شہزادی از حسینہ معین

سارہ خان

محفلین
شہزادی
تحریر: حسینہ معین


میٹرن صاحبہ نگینہ شہاب کے ساتھ اس وقت کامن روم میں داخل ہوئیں جب حلوہ تقریباً دم پر تھا- شبو بڑے سلیقے سے ٹینس کی میز پر چائے کی پیالیاں لگا کر چائے انڈیل چکی تھی- افروز بڑی بوڑھیوں کی طرح لمبا سا جوڑا باندھے آلتی پالتی مارے دیگچی میں چمچہ چلا رہی تھی- نرگس اسٹو کی چولیں ڈھیلی کر رہی تھی- اور میں اور روبی بیٹھے ندیدوں کی طرح دیگچی میں سے اٹھتی بھاپ کو گھور رہے تھے- جیسے ہی دروازہ کھلا ہم سب کل سے چلنے والے کھلونوں کی طرح دھڑاک سے ادھر گھوم گئے- میٹرن صاحبہ شعلہ بار نظروں سے ہمیں گھور رہی تھیں- اور ان کے ساتھ دبلی پتلی سفید سی لڑکی یوں آنکھیں جھپکا جھپکا کر ہمیں دیکھ رہی تھی گویا ہم کوئی مضحکہ خیز ناٹک پیش کر رہے ہوں- ہوسٹل کے سجے سجائے کامن روم میں حلوہ بنانا تقریباً اتنا ہی بڑا جرم تھا جیسے کسی موٹے سیٹھ کو آٹھ دس گھونسے جڑ دینا- لیکن حیرت تواس بات پر تھی کہ میٹرن صاحبہ دو دن کی چھٹی پر گئی تھیں- وہ اس وقت ایک دم جن کی طرح یہاں کیسے آگئیں- یہ بات یقیناً ایسی تھی کہ ہم منجمد ہو کر رہ گئے- افروز دیگچی میں ایسے جھانک رہی تھی کہ جیسے وہاں سے نگاہ ہٹی تو قیامت ہی ٹوٹ پڑے گی- اور باقی سب منہ کھولے بڑی رحم طلب نگاہوں سے انہیں دیکھ رہے تھے- یا تو یہ نئے لڑکی کا کرم تھا یا پھر خود ہمارے چہروں پر برستی ہوئی بیچارگی کا اثر تھاکہ وہ سوائے اس کے اور کچھ نہ بولیں “ یہ نگینہ شہاب ہیں اور آج سے ہوسٹل میں آگئی ہیں-“
“ جی بہت اچھا آپ کا شکریہ-------تشریف لائیے بہت خوشی ہوئی- “
گھبراہٹ میں ہکلا ہکلا کر میں نہ جانے کیا کچھ کہہ گئی- میٹرن صاحبہ نگینہ کو چھوڑ کر خود پاؤں ٹپختی چلی گئیں- جب تک ان کے جوتوں کی آواز گیلری میں گونجتی رہی ہم سب بڑے ڈرامائی انداز میں ساکت و جامد رہے- پھر ایک دم سے افروز بڑے رومانی آواز میں بولیں “ ہائے نینی حلوہ تو جل گیا- “ اور ہم سب اس بری طرح بھاگ کر دیگچی کے پاس پہنچے جیسے کسی ترین ہستی کا عین عالم شباب میں ہارٹ فیل ہوگیا ہو- روبی نے بڑے فنکارانہ انداز سے باقی ماندہ حلوہ نکالا ، چائے پھر سے گرم کی گئی، اور ہم سب اسی طرح دھلے دھلائے پہنچ گےئے گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا- شبو نے بڑے شگفتہ انداز سے نگینہ کو آواز دی جو غریب حیران حیران سی ابھی تک دروازے کے پاس کھڑی تھی- اس نے نفی میں سر ہلا کر بہت دھیرے سے کہا “ جی شکریہ “-
