'شیطانی نظام' کا ڈھانچہ: اصل کرپٹ کون ہے؟

پاکستان کے نظام حکومت میں اصل کرپٹ کون ہے؟

  • سیاستدان

  • بیوروکریسی،فوج اور عدلیہ

  • بیوروکریسی

  • فوج

  • عدلیہ


نتائج کی نمائش رائے دہی کے بعد ہی ممکن ہے۔
'شیطانی نظام' کا ڈھانچہ: اصل کرپٹ کون ہے؟
عدنان رسول

5459dfc307cac.jpg

یہ عام عقیدہ ہے کہ پاکستان میں دو طرح کی حکومتیں راج کرتی ہیں، فوجی اور سویلین سیاستدان، جو کہ محض سراب کے سوا کچھ نہیں۔
میرے پچھلے مضمون میں میں نے 'جاگیردار' سے جڑے فرضی خیالات کو بکھیرنے پر توجہ مرکوز دی تھی جسے تمام برائیوں کی جڑ تصور کیا جاتا ہے، جس کے لیے میں نے چند زمینی حقائق پیش کرکے بتایا تھا کہ ملک کی حقیقی 'اشرافیہ' کس طرح نظام کا استحصال کرتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ کررہی ہے۔
یہ مضمون اس بارے میں زیادہ وضاحت پیش کرتا ہے کہ کس طرح اشرافیہ نظام میں رہ کر کام کرتی ہے اور نظام حقیقت میں دیکھنے میں کیسا ہے۔
یہ عام عقیدہ ہے کہ پاکستان میں دو طرح کی حکومتیں راج کرتی ہیں، فوجی اور سویلین سیاستدان، جو کہ محض سراب کے سوا کچھ نہیں اور حقیقت اس کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔
درحقیقت فوج اور سیاست اس آپریشن کے چہرے ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں آزادی کے بعد سے ہمیشہ حکومت کے دو ہی چہرتے ہوتے ہیں، مگری ہاں بس ایک واحد آپریشن ہی ہمیشہ جاری رہتا ہے، اور اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ حکومت کس طرح کام کرتی ہے۔
حکومت تین مستقبل اور ایک تبدیل ہوتے حصے پر مشتمل ہوتی ہے، یہ تبدیل ہونے والا حصہ حکومتی چہرہ یا سیاستدان ہوتے ہیں، جبکہ مستقبل حصے بیوروکریسی، فوج اور عدلیہ پر مشتمل ہیں۔
بیوروکریسی:
بیوروکریسی حکومت کا تنہا سب سے اہم بازو ہوتی ہے اور سب سے بااثر بھی، چونکہ یہ پس پشت کام کرتی ہے اس لیے یہ غلطیوں کے الزامات سے بھی بچ جاتی ہے جبکہ کامیابیوں کا سہرہ ضرور اس کے سر سج جاتا ہے، حکومتی پروگرامز پر عملدرآمد کرنا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے اس لیے یہ عوام کے تصور سے بھی زیادہ بااثر ہوتی ہے، یہ وہ شعبہ ہے عوامی ریلیف پروگرامز کو ڈیزائن اور ان کا منصوبہ بناتی ہے جو بتدریج سیاستدانوں تک پہنچتا ہے جو پھر اس کو منظور یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اصولی بات کی جائے تو بیوروکریٹس کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ وہ اپنے معاملات کے ماہرین ہوں گے مگر یہ کوئی حقیقت نہیں، ڈی ایم جی(ضلعی منیجمنٹ گروپ) کے بیوروکریسی کی تمام صفوں پر بڑھتے ہوئے کنٹرول نے ایسی صورتحال پیدا کردی ہے کہ مہارت سے عاری بیوروکریٹس ضرورت سے زیادہ بااثر ہوگئے ہیں، مگر چونکہ وہ پس منظر میں کام کرتے ہیں اس لیے کوئی بھی اس مسئلے پر آواز نہیں اٹھاتا۔
