شیطان کی حکایات

شیطان کیوں پیدا کیا گیا؟
خدا تعالیٰ حکیم مطلق ہے اور فِعْلُ الْحَکِیْمِ لَا یَخْلُوْا عَنِ الْحِکْمَۃِ کے مطابق حکیم کا کوئی کام خالی از حکمت نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ نے جو کچھ بھی پیدا فرمایا ہے مبنی بر حکمت ہے۔کسی چیز کو بھی دیکھیے تو یو کہئے:​
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً
اے رب ہمارے تو نے اسے بیکار نہیں بنایا
حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ نے کیمیائے سعادت میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چھت پر چھپکلی کو دیکھا اور خدا سے پوچھا، الٰہی! تو نے چھپکلی کو کیوں بنایا؟ خدا تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ! تم سے پہلے یہ چھپکلی مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ الٰہی! تم نے موسیٰ کو کیوں بنایا؟​
میرے کلیم! میں نے جو کچھ بنایا ہے مبنی بر حکمت ہی پیدا فرمایا ہے۔​
یہ حقیقت ہے کہ انما الاشیاء تعرف باضدادھا ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ یعنی مٹھاس جبھی معلوم ہوسکتی ہے جب کڑواہٹ بھی ہو۔ صحت کی قدر اسی وقت معلوم ہو سکتی ہے جبکہ بیماری بھی ہو۔ خوشبو کا علم اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ بدبو بھی ہو۔ ایک پہلوان اپنی ہمت و طاقت کا مظاہرہ اسی وقت کر سکتا ہے جبکہ اس کے مقابل میں کوئی دوسرا پہلوان بھی ہو۔ پہلوان کسی دوسرےپہلوان کو گرا کر ہی پہلوان کہلاتا ہے۔ اگر مقابل میں کوئی پہلوان نہ ہو تو یہ گرائے گاکسے؟ اور اگر گرائے گا کسی کو نہیں تو پہلوان کہلائے گا کیسے؟ اس لئے ضروری ہے کہ پہلوان سے ٹکر لینے والا بھی کوئی ہو۔ ٹکرانے والے کی وجہ سے پہلوان کے کمالات کا اظہار ہو سکے گا۔​
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات ہم پڑھتے سنتے آئے ہیں۔ آپ کے عصا مبارک کا سانپ بن جانا اور فرعون کے ہزاروں جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو ایک بار ہی نگل جانا اور آپ کے دست مبارک کا چمک اٹھنا وغیرہ ان معجزات و کمالات کا ظہور فرعون کی وجہ سے ہوا۔ فرعون اگر نہ ہوتا تو ان معجزات کا ظہور بھی نہ ہوتا۔ یعنی ان معجزات کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ ان معجزات اور موسیٰ علیہ السلام کےکمالات کے اظہار کے لئے ایک منکر کا وجود ضروری جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کرتا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کمالات کا اظہار ہوتا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرعون کو پیدا فرمایا۔ اوراس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کی اور اس کی مخالفت کے باعث حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات وکمالات کا ظہور ہوا۔ (جاری ہے…)​
 
حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا ٹھنڈا ہو جانا اور اتنے بڑے آتش کدہ کا باغ و بہار بن جانا سب جانتے ہیں۔ اِس معجزہ کا سبب کون تھا؟ اور یہ معجزہ کس کی وجہ سے ظہور میں آیا؟ صاف ظاہر ہے کہ نمرود کی وجہ سے! اس لئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لانے والوں سے تو یہ توقع ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے کوئی آتش کدہ تیار کرتے۔ یہ بات کیسے ممکن تھی کہ کوئی مسلمان اپنے پیغمبر کو جلانے کا خیال تک بھی دل میں لاتا۔ پھر یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْداً وَّ سَلَاماً کا مظاہرہ کس طرح ہوتا؟ اس مظاہرہ کے لئے صرف یہی صورت تھی کہ کوئی منکرِ خلیل ہوتا۔ اور وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مخالفت میں اتنا بڑھتا کہ آپ کے جلانے کے لئے ایک عظیم آتشکدہ تیار کرتا۔ اور خدا تعالیٰ اپنے پیغمبر پراُس آتشکدہ کو باغ و بہار بنا کر اپنی قدرت اور اپنے پیغمبر کے معجزہ کا مظاہرہ فرماتا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے نمرود کو پیدا فرمایا۔ اور اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مخالفت کی اور کمالاتِ خلیل کا اظہار ہوا۔​
اسی طرح ہمارے حضور ﷺ کے اکثر معجزات "ابوجہل" کی وجہ سے ظاہر ہوئے۔ چاند کا پھٹنا، کنکریوں کا کلمہ پڑھنا، درختوں اور پتھروں کا خدمتِ عالیہ میں حاضر ہو ہو کر صلٰوۃ و سلام عرض کرنا۔ ابوجہل کی مخالفت اور اس کے انکار کے باعث تھا۔ابوجہل جس قدر حضور کی مخالفت کرتا اسی قدر حضور کے معجزات ظہور پذیر ہوتے۔ گویا ابوجہل کو جو پیدا کیا گیا تو یہ بھی عبث نہیں۔ بلکہ حضور ﷺ کے کمالات و معجزات کے ظہور کے لئے اُسے پیدا کیا گیا۔​
میں نے ایک جمعہ میں حضور ﷺ کے لعابِ دہن شریف کی برکات بیان کرتے ہوئے یہ حدیث بیان کی جنگِ اُحد میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی ایک آنکھ پھوٹ گئی۔ وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے ان کی آنکھ میں اپنا لعابِ دہن شریف لگایا۔​
فجعلہ احسن عینیہ و احدھما نظرا۔
(حجۃ اللہ لعالمین ؎424(​
تو ان کی آنکھ کو پہلی آنکھ سے زیادہ خوبصورت اور روشن کر دیا۔
یہ حدیث سن کر منکرین نے اس حدیث کا انکار کر دیا۔ اور کہا ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ میں نے کتب احادیث کا مطالعہ کیا تو حضور ﷺ کے لعابِ دہن شریف کی اس قسم کی برکتوں پر مشتمل متعدد اور حدیثیں بھی مل گئیں۔ جن میں صحابہ کرام کی آنکھوں کا دُکھنا اور بینائی کا لوٹ آنا مذکور تھا۔ میں نے اگلے جمعہ میں سنایا کہ لو! تم ایک حدیث کا انکار کر رہے تھے وہ بھی سُنو۔ اس کے علاوہ اور چند واقعات بھی سنو۔ پھر میں نے یہ سارے ایمان افروز واقعات کتبِ احادیث سے، سنائے اور منکرین کا شکریہ بھی ادا کیا کہ اگر تم انکار نہ کرتے تو میں کتب احادیث کا مطالعہ نہ کرتا اور یہ جو چند واقعات بھی احادیث سے مجھے مل گئے ہیں تو اب میں بجائے صرف ایک واقعہ کے یہ سارے واقعات بیان کروں گا۔
حضور ﷺ کے جتنے بھی کمالات ہیں ہر کمال کا ایک نہ ایک منکر بھی خدانے پیدا فرمایا ہے۔ مثلاً حضور ﷺ پر نبوت کا ختم ہو جانا اور آپ کا خاتم النبیین ہونا یہ بھی حضور ﷺ کا ایک کمال ہے۔ اور حضور کے خاتم النبیین ہونے پر جس قدر آیات و احادیث وارد ہیں ان کے یاد کرنے اور بیان کرنے کے لئے حضور ﷺ کے اس کمال کا کوئی منکر ہونا ضروری تھا۔ اگر کوئی منکرِ ختم نبوت نہ ہوتا تو نہ کوئی آیاتِ ختم نبوت کو یاد کرتا نہ بیان کرتا۔ اور یہ جملہ آیات و احادیث بغیر بیان کیے رہ جاتیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے منکرینِ ختم نبوت بھی پیدا فرمائے اور عبث پیدا نہیں فرمائے بلکہ حضور ﷺ کے کمال ختم نبوت کو چمکانے کے لیے پیدا فرمائے۔ (جاری ہے…)
 
