صبح بخیر زندگی

سحرش سحر

محفلین
فروری کی ایک روشن چمکتی صبح کا آغاز ہو چکا ہے ۔ مطلع صاف ہے ۔ کسی دیوار'کسی درخت کی اوٹ سے سورج کی کرنیں جھانک جھانک کر پورے ماحول پر طاری ہونے کے لیے آہستہ آہستہ راستہ بنانے کی تدبیرمیں مگن ہیں ۔ لیموں' انار اور سامنے کھڑے امرود کے پیڑ کی اوٹ سے کچھ کرنیں برآمدے تک رسائی حاصل کر چکی ہیں ۔ ماحول میں موجود سردی کی شدت ان سے کترا کر ادھر ادھر سائے میں پناہ لے رہی ہے ۔ نسیم سحر آ آ کر چمن اور کیاریوں میں خزاں گزیدہ پھول پودوں اور پتوں کو ہلا ہلا کر صبح بخیر کہہ کر جگا رہی ہے ۔ جس پر ہر پتا و ڈالی بھی انگڑائی لیتی ہوئی آنکھیں کھول کو مسکرا کر خوشی سے جھولنے لگی ہے ۔
پرندے بھی خوشی کے مارے چہچہا کر صبح کی آمد کا سندیسہ دے رہے ہیں ۔ اپنے خالق و رازق کی حمد و ثناء کے بعد چند چڑیا، مینا، گرسل اور چند بھدے سے کوّے درختوں اور دیواروں سے صحن میں اترکر اپنی اپنی خاص بولی میں یہ کہتے ہوئے گھر کا ایک ایک کونہ کھوج رہے ہیں کہ آج اتوار کا دن ہے آج انسانوں کی چھٹی کا دن ہے آج انھوں نے اٹھنا ہی نہیں ۔
ایک مینا اچھل کی برآمدہ میں دھری ایک کرسی کے ہینڈل پر بیٹھ کر ارد گرد کا جائزہ لے کر بولی ....اچھا! تو آج کے دن یہ بس لیٹے ہی رہیں گے؟
کوا یہ سن کر طنز سے مسکرایا اور اپنے بھدی سی آوار میں کائیں کائیں کا بے سرا راگ الاپ کر گویا ہوا ...نہیں بی بی! ہماری ایسی قسمت کہاں؟ ابھی دوپہر تک جاگ جائیں گے ۔ بھوک جو لگی ہو گی ...ناشتہ بھی تو کرنا ہو گا ۔ ایک چڑیا دو گملوں کے بیچ سے نکل کر بولی .....مگر ہمارا تو کوئی ایسا دن نہیں ہوتا کہ دیر تک سستی و غفلت سے سوتے رہیں 'بیٹھے رہیں ...رات تو آرام کے لیے کافی ہوتی ہے نا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پتہ نہیں! یہ کیسا احساس ہو گا کہ ہر کام چھوڑ چھاڑ کر دن بھر سوتے رہیں 'سوتے رہیں ۔
قریب ہی بیٹھی مینا نے کہا: یہ لوگ راتوں کو بھی دیر تک جاگتے رہتے ہیں اور ہفتہ کے چھ دن تلاش رزق بلکہ تلاش رزقِ بسیار میں کوہلو کے بیل کی طرح جتے رہتے ہیں یہ بیچارے بہت تھک جاتے ہیں ۔ کل بلکہ پرسوں بلکہ برسووووں کی فکر جو انھیں لاحق رہتی ہے ۔ یہ جو انسان ہے نا! ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چیونٹیوں کی طرح ذخیرہ اندازی کا شوق بھی رکھتا ہے ۔
گرسل نے گملے میں کوئی چیز نکال کر نگلتے ہوئے کہا پھر تو ان لوگوں کی زندگی بہت ہی مشکل ہے ۔ شکر ہے ان سے تو ہم بہت بہتر ہیں ۔ یہ کہہ کر پاس ہی کیاری میں اپنی چونچ ڈال دی ۔ یہ سن کر ایک مینا اڑ کر اس کے قریب آ کر بیٹھی اور اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ایسے نہیں کہتے 'انسان اشرف المخلوقات ہے ۔ ہم سے ہزارہا درجہ بہتر ہے ۔ بس اتنا ہے کہ اس نے اپنے رازق سے ناتا توڑ لیا ہے ۔ دیگر مخلوقات کی نسبت بہت پریشان رہتا ہے ۔ اگر یہ بھی ہماری طرح سحر خیز ہوں اور آہ سحر گاہی اختیار کر لیں تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اتنے میں باہر کو کھلنے والا کچن کا دروازہ کھلا تو سارے ہی پرندے اپنی پر حکمت گفتگو چھوڑ کر ادھر ادھر اڑ گئے ۔
میں اپنے کمرہ کی کھڑکی میں سے ان کی گفتگو سن رہی تھی ۔ ان کی وہ باتیں دل کو لگیں ۔ وہ اسطرح کہ:
اس غم روزگار حیات کے مسلسل چلتے پہیے کو روک کر دم لینا ' اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے کچھ گھڑیاں نکالنا ' انسان کو مشین کی بجائے انسان ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔ چھٹی کا دن صرف سونے کے لیے نہیں ہو نا چاہیے بلکہ کسی بھولے ہوئے کو یاد کرنے کے لیے('جیسا کہ انسان خود کو غم روزگار میں بھول چکا ہوتا ہے ۔ ) کسی روٹھے ہوئے کو منانے کے لیے؛ کسی پیارے کے غم کو بانٹنے کے لیے 'کسی بیمار کی تیمار داری کے لیے 'گھر والوں کے ساتھ سیر پر جانے کے لیے یا شاپنگ پر نکلنے کے لیے ہونا چاہیے ۔
واقعی معمول سے ہٹ کرکوئی بھی مصروفیت انسان کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی ثابت ہوتی ہے ۔
اور دوسری بات یہ کہ واقعی انسان کی تمام پریشانیاں اپنے خالق ورازق سے ناتاتوڑنے کی بناء پر ہیں ۔ یقینااگر وہ اس سے اپنا ربط مضبوط کرے تو وہ ہر قسم کے ذہنی تناو اور ڈپریشن جیسی بیماریوں سےچھٹکارا پا لے گا ۔ آج کی پیچیدہ زندگی میں انسان اکثرکسی بھی معاملے میں ""اب کیا ہوگا؟ " جیسی فکر میں مبتلہ ہو کر یہ بھول جاتا ہے کہ جب ایک زبردست کار ساز موجود ہے تو کیوں نا! خود سوچ سوچ کر ڈپریشن کاشکار ہونے یا خودکشی کرنے کی بجائے اپنا سارا معاملہ اسی پر چھوڑ دیا جائے ۔وہ تو سب سے بڑاہے ۔ قدرتوں کا مالک ہے ۔زورآور ہے ۔ اسی سے ناتا و تعلق جوڑ کر رکھیں بلکہ اسے دوست بنا لیں اور اپنا زیادہ سے زیادہ بوجھ اس کے حوالے کرکے اپنا بوجھ کم سے کم رکھیں ۔ خود کو ہلکا رکھیں پھر وہ جانے اور اس کا کام ۔ بس اس زبردست سے جڑ جائیں ۔
اپنی الجھن سےسلجھن تک کے عرصہ میں ان کلمات ""لا حول و لا قوتہ الا با اللہ العلیِ العظیم "" کا اٹھتے بیٹھتے ورد کرنے سے اللہ تعالی انسان کو اطمینان قلب کی دولت سے مالامال فرما دیتا ہے۔
یہ توآپ سب قارئین کا مشاہدہ ہوگا کہ اللہ تعالی انسان پرمسلط کسی بھی مصیبت یا آزمائش کا دروازہ بہت جلد بند کر دیتا ہے اور راحت کا دروازہ کھول دیتا ہے یا پھر اس کی حکمت کے مطابق وقت کے ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ انسان اس غم و مصیبت کا خوگر ہو جاتا ہے ۔ تو پھر خود کشی کیوں کی جائے یا کسی کے ہاتھوں قتل ہونے یا موت کی تمنا ہی کیوں کی جائے ۔
ہر انسان خواہ وہ شاہ ہو یا گدا ' نے اس دنیااور اس کی سب راحتوں اور پریشانیوں کو چھوڑ چھاڑ کر جلد ہی موت کی وادیوں میں چلے جانا ہے تو جلدی کس بات کی ۔
وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے
جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے
اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندگی کی گاڑی کو اچانک سے خود ہی بریک لگا نا کمال نہیں ......بلکہ جب تک یہ اپنے مقررہ وقت کی سڑک پر چلتی ہے تو چلنے دیں ۔ رفتار شکن قسم کی الجھنوں و پریشانیوں کے باوجود اس کا چلتے رہنا ہی کمال ہے ۔
تو کوئی جئے یا مرے 'جینا تو پڑے گا ۔ رو رو کر سو سال جینے کی بجائے ہنستے مسکراتے ہوئے پچاس 'ساٹھ سال جینا بہتر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا سمجھے!
****صبح بخیر زندگی ******
 

سحرش سحر

محفلین
بہت بہت شکریہ جناب ....
ویسے آپ کی بات دل پہ لگی کہ واقعی میں نے پرندے جلد اڑا دیے ہیں .....ان کا مکالمہ ذرا طویل ہونا چاہیے تھا ۔
ویسے یہ بھی تو ممکن ہے کہ میں دوبارہ کبھی ان کی گفتگو سن لوں اور اپ لوگوں سے شیئر کروں ۔
 
Top