شہزاد قیس

یوسف سلطان

محفلین

حشر میں ڈُھونڈ کے اُن کو کہا آداب جناب
خوب آنچل کو نہ پا کر ہُوئے آب آب جناب


آپ کے منہ سے تو جھڑنے لگے گُل گالی کے
ہم کسی اور کو بتلائیں گے یہ خواب جناب


حشر سے بھی ہے فُزوں ، کُوچۂ لیلیٰ کا جُنوں
قتل ہوتے ہیں کہاں حشر میں اِحباب جناب


زِندہ رہنے کا اُسے کوئی اَدِھیکار نہیں
مجنوں گر لیلیٰ کی خاطر نہ ہو بے تاب جناب


حُسن والوں سے کوئی جنگ کہاں جیتا ہے
حُسن کے پاؤں پڑے رُستم و سہراب جناب


گُل مہکنے سے ہے شاداب چمن ہستی کا
کس کی خوشبو نے کیے گُل سبھی شاداب جناب


چاند کو ڈُھونڈنے ہم سارے نکلتے ہیں مگر
ڈُھونڈنے کس کو نکلتا ہے یہ مہتاب جناب


آپ پہ لکھ دُوں میں دیوان مگر دیکھوں تو
منہ زَبانی تو میں لکھتا نہیں اِک باب جناب


آپ ’’تم جیسے‘‘ ہمیں شوق سے کہیے لیکن
ہو نہ جائیں کہیں ہم جیسے بھی نایاب جناب


قیس نے چاہا تمہیں ، جُرم کیا ، مان لیا
جُرم کے کس نے مہیا کیے اَسباب جناب!
 
Top