“ اجی نہیں چائے تو پینا ہی ہوگی “- ہم سب اپنی اپنی پیالیاں اٹھاتے اس کی طرف دوڑے- اس نے پھر گھبرا کر گردن ہلا دی- “ واللًہ آپ کو میری قسم ذرا حلوہ تو چکھیے- دیکھئے کتنا لذیذ بنا ہے- اگر ذرا سا جلتا نہیں- میں نے ذرا آواز دبائے ہوئے کہا تو فرسٹ کلاس ہوتا “-
“ بالکل بالکل “ شبو نے پلیٹ بالکل اس کے منہ سے لگاتے ہوئے کہا:“ حلوہ پکانے میں افروز کا جواب نہیں-“
نگینہ گھبرا کر ایک صوفے پر بیٹھ گئی- دیکھیے میں اس وقت کچھ نہیں کھاؤں گی- اس نے قریب قریب گھگھیاتے ہوئے کہا-
“ اچھا جی آپ بالکل نہ کھائیں “افروز نے بڑی لمبی آہ بھری “ ہم تو آپ ہی کا جام صحت نوش فرمائیں گے “-
ایک ہفتہ بعد کالج کھلنے والا تھا- ہم نے جان توڑ کوشش کی کہ نگینہ سے دوستی ہوجائے- مگر وہاں زمین جنبد نہ جنبد گل محمد والا معاملہ تھا- شروع میں تو پیار سے ابتدا کی پھر تنگ کرنا شروع کیا- مگر وہ بڑے صبر سے برداشت کرتی رہی- جب کالج کھلا تو یہ معاملہ پورے گروپ کے سامنے رکھا گیا- چونکہ نگینہ اپنی ہی کلاس میں تھی اس لیے آسانی بھی تھی تو فیصلہ یہی کیا گیا کہ دوستی بہرحال اس لڑکی سے ضرور کرنی ہے- خواہ اس کے لیے ہمیں اپنی دوسری تمام تفریحات کو خیر باد ہی کیوں نہ کہنا پڑے- خدا کو بھی نیکی ہی منظور تھی انگلش کی ایک نئے لیکچرار مس عثمان آئیں- اول تو یہ بیچاری خود ہی کچھ بد حواس سی تھیں دوسرے ہماری کلاس میں تو گھستے ہی ان کا برا حال ہو جاتا- ادھر پوری سعنچری تھی(ہم تعداد میں سو تھے)- اور ادھر وہ اکیلی جان -عالم یہ ہوتا کہ پینتالیس منٹ کا یہ پیریڈ پارلیمینٹ کے ہنگامی اجلاس کا نظارہ پیش کرتا- لڑکیاں بڑی آزادی سے ہر موضوع پر ایک دوسرے سے گفتگو کرتیں- کاغذ کے ہوائی جہاز بنا کر اڑائے جاتے- چاک کے ٹکڑے ایک دوسرے کو مارے جاتے- کارٹون بنتے غبارے پھلا پھلا کر اچھالے جاتے اور مس عثمان کا لیکچر پورے زور و شور سے جاری رہتا- ایک بیچاری نگینہ ایسی تھی جہ بہت دل لگا کر لیکچر سنا کرتی- ایک دن ہم نے طئی کیا کہ آج نگینہ کو تنگ کیا جائے- ہم سب اس سے اگلی اور پچھلی سیٹوں پر جم کر بیٹھ گئے- مس عثمان جیسے ہی کلاس میں داخل ہوئیں پوری سینچری نے السلام علیکم کا نعرہ کھینچ مارا- مس عثمان کو اردو میں سلام کرنے سے سخت چڑ تھی- اور اسی لیے ہم دن میں خدا جھوٹ نہ بلوائے کوئی پچاس دفعہ با جماعت قراءت سے السلام علیکم کہا کرتے- دوسرے دن ان کے پیریڈ میں فصیح و بلیغ اردو میں گفتگو کی جاتی وہ خفا ہو کر فرماتیں Try To Speak Englishاور ہم شرما کر عرض کرتے We Cantاس وقت بھی انہوں نے چلا چلا کر Who is Thatکہنا شروع کیا- ہم سب تو چپ ہو گئے پچھلی سیٹوں سے طلعت نے چلا کر کہا- “ رحم مائی لارڈ رحم “ Who is That انہوں نے بگڑ کر پوچھا- بائیں جانب قدسیہ نے منہ چھپا کر زور سے کہا Your Ghost My Lord-