اسی طرح حضور ﷺ کے علوم و اختیارات اور جملہ کمالات پر جتنی آیاتِ شریفہ احادیث مبارکہ شاہد ہیں۔ ان جو آئے دن تقریروں میں اور تحریروں میں بیان ہوتا رہتا ہے وہ ان منکرینِ کمالات کی بدولت ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ سب منکرین عبث پیدا نہیں فرمائے گئے۔ بلکہ یہی حقیقت ہے کہ ربنا ما خلقت ھذا باطلا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صبر و شکر اور آپ کے عزم و استقلال کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ لیکن ان کمالاتِ حسین کے ظہور کا سبب کون تھا وہی منکرِ حسین یزید! حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان چمکانے کے لئے یزید کو پیدا کیا گیا۔ اگر یزید نہ ہوتا تو نہ کوئی اس قدر ظلم و ستم کے اس قدر پہاڑ توڑتا اور نہ امام پاک کے صبر و شکر اور عزم و استقلال کا ظہور ہوتا۔
اس طرح جملہ منکرینِ انبیاء و اولیاء اکرام اور منکرین صحابہ و اہل بیتِ عظام اور منکرینِ امامانِ دین کا وجود بھی خالی از حکمت نہیں۔ یہ منکرین، ان نفوسِ قدسیہ کا انکار کرتے ہیں اور ان کے غلام ان کی شانوں کا اظہار کرتے ہیں۔
جس قدر انکار زیادہ ہوتا اس قدر ان کی بلند و بالا شانوں کا اظہار زیادہ ہوتا ہے۔ مشہور ہے کہ "نور تاریکی میں چمکتا ہے"۔ جتنی گہری تاریکی ہو گی اتنی ہی چمک تیز ہو گی۔ جس طرح تاریکی کا وجود نور کے لئے ضرور ی ہے۔ اسی طرح نیکی کے ظہور کے لئے بدی کو وجود اور ظہورِ خیر کے لئے وجودِ شر ضرور ہے۔
چند سال گزرے، ۱۲؍ربیع الاول شریف کے روز ہمارے قصبہ میں حسبِ معمول جلوسِ میلاد النبی ﷺ کی تیاری مکمل تھی۔ لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ عین جلوس نکلنے کے وقت موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ بارش اتنے زور کی تھی کہ گلی کوچے سب پانی سے بھر گئے۔ مسلمانانِ کوٹلی جلوس نکالنے کے لئے بالکل تیار تھے۔ لیکن بارش نے رُکاوٹ پیدا کر دی۔ بارش تھمنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ چنانچہ اکثر احباب کی رائے یہ ہو گئی کہ اس دفعہ جلوس نہ نکالا جائے۔ کیونکہ صورت ہی ایسی نہ تھی کہ جلوس نکل سکتا لیکن ایک بات ایسی ہو گئی، جس سے جلوس موسلا دھار بارش ہوتے میں نکلا اور سارے سالوں سے زیادہ پُررونق اور پُر جوش نکلا۔ بات یہ ہوئی کہ منکرین جلوس نے کہیں یہ کہہ دیا کہ جلوس بدعت ہے اور خدا کو منظور ہی نہیں کہ یہ جلوس نکلے"۔ احباب ِکوٹلی شاہد ہیں کہ اس جملہ نے کچھ ایسا اثر کیا کہ سب نے مل کر مجھ سے کہا، مولوی صاحب! اب اگر اولے بھی پڑنے لگیں تو پرواہ نہیں۔ چلیے آگے لگئے اور موسلا دھار بارش میں جلوس کی قیادت کیجئے۔ بخدا اس روز کا جلوس بھی ایک یادگار جلوس تھا۔ پچھلے تمام سالوں سے زیادہ لوگ اس جلوس میں شامل ہوئے۔ آسمان پر سے پانی برس رہا تھا اور اسی عالم میں جلوس نکل رہا تھا۔ گلی کوچوں میں پنڈلیاں پانی میں ڈوبی ہوئی چل رہی تھیں۔ زبانوں سے درود و سلام کے نغمات جاری۔ نعرہ ہائے تکبیر و رسالت کی گونج اوپر سے بادلوں کی کڑک اور پانی جاری، چاروں طرف پانی ہی پانی اور جلوس کی روانی منکرین کو پانی پانی کر رہی تھی۔اس روز اگر منکرین اتنی بات نہ کرتے کہ جلوس نکلنا خدا ہی کو منظور نہیں تو یہ حقیقت ہے کہ جلوس نکالنے کا ارادہ ملتوی ہو چکا ہوتا۔ معلوم ہوا کہ منکر کا وجود عبث پیدا نہیں کیا گیا۔ بلکہ وہی حقیقت ہے کہ
ربنا ما خلقت ھذا باطلا
ایک بزرگ کا واقعہ پڑھا تھا کہ آپ نے ایک مجلس میں "خدا تعالیٰ ان کافروں کو سلامت رکھے کہ یہ ہمارے لئے نعمت ہیں"۔
حاضرین نے دریافت کیا، حضور کافر ہمارے لئے نعمت کیسے ہو گئے؟ فرمایا۔ وہ ایسے کہ مسلمان اگر میدانِ جہاد میں کسی کافر کو مارے تو غازی اور کافر کےہاتھوں مارا جائے تو شہید۔ اور غازی و شہید ہونا بہت بڑا درجہ ہے۔ لیکن یہ درجہ ملا کس کی وجہ سے کافر کے وجود سے۔ اگر کافر ہی نہ ہوں تو ہم نہ غازی بن سکیں نہ شہید، معلوم ہوا کہ کافر بھی ہمارے لئے نعمت ہیں۔ کہ ان کی وجہ سے ہم غازی بھی بنتے ہیں اور شہید بھی۔ خدا انہیں سلامت رکھے۔ (جاری ہے…)
 
