاصی تشویشناک ہوگئی تھی۔ مگر وہ بھی اطبا کی اجازت کے بغیر ان مفت خوروں کو ’آئی سی یو‘ سے نکال نہیں سکتا تھا۔ آخر اُس نے شاہی طبیبوں کو چھوڑ کر (جو اُس کے خیال میں شاہی مریضوں سے ملے ہوئے تھے) ایک غیر شاہی طبیب سے رابطہ کیا۔ طبیب نے کہا:
’’بادشاہ سلامت! یہ کون سا مشکل کام ہے؟ بس مجھے کچھ چیزوں کی ضرورت ہوگی‘‘۔
بادشاہ نے کہا:’’تم جو مانگو گے دیا جائے گا۔اور اگر شاہی شفا خانہ ان مفت خوروں سے خالی کرا لیا تو منہ مانگا انعام بھی دیا جائے گا‘‘۔
طبیب نے کہا:’’مجھے فقط نو من تیل، دو من لکڑیاں، ایک کڑھاؤ اور کچھ ہٹے کٹے مشٹنڈے کارکنان درکار ہوں گے‘‘۔
بادشاہ نے مطلوبہ اشیا فراہم کردیں۔ اسپتال میں اعلان ہوا کہ ایک طبیب ایسا دریافت ہوا ہے جو پُرانے سے پُرانے اور پیچیدہ سے پیچیدہ امراض کا چٹکی بجاتے علاج کر دیتا ہے۔لہٰذا جتنے پرانے مریض ہیں وہ نئے طبیب کے حضور پیش ہوں۔
نئے طبیب صاحب نے شفا خانے کے احاطے میں ایک دور دراز گوشہ ڈھونڈ کروہاں اپنا خیمہ لگایا۔وہیں لکڑیاں جلوائیں، اُن پر کڑھاؤ چڑھایا۔ کڑھاؤ میں تیل ڈلوایا اور اُسے خوب کھولایا۔جب تیل اچھی طرح کھول گیااور اُس میں سے بلبلے اُٹھنے لگے توپہلے مریض کو بُلوایا۔مریض بے چارا چار پائی (اسٹریچر) پر لاد کر لایا گیا۔حکیم صاحب نے نبض دیکھی۔پوچھا:’’کیا تکلیف ہے؟‘‘
مریض کراہتے ہوئے بولا: ’’آئے ہائے ہائے ہائے ہائے حکیم جی! یہ تکلیف ہے، وہ تکلیف ہے، یہاں تکلیف ہے، وہاں تکلیف ہے‘‘۔
حکیم صاحب نے پوچھا: ’’کب سے تکلیف ہے؟‘‘
مریض بولا:’’اجی 90دن سے علاج کرا رہا ہوں۔ بیماری ہے ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لیتی‘‘۔
یہ سنا تو حکیم صاحب اپنے مشٹنڈوں سے مخاطب ہوئے:’’ کم بختو!یہ تین ماہ میں ٹھیک نہ ہوسکا۔ دیکھتے کیا ہو؟ یہ تو لاعلاج مریض ہے۔ اُٹھاؤ اسے اور کڑھاؤ میں پھینک دو‘‘۔
مریض نے جب یہ سنا تو اُس میں ہڑبڑا کریکایک ایسی پھرتی، چستی، مستعدی اور چاقی و چوبندی سب پیدا ہوگئی کہ وہ چھلانگ مار کر چارپائی (اسٹریچر) سے کودا اور حکیم جی سے کہنے لگا: ’’حکیم جی!میں ٹھیک ہوگیا ہوں۔ میں ٹھیک ہوگیا ہوں حکیم جی!‘‘
حکیم جی نے کہا: ’’ٹھیک ہے۔ تمھیں اسپتال سے رُخصت کیا جاتاہے۔ مگرباہر جانے سے پہلے سب سے یہ کہتے ہوئے جاؤ کہ میں ٹھیک ہوگیا ہوں‘‘۔دیکھتے ہی دیکھتے پوار شفاخانہ ’لا علاج مریضوں‘ سے خالی ہوگیا۔ (ابو نثر کا کالم، مطبوعہ روزنامہ نئی بات 2 اپریل 2014)
 

یوسف-2

محفلین
ہم نہ کہتے تھے کہ ہمارا کمانڈو ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ۔سب نے دیکھا کہ پرویز مشرف صاحب نے غداری کیس کی 36 ویں سماعت پر ’’کٹہرے‘‘ میں کھڑے ہو کر اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو ’’مردانہ وار‘‘ سُنا۔ اُن کی خصوصی عدالت میں عدم حاضری کسی خوف کی بنا پر نہیں تھی ۔درحقیقت ہمارے کمانڈو چاہتے ہی یہ تھے کہ جب اُن کا جی چاہے ، تبھی وہ عدالت میں جائیں تاکہ یہ اثر زائل ہو سکے کہ مُکّے لہرانے والے کمانڈو پر کوئی ’’زور ، زبردستی‘‘ بھی ہو سکتی ہے ۔