قہقہوں سے کلاس روم گونج گیا- اور مس عثمان نے خفا ہو کر (Attendence) لینا شروع کیا- ہر ظرح سے ستایا گیا لیکن مجال ہے کہ وہ ٹس سے مس بھی ہو- ایک بڑے سے کاغذ پر ایک مضحکہ خیز کارٹون بنا کر اسے دکھایا گیا اس پر نگینہ شہاب لکھا تھا- اس نے بڑی سنجیدگی سے شکریہ لکھ کر واپس کر دیا- میں نے جل کر کاغذ کا ایک پر بنا کر اس کے بالوں میں ٹھونس دیا- وہ اسی طرح بیٹھی رہی اور ہم اس کے مضحکہ خیز حلیہ پر ہنسنے لگے- دفعتاً مس عثمان کی کراری آواز آئی “ کھڑی ہو جائیے کیا نام ہے آپ کا------؟“ جانے انہوں نے کیسے دیکھ لیا تھا- وہ بڑی تیز نطروں سے مجھے گھور رہی تھیں - میں اطمینان سے بیٹھی رہی- “ سنا نہیں آپ نے کھڑی ہو جائیے “ وہ پھر چلائیں-
“ ارے بھئی کھڑی ہو نا دیکھو وہ تمہیں یاد کر رہی ہیں“- میں نے پیچھے بیٹھی ہوئی روبی کو ٹھونکا دیا-
“ جی کیا میں--؟ روبی ہکلائی “-
“ جی نہیں میں ان سے کہہ رہی ہوں -----؟ “- انہوں نے میری طرف اشارہ کیا- اس دفعہ میں نے نگینہ کو ہلایا- “ ارے تم سنتی نہیں وہ کیا کہہ رہی ہیں-----؟-“
“ جی نہیں میں آپ سے کہہ رہی ہوں-“ وہ غصہ کے مارے کھڑی ہو گئیں-
“ ہائے اللّہ آپ مجھ سے فرما رہی تھیں- توبہ توبہ کیسی زبردست بھول ہوئی- “ میں بڑی معصومیت سے کلے پیٹنے لگی- “ کیا نام ہے آپ کا ؟“- انہوں نے ڈپٹ کر پوچھا-
“ جی میرا نام----!“ میں نے شرماتے ہوئے کہا-“ نام وام میں کیا سب نگینہ شباب کہتے ہیں “-
نگینہ اس طرح چپ چاپ بیٹھی رہی- سب لڑکیاں ہنسنے لگیں-
“ جائیے آپ میری کلاس سے باہر نکل جائیے-“ وہ سخت خفا تھیں-
“ جی بہت اچھا-“ میں اطمینان سے کتابیں سمیٹنے لگی- ہاتھ میں وہ کارٹون تھا وہ میں نے ثروت کو پکڑا دیا- وہ بدتمیز ہنسنے لگی- “کیا ہے یہ--؟“ مس عثمان پھر خفا ہوئیں-
“ جی ایک کارٹون ہے-“ میں نے کاغذ انہیں تھمادیا-
“کس نے بنایا ہے“- انہوں نے پولیس والوں کی طرح سوال کیا-
“انہوں نے“- میں نے بسورتے ہوئی نگینہ کی طرف اشارہ کیا- یہ ہر وقت مجھے ستایا کرتی ہے-
“ جائیے آپ بھی چلی جائیے کلاس سے“- انہوں نے میز پر گھونسہ رسید کرتے ہوئے کہا- گویا یہ گھونسا عالم تصور میں انہوں نے میرے سر پر رسید کیا تھا- نگینہ میرے پیچھے کلاس سے نکل آئی- سیڑھیوں پر پہنچ کر میں بیٹھ گئی-
“ بیٹھ جاؤ “میں نے حکم دیا-“ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے “- وہ چپ چاپ بیٹھی رہی-