اس تمہید کے بعد سنئے کہ فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کے لئے پیدا کیا گیا۔ نمرود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مخالفت کے لئے اور ابو جہل کو حضور ﷺ کی مخالفت کے لئے پیدا کیا گیا۔ اور شیطان کو خدا تعالیٰ نے اپنی مخالفت کے لئے پیدا کیا۔
یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ اس عالم سے تشریف لے گئے تو ابوجہل بھی نہ رہا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لے گئے، تو نمرود بھی گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لے گئے تو فرعون بھی چل دیا۔ امام حسین تشریف لے گئے تو یزید بھی نہ رہا۔ لیکن خدا تعالیٰ ابھی تک ہے تو شیطان بھی ابھی تک ہے۔
خدا ازلی و ابدی ہے۔ اس کی نہ ابتدا نہ انتہا۔ اس نے اپنا مخالف بھی پیدا فرمایا تو دیگر تمام منکرین سے اسے زیادہ عمر دی اور اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْن فرما کر اُسے ڈھیل دے دی اور اختیارات بھی بڑے وسیع دے دیئے تاکہ وہ اپنا زور لگا کر دیکھ لے۔ خدا کے جو بندے ہیں وہ اُسی کے ہو کر رہیں کبھی شیطان کے نہ بنیں گے، شیطان نے عمر دراز اور اختیارات وسیعہ پا کر خدا کے مقابلے میں باقاعدہ ایک محاذ کھول لیا۔ اور اپنا گروہ تیار کرنے کے لئے کوشش کرنے لگا۔ چنانچہ شیطان کی اس کوشش سے جو بدنصیب افراد تھے اس کے داؤ میں پھنستے چلے گئے اور ابتداء سے لیکر آج تک دو گروہ نظر آنے لگے۔
حزب اللہ اور حزبِ شیطان
خدا تعالیٰ نے اپنی طرف بلانے کے لئے اپنے رسول بھیجے اپنی کتابیں بھیجیں اور اپنی طرف آنے والوں کے لئے جناتٍ تجری من تحتِھا الانھار تیار کیں، تو شیطان نے بھی اپنی طرف بلانے کے لئے اپنے نمائندے قائم کئے اپنی کتابیں پھیلائیں اور دنیوی خواہشات اور لذات کی فانی جنات تیار کیں شیطان کے نمائندے کون ہیں اور اس کی کتابیں کونسی ہیں— آئندہ صفحات کی حکایات میں پڑھئے اور دیکھئے کہ اس ملعون نے کیا کیا پروگرام بنا رکھے ہیں اور کس طرح یہ حزب الشیطان کے بڑھانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ الغرض شیطان کی پیدائش کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پورے اختیارات کےساتھ بندوں کو بدی کی طرف مائل کرے تا کہ جو خوش نصیب افراد ہیں وہ اس کی تحریک و ترغیب کو کچل کر خدا تعالیٰ کی طرف دوڑیں اور یوں وہ اپنی اس کوشش کو نیکی کی صورت دے کر اپنے اللہ سے اجر و ثواب پا سکیں۔ کسی غیر محرم عورت نہ دیکھنا یا لہوولعب کی طرف آنکھ نہ اُٹھانا— یہ اسی صورت نیکی بن سکے گی جبکہ غیر محرم عورتوں کی طرف دیکھنے کے مواقع بھی ہوں، لہوولعب کی مجلسیں بھی ہوں، ان مواقع و مجالس کا مہتمم بھی ہو۔ اور دیکھنے والے میں دیکھنے کی طاقت بھی ہو۔ اور اگر ایسا کوئی موقع ہی نہ ہو، یا دیکھنے والا ہی اندھا ہو تو پھر نہ دیکھنا نیکی نہیں ہو سکتی۔ نیکی اسی صورت میں نیکی ہو گی جب کہ موقعہ بھی ہو اور دیکھنے والے کے پاس آنکھ بھی ہو۔ لیکن پھر وہ خدا سے ڈر کر ایسے موقعہ کی طرف آنکھ نہ اُٹھائے تو وہ نیکی کا کام کر رہا ہے اور اُسے ثواب ملے گا۔ ایک اندھا اگر سینما و تھیٹر نہیں دیکھتا تو یہ اس کا یہ کمال نہیں، کمال اُس کا ہے جو آنکھ رکھ کر ایسی خرافات کو نہ دیکھے۔
خدا تعالےٰ نے ان خرافات و لہوولعب کا محرک شیطان پیدا کر کے اپنے بندوں کے لئے یہ موقعہ پیدا فرما دیا ہے۔ کہ وہ شیطان کی ہر ترغیب و تحریک کو کچل کر اس کی طرف دوڑیں اور اس سعی محمود کا اجر و ثواب اللہ سے پائیں۔
ابُو النّور محمد بشیر​
[ماخوذ از: شیطان کی حکایات از علامہ ابو النور محمد بشیر ، صفحہ۶ تا ۲۰، شائع کردہ فرید بک سٹال لاہور]​
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مسلمانوں کے لئے ایک نہایت عبرت آموز، مفید اور کار آمد کتاب
مستند، سبق آموز اور سچی
شیطان کی حکایات
 
حکایت نمبر۱
حضرت آدم علیہ السلام اور شیطان

خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کا جسم مبارک تیار کیا تو فرشتوں نے ایک نئی شکل و صورت دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا اور آپ کی خوبصورتی دیکھ کر بھی خوش ہوئے۔ شیطاں نے جو آپ کو دیکھا تو کہنے لگا، بھلا یہ کیوں پیدا کیا گیا؟ پھر فرشتوں سے کہنے لگا، اگر خدا نے اسے ہم پر ترجیح دے دی تو تم کیا کرو گے؟ فرشتوں نے کہا ہم اپنے رب کا حکم مانیں گے۔ شیطان نے اپنے جی میں کہا، بخدا اگر خدا نے اُسے مجھ پر ترجیح دے دی تو میں ہر گز خدا کا حکم نہیں مانوں گا۔ بلکہ اسے ہلاک کر دوں گا۔پھر شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کے جسمِ اقدس پر تھوک دیا جو آپ کے مقامِ ناف پر پڑا۔خدا تعالیٰ نے حضرت جبریل کو حکم دیا کہ اتنی جگہ سے مٹی نکال دو۔ جبریل نے جہاں تھوک پڑی تھی اس جگہ سے تھوک سمیت مٹی نکال دی۔ خدا نے اس مٹی سے کتا پیدا فرمایا۔ کتے میں تین خصلتیں ہیں۔ اُسے آدمی سے اُنس ہے۔رات کو جاگتا ہے اور آدمی کو کاٹتا ہے۔ آدمی سے اسے انس اس لئے ہے کہ—مٹی حضرت آدم علیہ السلام کی ہے۔ رات کو جاگتا اس لئے ہے کہ ہاتھ جبریل کے لگے ہیں اور آدمی کو کاٹتا اس لئے ہے کہ تھوک شیطان کی ہے۔ (روح البیان ص۴۸ ج۱)
سبق: اللہ کے مقبولوں اور محبوبوں کا شیطان ہمیشہ سے دشمن چلا آیا ہے۔ شیطان میں انانیت اور غرور بہت ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے سوا کسی اور میں بڑائی و عظمت تسلیم کی جائے۔ اسی اپنی انانیت کی وجہ سے وہ حضرت آدم علیہ السلام کا دلی دشمن بن گیا۔ اور آپ کےجسم اقدس پر تھوک کر اس نے بتا دیا کہ اللہ کے مقبولوں کے حق میں گستاخی و بے ادبی کرنا میرا شیوہ ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی پیدا فرمایا ہے وہ مبنی بر حکمت ہے۔ ہمیں یوں ہر گز نہ کہنا چاہئے کہ "بھلا یہ کیوں پیدا کیا گیا؟" بلکہ یوں کہنا چاہئے:
ربنا ما خلقت ھذا باطلا
یعنی اے رب ہمارے! تو نے یہ بیکار نہ بنایا۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کا حکم بلا چون و چرا مان لینا فرشتوں کی سنت ہے اور اُس کے حکم کو حیل و حجت کر کے نہ ماننا شیطان کی خصلت ہے۔ لہٰذا ہمیں فرشتوں کی سنت کو اپنانا چاہئے نہ کہ شیطان کی خصلت کو۔


ماخوذ از: شیطان کی حکایات از علامہ ابو النور محمد بشیر​
 
حکایت نمبر ۲
شیطان کی اکڑ

خدا تعالےٰ نے جب سارے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کے آگے جھک جاؤ اور اُسے سجدہ کرو تو سارے فرشتے سجدے میں گر پڑے۔ مگر شیطان سجدے میں نہ گرا۔ انکار کر گیا اور اکڑ گیا۔ سارے فرشتے تو سجدے میں تھے۔ لیکن شیطان حضرت آدم علیہ السلام کی طرف پیٹھ پھیرے کھڑا رہا۔ فرشتوں نے جب سجدے سے سَر اٹھایا تو شیطان کو دیکھا کہ ملعون تکبر سے کھڑا ہے اور اس نے سجدہ نہیں کیا۔ تو سارے فرشتے اس امر پر خدا کا شکر کرتےہوئے کہ انہیں سجدہ کرنے کی توفیق ملی ہے پھر سجدے میں گر گئے۔ اس طرح فرشتوں کے یہ دو سجدے ہو گئے۔
(قرآن پاک پ۱ ع۴۔ روح البیان ص۸۱ ج۱)
سبق:
شیطان نے تکبر کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کیا۔ ملعون اپنے آپ کو حضرت آدم علیہ السلام سے افضل سمجھتا ہے۔ اور اس بنا پر خدا کے حکم کو خلافِ حکمت سمجھتا رہا اور اس کے حکم کا انکار کر کے اکڑ گیا۔ اُس اکڑنے اُسے سجدہ نہ کرنے دیا۔ فرشتوں نے خدا کے حکم کے آگے سر خم کر دیا۔ اور سجدے میں گر گئے مگر شیطان کو اکڑنے نے جھکنے نہ دیا۔ آج بھی یہ اکڑ ہی مسجد میں نہیں آنے دیتی اور نماز نہیں پڑھنے دیتی۔ پتلون پہننا بھی آج کل فیشن بن گیا ہے۔ دیکھ لیجئے۔ اس میں اتنی بات ضرور ہے کہ پتلون پہن کر خواہ کچھ اکڑ سی پیدا ہو جاتی ہے۔ بالخصوص ٹیڈی پتلوں تو بالکل اکڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اور سجدے میں کسی صورت جھکنے نہیں دیتی۔
میں نے اپنی ایک نظم میں لکھا ہے ؎
دین نے فرمایا کر عجز و تواضع اختیار
اور کہا پتلون نے رہنا اٹن شن چاہئے

