شہزادوں جیسی آن بان والا کیپٹن وطن پر قربان ہوگیا

زنیرہ عقیل

محفلین
پچھلے ظلم کا حساب تو دینا ہوگا۔ پالیساں تبدیل کرنے کا مطلب ہے کہ پہلی پالیسیاں غلط تھی۔ جن جرنیلوں اور اہلکاروں نے یہ پالیسیاں بنائی اور اِن پر عمل کیا وہ قومی مجرم ہیں۔ اور انہیں بچانا بدترازجرم۔
تو کیس شروع کر دیجیے کسی عدالت میں ڈکٹیٹر کے خلاف آج کل ویسے بھی چیف جسٹس صاحب سر گرم ِ عمل ہیں
 

زنیرہ عقیل

محفلین
تو ہٹانا فوج کا کام رہ گیا ہے؟
جس نے ہٹایا تھا اس کے وقتوں میں تو سب خاموش ہی بیٹھے تھے
اب جبکہ چڑیا چُگ گئی کھیت تو اعتراضات شروع
لیکن اب بھی پاکستان کے عوام سے یہی امید ہے کہ کوئی ڈکٹیٹر صاحب کے خلاف کچھ نہیں بولےگا
نہ ہی کوئی کیس فائل کرےگا
 

سین خے

محفلین
افواج پاکستان نے اپنی پالیسی تبدیل کر دی ہے
یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کررہا تھا
یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے ساتھ رویہ تبدیل کر لیا ہے
اور اب پاکستان اندرونی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کرےگا

اب کیا پالیسی بنائی گئی ہے؟ ذرا وضاحت سے بتائیے۔

ہم جس وجہ سے گرے لسٹ پر آرہے ہیں اس کے بارے میں بھی ذرا تفصیل سے بتائیے۔ ہو سکے تو سورس بھی دے دیجئے گا۔

اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے موقف کے بارے میں بھی ذرا سورس دے دیجئے۔ اور یہ بتائیے گا کہ کونسے اندرونی معاملات ہیں؟
 

سین خے

محفلین
پچھلے ظلم کا حساب تو دینا ہوگا۔ پالیساں تبدیل کرنے کا مطلب ہے کہ پہلی پالیسیاں غلط تھیں۔ جن جرنیلوں اور اہلکاروں نے یہ پالیسیاں بنائی اور اِن پر عمل کیا وہ قومی مجرم ہیں۔ اور انہیں بچانا بدترازجرم۔

آصف اثر بھائی میں آپ کے موقف کی مکمل تائید کرتی ہوں پر اس پر گفتگو کسی حد تک اس لڑی کے موضوع سے متعلق نہیں ہے۔ میری گزارش ہے کہ آپ پختون تحریک کے بارے میں ایک الگ لڑی بنا لیجئے تاکہ ہمیں بھی اپنے پختون بہن بھائیوں کا ساتھ دینے کا موقع مل جائے :)
 

زنیرہ عقیل

محفلین
اب کیا پالیسی بنائی گئی ہے؟ ذرا وضاحت سے بتائیے۔

ہم جس وجہ سے گرے لسٹ پر آرہے ہیں اس کے بارے میں بھی ذرا تفصیل سے بتائیے۔ ہو سکے تو سورس بھی دے دیجئے گا۔

اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے موقف کے بارے میں بھی ذرا سورس دے دیجئے۔ اور یہ بتائیے گا کہ کونسے اندرونی معاملات ہیں؟

یہ تمام جوابات تو آپ خود بھی سرچ کر سکتی ہیں لیکن آپ کہتی ہو تو بتا دیتی ہوں لیکن اس کے بعد مزید بحث کے لیے سوالوں کی بوچھاڑ نہ کر دینا . ہاہاہاہاہا

پالیسی کی تبدیلی کے واضح ثبوت چند ماہ پہلے ہی سامنے آچکا تھا

1) ٹرمپ کے الزامات بے بنیاد ہیں‘امریکا پاکستان سے ڈو مور چاہتا ہے لیکن ہمارا جواب نو مور ہے۔ترجمان پاک فوج

پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹ پر بھرپورردعمل دیا ۔پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ یہ جنگ ہماری نہیں پھربھی ہم نے لڑی ،دہشتگردی کیخلاف پاکستان نے70ہزار جانوں کی قربانیاں دیں لیکن امریکا کے مطالبات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔پاک فوج پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ پیسوں کیلئے نہیں لڑی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دوستوں کے ساتھ مل کرکام کرناچاہتے ہیں لیکن بس اب بہت ہوچکا،امریکا پاکستان سے ڈو مور چاہتا ہے لیکن ہمارا جواب نو مور ہے۔ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کہہ چکے ہیں پاکستان میں دہشتگردوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ،دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں ہیں، امریکا کو وہاں کارروائی کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہار رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتے ہیں۔

http://www.bathak.com/pakistan/dg-ispr-donald-trump-america-150757

2) ٹرمپ کی دھمکیوں پر ترجمان پاک فوج کا منہ توڑ جواب

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاکستان اپنی عزت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا ، امریکہ سے جو بھی رقم وصول کی وہ اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں اپنے اخراجات کے عوض حاصل کی، ہم دوستوں سے تنازعہ نہیں چاہتے لیکن کسی سے نوٹسز بھی نہیں لے سکتے، آئی ایس پی آر ہیڈ آفس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان نے 2 بار درآمد شدہ جنگ اپنی دھرتی پر لڑی لیکن ہم نے بہت کرلیا اور اب کسی کیلئے اس سے زیادہ نہیں کرسکتے۔
ہم نے امریکہ سے جو بھی رقم حاصل کی وہ اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں حاصل کی جس کا مطلب ہے کہ ہمیں افغانستان میں امن کیلئے کام میں خرچ ہونے والی رقم واپس کی گئی، انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں القاعدہ کو کبھی سپورٹ نہیں کیا، پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دہشتگرد تنظیم موجود ہے، شمالی وزیر ستان میں آپریشن ضرب عضب کے دوران حقانی نیٹ ورک سمیت ہر قسم کے دہشتگردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں کیں، 27 لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا ہے پاکستان افغانستان میں امن کیلئے پوری کوشش کر رہا ہے ہم نے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کردیا ہے جبکہ اضافی چیک پوسٹس بنانے کا کام بھی شروع کردیا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یہ امریکہ اور افغانستان کیلئے وقت ہے کہ وہ پاکستان سے ڈومور کہنے کی بجائے خود ڈو مور کریں پاکستان سے زیادہ کسی نے دہشتگردی کے خلاف کچھ نہیں کیا، امریکہ کو بھارت کے پاکستان مخالف رویوں کا افغانستان اور ایل او سی پر جائزہ لینا ہوگا، ہم اپنی عزت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے ہم دوستوں سے تنازعہ نہیں چاہتے لیکن کسی سے نوٹسز بھی نہیں لے سکتے

ٹرمپ کی دھمکیوں پر ترجمان پاک فوج کا منہ توڑ جواب

2 مئی 2011 ءکو اسامہ کیخلاف ایبٹ آباد آپریشن کے واقعے پر بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی ہوگئی

اسی طرح سال 2011 ءمیں ہی 26 نومبر کو پاک افغان سرحد پر سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کا واقعہ پیش آیا جس میں 28 پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔دونوں ملکوں کےدرمیان تعلقات میں مزید تناﺅ بڑھ گی

امریکا نے پاکستانی امداد روک کر حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی اور سی آئی اے کیلئے کام کرکے ایبٹ آباد آپریشن میں کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا

اس وقت کے پاکستانی وزیر داخلہ چودھر ی نثار نے ٹرمپ کو اپنے ردعمل میں کہا کہ پاکستان امریکی کالونی نہیں ہے اور ڈاکٹر شکیل کا فیصلہ پاکستان کریگا اور ظاہر ہے چودھری نثار نے اتنا بڑا بیان کس طاقت کی بنیاد پر دیا ہوگا

گرے لسٹ میں پاکستان کا نام ڈالنے کی امریکہ کی کوشش وجہ "نو مور"

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے دہشتگردوں کے معاون ممالک سے متعلق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام آنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جون میں اس لسٹ میں پاکستان کا نام ڈال دیا جائے گا
 

زنیرہ عقیل

محفلین
آصف اثر بھائی میں آپ کے موقف کی مکمل تائید کرتی ہوں پر اس پر گفتگو کسی حد تک اس لڑی کے موضوع سے متعلق نہیں ہے۔ میری گزارش ہے کہ آپ پختون تحریک کے بارے میں ایک الگ لڑی بنا لیجئے تاکہ ہمیں بھی اپنے پختون بہن بھائیوں کا ساتھ دینے کا موقع مل جائے :)