“ تم آکر ہر وقت بسورتی کیوں رہتی ہو- مجھے ایسے لوگ بالکل پسند نہیں آتے “-میں نے قطعی بگڑ کر کہا- میں چپ چاپ بیٹھی رہی- اس نے پینسل سے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا- پھر بولی-
“ چلیے کلاس میں چلیں----“
“ کلاس میں --“ میں نے آنکھیں پھاڑیں- “ کچھ دماغ چل گیا ہے- مس عثمان ڈنڈا لے کر دوڑیں گی “-
“ڈنڈے کھانے کو دل چاہ رہا ہے، چلیئے ناں۔“ وہ ہنسنے لگی۔
“ماشاء اللہ چشم بد دورخدا نظرٍ بد سے بچائے پوری کلاس میں‌مٹھائی بٹنا چاہئے لڑکی پہلی دفعہ ہنسی ہے۔“
میں نے اس کے پیچھے چلتے ہوئے کہا۔ ہم دونوں‌Excuse me کہتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے کلاس میں‌گھسے۔ لڑکیاں دم بخود تھیں۔ مس عثمان بھی حیران تھیں۔ نگینہ نے پرچہ ان کی میز پر رکھ دیا۔ اور ہم دونوں‌اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ پرچہ پڑھ کر مس عثمان اور بھی پریشان ہو گئیں۔ وہ بڑی رحم طلب نظروں سے ہمیں دیکھ رہی تھیں۔
“آپ کا نام کیا ہے؟“ انہوں‌نے نگینہ سے پوچا۔
“حسینہ“ اس نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔
“آپ کا ذکر تو بہت سنا ہے میں‌نے۔“ انہوں نے شاید جل کر کہا۔ اس وقت گھنٹی بجی ان کے جاتے ہی لڑکیوں‌نے لپک کر پرچہ اٹھایا تو وہ فلک شگاف قہقہے گونجے ہیں کہ گیلری سے گزرتی لڑکیاں بھی رک گئیں۔
پرچہ میں صرف ایک شعرتھا

شائد مجھے نکال کر پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

اسی دن نگینہ ہمارے گروپ میں شامل ہو گئی۔ وہ ایک دم سے اتنی زیادہ بدل گئی کہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ کہ یہ وہی لڑکی ہے جو کچھ دن پہلے منہ بسورا کرتی تھی کھیل کود میں وہ بہت تیز تھی۔ کالج میں۔۔۔۔Sportsہوئے تو اسے چیمپئین شپ کی شیلڈ ملی۔ اس کی سب سے زیادہ دوستی مجھ سے تھی۔ وہ میری بات کو حکم کی طرح مانتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس میں ایک طرح کا احساس برتری تھا۔ وہ سرحد کے کسی بہت امیر خاندان کی لڑکی تھی۔ وہ ہم سب سے زیادہ حسین اور طاقتور تھی۔ اس کے علاوہ وہ وائلن بجا سکتی تھی گاسکتی تھی اور بہترین رقص کر سکتی تھی۔ غالباً اپنی خوبیوں نے اسے مغرور بنا دیا تھا۔ بعض اوقات اس کا رویہ اس قدر تحقیر آمیز ہوجاتا کہ میرا دل چاہتا کہ میں کبھی اس لڑکی سے بات نہ کروں۔

نمی کی شادی ہونے والی تھی۔ نگینہ دو دن سے غائب تھی جب وہ آئی تو میں نے اسے بتایا کہ نمی کی شادی ہونے والی ہے تیاریاں کر لو اور ہاں‌تحفے کے لیے دس روپے بھی لیتی آنا۔ (وہ ہوسٹل جا چکی تھی)پہلے تو وہ چپ ہو گئی پھر دفعتاً اس کا چہرہ چمک اتھا۔ بولی۔