پرویز مشرف صاحب نے صحتِ جرم سے انکار کے بعد خصوصی عدالت میں ’’تاریخی خطاب ‘‘فرمایا۔اُن کی آواز کی گھَن گَرج سے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ کبھی ’’بیمارئ دِل ‘‘ میں مبتلاء بھی ہوئے ہوں گے۔اُنہوں نے فرمایا ’’ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے ، ترقی و خوشحالی لانے اور عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے والا شخص کسی طور پر غدار نہیں کہلایا جا سکتا۔میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر اور اپنی بوڑھی ماں اور بچوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنے دَور میں ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی اور اپنے آٹھ سالہ دور میں ملک کے لیے جو کچھ کیا وہ پاکستان کی ساری تاریخ پر بھاری ہے ‘‘۔کچھ مشرف مخالف ’’بَد باطن‘‘ یہ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف صاحب نے واقعی ’’ایک پیسے‘‘ کی کرپشن نہیں کی کیونکہ ایک پیسے کے سِکّے کا توپاکستان میں وجود ہی نہیں اور اگر ہوتا بھی تو اسے کوئی فقیر تک قبول نہ کرتا ۔اُنہوں نے تو کروڑوں ، اربوں اکٹھے کیے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ اُنہوں نے پاکستان میں اپنے جو اثاثے ظاہر کیے اُن کی مالیت بھی کروڑوں نہیں ، اربوں میں ہے ۔بیرونی ممالک میں خریدی گئی جائیداد اِس کے علاوہ ہے۔بھلا ایک گورنمنٹ ملازم ، خواہ وہ چیف آف آرمی سٹاف ہی کیوں نہ ہو ، اتنی جائیداد کا مالک کیسے ہو سکتا ہے ؟۔لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ واقعی کمانڈو نے ملک کے لیے جو کچھ کیا ، وہ ساری پاکستانی تاریخ پر بھاری ہے کیونکہ پاکستان کیا ، دُنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی سَر براہِ مملکت نے اپنی قوم کی بیٹیوں تک کو غیروں کے ہاتھ بیچ ڈالا ہو یااپنی دھرتی کو
غیروں کے استعمال کے لیے یوں کھول دیا ہو کہ جیسے اِس کا کوئی ’’والی وارث‘‘ ہی نہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب باتیں ہی باتیں ہیں ۔ہمارے کمانڈو نے واقعی ایسی تاریخ رقم کی ہے کہ حمزہ شہباز صاحب کو سارے کام ادھورے چھوڑ کر ، اپنی اولین فرصت میں پرویز مشرف صاحب کا نام گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں لکھوانا چاہیے ۔اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہونگے کہ میاں خاندان کے ’’وارثِ اعلیٰ‘‘ نے محض حسد کی بنا پر ایسا نہیں کیا اور ابھی تک وہ اپنے خاندان کی جَلا وطنی کا دُکھ نہیں بھولے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ’’محبوب لیڈڑ‘‘ اب بیرونِ ملک جانے کو تیار بیٹھے ہیں لیکن ایسا وہ اپنی مرضی سے کر رہے ہیں ، کسی خوف کی بنا پر نہیں ۔دراصل تین ماہ تک AFIC کی ’’قیدِ تنہائی‘‘ کاٹنے کے بعد ہمارے ’’ہر دِلعزیز رہنما‘‘ کچھ ’’اوازار‘‘ سے ہو گئے ہیں اِس لیے وہ اب اپنی ’’مخصوص دِل چسپیوں‘‘ کی دنیا میں پھر سے لوٹنا چاہتے ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ ’’ جمہور‘‘ منہ دیکھتے رہ گئے اور ریمنڈ ڈیوس پھُر سے اُڑ گیا ۔