پختونوں کی لڑیاں بنانے کی بجائے انکو تعلیم صحت اور قومی دھارے میں لاکر تمام ضروری سہولیات دینے کی کوشش کیجیے
اور انفرادی طور پر آپ کے شہروں میں مزدوری کرنے والے چھوٹے بچوں کو تعلیم دیں اور کم از کم کسی ایک بچے کو پڑھا کر اپنا حق ادا کریں. اور یہ جو پشین نما ے لوگ ہیں جو افواج پاکستان کے خلاف ہیں اور ساتھ ہی ملک کو توڑنے کی کوشش کرنے والے لوگ ہیں انکا قلع قمع کریں
 

زنیرہ عقیل

محفلین
پچھلے ظلم کا حساب تو دینا ہوگا۔ پالیساں تبدیل کرنے کا مطلب ہے کہ پہلی پالیسیاں غلط تھیں۔ جن جرنیلوں اور اہلکاروں نے یہ پالیسیاں بنائی اور اِن پر عمل کیا وہ قومی مجرم ہیں۔ اور انہیں بچانا بدترازجرم۔
پھر تو آپ پچھلوں کا حساب لیاقت علی خان کے قتل سے شروع کریں اور ایک ایک کرکے تمام کو سزا دلوائیں
لال مسجد پر حملہ کرنے والوں کو بھی سزا دلوائیں
جرنیل جنہوں نے ڈو مور پرلبیک کہا انکو کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیں
قوم بھی آپ کا ساتھ دیگی
 

زنیرہ عقیل

محفلین
ہم پاکستانی فوج کا ساتھ اُس وقت تک دیں گے جب تک وہ ”پاکستانی“ رہے گی۔ غیروں کے ایجنڈوں پر اپنوں کو تباہ کرنے والے لوگ فوجی نہیں قاتل کہلاتے ہیں۔ امریکہ سے اربوں ڈالر لے کر پختونوں کی نسل کُشی کرنے والے فوجی اہلکار ہوں یا جرنیل کوئی ماورا نہیں۔ میڈیا کے ذریعے فوج کو فرشتے ثابت کرنے کی اوچھے ہتھکنڈے اب نہیں چل سکتے۔ یہی لوگ اس ملک کے ساتھ غداری کے مرتکب اور فوج کے خلاف خود ہی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ ہر ہر مجرم کو کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ فوجیوں کی شکل میں اِن مخصوص قاتلوں اور لُٹیروں کو ہم پاکستانی فوج کبھی بھی نہیں مان سکتے۔ جنہوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کیا۔ مذکورہ کیپٹن اور ان جیسے دیگر بےگناہ شہیدوں کا خون بھی اُن پالیسی سازوں پر ہے جنہوں نے نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ یہ خون معاف نہیں ہوگا۔ ہم پاکستان کے ترانے ضرور گائینگے لیکن غیروں کے پے رول پر لڑنے والے پاکستان دشمن فوجیوں کے گُن کبھی نہیں۔
باقی اس ٹاپک کو یہیں ختم سمجھے۔
در اصل آپ اس وقت تک فوج کا ساتھ دے رہے تھے جب وہ غیروں کے ایجنڈے پر عمل کر رہا تھا
لیکن اب جبکہ حالات بدل رہے ہیں تو غیروں کے کہنے پر فوج کے خلاف ڈرامے بازیاں شروع ہو گئیں
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
جو خطہ جنگ کا مرکز بن جائے، اس خطے کے باشندوں کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عدم تحفظ کا احساس اس خطے کے باسیوں کی رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے۔ تاہم، بطور ادارہ فوج پر ایک حد سے زیادہ تنقید نہیں کی جانی چاہیے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ سول اور فوجی قیادت مقامی باشندوں کے ساتھ مل کر ان مسائل کا حل نکال لے گی۔
 

زنیرہ عقیل

محفلین
جب ایک ایسی گفتگو جو ملک و قوم اور شہداء کے حوالے سے ہو اور اس میں کسی نے کوئی لطیفہ بھی نہ سنا یا گیا ہو ایسے موقعے پر ریٹنگ سے شخصیت کا پتہ چلتا ہے حقیقت پسند حق اور سچ بات کو تسلیم کرتے ہیں اور کھسیانے لوگ کھسیانی ریٹنگ دے کر اپنی شرمندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں

فرقان احمد صاحب نے بہت اچھے انداز میں کمنٹس کیے جو تعمیری ہیں اور میں داد دیتی ہوں
اور آصف اثر صاحب کے لیے بہت ساری دعائیں جن کی ذہنی پرورش شاید سوشل سائیٹس کی ہے
 

زنیرہ عقیل

محفلین
ہم پاکستانی فوج کا ساتھ اُس وقت تک دیں گے جب تک وہ ”پاکستانی“ رہے گی۔ غیروں کے ایجنڈوں پر اپنوں کو تباہ کرنے والے لوگ فوجی نہیں قاتل کہلاتے ہیں۔ امریکہ سے اربوں ڈالر لے کر پختونوں کی نسل کُشی کرنے والے فوجی اہلکار ہوں یا جرنیل کوئی ماورا نہیں۔ میڈیا کے ذریعے فوج کو فرشتے ثابت کرنے کی اوچھے ہتھکنڈے اب نہیں چل سکتے۔ یہی لوگ اس ملک کے ساتھ غداری کے مرتکب اور فوج کے خلاف خود ہی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ ہر ہر مجرم کو کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ فوجیوں کی شکل میں اِن مخصوص قاتلوں اور لُٹیروں کو ہم پاکستانی فوج کبھی بھی نہیں مان سکتے۔ جنہوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کیا۔ مذکورہ کیپٹن اور ان جیسے دیگر بےگناہ شہیدوں کا خون بھی اُن پالیسی سازوں پر ہے جنہوں نے نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ یہ خون معاف نہیں ہوگا۔ ہم پاکستان کے ترانے ضرور گائینگے لیکن غیروں کے پے رول پر لڑنے والے پاکستان دشمن فوجیوں کے گُن کبھی نہیں۔
باقی اس ٹاپک کو یہیں ختم سمجھے۔
اگر آپ حقیقت پسند ہیں اور آپ حق بجانب ہیں تو مجھے اپنی ایک پوسٹ ایک تحریر ایسی بتا دیجیئے جس میں قبائل پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے جرنیل کے خلاف کوئی احتجاج ریکارڈ کروایا ہو جس میں امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت کے خلاف کچھ تحریر ہو.
اگر ایسا نہیں ہے تو پھرصاف الفاظ میں کہونگی برا مت مانیئے آپ صرف ڈرامہ کر رہے ہو
 

یاز

محفلین
یہ تمام جوابات تو آپ خود بھی سرچ کر سکتی ہیں لیکن آپ کہتی ہو تو بتا دیتی ہوں لیکن اس کے بعد مزید بحث کے لیے سوالوں کی بوچھاڑ نہ کر دینا . ہاہاہاہاہا

پالیسی کی تبدیلی کے واضح ثبوت چند ماہ پہلے ہی سامنے آچکا تھا

1) ٹرمپ کے الزامات بے بنیاد ہیں‘امریکا پاکستان سے ڈو مور چاہتا ہے لیکن ہمارا جواب نو مور ہے۔ترجمان پاک فوج

پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹ پر بھرپورردعمل دیا ۔پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ یہ جنگ ہماری نہیں پھربھی ہم نے لڑی ،دہشتگردی کیخلاف پاکستان نے70ہزار جانوں کی قربانیاں دیں لیکن امریکا کے مطالبات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔پاک فوج پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ پیسوں کیلئے نہیں لڑی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دوستوں کے ساتھ مل کرکام کرناچاہتے ہیں لیکن بس اب بہت ہوچکا،امریکا پاکستان سے ڈو مور چاہتا ہے لیکن ہمارا جواب نو مور ہے۔ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کہہ چکے ہیں پاکستان میں دہشتگردوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ،دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں ہیں، امریکا کو وہاں کارروائی کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہار رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتے ہیں۔

