صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی قربانی اور جر؂؂أت

mujeeb mansoor

محفلین
نوجوان سعید بن عامر جمحی ان ہزاروں انسانوں میں سے ایک تھا جو سرداران قریش کی دعوت پر مکہ سے باہر مقام تنعیم پر صحابی رسول حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کے قتل کا تماشا دیکھنے کےلیے اکٹھے ہوئے تھے۔ جن کو کفار نے غداری سے گرفتار کیا تھا۔ وہ اپنی بھرپور جوانی اور پرجوش شباب کے بل پر مجمع کو دھکیلتا اورا س میں سےاپنے لیے راستہ بناتا ہوا ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ جیسے روساء قریش کے پہلو بہ پہلو جا کھڑا ہوا جو اس مجمع میں نمایاں مقام پر کھڑے تھے۔اس طرح اسے اس بات کا موقع ملا کہ وہ قریش کے قیدی کو دیکھ سکے جو وہاں پابہ زنجیرلایا گیا تھا جس کو قریش کی عورتیں، بچے اورجوان دھکیلتے ہوئے موت کے میدان کی طرف لا رہے تھے تاکہ اسے قتل کر کے محمد سے انتقام لے سکیں اور جنگ بدر میں مارے جانےو الے اپنے اعزہ و اقارب کا بدلہ چکا سکیں۔
جب یہ زبردست ہجوم اپنے قیدی کو لیے ہوئے اس جگہ پر پہنچ گیا جو اس کے قتل کے لیے بنائی گئی تھی تو نوجوان سعید بن عامر ایک جگہ رک کر ہجوم کے درمیاں سے حضرت خبیب کو دیکھنے لگا ۔ اس نے دیکھا کہ خبیب رضی اللہ عنہ کو تختہ دار کی طرف لے جایا جا رہا ہے ۔ اس نے عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار اور شور و غل کے درمیان سے ابھرتی ہوئی خبیب رضی اللہ عنہ کی وہ باوقار اور پرسکون آواز سنی جواس کے پردہ سماعت سے ٹکرائی تھی۔
"اگر تم لوگ چاہوتو قتل سےپہلے مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کا موقع دے دو"
پھر سعید نے دیکھا کہ خبیب بن عدی نے قبلہ رو ہوکر دو رکعتیں پڑھیں۔
آہ! کیسی حسین اور کتنی مکمل تھیں وہ دورکعتیں۔ پھر اس نے دیکھا کہ خبیب رضی اللہ عنہ نے زعماء قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
"واللہ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم میرے متعلق اس بدگمانی میں مبتلا ہوجاو گے کہ میں موت سے ڈر کر نماز کو طول دے رہا ہوں تو میں اور لمبی اور اطمینان کے ساتھ نماز پڑھتا"
پھر سعید نے بہ چشم سر اپنی قوم کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ زندہ ہی خبیب کا مثلہ کر رہے ہیں۔ ان کے اعضا ء جسم کو یکے بعد دیگرے کاٹ رہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہیں۔ "کیا تم یہ بات پسند کرو گے کہ اس وقت محمد تمہاری جگہ یہاں ہوتے اور تم اس تکلیف سے نجات پاجاتے"
تو خبیب نے جواب دیا(اور اس وقت ان کے جسم سے بے تحاشا خون بہ رہا تھا)واللہ مجھے تو اتنا بھی گوارا نہیں ہے کہ میں امن و اطمینان کے ساتھ اپنے اہل و عیال میں رہوں اور ان کے پاوں کے تلوے میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے"
اور یہ سنتے ہی لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو فضا میں بلند کرتے ہوئے چیخنا شروع کردیا۔ مارڈالو اسے، قتل کرڈالو اسے۔
پھر سعید بن عامر کی آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ خبیب رضی اللہ عنہ نے تختہ دار ہی سے اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا:
اَللّٰھُمّ احصَھم عَدداً وَاقتُلھُم بَددا وَلا تُغَادر مِنھُم اَحَدا
"خدایا! انہیں ایک ایک کر کے گن لے،انہیں منتشر کرکے ہلاک کر اور ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ"
پھر انہوں نے آخری سانس لی اور روح پاک اپنے رب کے حضور پہنچ گئی۔ اس وقت ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے ان گنت زخم تھے۔