“دیکھو نینی! میں‌نمی کی شادی میں نہیں‌ جا سکوں گی۔ میں‌تمہیں وجہ بتا دیتی ہوں نمی کو بھی بتا دینا۔“ میرے بابا کوہستانی علاقہ کے شاہ کہلاتے ہیں ان کے اپنے پچاس سے زیادہ گاؤں ہیں میں‌تو صرف اپنے ماما کی زبردستی سے پڑھ رہی ہوں‌ورنہ خود مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہماری روزمرہ کی زندگی شاہی طریق سے بسر ہوتی ہے میں‌کوہستانی شہزادی کہلاتی ہوں۔ میرے والدین معمولی لوگوں‌سے نہ خود ملتے ہیں نہ مجھے ملانا پسند کرتے ہیں۔ اس سے ہماری ذلت ہوتی ہے۔“

اس کا چہرہ سرخ‌ہو رہا تھا۔ وہ لاپروائی سے ہنس رہی تھی۔ میں خاموش ہو گئی۔ دراصل مجھے اپنے اوپر غصہ آرہا تھا میں‌کیوں‌اس سے ملتی ہوں۔ جبکہ وہ ہمیں ذیلیل سمجھتی ہے۔ نمی کے ولیمے میں‌جانے کے لیے سب لڑکیاں‌ کپڑے وغیرہ لے کر ہمارے پاس ہوسٹل ہی میں‌آگئی تھیں چونکہ نمی کی سسرال کالج کے قریب ہی تھی اس لیے سوچا کہ یہیں سے چلے جائیں گے۔ جس وقت ہم تیار ہو رہے تھے نگینہ بھی آگئی۔ آج وہ بے حد خاموش تھی۔ مسہری پر اوندھی لیٹی ہوئی ہم سب کو دیکھتی رہی اسے غالباً اپنے اکیلے رہ جانے کا صدمہ تھا۔ ہم نے خاص اس موقع کے لیے زردوزی، غرارے، قمیضیں اور زرتار دوپٹے بنوائے تھے۔ وہ ہم کو جلدی جلدی تیار ہوتے دیکھ رہی تھی۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔ اور آنکھوں‌ میں آنسو جھلک رہے تھے۔ میں نے اس کا دھیان ہٹانے کو آواز دی۔
“نگی ذرا یہاں‌ آؤ۔ ڈئیر میرے بال ٹھیک کر دو“۔
وہ خاموشی سے ننگے پاؤں میرے قریب آگئی۔ دھیرے دھیرے میرے بال ٹھیک کر کے اس نے میری چوٹیوں‌پر کرن اور پھولوں کے ہار لپیٹ دیے۔ دوپٹا اٹھا کر میرے کاندھوں پر ڈالتے ہوئے بولی۔ “ماشاء اللہ“۔ میں نے کہا:‌“نگی کسی دن اپنا شہزادیوں والا لباس پہن کر آؤ نا میں‌ دیکھوں کہ تم کتنی پیاری لگتی ہو اس لباس میں۔۔۔“
“شہزادیوں والا لباس؟“ اس نے کھوئے کھوئے کہا۔
“دیکھو یہ دوپٹا تمھارے اوپر کتنا پیارا لگتا ہے۔“ میں نے اپنا دوپٹہ اس کے سر پر ڈال دیا۔ وہ چند لمحے ساکت آئینہ کے سامنے کھڑی رہی۔ اس کا چہرہ نہ جانے کیوں‌ہلدی کی طرح‌زرد پڑ گیا تھا۔ “اوئے شہزادی صاحبہ۔“ میں‌نے پیار سے اس کے گال تھپتھائے۔
“نینی“ وہ تڑپ کر الگ ہوگئی۔ وہ دوپٹا اس نے نوچ کر ایک طرف پھینک یدا اور مجھے بے دردی سے دھکا دے کر گراتی ہوئی باہر نکل گئی۔۔۔
“یہ لوگ جنگلی ہوتے ہیں۔“ ثروت نے مجھے اٹھاتے ہوئے کہا۔
“مغرور کہیں کی!“ غالباً! ریحانہ نے جل کر کہا۔
شام کو جب نمی کے یہاں سے واپس آئی تو نگینہ میرے کمرے میں‌موجود تھی۔ “نینی تم مجھ سے خفا تو نہیں۔۔۔۔؟“اس نے کچھ ایسی معصومیت سے پوچھا کہ مجھے ہنسی آگئی۔