اور لاہور کے حاجی لَق لَق نے لکھا تھا:؎
نقش پائے یار کو چوموں تو چوموں کس طرح
ہو بُرا پتلون کا اس سے نہ بیٹھا جائے ہے





ماخوذ از: شیطان کی حکایات از علامہ ابو النور محمد بشیر
 
حکایت نمبر۳
شیطان کا فلسفہ
خدا تعالیٰ کے حکم سے آدم علیہ السلام کو جب سارے فرشتوں نے سجدہ کیا اور شیطان نے سجدہ نہ کیا تو خدا تعالیٰ نے شیطان سے پوچھا کہ میرا حکم پا کر تو نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیوں نہیں کیا؟ تو شیطان نے جواب دیا:
انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین
"میں آدم (علیہ السلام) سے بہتر ہوں کیونکہ مجھے تو نے آگ سے بنایا ہے اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے۔"
آگ جو ہرِ لطیف اور نورانی ہے اور مِٹی جسم کثیف اور ظلمانی ہےپھر میں آگ ہو کر مٹی کے آگے، لطیف ہو کر کثیف کے آگے کیوں جھکتا؟ خدا تعالیٰ نے فرمایا، نکل جا یہاں سے تیرا کیا حق ہے کہ تو یہاں رہ کر اکڑے اور غرور کرے۔نکل یہاں سے کہ تو ذلیل ہے۔
(قرآن پاک پ۸ ع۹۔ روح البیان ص۷۰۵ ج۱)
سبق:
فلسفی شیطان اپنے جھوٹے فلسفہ کی بنا پر خدا کے تعالیٰ کے حکم سے ٹکرا گیا اور خدا تعالیٰ کا حکم ہوتے ہوئے اپنے فلسفہ کو سامنے لے آیا کہ میں چونکہ آگ سے ہوں اور آدم علیہ السلام مٹی سے اور اور آگ مٹی سے افضل ہے۔ اس لئے جس کی اصل آگ ہو گی وہ افضل ہے اُس سے جس کی اصل مٹی سے ہو گی۔ اس طرح ملعون نے اپنے آپ کو حضرت آدم علیہ السلام سے افضل سمجھ لیا اور اپنے اس فلسفہ سے راندۂ درگاہ ہو گیا۔ حالانکہ اس کا یہ فلسفہ بالکل غلط تھا۔ کیونکہ افضل وہ ہے جسے مالک و مولیٰ فضیلت دے۔ فضیلت کا مدار اصل و جوہر پر نہیں بلکہ مالک کی اطاعت و فرمانبرداری پر ہے۔ علاوہ ازیں آگ کا مٹی سے افضل ہونا اس لئے بھی صحیح نہیں کہ آگ میں تیزی، طیش، ترفع اور بے قراری پائی جاتی ہے۔ اور ان باتوں سے تکبر پیدا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے جو شیطان میں تکبر پیدا ہوا اور اس نے سجدہ نہ کیا۔ اور مٹی میں آہستگی، سکون، وقار، بردباری اور انکسار پایا جاتا ہے اور ان باتوں کو خدا پسند فرماتا ہے اور انہی باتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو توبہ کرنے پر ابھارا تھا۔ مٹی اس لئے بھی افضل ہے کہ جنت کی مٹی مشک سے بھی بہتر ہوگی۔ گویا وہاں بھی مٹی ہو گی۔ مگر آگ جنت میں نہیں ہو گی۔ علاوہ ازیں آگ عذاب کا سبب ہے، مٹی نہیں۔ اور مٹی آگ سے بالکل بے احتیاج ہے اور اس کا مکان مٹی ہے۔ مٹی سجدہ کی جگہ ہے، آگ نہیں۔ مٹی سے ملک آباد ہوتے ہیں اور آگ سے تباہ و برباد ہوتے ہیں۔ مٹی امانت دار ہے جو چیز اس میں رکھی جائے اس کو محفوظ رکھتی ہے اور بڑھاتی ہے جیسے بیج۔ اور آگ ہر اس چیز کو جو اس میں آ جائے فنا کر دیتی ہے۔ باوجود ان امور کے مزے کی بات یہ ہے کہ مٹی آگ کو بجھا دیتی ہے اور آگ مٹی کو فنا نہیں کر سکتی۔ معلوم ہوا کہ فلسفی شیطان کا اپنا فلسفہ بھی باطل تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہے اور سب سے بڑی مہلک غلطی شیطان کی یہ تھی کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں اپنا فلسفہ لے آیا اور اپنی اس حرکت سے ہمیشہ کے لئے کافر و ملعون بن گیا۔ شیطان کے اس حال سے مسلمانوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے اور خدا کے احکام سُن کر اپنی سائنس، عقل اور اپنے فلسفہ کو کبھی نہیں لانا چاہئے۔ بلکہ خدا تعالیٰ کا حکم سُن کر فرشتوں کی طرح فوراً اپنا سرِ تسلیم خم کر دینا چاہئے۔

ماخوذ از: شیطان کی حکایات از علامہ ابو النور محمد بشیر
 
حکایت نمبر۴
شیطان کی قسم
خدا تعالیٰ نے شیطان کو جب اپنی بارگاہ سے نکال دیا اور اسے مردود و ملعون کر دیا تو شیطان نے خدا تعالیٰ سے کہا کہ مجھے قیامت تک کے لئے مہلت دے۔خدا نے فرمایا اچھا میں نے مہلت دی۔ شیطان نے مہلت ملنے کا وعدہ لے کر پھر قسم کھا کر کہا کہ میں سیدھے راستے پر بیٹھ جاؤں گا اور ان تیرے بندوں آدم کی اولاد کو چاروں طرف سے گھیر لوں گا۔ اس طرح اُن پر سامنے سے بھی حملہ کروں گا، پیچھے سے بھی، اور ان کے داہنے اور ان کے بائیں سے بھی اُن پر حملہ آور ہوں گا اور چاروں طرف سے گھیر کر ان کو اپنا ساتھی بناؤں گا، اور انہیں تیرے شکر گزار بندے نہ رہنے دوں گا۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا، ملعون تو یہاں سے نکل جا! اور جا لوگوں کو بہکا۔ میرا بھی یہ اعلان ہے جو تیرے کہے پر چلائیں اُسے بھی تیرے ساتھ جہنم میں داخل کروں گا۔
(قرآن پاک پارہ۸، رکوع۹)
سبق:
شیطان نے اپنے ساتھی اور اپنے رفیقانِ جہنم بنانے کے لئے قسم کھا رکھی ہے کہ میں لوگوں کو چاروں طرف سے گھیر کر انہیں گمراہ کروں گا۔ اور خدا نے اس کے کہے پر چلنے والوں کو جہنم میں داخل کرنے کا اعلان فرما دیا ہے۔ لہٰذا آج ہمیں شیطان سے ہر وقت چوکنا رہنا چاہئے۔ یہ ملعون واقعی چاروں طرف سے حملہ آور ہو رہا ہے۔ آگے سینما، پیچھے تھیٹر، دائیں رقص و سرود، بائیں لہو و لعب— الغرض چاروں طرف عریانی و فحاشی، انانیت و غرور، بیباکی و عیاری، مکر و فریب، دھوکا و چالبازی، آوارگی و میخواری عام ہے۔ اور ابنِ آدم شیطان کے اس داؤ کی ضد میں ہے۔ یہ ملعون حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد سے اپنی ذلت کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اس کی زد میں نہیں آتے اور بڑے ہی بدبخت ہیں وہ لوگ جو اس کے بہکانے میں آ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو اس کے داؤں سے بچنے کے لیے ہر وقت مستعد رہنا چاہئے تاکہ خدا تعالیٰ کے عذاب سے وہ بچ جائیں۔