مزید براں چونکہ انہیں ملازمتوں سے برطرف نہیں کیا جاسکتا اس لیے وہ حکومت کے کسی اور حصے کے مقابلے میں سب سے زیادہ کسی چیلنج کا سامنا کیے بغیر اپنا تحفظ کرلیتے ہیں۔
سب سے بدترین امر جو بیوروکریٹس کے ساتھ ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں معطل کردیا جائے یا او ایس ڈی بنادیا جائے، مگر اہم بات یہ ہے کہ بیوروکریسی ایک ادارہ جاتی یاداشت رکھتی ہے اور وہ جاتی ہے کہ پاکستان میں کس طرح کام کیا جانا چاہئے، تو اس لیے انہیں آسانی سے نظرانداز یا تنہا نہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ سول سروس میں اصلاحات کی تمام تر کوششیں شروع ہوتے ہی ختم ہوجاتی ہیں۔
عدلیہ:
عدلیہ نے اپنی موجودہ اہمیت حال ہی میں حاصل کی ہے جو کہ وکلاءتحریک نا نتیجہ ہے، عدلیہ اپنے آپریشنز کے اعتبار سے بیوروکریٹک ہے مگر بیوروکریسی سے موازنہ کیا جائے تو یہ اپنے کام کے دوران عوام سے زیادہ تعلق میں رہتی ہے، کیونکہ یہ اپنے فیصلوں کے ذریعے انہیں ریلیف پہنچانے والا ادارہ ہے۔
فوج:
فوج کو حکومت کے دیگر دو مستقل بازﺅں کے مقابلے میں بہت زیادہ عوامی توجہ حاصل ہوتی ہے اور انہیں پاکستان میں طرز حکمرانی کا چہرہ بھی سمجھا جاتا ہے، فوج کی بنیادی ذمہ داری سرحدوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوتا ہے، جبکہ قومی سیکیورٹی مفادات کے ساتھ نظام میں موجود بڑے مفادات کو برقرار رکھنا یقینی بنانے پر بھی توجہ دیتی ہے۔
سیاستدان 'سسٹم' کے صرف پچیس فیصد حصے پر مشتمل
سیاستدان حکومت کے تمام بازﺅں میں سب سے زیادہ عوام کے سامنے ہوتے ہیں، ان کی پوزیشن کا انحصار ہی عوامی ووٹوں پر ہوتا ہے مگر یہ سب سے کم مستقل حیثیت بھی رکھتے ہیں اور ان کے پاس تین مستقل حصوں کی ناکامیوں کی ذمہ داری کا بوجھ بھی قبول کرنا پڑتا ہے۔
یہ پیش منظر کہ عوام حکومت کا صرف پچیس فیصد حصہ ہی چنتے ہیں اور یہ پچیس فیصد حصہ ہی دیگر 5 فیصد حصے کے افعال کا ذمہ دار ہوتا ہے جو کسی بھی براہ راست الزامات سے محفوظ رہتے ہیں۔
پورے نظام کے اس ڈیزائن کو بنانے والی اشرافیہ اس کھیل کے اصولوں کو وضع کرتے ہیں، وہ اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ ان کے مخصوص مفادات کے خلاف نظام کے کسی حصے کے راستہ بدلنے کو کس حد برداشت کیا جانا چاہئے، تو جب نظام تھم جائے یا داخلی تنازع کے باعث مشکل کا شکار ہو تو درحقیقت اس وقت اشرافیہ کے مختلف گروپس کے درمیان اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جنگ چھڑی ہوئی ہوتی ہے۔
وہ لمحہ جب وہ اپنے تنازعات کا حل نکال رہے ہوتے ہیں تو وہ لمحات ہوتے ہیں جب اداروں میں تصادم بھی تھم جاتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستانی سیاست کی نشوونما کو اشرافیہ کی آپسی جنگ نے نقصان پہنچایا ہے جو سول اور فوجی قیادت کے ذریعے تیکینیکی تنازعات کے بھیس میں لڑی جاتی ہے، جبکہ اس تمام عرصے میں حقیقی مسائل پر کوئی بات چیت نہیں کی جاتی۔