“تم بالکل جنگلی شہزادی ہو۔“ میں‌نے کہا۔۔۔۔
“تم شہزادی کہتی ہو نا تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تم میرا مذاق اڑا رہی ہو۔ دوسرے بعض اوقات بھول جاتی ہوں‌کہ تم لوگ میرے کلاس فیلو ہو میں‌محسوس کرنے لگتی ہوں‌کہ تم لوگوں کو بھی میرے ساتھ اس تعظیم سے پیش آنا چاہئے جیسے سب آتے ہیں۔ اس کے علاوہ تم لوگ میرے ہم رتبہ بھی نہیں، دیکھو نینی برا نہ ماننا تم میری پہلی دوست ہو اور ہم لوگ دوستوں سے بے وفائی نہیں‌کرتے۔ خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجے کا کیوں‌نہ ہو۔ دوست کے پیچھے جان تک دینے کو تیار رہتے ہیں۔ تم نے مجھے معاف کر دیا نینی“۔ اس نے پوچھا۔ “نگی دیکھو میں‌ زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی۔ مانتی ہوں‌کہ تم بہت بڑی شہزادی ہو لیکن میں‌کیا کروں میں اپنی تذلیل برداشت نہیں‌کر سکتی۔ نگی اگر تم کو کالج میں رہنا ہے اور مجھ سے دوستی رکھنا ہے تو تمہیں نگی بن کر رہنا پڑے گا۔ کوہستانی شہزادی میری دوست نہیں۔ تم سوچ لو، نگی۔“ میں کپڑے بدلنے غسل خانے میں‌چلی گئی۔ جب واپس آئی تو وہ جاچکی تھی۔
اس کے ایک ہفتے بعد تک وہ کالج نہ آئی۔ میں اپنے رویے پر نادم تھی۔ میں سوچتی تھی غلطی میری ہے وہ ساری عمر حکم منوانے کی عادی ہے وہ میرے حکم کو خود کیوں‌کر مان سکتی ہے۔ وہ خود بھی مجبور ہے، لائبریری سے پتہ لے کر میں ایک شام اس کے گھر پہنچی سرخ رنگ کی ایک طویل عمارت تھی، باہر باغ میں ٹہلتی ہوئی مجھے ایک کوہستانی لڑکی ملی۔ اس کا لباس واقعی کچھ پہاڑی لڑکیوں جیسا تھا۔ گھیر دار ریشمی شلوار، پنڈلیوں‌سے اوپر چاندی کے گھنگھروں سے بندھی تھی۔ بلاؤز پر بڑے بڑے گول چمکدار بٹن لگے تھے۔ سر پر سرخ‌رنگ کا رومال بندھا تھا جس کے چاروں طرف موتیوں‌کی جھالر تھی۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں مجھ سے پوچھا: “آپ کس سے ملنے آئی؟“
“نگینہ سے“۔ میں‌نے جواب دیا۔
“ٹھہریئے میں‌ ملازم کو آواز دیتی ہوں‌وہ آپ کو اس کے پاس پہنچادے۔“
“کیا وہ یہاں‌نہیں ‌رہتی؟
“نہیں وہ رہتی تو یہیں‌ ہے لیکن اس وقت اپنے کمرے میں‌ہوگی۔“ انہوں نے کہا۔
“کیا وہ آپ کی بہن ہے؟“ میں‌نے پوچھا۔
“نہیں تو، وہ میری خادمہ ہے۔ دراصل وہ ہمارے دھوبی کی لڑکی ہے گل تین سال ہوئے مر گیا۔ گل کو میرے بابا نے گولی مار دی تھی کیونکہ اس نے بابا کی پگڑی جلا دی تھی۔ اس کی ماں‌ہمارے ہاں باورچن ہے نگی میرا کام کرتی ہے اس کے علاوہ آس پاس والوں کے کپڑے بھی دھوتی ہے“۔ اس نے تالی بجاتے ہوئے کہا-