ماخوذ از: شیطان کی حکایات از علامہ ابو النور محمد بشیر​
 
حکایت نمبر ۵
شیطان کا وسوسہ
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا دونوں کو فرمایا کہ جاؤ تم دونوں جنت میں رہو اور جنت میں جہاں چاہو اور جو چاہو وہ کھاؤ۔ لیکن اس ایک درخت کے نزدیک بھی نہ جانا۔ حضرت آدم و حوّا جب جنت میں تشریف لے گئے تو شیطان نے ان کے دلوں میں یہ وسوسہ پیدا کر دیا کہ یہ درخت جس کے پاس بھی جانے سے ہمیں روکا گیا ہے تا کہ ہم فرشتوں کی طرح کھانے پینے سے بے نیاز نہ ہو جائیں۔ شیطان نے پھر قسم کھا کر اُن سے کہا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ آپ اس درخت سے کچھ کھا لیں، کچھ نہیں ہوتا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے شیطان کے منہ سے اللہ کی قسم سن کر یقین کر لیا کہ یہ ہمارا خیر خواہ ہی ہے۔ آپ کو گمان بھی نہ تھا کہ کوئی اللہ کی قسم کھا کر بھی جھوٹ بول سکتا ہے۔ اس لئے آپ نے اس کی بات اعتبار کر لیا۔ اور اس درخت سے کچھ کھا لیا کرو۔ کھاتے ہی حضرت آدم علیہ السلام و حوّا دونوں کے بدن سے جنتی لباس اُتر گیا اور ان میں ایک دوسرے سے اپنا جسم چھپا نہ رہ سکا۔ اور پھر وہ اپنے بدن پر جنت کے پتے چپٹانے لگے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہ کیا تھا اور یہ نہیں بتایا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے؟ حضرت آدم علیہ السلام و حوّا دونوں عرض کرنے لگے، اے رب ہمارے! ہم نے اپنا آپ بُرا کیا۔ اب اگر تو نے ہم پر رحم نہ کیا اورہمیں نہ بخشا تو ہم نقصان اٹھائیں گے۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے بایں الفاظ دعا مانگی:
اللھم انی اسئلک بجاہ محمد عبدک و کرامتہ علیک ان تغفر لی خطیئتی
"اے اللہ! میں تجھ سے تیرے بندۂ خاص محمد مصطفےٰ ﷺ کے جاہ و مرتبت کی طفیل میں اور اس کی کرامت کے صدقہ میں جو انہیں تیرے دربار میں حاصل ہے، مغفرت چاہتا ہوں۔"
یہ دعا کرنی تھی کہ حق تعالیٰ نے اُن کی مغفرت فرما دی — اور شیطان خائب و خاسر رہ گیا۔
سبق:
شیطان نے ج دیکھا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے میں ہمیشہ کے لئے مردود و ملعون ہو گیا ہوں تو خبیث نے انتقام لینے کے لئے جھوٹی قسمیں کھا کر حضرت آدم و حوّا کو جنت سے نکال دینے کی کوشش کی اور خدا تعالیٰ نے جس درخت کے پاس بھی جانے سے حضرت آدم علیہ السلام کو روکا تھا، اس کے ذریعے اپنا مقصد پانا چاہا چنانچہ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا کہ میں آپ کا خیر خواہ ہوں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ کا نام سُن کر اعتبارکر لیا اور درخت کے پاس بھی نہ جانے کی نہی کو تنزیہی سمجھ لیا۔ اور اس درخت سے کچھ کھا لیا۔ معلوم ہوا کہ شیطان کی یہ عادت ہے کہ وہ لوگوں کو بہکانے کے لئے اللہ کی قسم ضرور کھاتا ہے۔چنانچہ آج اگر کوئی شخص لوگوں کے مجمع میں قرآن لے کر اور اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہنے لگے کہ میں حنفی بلکہ اصلی حنفی ہوں تو جان لیجئے دال میں کالا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان نے جہاں خیر خواہ ہونے کی قسم کھائی ہے وہاں اس نے خیر نہیں گزاری تو جہاں اُس نے فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ کہہ کر یہ قسم کھا رکھی ہے کہ اے اللہ! تیری عزت کی قسم! میں تیرے سب بندوں کو گمراہ کروں گا۔" وہاں وہ خبیث کب خیر گزارنے والا ہے اس لئے شیطانی داؤ سے ہمیں ہر وقت چوکنّا رہنا چاہئے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان ہم سے ایسی حرکتیں کرانا چاہتا ہے جس سے ہم ننگے اور عریاں ہو جائیں۔ ہمارا لباس وہ اتار دینا چاہتا ہے اور ہمیں وہ عریاں دیکھنا چاہتا ہے۔ شیطان عریاں اور عریانی پسند ہے۔چنانچہ آجکل وہ نئی تہذیب کےہاتھوں اپنا یہی کام کرا رہا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام و حوّا علیہا السلام کا اپنے بدن پر پتے چپٹانا اس امر پر شاہد ہے کہ آدمیت یہ ہے کہ عریانی سے نفرت ہو اور شرم کی چیزوں کو چھپایا جائے۔
پچھلے دنوں ایک اخبار میں مغرب کی صورت حال پڑھی تھی کہ وہاں مادر زاد ننگے مرد، عورتیں اور بچے ساحلوں کی ریت پر دھوپ میں لیٹے بیٹھے یا کھڑے ہوئے باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ اور جہاں سر جھُک جانا چاہئے، وہاں آنکھیں نہیں جھکتیں۔ (امروز ۲۲؍اپریل ؁۱۹۷۹ء)
یہ سب کچھ شیطانی حرکات ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں یعنی آدمیوں کو چاہئے کہ آدمی بنیں اور عریانی اختیار نہ کریں۔ مگر آہ!؎
نئی تہذیب کو نسبت نہیں ہے آدمیت سے
جناب ڈاروں کو حضرت آدم سے کیا مطلب

اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے کے لئے سب سے بڑا کارگر وسیلہ حضور ﷺ کا نامِ نامی اور اسمِ گرامی اور آپ کی ذاتِ بابرکات ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے محبوب کے صدقہ میں خطائیں معاف فرما دیتا ہے