اب پھر جمہور تلملاتے رہ جائیں گے اور کمانڈو پرواز کر جائے گا ۔شاید جمہوریت اسی کا نام ہے کہ ’’جمہور ‘‘ کی سُنی جائے ، نہ مانی ۔شنید ہے کہ ایک خلیجی ملک کا طیارہ نور خاں ایئر بیس پر پہنچ چکا اور سب تیاریاں مکمل ، بَس گرین سگنل کا انتظار ۔تقویت اِس خبر کو یوں بھی پہنچتی ہے کہ سُننے میں یہ بھی آیا ہے کہ مشرف صاحب کو AFIC سے ڈسچارج کرکے گھر بھیجا جا رہا ہے تاکہ ’’شَر پسند میڈیا‘‘ یہ نہ کہہ سکے کہ فوج نے با لآخر اپنے چیف کو باہر بھیج کر ہی دَم لیا۔اِن ’’ بھولے پنچھیوں‘‘ کو کون سمجھائے کہ ہمہ مقتدر ادارہ آج بھی صرف فوج ہی ہے ۔یہ بجا کہ جنرل کیانی صاحب کے چھ سالہ دَور میں فوج کے بارے میں ایسا تاثر کافی حد تک کم ہوا اور کہنے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’فوج ستّو پی کر سوئی ہوئی ہے ‘‘ لیکن پرویز مشرف کیس نے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا کہ ’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ، جو سُنا افسانہ تھا‘‘ ۔آخر قوم نے اِس کیس سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟۔کیا عدل کی حکمرانی جو فی الحال تو نا ممکن ہے۔جب سے ٹرائل شروع ہوا ہے ، قوم کے خون پسینے سے حاصل کیے گئے کروڑوں روپے مشرف صاحب کی سکیورٹی پر صرف ہو چکے ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ قوم کو ’’سو جوتے بھی مارے جائیں گے اور سو پیاز بھی کھلائے جائیں گے‘‘۔ شاید اسی کو بھانپتے ہوہے لال مسجد والے مولانا عبد العزیز نے بھی کہہ دیا ہے کہ مشرف کو معافی دے کر انگلینڈ بھیج دیا جائے اور اُس کی سکیورٹی پر صرف ہونے والے کروڑوں روپے ’’ تھَر‘‘ کے مظلومین کو بھیج دیئے جائیں ۔ہمیں مولانا صاحب کی اِس تجویز سے مکمل اتفاق ہے اور وجہ یہ ہے کہ ہم ’’بنفسِ نفیس‘‘پرویز مشرف صاحب کی سکیورٹی پر کیے جانے والے انتظامات کو بھگت چکے ہیں ۔ہوا یوں کہ ایک عزیز کی رحلت پر 31 مارچ کو راولپنڈی جانا پڑا ۔راولپنڈی پہنچ کر ہم نے سڑکیں گھومنا شروع کیں لیکن ہر جگہ پرویز مشرف صاحب کی سکیورٹی کے لیے لگا ’’روٹ‘‘ ہمارا مُنہ چڑاتا رہا ۔در اصل ہمارا ’’روٹ‘‘ بھی وہی تھا جو ہمارے کمانڈو کا تھا ۔اِس لیے نہ پائے ماندن ، نہ جائے رفتن کے مصداق ہم ایک جگہ گاڑی روک کر کھڑے ہو گئے ۔میاں کی متواتربڑبڑاہٹ ہمارے کانوں میں رَس گھولتی رہی ۔ہم خوش تھے کہ ہمارے کمانڈو نے اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی پورے پنڈی کو جام کرکے عوام کو ’’وخت‘‘ میں ڈال دیا ہے۔لَگ بھَگ ایک گھنٹہ انتظار کے بعد ہمارے کمانڈو کا قافلہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا ۔ہم نے اُچک اُچک کر قافلے کی گاڑیاں گننے کی کوشش کی لیکن بے سود کیونکہ قافلہ ہی اتنا بڑا تھا کہ گنتی مشکل تھی ۔جو لوگ ہمارے کمانڈو کی مقبولیت کے منکر ہیں اُنہیں ، جس شان سے ہمارے کمانڈو باہر نکلتے ہیں ، اُس کا نظارہ کروا دینا چاہیے ۔ہمیں یقین ہے کہ ایسی شان دیکھ کر وہ خود ہی شرمندہ ہو جائیں گے ۔میرے میاں ’’نمازِ جنازہ‘‘ میں شرکت سے تو محروم رہ گئے ، لیکن ہم خوش تھے کہ ہم نے اپنے کمانڈو کی ’’عظمتوں ‘‘ کا نظارہ کرکے اپنی آنکھیں ’’ٹھنڈی‘‘کر لیں۔