اس کے بعد قریش مکہ لوٹ آئے اور بڑے بڑے واقعات و حوادثات کے ہجوم میں خبیب اور انکے قتل کا واقعہ ان کے ذہنوں سے اوجھل ہوگیا لیکن نوجوان سعید بن عامر جمحی رضی اللہ عنہ ، خبیب رضی اللہ عنہ کی مظلومیت اور ان کے دردناک قتل کے اس دل خراش منظر کو اپنے لوح ذہن سے اک لمحہ کے لیے محو نہ کرسکا۔ وہ سوتاتوخواب میں ان کو دیکھتا اور عالم بیداری میں اپنے خیالات مین ان کو موجود پاتا۔ یہ منظر ہر وقت اس کی نگاہوں کے سامنے رہتا کہ خبیب رضی اللہ عنہ تختہ دار کے سامنے بڑے سکون واطمینان کے ساتھ کھڑے دورکعتیں ادا کر رہے ہیں۔اوراس کے پردہ سماعت سے ہروقت ان کی وہ درد بھری آواز ٹکراتی رہتی جب وہ قریش کے لیے بد دعا کررہے تھے اور اس کو ہروقت اس بات کا ڈر لگا رہتا کہ کہیں آسمان سے کوئی بجلی یا کوئی چٹان گر کر اسے ہلاک نہ کردے۔
پھر خبیب رضی اللہ عنہ نے سعید کو وہ باتیں بتا دیں جو پہلے سے اس کے علم میں نہ تھیں۔ خبیب نے اسے بتایا کہ حقیقی زندگی یہی ہے کہ آدمی ہمیشہ سچے عقیدے کے ساتھ چمٹا رہے اور زندگی کی آخری سانس تک خدا کی راہ میں جدوجہد کرتا رہے۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے سعید کو یہ بھی بتادیا کہ ایمان راسخ کیسے کیسے حیرت انگیز کارنامے انجام دیتا ہے اور اس سے کتنے مخیر العقول افعال ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے سعید کو ایک اور بڑی اہم حقیقت سے آگاہ کیا کہ وہ شخص جس کے ساتھی اس سے اس طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں واقعی برحق رسول اور سچا نبی ہے اور اسے آسمانی مدد حاصل ہے۔
اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے سعید بن عامر کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیا ۔ وہ قریش کی ایک مجلس میں پہنچا اور وہاں کھڑے ہوکر اس نے قریش اور انکے کالے کرتوتوں سے اپنی لاتعلقی و نفرت اور ان کے معبودان باطل سے اپنی بیزاری و برات اور اپنے دخول اسلام کا برملا اور کھلم کھلا اعلان کردیا۔
اس کے بعد حضرت سعید بن عامر ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے اور مستقل طور پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرلی۔ اور غزوہ خیبر اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے جوار رحمت میں منتقل ہوگئے تو حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں خلفاء حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں میں شمشیر برہنہ بن گئے اور انہوں نے اپنی تمام جسمانی اور نفسانی خواہشات کو خدائے تعالیٰ کی مرضیات کے تابع کر کے اپنی زندگی کواس مومن صادق کی زندگی کا نادر اور بے مثال نمونہ بنا کر پیش کیاجس نے دنیوی عیش و عشرت کے عوض آخرت کی ابدی و لافانی کامیابی اورفائز المرامی کو سودا کرلیا ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دونوں جانشین ان کی نصیحتوں کو بہت غور توجہ سے سنتے اور ان کی باتوں پر پورا پورا دھیان دیتے تھے۔ ایک بار وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی ایام میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے ان سے کہا:
عمر: میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ رعایا کے بارے میں ہمیشہ خدائے تعالیٰ سے ڈرتے رہیے اور خدا کے معاملے میں لوگوں کا کوئی خوف نہ کیجئے اور آپ کے اندر قول و عمل کا تضاد نہ پایا جا ئے۔بہترین قول وہی ہے جس کی تصدیق عمل سے ہوتی ہو"
انہوں نے سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا:
