شیخ رشید اہل؛ نواز شریف نااہل ::: بابر ستار کا تجزیہ!

فرقان احمد

محفلین
پاناما کیس کا وہ فیصلہ ہے جس میں معروضیت سے زیادہ داخلی سوچ پائی جاتی ہے ۔ اب یہ کوشش مزید ابہام پیدا کررہی ہے ۔ بعد میں نااہلی کے چار مقدمات میں بھی ایک بنیادی سوال کا تاحال جواب نہیں مل سکا ہے۔ یہ سوال ان کی آئینی مثال اور تشریح ، اور اختیارات کی علیحدگی کی بابت ہے ۔ جسٹس عیسیٰ کی رائے اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ قالین کے نیچے چھپانے سے یہ معاملہ ختم نہیں ہوجائے گا۔ اس سے پانچ بنیادی سوالات جنم لیتے ہیں:

(1) کیا کاغذات ِنامزدگی میں ہونے والی ہر بھول چوک کے نتیجے میں امیدوار تاحیات نااہلی کا سامنا کرے گا، یا کسی کو قانونی شکنجے سے بچ نکل کر انتخابات لڑنے کی رعایت بھی حاصل ہوگی؟

(2) اگر کسی درخواست میں کچھ مخصوص حقائق کا ذکر نہیں کیا گیا، جن کی وجہ سے نااہلی کی سزا ہوسکتی ہے ، تو کیا اُنہیں تسلیم کیا جائے گا جب وہ امیدوار کسی حلف نامے میں ، یا کیس کی سماعت کے دوران عدالت یا ٹربیونل کے روبرو ظاہر کردے ؟

(3) کیا آرٹیکل 225انتخابی تنازعات پر آرٹیکل 184(3) کے تحت کارروائی کی درخواست کار استہ نہیں روکتا؟

(4) اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو کیا کسی امیدوار کی نااہلی یا اہلیت سے متعلق انتخابی تنازع عوامی دلچسپی کے دائرے میں آتا ہے؟یا کیا اس سے عوام کے بنیادی حقوق پر کوئی زد پڑتی ہے جس کی وجہ سے آرٹیکل 184(3) کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے ؟

(5) اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو کیا الیکشن سے متعلق تمام قواعد وضوابط اور طریق کار دراصل آرٹیکل 184(3) کے تابع ہے؟


ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انفرادی سیاست دانوں کو پہنچنے والے فائدے یا نقصان سے بالا تر ہوکر ان کا جواب تلاش کیا جائے ۔ یہ افراد کا نہیں، بلکہ آئین کی تشریح اور قانون کے نفاذ کا معاملہ ہے ۔ ہمیں اس بابت واضح، غیر مبہم اور دوٹوک اتفاق ِر ائے درکار ہے کہ کس نے کیا فیصلہ کرنا ہے اور کیوں ؟ کیا آئین عدلیہ کو نااہلی کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیتا ہے، یا سپریم کورٹ نے یہ اختیار آئین کی اپنی مرضی سے تشریح کرتے ہوئے حاصل کرلیا ہے ، اور ایسا کرتے ہوئے اس نے الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کی عملداری میں قدم رکھ دیا ہے ؟

قانونی تشریح کا اُلجھاؤ ::: بابر ستار (مکمل کالم کا ربط)
 
Top