بات ہو رہی تھی پرویز مژرف صاحب کے بیرونِ ملک جانے کی ۔خصوصی عدالت نے تو صاف کہہ دیا کہ اُس نے توپرویز مشرف صاحب کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم نہیں دیا۔یہ فیصلہ وزارتِ داخلہ کا ہے اِس لیے اُسی سے رجوع کیا جائے ۔گویا جو بال حکومت نے خصوصی عدالت کی کورٹ میں پھینکی تھی ، خصوصی عدالت نے وہی بال ’’گُگلی‘‘ مار کرحکومتی کورٹ میں واپس پھینک دی ۔ اِس کے باوجود بھی وزیرِ اعظم میاں نواز شریف صاحب فرماتے ہیں کہ سابق صدر کا معاملہ عدالت میں ہے ۔ صدرِ مملکت ممنون حسین صاحب کا فرمان ہے کہ وہ وزیرِ اعظم صاحب کی سفارش پر عمل کریں گے ۔شنید ہے کہ میاں صاحب نے نواز لیگ کے سینئر رہنماؤں کو ظہرانے پر بُلا لیا ہے ۔اندازہ یہی ہے کہ ظہرانے پر پرویز مشرف صاحب کی بیرونِ ملک روانگی کے بارے میں صلاح مشورہ کیا جائے گا ۔اپنے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف’’ سیالکوٹی‘‘ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پرویز مشرف صاحب کو راتوں رات جانے دیں۔ہو سکتا ہے کہ خواجہ صاحب کا پروگرام پرویز مشرف صاحب کو فُل پروٹوکول اور گارڈ آف آنرکے ساتھ باہر بھیجنے کا ہو۔آخر وہ ہمارے سابق چیف آف آرمی سٹاف ، سابق صدر اور سابق چیف ایگزیکٹو (تھری اِن وَن)ہیں۔اُنہیں بھلا ’’ایویں ای‘‘ کیسے جانے دیا جا سکتا ہے۔البتہ اِس سارے افسانے میں وہ بالکل خاموش ہیں جنہیں وزیرِ داخلہ کہا جاتا ہے حالانکہ اُنہیں تو بولنے کا ’’شوق ای‘‘ بہت ہے ۔ (پروفیسر رفعت مظہر کا کالم، نئی بات)
 

یوسف-2

محفلین
شاعرِ بے بدل مصطفےٰ زیدیؔ [مقتول] نے کبھی کہا تھا:
حدیث ہے کہ اصولاً گناہ گار نہ ہوں
گناہ گار پہ پتھر اُچھالنے والے
خود اپنی آنکھ کے شہتیر پر نظر رکھیں
کسی کی آنکھ سے کانٹے نکالنے والے
اُردو زبان و ادب میں ایک مشہور محاورہ یہ بھی ہے کہ:
’’چھاج بولے سو بولے چھلنی بھی بولے جس میں چھتیس سو چھید‘‘۔۔۔!
جو سیاستدان ماضی میں پرویز مشرفؔ کے N.R.O سے فیضیاب ہوئے وہ بھی اپنے محسن پر ’’سنگین غداری‘‘ کے مقدمے کے حصّے دار بنے:
لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یے بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لُٹاتا نہ گھر کو مَیں‘
یہ راز تو اب کوئی راز نہیں رہا کہ محترمہ بے نظیرؔ بھٹو شہید کی جنرل پرویزؔ مشرف کے ساتھ ’’انڈرسٹینڈنگ‘‘ ہو چکی تھی کہ اگر وہ ایک بار پھر وزیراعظم بنیں تو صدرِ مملکت پرویز مشرف ہوں گے۔ افسوس کہ محترمہ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو گئیں اور اس منصوبے کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔!