عمر: دور و نزدیک کے ان تمام مسلمانوں پر ہمیشہ اپنی توجہ مرکوز رکھیے جن کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالی ہے اور ان کے لیے وہی باتیں پسند کیجئے جو آپ خود اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے پسند کرتے ہیں اور حق کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرے کی بھی پرواہ نہ کیجئے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہ لائیں"
سعید! یہ سب کس کے بس کی بات ہے؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی یہ باتیں سن کرکہا۔
یہ آپ جیسے شخص کے بس کی بات ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ دار بنایا ہے، جس کے اور خدا کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہیں ہے" حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے کہا۔
اس گفتگو کے بعد خلیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ سے حکومت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں تعاون کی خواہش ظاہر کی اور فرمایا: سعید میں تم کو حمص کا گورنر بنا رہا ہوں۔
"عمر رضی اللہ عنہ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے آزمائش میں نہ ڈالیے"حضرت سعید نے جواباً عرض کیا۔
ان کا یہ جواب سن کو حضرت عمر رض اللہ عنہ نے قدرے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "خدا تمہارا بھلا کرے تم لوگ حکومت کی بھاری ذمہ داریاں میرے سر ڈال کر خود اس سے کنارہ کش ہوجانا چاہتے ہو، خدا کی قسم میں تم کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا"
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حمص کی گورنری ان کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا:
"میں تمہارے لیے تنخواہ مقرر کردوں؟"
"امیر المومنین! مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ بیت المال سے جو وظیفہ مجھے ملتا ہے وہ میری ضروریات سے فاضل ہے" حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے کہا اور وہ حمص کے لیے روانہ ہوگئے۔
اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد اہل حمص کے کچھ قابل اعتماد لوگوں پر مشتمل ایک وفد حضرت عمر کی خدمت میں باریا ب ہوا۔ حضرت عمر نے ان سے فرمایا کہ مجھے اپنے یہاں کے فقرا اور حاجتمندوں کے نام لکھ کردے دو تاکہ میں ان کی ضروریات کی تکمیل کا کوئی بندوبست کردوں۔ تعمیل حکم میں انہوں نے خلیفہ کے سامنے جو فہرست پیش کی اس میں تھا فلاں ابن فلاں اور فلاں ابن فلاں اور سعید بن عامر
سعید بن عامر؟ کون سعید بن عامر؟حضرت عمر نے حیرت سے پوچھا۔ "ہمارے گورنر" ارکان وفد نے جواب دیا۔
تمہارا گورنر؟کیا تمہارا گورنر فقیر ہے؟ حضرت عمر نے مزید حیرت سے پوچھا"
جی ہاں امیر المومنین! خدا کی قسم کتنے ہی دن ایسے گزر جاتے ہیں کہ ان کے گھر میں آگ نہیں جلتی" وفد نے مزید وضاحت کی۔
یہ سن کر حضرت عمر رضٰی اللہ عنہ رو پڑے ۔ وہ دیر تک روتے رہے حتی کہ ان کی داڑھی آنسووں سے تر ہوگئی۔پھر وہ اٹھے اور ایک ہزار دینار ایک تھیلی میں رکھ کر اسے ارکان وفد کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا:
"سعید سے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ امیر المومنین نے یہ مال آپ کے لیے بھیجا ہے تاکہ آپ اس سے اپنی ضرورتیں پوری کریں"
وفد کے لوگ دیناروں کی وہ تھیلی لے کر حضرت سعید رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے اور اسے ان کے سامنے پیش کردیا۔ انہوں نے اس تھیلی اور اس میں رکھے ہوئے دیناروں کو اپنے سے دور ہٹاتے ہوئےکہا: اِنا للہ وَاِنا الیہ راجعون جیسے ان کے اوپر کوئی بڑی مصیبت نازل ہوگئی ہو۔آواز سن کر ان کی بیوی گھبرائی ہوئی ان کے پاس آئیں اور بولیں:
سعید کیا بات ہے ؟ کیا امیر المومنین رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا؟
نہین ، اس سے بھی بڑی افتاد آن پڑی ہے۔ حضرت سعید نے جواب دیا۔ اس سے بڑی افتاد کیا ہوسکتی ہے۔ بیوی نے پوچھا۔
"دنیا میرے گھر میں داخل ہوگئی ہے تاکہ میری آخرت کو تباہ کر دے"۔
حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے تشویشناک لہجے میں جواب دیا۔
" اس سے چھٹکارا حاصل کرلو۔ بیوی نے ہمدردانہ مشورہ دیا۔(ابھی تک وہ دیناروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی)
کیا تم اس معاملے میں میری مدد کرسکتی ہو؟حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے پوچھا۔
ہاں کیوں نہیں۔ بیوی نے جواب دیا۔
پھر حضرت سعید نے تمام دیناروں کو بہت سی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں رکھ کر انہیں غریب اور حاجتمندمسلمانوں میں تقسیم کروا دیا۔
اس بات کو ابھی کچھ زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ حضرت عمر بن خطاب شام کے دورے پر وہاں کے حالات معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے۔ اس دورے میں جب آپ حمص پہنچے، (اس زمانے میں حمص کو"کوَیفہ" بھی کہا جاتا تھا اس لیے وہاں کے باشندے بھی اہل کوفہ کی طرح اپنے عمال اور حکام کی بکثرت شکایتیں کرنے میں مشہور تھے۔) تو جب اہل حمص خلیفہ سے سلام و ملاقات کرنے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خلیفہ نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے اپنے اس نئے امیر کوکیسا پایا؟جواب میں انہوں نےامیر المومنین کے سامنے حضرت سعید بن عامر کی چار شکایتیں پیش کیں جن میں سے ہر ایک شکایت دوسری سے بڑی تھی۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ
" میں نے ان کو اور سعید کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ سعید رضی اللہ عنہ کے متعلق میرے حسن ظن کو صدمہ نہ پہنچائے، کیونکہ میں انکے متعلق بہت زیادہ خوش گمان تھا۔ جب شکایت کرنے والے اور ان کے امیر سعید بن عامر میرے پاس یکجا ہوگئے تو میں نے دریافت کیا کہ تم کو اپنے امیر سے کیا شکایت ہے؟
جب تک خوب دن نہیں چڑھ آتا یہ اپنے گھر سےباہر نہیں نکلتے، معترضین نے کہا۔ میں نے سعید سے دریافت کیا کہ سعید تم اس شکایت کے بارے میں کیا کہتے ہو؟سعید رضی اللہ عنہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر بولے خدا کی قسم میں اس بات کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس کو ظاہر کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ میرے گھر میں کوئی خادمہ نہیں ہے۔ اس لیے ذرا سویر ے اٹھتا ہوں تو پہلے آٹا گوندھتا ہوں، پھر تھوڑی دیر انتظار کرتا ہوں تاکہ اس کا خمیر اٹھ جائے، پھر روٹیاں پکاتا ہوں۔ اس کے بعد وضو کر کے لوگوں کی ضرورت کے لیے باہر نکلتا ہوں۔
میں نے اہل حمص سے پوچھا کہ تمہاری دوسری شکایت کیا ہے؟انہوں نےکہا کہ " یہ رات کے وقت کسی کا جواب نہیں دیتے"
میں نے پوچھا کہ " سعید اس شکایت کے متعلق تم کیا کہنا چاہتے ہو؟تو انہوں نے جواب دیا کہ " خدا کی قسم میں اس بات کو بھی ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا تھا، مین نے دن کے اوقات ان لوگوں کے لیے اور رات کے او قات اپنے رب کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں"
