شہزاد قیس

وقار..

محفلین
حیات بیچ کے خوش لَب قضا خریدیں گے
کرم ہُوا تو صنم کی رِضا خریدیں گے
چرا کے دِل کسی پرہیز گار گڑیا کا
وُفورِ عشق میں ڈُوبی دُعا خریدیں گے
جو سر میں اُنگلیاں پھیرے وُہ عکس لائیں گے
جو شعر پڑھتا ہو وُہ آئینہ خریدیں گے
کسی کے سامنے بھنبھوڑ کے لبوں سے گُلاب
گلابی گالوں پہ اُتری حیا خریدیں گے
مری کتاب ہے اور اُس حسین کی تصویر!
مجھے پتہ تو چلے ، آپ کیا خریدیں گے
طبیبِ عشق ! دَوا ’’حسبِ ذائقہ‘‘ کہہ دے
تو نرم ، میٹھی ، ملائم دَوا خریدیں گے
دَبی دَبی سی ہنسی قید کر کے بانہوں میں
لَبوں سے چہرے کی اِک اِک اَدا خریدیں گے
شراب خانہ مکمل پلا کے ساقی کو
بھری جوانی میں بہکی قضا خریدیں گے
ہم اَپنے شَہر کی ، ملکۂ حُسن کی خاطر
تمہارے شَہر سے ، اِک آئینہ خریدیں گے
ہر ایک چیز ، برائے فروخت رَکھ دیں گے
تمہارے پیار کی ، ہم اِنتہا خریدیں گے !
شراب بیچنے والوں پہ قیس حیراں ہُوں
شراب بیچ کے ، آخر یہ کیا خریدیں گے !
 
Top