صبا تھپکتی رہے ، خواب میں ٹہلتے جائیں (غزل) اختر عثمان

واجد عمران

محفلین
صبا تھپکتی رہے ، خواب میں ٹہلتے جائیں
کسی کا دھیان کریں وقت سے نکلتے جائیں

عروس ِ مرگ جو لحظہ دو لحظہ مہلت ہو
یہ گُل مزاج ذرا پیرہن بدلتے جائیں!

فلک پہ ماہِ دو ہفتہ عجب درخشاں تھا
سو جی میں آئی کہ چُپ چاپ ہم بھی ڈھلتے جائیں

کہاں تک اور تہِ خاک ہوں خرامیدہ !
کہاں تک اور سَر ِ آرزو پگھلتے جائیں !

وفورِ کرب میں جانے وہ کون منزل ہو
کوئی زیاں بھی نہ ہو اور ہاتھ ملتے جائیں

جنوں میں پَرّتوِ ماہِ خیال ہو سر سبز
کسی سکوت ، کسی چاندنی میں چلتے جائیں

شب آئے ، اور لہو میں بھنور پڑیں یکدم
وہ نام دل میں رہے اور ہونٹ جلتے جائیں

عجیب شوق ہے اختر یہ اھلِ ساحل کو
وہ ایستادہ رہیں ، ہم گہر اگلتے جائیں
 
Top