بعد کے حالات و واقعات کی ستم ظریفی مُلاحظہ ہو کہ مُوردِ الزام بھی وہی ٹھہرے جو بہت سُوں کے نجات دہندہ تھے۔ چلئے مان لیا کہ یُونہی ہوتا آیا ہے۔ حضرت علیؓ کا قولِ سدید ہے:
’’جس پر احسان کرو اُس کے شر سے بچو‘‘
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے۔ نجات دہندہ مُحسن عظیم کی مخالفت میں اس قدر خُبثِ باطن کہ اُسے غدّار قرار دِلوانے والوں کا ہمنوا ہو جاتا، یہ جانتا اگر تو لُٹاتا نہ گھرکو میں۔!
مَیں جو ازل سے روشن خیال، روشن فکر، بالغ نظر، پسماندہ طبقے کی آواز پاکستان پیپلز پارٹی کا حامی رہا ہوں، اُس کے موجودہ کرتا دھرتا، سرپرستِ اعلیٰ سے اس لئے شِکوہ کُناں ہوں کہ پرویز مشرف کے معاملے میں غیروں سے ان کی ہمنوائی نے گویا اک تِیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے۔ بقولِ احمد فرازؔ :
دشمنوں کا تو کوئی تیر نہ پہنچا مجھ تک
دیکھنا اب کے مرا دوست کماں کھینچتا ہے
کالم کے آغاز سے اب تک کے فقرے میں بڑی دل گرفتگی کے ساتھ لکھ پایا ہوں کہ بقول خلشؔ کلکتوی:
شکوہ اپنوں سے ہُوا کرتا ہے غیروں سے نہیں‘
آپ کہہ دیں تو کبھی، آپ سے شکوہ نہ کریں
یہ شِکوہ تاخیر سے اس لئے کر رہا ہوں کہ جب سے پرویز مشرف کو ’’سنگین غداری‘‘ کے مقدمے میں اُلجھایا گیا ہے، مَیں مسلسل علیل رہا بروقت تحریری رَدِّعمل نہ دے سکا اگرچہ ابوالاثر حفیظ جالندھری کا یہ شعر ہمہ وقت وِردِ زباں رہا:
دیکھا جو کھا کے تِیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
اِس امر میں کسی دریدہ دہن، بدباطن، کور چشم، بدبخت دشمن کو بھی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ افواجِ پاکستان ہماری جان ہیں ہماری آن بان شان ہیں۔ تمام فوجی ہمارے اپنے ہیں۔ ہمارے بھائی بند ہیں جو پوری سِول سوسائٹی کے بہترین ’’آج‘‘ کی خاطر اپنے ’’کل‘‘ کو قربان کر دیتے ہیں۔
پاکستان کی اب تک کی چھیاسٹھ سالہ تاریخ میں افواجِ پاکستان کی لازوال قربانیاں پاکستانی فوج کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اُن کی عظمت و عزیمت کے نقوش اَنمِٹ ہیں، بے عدیل ہیں، وہ باکمال ہیں، بے مثال ہیں، پاک فوج کی حرمت پر اِس قدر سنگین الزام دھرنے کا خیال مُلک و قوم دشمن تنظیموں کے حامیوں ہی کو آ سکتا ہے۔ اصل میں ایسی بہیمانہ سوچ رکھنے والے سب کے سب ایک ہیں، یکجان ہیں، یکجان و دو قالب ہیں۔!