حکومت پر اشرافیہ کا وجود برقرار رکھنے کے لیے مطمئن کرنا لازمی
عام افراد تصور کرتا ہے کہ حکومت خدمات ڈیلیور کرنے والا ادارہ ہے، تاہم سماجی انصاف اور مساوات کے بغیر حکومتی کا خدمات ڈیلیور کرنے والے طریقہ کار رخ سنجیدگی سے اپنے کور حلقہ انتخاب کی بقا یعنی اشرافیہ کی جانب مڑ جاتا ہے۔
ہر ایک کو احساس ہونا چاہئے کہ یہ ہمارے' نظام کا طریقہ ہے، اقتدار میں پر ایک کا کور حلقہ انتخاب عام عوام نہیں ہوتا، اور عوامی اشتعال حکومت کے صرف پچیس فیصد حصے پر ہی اثرانداز ہوتا ہے، جبکہ نظام کے مستقل حصے اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں چاہے چہرہ کوئی بھی ہو۔
یہ سمجھنا ناگزیر ہے کہ اس منظرنامے میں مختلف درجوں میں ہر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اختلافات کا محرک بننے والی چیزیں موجود ہوتی ہیں۔
سیاستدانوں کے لیے اپنی جمہوری مدت اقتدار کو پورا کرنے کے لیے توجہ کا مرکز اشرافیہ کو مطمئن کرنا ہوتا ہے جس کے باعث وہ اگلے انتخابی چکر میں کم عوامی معاونت کا شکار ہوجاتے ہیں، یہ چیز انہیں بددیانتی اور کرپشن کی تحریک دیتی ہے کیونکہ اس کے بدلے میں سزا بھی کافی بڑی ہوتی ہے یعنی انہیں ووٹ نہیں ملتے۔
عدلیہ سب سے کمزور بازو ہے جو ابھی بھی اپنے ممکنہ مقاصد کو جانچنے کے عمل سے گزر رہی ہے۔
دوسری جانب بیوروکریسی وہ ادارہ ہے جو سب سے زیادہ بددیانت اور کرپٹ ہے اور ان کو سزا بھی نہیں ملتی۔
کیا بیوروکریسی احمق ہے؟
تو اس وقت جب نظام سب سے زیادہ کرپٹ (بیوروکریسی) کو بغیر سزا کے چھوڑ دیتا ہے، تو یہ حکومت کے اس حصے(سیاستدانوں) کو کم بددیانت ہونے پر بھی سخت سزا دینا ظالمانہ لگتا ہے۔
مزید یہ کہ اس روایت کو جنم بھی کچھ حلقوں کے مفادات کے لیے دیا گیا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے عام افراد اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حکومت کا ایک خاص طبقہ(25 فیصد) تمام تر ناکامیوں اور مایوسیوں کا ذمہ دار ہے، اس توہین میں مزید اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب جمہوری حکومتوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ بیوروکریٹس سے کہا جائے کہ وہ سیاستدانوں کی افادیت اور کارکردگی کا فیصلہ کریں۔
کیا آپ کسی گروپ کا لیول یہاں دیکھ سکتے ہیں؟
اس مضمون کا مقصد حقائق کی مایوسی کن تصویر پیش کرنا نہیں تھا جیسا ہم دیکھنے کے عادی ہیں، اس کے مقابلے میں یہ مضمون اس چیز کی وضاحت کرنے کی کوشش تھا کہ کس طرح حکومت حقیقت میں کام کرتی ہے اور کس طرح عام افراد یہ جانے بغیر استعمال ہوتے ہیں کہ کون غلطیوں کا حقیقی ذمہ دار ہے۔
جیسا میں نے اپنے آخری مضمون میں کہا تھا کہ سماجی انصاف اور مساوات وہ اصلاحات ہیں جن کو شروع کیے جانے کی ضرورت ہے، کم از کم حکومت کے تمام شعبوں کو سزائیں تو یکساں بنیاد پر دی جانی چاہئے۔
انگریزی میں پڑھیں۔
 
Top