ماخوذ از: شیطان کی حکایات از علامہ ابو النور محمد بشیر
 
حکایت نمبر ۶
شیطان کی درخواست
خدا تعالیٰ نے شیطان کو حضرت آدم علیہ السلام کی خاطر جب اپنی بارگاہ سے نکال دیا تو شیطان نے خدا سے درخواست کی کہ الٰہی! تو نے مجھے مردود تو کر ہی ڈالا ہے اب اتنا کر کہ مجھے آدم کی اولاد پر پوری پور قدرت اور قابو دےدے۔ تاکہ میں انہیں گمراہ کر سکوں۔ خدا نے فرمایا جا تو اُن پر قابو یافتہ ہے۔ اور میں نے تجھے ان پر قدرت دےدی۔ کہنے لگا، الٰہی! کچھ اور زیادہ کر۔ فرمایا تو ان کے مالوں میں شرکت کر لے۔یعنی تو اُن کے مال معصیت میں خرچ کروا سکے گا۔ کہنے لگا، کچھ اور زیادہ کر۔ فرمایا، جا ان کے سینے تیرے رہنے کے گھر ہوں گے۔
یہ سُن کر حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی، الٰہی! تو نے شیطان کو مجھ پر پورا تسلط اور عام غلبہ دے دیا ہے۔ تو میں بجز تیری پناہ کے اس کے مکر و فریب سے کیسے بچوں گا؟ فرمایا، آدم! تمہارے ہاں جو بچہ بھی پیدا ہو گا، میں اُس پر ایک زبردست فرشتہ متعین کروں گا، جو اُسے شیطانی وساوس سے بچائے گا۔ عرض کیا الٰہی! اور زیادہ کر۔ فرمایا، میں ایک نیکی کے بدلے دس گنا ثواب دوں گا۔ عرض کیا، الٰہی! کچھ اور زیادہ کر۔ فرمایا، میں ان سے توبہ کا مادہ نہ چھینوں گا جب تک اُن کے جسموں میں روحیں باقی رہیں گی۔ عرض کیا الٰہی! کچھ اور زیادہ کر۔ فرمایا، میں ان کے سروں پر اپنی مغفرت کا تاج رکھوں گا۔ اور کسی کی پرواہ نہ کروںگا۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا، الٰہی! بس مجھے یہ کافی ہے۔
(نزہۃ المجالس۔ ص۳۱،۳۲ ج۲)
سبق:
شیطان کی یہ دُعا و درخواست اس لئے قبول کر لی گئی تاکہ اللہ کے نیک اور سچے بندوں کا خدا سے جو تعلق اور جذبہ محبّت ہے اور نیک کام کرنے کی ان کے دلوں میں جو تڑپ ہے اس کے اظہار کا انہیں موقع مل سکے۔ اگر شیطان کو بندوں پر قدرت نہ دی جاتی اور وہ اُن کے مال و جان میں تصرّف کرنے کا مجاز نہ ہوتا تو پھر نیکی نیکی نہ رہتی اور بغیر کسب و سعی کے حاصل شدہ ایک نظری چیز رہ جاتی۔ نیکی کو نیکی بنانے کے لئے شیطان کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔ تا کہ سعید ِ فطرت انسان شیطان سے بچاؤ کے لئے ہر ممکن کوشش کرے۔ اور خدا سے اپنا تعلق برقرار رکھنے کی کوشش کا مظاہرہ کرے۔ ہمیں جب پتہ چلتا ہے کہ رات کو مسلح ہو کر چور نکلتے ہیں تو ہم اپنے مال و جان کی حفاظت کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ جاگتے ہیں اور دَروازوں کو خوب تالے لگاتے ہیں اور ایک آدمی پہرہ کے لئے مقرر کر دیتے ہیں جو رات بھر جاگتا اور جگاتا رہتا ہے۔ اور "جاگتے رہیو" کی آواز سناتا رہتا ہے تا کہ چور گھر میں نہ گھس آئے۔ یونہی شیطان ایک چور اور مسلح چور ہے۔ خدا نے اُسے کھلا چھوڑ دیا ہے تا کہ اُس کے نیک بندے خواب غفلت سے بیدار رہ کر صلوا و الناس نیام پر عامل رہیں اور اپنے دلوں پر ذکرِ حق کے مضبوط تالے لگا لیں اور چور سے ہر وقت چوکنے رہیں اور شریعت کے پہرہ دار مولوی کی اس آواز کو سنتے رہیں کہ الصلوٰۃ خیر من النوم۔ جو لوگ پہردار کی آواز پر کان نہ دھریں بلکہ پہرہ دار ہی کو ایک غیر ضروری فرد قرار دیں، ظاہر ہے کہ وہ یا تو بے وقوف نا عاقبت اندیش اور بدنصیب ہیں، یا پھر چور کے ساتھی ہیں جو نہیں چاہتے کہ لوگ جاگتے رہیں اور چور اپنا کام کر سکیں۔ دانا لوگ پہرے دار کی قدر کرتے ہیں۔ اس موقع پر اعلیٰ حضرت بریلوی علیہ الرحمۃ کے یہ شعر سنئے جو بڑے سبق آموز ہیں:
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو جاگتے رہیو، چوروں کی رکھوالی ہے
آنکھ سے کاجل پل میں چرا لیں یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گٹھڑی تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
سونا پاس ہے سونا بن ہے سونا زہر ہے اُٹھ پیارے
تو کہتا ہے میٹھی نیند ہے تیری مت ہی نرالی ہے

اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہےوہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے شیطان چور کے ہاتھوں لٹیں۔ بندے اُس چور سے بچنے کی ذرا سی بھی کوشش کریں تو وہ خوش ہوتا ہے اور ایک نیکی کے بدلے دس کا ثواب دیتا ہے۔ اور بندہ خوابِ غفلت سے جس وقت بھی بیدار ہو جائے۔ اور وہ خوش ہو جاتا ہے۔ حتّیٰ کہ مرتے وقت بھی اگر اُس کی آنکھ کھُل جائے تو خدا تعالیٰ کی رحمت و مغفرت اُسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ لیکن جو سوتے سوتے ہی ہمیشہ کے لئے سو جائیں، سمجھا لیجئے اُن کی قسمت ہی سو گئی۔

ماخوذ از: شیطان کی حکایات از علامہ ابو النور محمد بشیر
 
حکایت نمبر ۷
شیطان کے پیغمبر اور کتاب
خدا تعالیٰ نے شیطان کو مردود کیا تو شیطان نے کہا، الٰہی! تو بنی آدم میں پیغمبروں کو بھیجے گا، کتابیں نازل کرے گا۔ میرے پیغمبر اور میری کتاب بھی کوئی ہونی چاہئے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا، کاہن، نجومی تیرے پیغمبر ہوں گے۔ عرض کیا، میری کتاب؟ فرمایا، خیالی تک بندی اور جھوٹے شعر تیری کتاب ہیں۔ عرض کیا میرا مؤذن؟ فرمایا، راگ اور گانا۔ عرض کیا، میری مسجد؟ فرمایا فتنہ انگیز بازار۔ عرض کیا اور میرا کھانا؟ فرمایا، جس پر میرا نام نہ لیا جائے۔ وہ تیرا کھانا ہے۔ عرض کیا، اور میرا پانی؟ فرمایا نشیلی چیزیں۔عرض کیا اور میرا جال؟ فرمایا، عورتیں۔
(نزہۃ المجالس ص۳۲ ج۲)
سبق:
جھوٹی پیش گوئیاں کرنا، جھوٹے شعر کہنا اور خیالی تک بندیوں سے مبالغہ آمیز باتیں بنانا، راگ گیت اور گانے گانا اور مسجدوں کو چھوڑ کر بازاری مجلسوں کو اپنانا، اور خدا کو بھول کر حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر جو ملے کھا جانا، اور بھنگ، چرس، شراب وغیرہ نشہ آور چیزوں کا پینا پلانا اور عورتوں کو بے حجاب پھرانا یہ سب شیطانی امور اور شیطان کی پسندیدہ چیزیں ہیں۔
شیطان خود جھوٹا ہے۔ اس لئے اُس کے پیغمبروں کی پیش گوئیاں بھی جھوٹی ہیں۔ ہمیں اس قسم کی پیش گوئیوں پر کان نہیں دھرنا چاہئے۔ ؁۱۹۶۰ء میں جب حج کر کے میں واپس کراچی پہنچا تو کراچی میں ایک ہمہ گیر بے چینی نظر آئی۔ اٹلی کے کسی نجومی نے یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ ۱۴؍ جولائی کو قیامت آ جائےگی۔ اس پیش گوئی کو پڑھ کر بہت سے ضعیف الاعتقاد لوگوں نے اُس پر یقین کر لیا تھا کہ ۱۴؍ جولائی کو واقعی قیامت آ کر رہے گی۔ اور اکثر لوگ اپنا کار و بار چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں میں بھی چلے گئے تھے تا کہ مریں اور گھر پہنچ کر مریں۔ میں نے اپنے ملنے والوں کو یقین دلایا کہ یہ سب بکواس ہے۔ قیامت تو قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق اچانک آئے گی۔ اگر قیامت کے لئے کوئی تاریخ مقرر کر لی جائے تو فرمائیے وہ اچانک کب رہی۔ اسی طرح ؁۶۲ ء میں چند بھارت کے نجومیوں نے پیش گوئی کی تھی کہ فروری ؁۶۲ء کے پہلے ہفتہ میں آٹھ ستارے ایک نحس برج میں جمع ہو رہے ہیں۔ اس نحس اجتماع سے دنیا میں زبردست تباہی آنے والی ہے۔: اس پیش گوئی پر یقین کر کے بھارت کے بڑے بڑے پنڈت پریشان ہو گئے اور وہ اپنے مقدس مقامات پر جمع ہو کر پراتھنا کرنے لگے۔ اسی طرح کی جھوٹی پیش گوئیوں سے شیطان خوش ہوتا ہے۔ مسلمان کو اپنے خدا اور رسول کے سچے ارشادات پر یقین رکھنا چاہئے اور شیطانی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئے۔ اسی طرح آجکل اپنے آنسوؤں کے سیلاب لانے والے، کمرِ یار کی تلاش میں عمر کھونے والے، اور گل و بلبل آمیز شعر کہنے والے شاعر اپنی جھوٹی مبالغہ آرائیوں سے مسلمانوں کی توجہ خدا کی سچی کتاب سے ہٹا کر ان خرافات کی طرف پھیرنا چاہتے ہیں۔ اس قسم کے جھوٹے شاعر شیطان کے داعی ہیں۔ اور حالیؔ نے ایسی ہی شاعروں کے لئے لکھا ہے کہ ؏
جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے

اس لئے مسلمانوں کو خرافات سے بچنا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ خدا نے اس قسم کے شعروں کو شیطان کی کتاب بتایا ہے اور یہ راگ گیت اور ترنم آمیز گانے شیطان کی آذان ہیں۔ ان آوازوں کو سُن کر اس طرح دوڑنے والے گویا شیطان کی آواز پر لبیک کہنے والے اور شیطان کے مقتدی ہیں۔ شیطان کی مسجد فتنہ انگیز بازار ہے۔ اللہ کی اذان اللہ کی مسجد میں ہوتی ہے اور شیطان کی آذان، یعنی گیت اور گانے شیطان کی مسجد بازار میں ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اللہ والے بنیں اور اللہ کی اذان سنیں اور نہ بازاری مجلس اختیار کریں اور بازاری مجلس کو اسی طرح مضر سمجھیں جس طرح بازاری گھی اور بازاری عورت۔ جو چیز کھاؤ اس پر اللہ کا نام ضرور لو یعنی بسم اللہ پڑھ لو۔ بھول جاؤ تو کھاتے ہوئے جب بھی یاد آئے پڑھ لو۔ اور شراب، بھنگ چرس وغیرہ نشیلی چیزوں سے بچو کیونکہ یہ شیطانی مشروبات ہیں۔ اور کسی ایسی دکان کے قریب بھی نہ جاؤ جہاں شیطان نے ان "مشروبات" کا انتظام کر رکھا ہو۔ اور عورتوں کو پردے میں رکھو۔ اُنہیں بے حجاب و بے ستر باہر پھرا کر شیطان کے لئے یہ موقعہ پیدا نہ کرو کہ وہ ان بے حجاب عورتوں کے ذریعہ سے مردوں کا شکار کرے کیوں کہ انہی بے حجاب عورتوں کو شیطان کا جال بتایا گیا ہے۔ جس طرح ماہی گیر کے جال میں تالاب کی مھلیا ں پھنس جاتی ہیں، سمجھ لیجیے کہ! اسی طرح شیطان کے اس جال میں تہذیب مغرب کے تالاب کی فیشن ایبل مچھلیاں پھنس جاتی ہیں۔
یہاں میری ایک نظم کے چند ایک شعر سُن لیجئے:
اس لئے "مُلّا" سے اُن کی جنگ ہے
ڈالتا کیوں رنگ میں یہ بھنگ ہے
وہ مسلمان تو ہے لیکن بے عمل
اک لفافہ ہے مگر بے رنگ ہے
سر پہ جالی باندھ کے نکلے ہیں وہ
مرغ دل کے باندھنے کا ڈھنگ ہے


ماخوذ از: شیطان کی حکایات از علامہ ابو النور محمد بشیر
 
حکایت نمبر ۸
شیطان کشتیِٔ نُوح میں
حضرت نوح علیہ السلام جب کشتی میں سوار ہوئے تو آپ نے کشتی میں ایک انجان بڈھے کو دیکھا۔ آپ نے اُسے پہچان لیا کہ یہ شیطان ہے۔ فرمایا تم یہاں کیوں آئے ہو؟ اُس نے جواب دیا، میں تمہارے یاروں کے دلوں پر قابو پانے کو آیا ہوں تاکہ اُن کے دل میرے ساتھ ہوں اور جسم تمہارے ساتھ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا اے دشمنِ خدا! نکل جا یہاں سے۔ شیطان نے کہا، جناب پانچ چیزیں ہیں، جن سے میں لوگوں کو ہلاک کرتا ہوں اُن میں سےتین تم سے نہ کہوں گااور دو تمہیں بتاؤں گا۔ حضرت نوح کو وحی ہوئی کہ اس کہو تین کی مجھے حاجت نہیں۔ وہ دو بیان کر۔ شیطان نے کہا، انہیں دو سے میں آدمیوں کوہلاک کرتا ہے۔ ایک تو حسد، کہ اسی وجہ سے میں ملعون ہوا اور شیطان مردود کہلایا۔ دوسرے حرص، کہ آدم کے لئے تمام جنت مباح کر دی گئی، مگر میں نے حرص دلا کر ان سے اپنا کام نکال لیا۔
(تلبیسِ ابلیس لامام ابن جوزی ص۳۷)
سبق:
حسد اور حرص شیطان کے دو خطرناک ہتھیار ہیں۔ ان سے وہ آدمیوں کو گمراہ و تباہ کر چاہتا ہے۔ اور اسی حسد کی وجہ سے جو اُسے حضرت آدم علیہ السلام کی ذات سےتھا، وہ خود تباہ و بر باد اور ملعون و مردود ہوا۔ اور اب اسی اپنے ہتھیار سے بنی آدم کو گمراہ کرنے کے درپے ہے۔ چنانچہ جب بھی اللہ کا کوئی نبی تشریف لایا۔ اس کمبخت نے اُن کا حسد دلوں میں پیدا کر کے لوگوں کو کافر بنا دیا۔ اسی طرح یہ حاسدین پھر مسلمانوں کےبھی کفر اختیار کرنے کی خواہش کرنے لگے۔ چنانچہ خدا فرماتا ہے کہ بہت کتابیوں نے چاہا کہ کاش تمہیں ایمان کے بعد کفر کی طرف پھیر دیں۔
حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِم
"اپنے دلوں کےحسد سے" (پ۱ ع۱۳)
یونہی اس خبیث نے صحابہ کرام اور اہلِ بیت عظام علیہم الرضوان کا حسد بھی کئی دلوں میں پیدا کر کے انہیں اپنا ساتھی بنا لیا۔ اور اسی طرح اس کا یہ خطرناک ہتھیار آج تک چل رہا ہے۔ بزرگانِ دین اور علماءِ کرام کی عظمتوں کو دیکھ دیکھ کر انگشت نمائیاں اور چہ مگوئیاں کرنے والے شیطان کے اسی مہلک ہتھیار ہی کے تو شکار ہیں۔ جو اُن حضرات کا اچھا کھانا پینا اور اچھا پہننا تک دیکھ کر جل بھن جاتے ہیں۔ اسی خطرناک ہتھیار سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ نے آیت وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ نازل فرمائی تھی۔ دوسرا اُس کا مہلک ہتھیار "حرص" ہے اس حرص سے آدمی حقوق اللہ و حقوق العباد دبا کر بیٹھ جاتا ہے۔ حلال وحرام کی تمیز نہیں کرتا۔ آجکل جو دنیا بھر میں رشوت، خیانت، غبن، سود، سمگل وغیرہ جتنے جرائم ہیں سب اس حرص کی وجہ سے ہیں۔ لیکن یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح "حرص" اور "طمع" دونوں لفظ نقطوں سے خالی ہیں اسی طرح طامع و حریص بھی بالآخر خالی کے خالی رہ جاتے ہیں