ایک شریف النفس، ایماندار شخص، پختہ عزم و ہمت کا پیکر جس کا ریکارڈ ہے کہ جو کہتا ہے، وہی کرتا ہے۔۔۔
اصغرؔ گونڈوی کا یہ شعر اُن کا پسندیدہ شعر ہے:
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا مَوجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دُشوار ہو جائے
اگر پرویزؔ مشرف نڈر، بہادر، بے خوف اور بڑے جگرے والے نہ ہوتے تو ’’گارڈ آف آنر‘‘ لے کر رخصت ہونے کے بعد ازخود پاکستان واپس کیوں آتے؟ اور کیوں یکے بعد دیگر اپنے آپ کو جھوٹے سچے مقدموں سے کلیئر کراتے اور ’’مسٹر کلین‘‘ بننا چاہتے۔ زیرِسماعت مقدمے میں بھی ابھی تو وہ ملزم ہی قرار دیئے گئے ہیں، الزام لگانے یا لگوانے والے ’عجلت پسند‘ ملزم کا جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی اسے مجرم بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟۔ یہ عدالت ہے کوئی ’’بزمِ جاناں‘‘ نہیں کہ قتیلؔ شفائی کے لفظوں میں کہنا پڑے:
قتیلؔ اُس بزمِ جاناں سے پڑا ہے واسطہ مجھ کو
سزا کا خوف رہتا ہے جہاں الزام سے پہلے
سابق صدر پاکستان کا قصور یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان کے پہلے صدر تھے جو شعروشاعری اور موسیقی کا ذوق بھی رکھتے تھے اور اُس رقص کا بھی جو حضرتِ جوشؔ ملیح کے الفاظ میں‘‘ اعضاء کی شاعری ‘‘ ہوتا ہے۔۔۔ اُنہوں نے کلاسیکی شعراء کے ساتھ ساتھ عہدِ موجود کے شعراء کے کلام کو بھی پڑھا اور سمجھا ہے ان کے دو انتہائی پسندیدہ شعر یہ بھی ہیں:
شکوۂ ظُلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
[احمد فرازؔ ]
اور شکیلؔ بدایونی کے اس لازوال شعر والی پوری غزل ہی:
مرا عزم اِتنا بُلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے
قیامِ پاکستان سے اب تک مُلک پر ’’بیوروکریسی‘‘ بالادست رہی ہے اس کو ’’بُرا کریسی‘‘ کہنے والے بھی ایک ایسے نڈر، بے خوف، باہمت، بہادر جرنیلؔ کو زبردستی بُزدل بنانے کی مہم کیوں چلا رہے ہیں؟ جس کے سامنے ’’بیوروکریسی‘‘ کے بڑے بڑے ستون ’’کر کے تھیّا تھیّا‘‘ ناچتے رہے [اخبارات میں مطبوعہ تصاویر گواہ ہیں]۔ جس مِیڈیا کو مکمل آزادی اس بے خوف شخص نے دی، وہ میڈیا بیک آواز کیوں ٹرّا رہا ہے۔ ’’غدّار ہے۔۔۔ غدّار ہے‘‘! سنگین غدّار ہے، گویا افضلؔ منہاس کے الفاظ میں:
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
جب بولنے لگے تو ہمی پر برس پڑے
غدّار، غدّار کی رٹ لگانے والوں کی یہ ادا بھی خوب ہے کہ ’’سنگین غدّاری‘‘ کیس کے ملزم ’’غیرآئینی صدر‘‘ کے دیئے ہوئے N.R.O کے ’لولی پاپ‘ کو عین آئینی چُوسنی سمجھ کر چُوستے رہو اور پیٹ اَپھر جائے تو حرص و ہوس کو اپنا قصور نہ مانو، ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے ’’میٹھا میٹھا ہَپ ہَپ، کڑوا کڑوا تھُو‘‘۔
اِس کالم کے آخر ی فقرے نوٹ کر لیجئے۔!
جماعت اسلامی کے منور حسنؔ نے ارشاد فرمایا تھا:
’’مشرف کو محفوظ راستہ دینا مُلک اور قوم کے ساتھ غدّاری ہو گی‘‘۔!
کُھلے شواہد کی روشنی میں یہ ’’غدّاری‘‘ ہونے ہی والی ہے، روک لو۔۔۔:
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
ایک وضاحت: میں عموماً ایک روزہ سیاسی کالم نہیں لکھتا۔۔۔ اَدب کے آمیزے کے ساتھ یہ نیم سیاسی کالم لکھنے پر دراصل مجاہدؔ بریلوی صاحب کے اِن جُملوں نے اُکسایا کہ ’’نئی بات‘‘ والے آزادیِ تحریر و تقریر کے بہت بڑے علمبردار ہیں اور لکھنے والے کی تحریر کو ’’آختہ‘‘ نہیں کرتے۔۔۔(یہ ’’آختہ‘‘ میرا لفظ ہے مجاہدؔ بریلوی صاحب کا نہیں)۔۔۔ ناصِرؔ زیدی (ناصر زیدی کا کالم، ایضاً)
 
Top