“وردی پہنے ہوئے ایک نوکر آیا۔ “ان کو نگی کے پاس پہنچا دو“ انہوں‌نے ملازم سے کہا۔ “لیکن اب تو نگی نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ اس نے اپنی ساری کتابیں چولہے میں ڈال کر جلا دیں۔ حالانکہ اس کی ماں‌نے اس کو ساری عمر کے لیے ہماری خادمہ اس لیے بنایا تھا کہ ہم اس کو انگریزی تعلیم دلا دیں۔ “-
وہ یہ کہتی ہوئی اور ہنستی ہوئی واپس لوٹ گئی - گویا یہ کوئی دلچسپ لطیفہ تھا- میں نہ چاہتے ہوئے بھی بے حس و حرکت ملازم کے ساتھ نگی کے کوارٹر تک چلی گئی- دروازے سے میں نے اندر دیکھا نگی موٹے کھدر کا نیلا لمبا سا کرتا پہنے تھی- جو اس کے بازوؤں اور بینو سے بالکل پھٹا ہوا تھا- سنہری گھنگھریالے بال بکھرے ہوئے تھے-
سر پر ایک ملجگا رومال بندھا ہوا تھا- مجھے دیکھتے ہی اس کی چیخ نکل گئی- وہ دھلے ہوئے کپڑوں پر استری کر رہی تھی- استری اس نے زمیں پر ٹپخ دی- سرخ سرخ انگارے چاروں طرف بکھر گئے- وہ پاگلوں کی طرح چلائی-“ تم یہاں کیوں آئی ہو؟ کیوں آئی ہو؟ تم یہی معلوم کرنا چاہتی ہو نا کہ میں کوہستانی شہزادی ہوں یا نہیں- تم انتقاملینے آئی ہو- جاؤ سب سے کہ دینا “ نگی ایک ذلیل خادمہ ہے جس کے باپ کو خان اعظم کی پگڑی جلا دینے پر گولی سے مار دیا گیا تھا- جس کی ماں کھانا بد مزا کرنے پر الٹی لٹکا دی جاتی ہے- اور جن کی بیٹی قصور کرنے پر کوڑوں سے پیٹی جاتی ہے “- آؤ دیکھہ میرے جسم پر ایک انچ بھی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں نیل نہ پڑے ہوں - تمہیں خوشی ہوگی نا جاؤ خوب خوش ہو مجھے کوئی پروا نہیں- جاؤ نکل جاؤ یہاں سے “-
وہ کمر پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی- پھٹے ہوئے کرتے میں سے اس کے سفید جسم پر مجھے ایسا لگا جیسے ہزاروں کالے کالے سانپ رینگ رہے ہوں- سنہری بالوں کے ہالے میں اس کا سرخ چہرہ دمک رہا تھا- جیسے وہ سچ مچ کی شہزادی ہے- اور ابھی ابھی مجھے موت کا حکم سنا دے گی -کیونکہ میں نے اس کی تو ہیں کی تھی- دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے کمرے سے نکل آئی- دروازے سے نکلتے ہوئے دفعتاً مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی سسک سسک کر کہہ رہا ہو “ دوست خدا حافظ“-
پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ھمت نہ تھی- ہو سکتا ہے یہ محض میرا وہم ہو- بہرحال مجھے ایسا لگا جیسے کوہستانی شہزادی کا اٹھا ہوا سر میرے آگے جھک گیا ہو- اس کے تمتماتے ہوئے چہرے پر زردی پھوٹ پڑی اور اس نے دھیرے سے اپنے آنسوؤں سے تر گالوں کو میرے بازو پر رکھ دیا ہو-

“ختم شد“-
 
Top