http://www.bathak.com/pakistan/dg-ispr-donald-trump-america-150757

2) ٹرمپ کی دھمکیوں پر ترجمان پاک فوج کا منہ توڑ جواب

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاکستان اپنی عزت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا ، امریکہ سے جو بھی رقم وصول کی وہ اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں اپنے اخراجات کے عوض حاصل کی، ہم دوستوں سے تنازعہ نہیں چاہتے لیکن کسی سے نوٹسز بھی نہیں لے سکتے، آئی ایس پی آر ہیڈ آفس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان نے 2 بار درآمد شدہ جنگ اپنی دھرتی پر لڑی لیکن ہم نے بہت کرلیا اور اب کسی کیلئے اس سے زیادہ نہیں کرسکتے۔
ہم نے امریکہ سے جو بھی رقم حاصل کی وہ اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں حاصل کی جس کا مطلب ہے کہ ہمیں افغانستان میں امن کیلئے کام میں خرچ ہونے والی رقم واپس کی گئی، انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں القاعدہ کو کبھی سپورٹ نہیں کیا، پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دہشتگرد تنظیم موجود ہے، شمالی وزیر ستان میں آپریشن ضرب عضب کے دوران حقانی نیٹ ورک سمیت ہر قسم کے دہشتگردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں کیں، 27 لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا ہے پاکستان افغانستان میں امن کیلئے پوری کوشش کر رہا ہے ہم نے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کردیا ہے جبکہ اضافی چیک پوسٹس بنانے کا کام بھی شروع کردیا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یہ امریکہ اور افغانستان کیلئے وقت ہے کہ وہ پاکستان سے ڈومور کہنے کی بجائے خود ڈو مور کریں پاکستان سے زیادہ کسی نے دہشتگردی کے خلاف کچھ نہیں کیا، امریکہ کو بھارت کے پاکستان مخالف رویوں کا افغانستان اور ایل او سی پر جائزہ لینا ہوگا، ہم اپنی عزت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے ہم دوستوں سے تنازعہ نہیں چاہتے لیکن کسی سے نوٹسز بھی نہیں لے سکتے

ٹرمپ کی دھمکیوں پر ترجمان پاک فوج کا منہ توڑ جواب

2 مئی 2011 ءکو اسامہ کیخلاف ایبٹ آباد آپریشن کے واقعے پر بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی ہوگئی

اسی طرح سال 2011 ءمیں ہی 26 نومبر کو پاک افغان سرحد پر سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کا واقعہ پیش آیا جس میں 28 پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔دونوں ملکوں کےدرمیان تعلقات میں مزید تناﺅ بڑھ گی

امریکا نے پاکستانی امداد روک کر حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی اور سی آئی اے کیلئے کام کرکے ایبٹ آباد آپریشن میں کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا

اس وقت کے پاکستانی وزیر داخلہ چودھر ی نثار نے ٹرمپ کو اپنے ردعمل میں کہا کہ پاکستان امریکی کالونی نہیں ہے اور ڈاکٹر شکیل کا فیصلہ پاکستان کریگا اور ظاہر ہے چودھری نثار نے اتنا بڑا بیان کس طاقت کی بنیاد پر دیا ہوگا

گرے لسٹ میں پاکستان کا نام ڈالنے کی امریکہ کی کوشش وجہ "نو مور"

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے دہشتگردوں کے معاون ممالک سے متعلق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام آنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جون میں اس لسٹ میں پاکستان کا نام ڈال دیا جائے گا
اس میں پالیسی کی تبدیلی کہاں ہے۔ ماضی میں انہی بیانات کے الٹ پالیسی کی کوئی ایک مثال بھی موجود ہو تو ضرور شیئر کیجئے گا۔
 

آصف اثر

معطل
اگر آپ حقیقت پسند ہیں اور آپ حق بجانب ہیں تو مجھے اپنی ایک پوسٹ ایک تحریر ایسی بتا دیجیئے جس میں قبائل پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے جرنیل کے خلاف کوئی احتجاج ریکارڈ کروایا ہو جس میں امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت کے خلاف کچھ تحریر ہو.
اگر ایسا نہیں ہے تو پھرصاف الفاظ میں کہونگی برا مت مانیئے آپ صرف ڈرامہ کر رہے ہو
اگر کوئی عقل و شعور والا سوال کرنے آئے تو اسے جواب دونگی کہ آئی ایس پی آر کا بیان ہے اور انکے بیانات پالیسی کے مطابق ہوتے ہیں

آپ بھی مجھے کھسیانی ریٹنگ والے لگتے ہو جسے مباحثہ کا اصول تک معلوم نہیں بے شعور شخصیت کے مالک ہو اس لیے آپ اپنے سوالات کی دھاک کسی دوسرے پوسٹ پر دکھائیے کیوں کہ میری پوسٹنگ پر بے جا کھسیانا پن میں نوٹ کر چکی ہوں
اب اللہ حافظ

سردیاں آنے دیں!
 