میں نے معترضین سے کہا" اب تم اپنی تیسری شکایت بیان کرو" انہوں نے کہا کہ یہ مہینے میں ایک بار دن بھر گھر سے باہر نہیں نکلتے"۔
میں نے دریافت کیا کہ سعید رضی اللہ عنہ تم اس شکایت کا کیا جواب دیتے ہو؟سعید رضی اللہ عنہ نے کہا" امیر المومنین میرے پاس کوئی خادم نہیں ہے اور جسم کے ان کپڑوں کے سوا میرے پاس اور کپڑا نہیں ہے، میں انکو مہینے میں صرف ایک بار دھوتا ہوں اور ان کے خشک ہونے کا انتظار کرتا ہوں اور سوکھنے کے بعد دن کے آخری حصے میں انہیں پہن کر باہر آتا ہوں"
میں نے کہا کہ اب تم اپنی چوتھی شکایت بیا ن کرو:" انہوں نے کہا کہ ان کو رہ رہ کر غشی کے شدید دورے پڑتے ہیں اور یہ اپنے گردو پیش سے بے خبر ہوجاتے ہیں"
میں نے کہا " سعید رضی اللہ عنہ تمہارے پاس اس شکایت کا کیا جواب ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں خبیب بن عدی کے قتل کے وقت موقع پر موجود تھا اور اس وقت میں مشرک تھا ۔ میں نے قریش کو دیکھا کہ وہ ان کے جسم کا ایک ایک عضوکاٹتے جاتے اور ساتھ ہی یہ کہتے جاتے کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ آج تمہاری جگہ پر محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوتے اور تم اس تکلیف سے نجات پاجاتے؟تو وہ جواب دیتے کہ خدا کی قسم مجھے تو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ میں آرام و سکون کے ساتھ اپنے اہل و عیال میں رہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تلووں میں ایک پھانس بھی لگ جائے۔ خدا کی قسم جب مجھ کو وہ منظر یاد آتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یا د آتا ہے کہ میں نے اس وقت ان کی مدد کیوں نہ کی تو مجھے اس بات کا شدید خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری اس کوتاہی کو ہرگز معاف نہیں کرے گا اوراسی وقت میرے اوپر غشی طاری ہوجاتی ہے۔یہ سن کر میں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے سعید رضی اللہ عنہ کے متعلق میرے حسن ظن کو صدمہ نہیں پہنچنے دیا۔
اسکے بعد حضرت عمر نے ان کے لیے ایک ہزار دینار بھیجے تاکہ ان سے وہ اپنی ضروریات پوری کریں۔ جب ان کی اہلیہ نے ان دیناروں کو دیکھا تو بولیں کہ خدا کا شکرہے کہ اس نے ہم کو آپ کی خدمات سے بے نیاز کردیا۔ آپ اس رقم سے ہمارے لیے ایک غلام اور ایک خادمہ خرید دیں۔ یہ سن کر حضرت سعید نے کہا :
کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں؟
اس سے بہتر؟ اس سے بہتر کیا چیز ہے؟اہلیہ نے پوچھا۔
یہ رقم ہم اس کے پاس جمع کردیں جو اسے ہم کواس وقت واپس کردے جب ہم اس کے زیادہ ضرورت مند ہوں۔ حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے بات سمجھائی۔
اس کی کیا صورت ہوگی؟اہلیہ نے وضاحت چاہی۔
حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ " ہم یہ رقم اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دے دیں"
اہلیہ نے کہا" ہاں یہ بہتر ہے ۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے"
پھر حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے ان تمام دیناروں کو بہت سی تھیلیوں میں رکھ کر اپنے گھر کے ایک آدمی سے کہا کہ " انہیں فلاں قبیلے، فلاں قبیلے کے یتیموں، فلاں قبیلے کے مسکینوں اور فلاں قبیلے کے حاجتمندوں میں تقسیم کردو"
اللہ تعالیٰ حضرت سعید بن عامر جمحی رضی اللہ عنہ سے راضی ہو۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خودمحتاج اور ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مجیب منصور صاحب آپ نے یہ تحریر شیئر کی، آپ کا بہت شکریہ۔
اس تحریر کا ماخذ کیا ہے، اس کا ربط ہی دے دیں۔
 
Top