ماخوذ از: شیطان کی حکایات از علامہ ابو النور محمد بشیر
 
حکایت نمبر ۹
شیطان اور حضرت موسیٰ علیہ السلام
ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شیطان ملا اور کہنے لگا کہ اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی رسالت کے لئے چنا اور کلیم بنایا ہے۔ میں بھی اللہ کی مخلوق میں شامل ہوں اور مجھ سے ایک گناہ سرزد ہو گیا ہے اب میں توبہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ خدا سے میری سفارش کیجیے تاکہ وہ میری توبہ قبول کر لے اور مجھے معاف کر دے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا سے عرض کی اور سفارش کی کہ شیطان اب معافی چاہتا ہے۔ اُسے معافی دے دی جائے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ! میری ناراضگی اس سے آدم کی وجہ سے ہے۔ اس نے آدم کو سجدہ نہ کیا تو میں اُس سے ناراض ہو گیا۔ اب اگر وہ معافی چاہتا ہے تو آدم علیہ السلام کی قبر پر جائے اور آدم کی قبر کو سجدہ کرے تو میں راضی ہو جاؤں گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام شیطان سے ملے اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے معافی کے لئے یہ فرمایا ہے کہ تم آدم علیہ السلام کی قبر پر جاؤ اور اُن کی قبر کو سجدہ کر لو تو میں راضی ہو جاؤں گا اور تمہاری توبہ قبول کر لوں گا۔ شیطان نے کہا، رہنے دیجیے جناب! میں نے جب آدم کو اُن کی زندگی میں سجدہ نہیں کیا تو اب اُن کے مرنے پر اُن کی قبر پر جاؤں اور قبر پر سجدہ کروں؟ یہ کبھی نہ ہو گا۔ میں معافی نہیں چاہتا۔
(تلبیس ابلیس ص۳۸، روح البیان ص۷۲ ج۱)
سبق:
شیطان بڑا مغرور اور متکبر ہے کہ اپنے غرور و تکبر کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو اُن کی زندگی میں بھی سجدہ نہ کیا اور اُن کے وصال کے بعد اب اُن کی قبر پر جانا اور اُن کی قبر کو سجدہ کرنا اُسے گوارا نہیں۔ مردود میں اتنی اکڑ ہے کہ صدہا لعنتوں کے طوق گلے میں پڑ چکے اور پڑ رہے ہیں لیکن اب تک بھی وہ قبر پر جانا اچھا نہیں سمجھتا اور اب بھی وہ قبر پر جانے کا مخالف ہے۔ علامہ صفوری علیہ الرحمۃ نے حضرت نفسی سے ایک روایت درج کی ہے کہ قیامت کے روز شیطان کو جہنم سے نکالا جائے گا اور جنّت سے حضرت آدم علیہ السلام کو اُس کے سامنے لایا جائے گا اور خدا فرمائے گا، اے ابلیس! دیکھ ان کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے تو جہنم میں داخل ہوا۔ اب بھی اگر تو اُن کو سجدہ کر لے تو میں تجھے جہنم سے نکال لوں گا۔ شیطان کہے گا، نہیں مجھے منظور نہیں۔ دنیا میں مَیں نے جب اِسے سجدہ نہیں کیا تو اب کیوں کروں۔
(نزہۃ المجالس ص۱۲۱ ج۱)
دیکھا آپ نے شیطان کی اکڑ کو کہ جہنم میں جلنا منظور لیکن خدا کے پیغمبر کی تعظیم منظور نہیں۔ مسلمانوں کو شیطان کے اس حال سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور اللہ کے مقبولوں کی تعظیم کرنی چاہئے اور ان کے مقابلہ میں کبھی اکڑنا نہیں چاہئے جیسا کہ شیطان اکڑا تھا۔ ورنہ جو حال امام کا وہی ان کا۔

ماخوذ از: شیطان کی حکایات از علامہ ابو النور محمد بشیر
 
حکایت نمبر ۱۰
شیطان کی تین باتیں

ایک روز شیطان حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا۔ آپ نے ا س سے دریافت فرمایا، بھلا یہ تو بتلا وہ کونسا کام ہے جس کے کرنے سے تو انسان پر غالب آ جاتا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ جب آدمی اپنی ذات کو بہتر سمجھتا ہے اور اپنے عمل کو بہت کچھ خیال کرتا ہے اور اپنے گناہوں کو بھول جاتا ہے۔ اے موسیٰ! مَیں آپ کو تین ایسی باتیں بتاتا ہوں جن سے آپ کو ڈرتے رہنا چاہئے۔ ایک تو غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھنا، کیونکہ جب کوئی شخص تنہائی میں غیر محرم عورت کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا میں ہوتا ہوں۔ یہاں تک کہ اس عورت کے ساتھ اس کو فتنے میں ڈال دیتا ہوں۔ دوسرے اللہ تعالیٰ سے جو عہد کرو، اس کو پورا کیا کرو کیونکہ جب کوئی اللہ سے عہد کرات ہے تو اُس کا ہمراہی مَیں ہوتا ہوں یہاں تک کہ اس شخص اور وفاء عہد کے درمیان میں حائل ہو جاتا ہوں۔ تیسرے جو صدقہ نکالا کرو اُسے جاری کر دیا کرو کیونکہ جب کوئی صدقہ نکالتا ہے اور اُسے جاری نہیں کرتا تو میں اس صدقہ اور اس کے پورا کرنے کے بیچ میں حائل ہو جاتا ہوں۔ یہ کہہ کر شیطان چل دیا اور تین بار کہا، ہائے افسوس! مَیں نے اپنے راز کی باتیں موسیٰ سے کہہ دیں۔ اب وہ بنی آدم کو ڈرائے گا۔
(تلبیس ابلیس ص۳۹)​
سبق:
اپنی ذات کو بہتر سمجھنا، اسی بات سے شیطان خود ہلاک ہوا۔ کیونکہ اُس نے حضرت آدم علیہ السلام سے اپنے آپ کو بہتر سمجھا تھا۔ دین و مذہب تواضع و انکسار سکھاتاہے۔ لیکن دنیا فخر و انانیت سکھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل دنیا اہل دین کو نظرِ حقارت سے دیکھتے اور ان پر پھبتیاں کستے ہیں اور اُن کی حرکت سے شیطان خوش ہوتا ہے کہ وہ اس جیسا کام کر رہے ہیں اپنے عمل کو بھی بہت زیادہ نہیں سمجھنا چاہئے۔ عمر بھر ایک ایک لمحہ بھی خدا کی یاد میں گزارہ جائے تو بھی کچھ نہیں اور خدا کے بے پایاں انعامات کے مقابلہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں۔ ہر حال میں عمل کرو اور نظر خدا کے فضل و کرم پر رکھو اور عمل کر کے اپنے سے اوپر کے لوگوں کو دیکھو تا کہ عمل کر کے غرور پیدا نہ ہو۔ مثلاً اگر پانچ وقت کی نماز پڑھی ہے تو بزرگانِ دین کی طرف دیکھو جنہوں نے پانچ نمازوں کے علاوہ تہجد کی نمازیں اور دیگر نوافل بھی پڑھے ہیں۔ اس طرح اپنے عمل کا "بہت کچھ" ہونا نظر میں نہ رہے گا۔ کسی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا بہت خطرناک کام ہے۔ ایسی تنہائی میں شیطان ضرور پہنچتا ہے اور اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ آج کل نئی تہذیب نے شیطان کا یہ کام بڑا ٓسان کر دیا ہے۔ خدا تعالیٰ سے ہمارا ہر عہد پورا ہونا چاہئے۔ اور شیطان کے بس میں آ کر اس مصرعہ پر عمل نہ کرنا چاہئے کہ:
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا!

اور صدقہ و خیرات میں تاخیر ہر گز نہ کرنی چاہئے تا کہ شیطان کو رکاوٹ ڈالنے کا موقع نہ مل سکے۔
صدقہ و خیرا شیطان کے لئے ایسا ہے جیسے لکڑی کے لئے آرہ۔ لہٰذا شیطان کو جتنی جلدی ہو سکے اس آرہ کے نیچے لے آنا چاہئے۔
 
Top