زنیرہ عقیل

محفلین
پالیسی کی تبدیلی کے واضح ثبوت چند ماہ پہلے ہی سامنے آچکا تھا

1) ٹرمپ کے الزامات بے بنیاد ہیں‘امریکا پاکستان سے ڈو مور چاہتا ہے لیکن ہمارا جواب نو مور ہے۔ترجمان پاک فوج

پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹ پر بھرپورردعمل دیا ۔پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ یہ جنگ ہماری نہیں پھربھی ہم نے لڑی ،دہشتگردی کیخلاف پاکستان نے70ہزار جانوں کی قربانیاں دیں لیکن امریکا کے مطالبات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔پاک فوج پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ پیسوں کیلئے نہیں لڑی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دوستوں کے ساتھ مل کرکام کرناچاہتے ہیں لیکن بس اب بہت ہوچکا،امریکا پاکستان سے ڈو مور چاہتا ہے لیکن ہمارا جواب نو مور ہے۔ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کہہ چکے ہیں پاکستان میں دہشتگردوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ،دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں ہیں، امریکا کو وہاں کارروائی کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہار رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتے ہیں۔

http://www.bathak.com/pakistan/dg-ispr-donald-trump-america-150757

2) ٹرمپ کی دھمکیوں پر ترجمان پاک فوج کا منہ توڑ جواب

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاکستان اپنی عزت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا ، امریکہ سے جو بھی رقم وصول کی وہ اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں اپنے اخراجات کے عوض حاصل کی، ہم دوستوں سے تنازعہ نہیں چاہتے لیکن کسی سے نوٹسز بھی نہیں لے سکتے، آئی ایس پی آر ہیڈ آفس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان نے 2 بار درآمد شدہ جنگ اپنی دھرتی پر لڑی لیکن ہم نے بہت کرلیا اور اب کسی کیلئے اس سے زیادہ نہیں کرسکتے۔
ہم نے امریکہ سے جو بھی رقم حاصل کی وہ اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں حاصل کی جس کا مطلب ہے کہ ہمیں افغانستان میں امن کیلئے کام میں خرچ ہونے والی رقم واپس کی گئی، انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں القاعدہ کو کبھی سپورٹ نہیں کیا، پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دہشتگرد تنظیم موجود ہے، شمالی وزیر ستان میں آپریشن ضرب عضب کے دوران حقانی نیٹ ورک سمیت ہر قسم کے دہشتگردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں کیں، 27 لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا ہے پاکستان افغانستان میں امن کیلئے پوری کوشش کر رہا ہے ہم نے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کردیا ہے جبکہ اضافی چیک پوسٹس بنانے کا کام بھی شروع کردیا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یہ امریکہ اور افغانستان کیلئے وقت ہے کہ وہ پاکستان سے ڈومور کہنے کی بجائے خود ڈو مور کریں پاکستان سے زیادہ کسی نے دہشتگردی کے خلاف کچھ نہیں کیا، امریکہ کو بھارت کے پاکستان مخالف رویوں کا افغانستان اور ایل او سی پر جائزہ لینا ہوگا، ہم اپنی عزت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے ہم دوستوں سے تنازعہ نہیں چاہتے لیکن کسی سے نوٹسز بھی نہیں لے سکتے

ٹرمپ کی دھمکیوں پر ترجمان پاک فوج کا منہ توڑ جواب

2 مئی 2011 ءکو اسامہ کیخلاف ایبٹ آباد آپریشن کے واقعے پر بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی ہوگئی

اسی طرح سال 2011 ءمیں ہی 26 نومبر کو پاک افغان سرحد پر سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کا واقعہ پیش آیا جس میں 28 پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔دونوں ملکوں کےدرمیان تعلقات میں مزید تناﺅ بڑھ گی

امریکا نے پاکستانی امداد روک کر حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی اور سی آئی اے کیلئے کام کرکے ایبٹ آباد آپریشن میں کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا

اس وقت کے پاکستانی وزیر داخلہ چودھر ی نثار نے ٹرمپ کو اپنے ردعمل میں کہا کہ پاکستان امریکی کالونی نہیں ہے اور ڈاکٹر شکیل کا فیصلہ پاکستان کریگا اور ظاہر ہے چودھری نثار نے اتنا بڑا بیان کس طاقت کی بنیاد پر دیا ہوگا

گرے لسٹ میں پاکستان کا نام ڈالنے کی امریکہ کی کوشش وجہ "نو مور"

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے دہشتگردوں کے معاون ممالک سے متعلق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام آنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جون میں اس لسٹ میں پاکستان کا نام ڈال دیا جائے گا
 
Top