شہر میں بے ہنری عام ہوئی

وسیم

محفلین
آج کل کے دور میں کسی بھی معاشرے کا ایک نمائندہ پہلو میڈیا اور اس سے منسلک مختلف میڈیم جیسے کے ریڈیو، ٹیلیویژن، فلم،اخبارات و جرائد اور رسائل بھی ہیں۔ ان میڈیم کے توسط سے ایک عام شہری بھی معاشرے کے مختلف پہلوؤں سے باخبر رہنےکے ساتھ ساتھ اس کی سمت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔


لکھاری کی ناچیز رائے میں یہ پہلو معاشرے کا عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے سفر کا آئینہ دار بھی ہوتا ہے۔اگر اس میڈیم پہ پیش کردہ مواد اور اس میڈیم سے متعلقہ افراد کا جائزہ لیا جائے تو معاشرے کی گراوٹ یا اٹھان کا عمومی اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔


اگر ہم پاکستان کے عمومی معاشرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ماضی قریب یا ماضی بعید کا سفر کریں تو اس بات سے شاید ہی کوئی ذیشعور شخص انکار کرے گا کہ معاشرتی گرواٹ کی چھاپ نا صرف معاشرے بلکہ الیکٹرانک میڈیا پہ بھی شدت کے ساتھ نمایاں نظرآتی ہے۔ ہمارے پاس الیکٹرانک میڈیا پہ موجود صدا کار، اداکار، مصنفین، شعرا اور اس کے ساتھ ساتھ مواد کا ایک بحران پیدا ہوچکا ہے۔


کسی زمانے میں صبح سویرے کے پروگرامز کی میزبانی مستنصر تارڑ اور پھر توثیق حیدر سنجیدگی اور مزاح کو ایک ساتھ لیے کرتے نظرآتے تھے لیکن آج کل کے چینلز پہ موجود مارننگ شوز رنگ بازی، شوبازی، بلاوجہ کی تو تکرار اور کمرشل ازم کا شکار نظر آتے ہیں اوریہی چیزیں ہم اپنی روزمرہ زندگی میں معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں۔


وہ بھی ایک دور تھا جب ہمارے پاس میزبانی کے نام پہ انور مقصود، افتخار عارف، عبیدالله بیگ، قریش پور، طارق عزیز، ضیا محی الدین، مستنصرحسین تارڑ،پروین شاکر اور ان جیسے دوسرے ستاروں کی کہکشاں سجی ہوئی تھی۔


اسی طرح مصنفین میں امجد اسلام امجد، عطاالحق قاسمی، منو بھائی، انور مقصود، فاطمہ ثریا بجیا، نور الہدیٰ شاہ، حسینہ معین، اصغرندیم سید و فاروق قیصر جیسے افراد قوم کی فکری نشوونما کے ساتھ ساتھ اچھوتے موضوعات کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا کرتے تھے۔


لیکن جیسے جیسے ہم خود تباہی کی دلدل میں اترتے گئے ویسے ویسے میڈیا پہ لیجنڈز کی جگہ پھکڑ قسم کے لوگوں نے لے لی۔ طارق عزیز و انور مقصود وغیرہ کی جگہ عامر لیاقت، فہد مصطفی جیسے نمونے ہمارے دامن میں موجود ہیں۔ مستنصر حسین کے مارننگ شو کےمقابل ندا یاسر میلہ جمائے بیٹھی ہیں۔ ان گنت موضوعات پہ مشتمل ڈراموں کی جگہ ساس بہو سازشیں طلاقیں اور حلالے اداکاربدل بدل کر اسکرین پہ جلوہ گر ہیں۔ حتیٰ کہ مافوق الفطرت موضوع پہ بنے ڈرامے میں بھی طلاق، شادی، محبت و سازش نمایاں عنصر ہے۔


کچھ دن پہلے دورانِ گفتگو جب موضوع حالاتِ حاضر کے ڈراموں کی جانب مڑا تو خاکسار نے عرض کیا کہ ان ڈراموں سے نوجوان نسل کچھ اور سیکھے نا سیکھے انہیں طلاق، حلالے اور شادی کے شرعی مسائل میں دسترس ضرور حاصل ہو جائے گی۔ ایک مخصوص طبقہ جو ہندوستانی ڈراموں اور کلچر سے شدید متاثر نظر آتا ہے وہ ہماری اسکرینوں پہ قبضہ جما بیٹھا ہے اور ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ عام عوام کہ روزمرہ زندگی کن گوناگوں مسائل کے بیچ سے گزرتی ہے۔ ان کو بس اس بات کی فکر ہے کہ ڈراموں میں وہ کون سا رشتہ رہ گیا ہے جو ابھی تک کسی لڑکی یا لڑکے پہ ڈورے ڈالنے سے محروم ہے۔


محسن نقوی نے ناجانے کس ترنگ میں کہہ ڈالا تھا


شہر میں بے ہنری عام ہوئی

ہر کوئی اہلِ ہنر لگتا ہے


لیکن موجودہ سیاہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے خاکسار کا تو یہی خیال ہے کہ محسن نقوی نے ٹھیک کہا تھا۔ بحیثیت معاشرہ ہم ایک مردہ یا قریب المرگ تہذیب بنتے جا رہے ہیں، اور اس کی رفتار بھی تیز تر ہے اور گراوٹ کا سفر بھی تیز ترین۔ ہمارے لیجنڈز اس تباہی کا درد لیے آہستہ آہستہ اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں اور ہم تیزی سے فکری و تہذیبی بانجھ پن کی دلدل میں اترتے جا رہے ہیں۔

نوٹ:
خیالِ مضمون طارق عزیز، حسینہ معین، فاطمہ ثریا بجیا، اور چند دن پہلے فوت ہونے والے فاروق قیصر کی موت سے آیا۔ کیا ہمارا ماضی تھا، کیا ہمارا حال ہو گیا ہے اور کیا ہمارا مستقبل ہو گا؟
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھی تحریر ہے۔

قحط الرجالی کا رونا ہم سب کا مشترکہ ہے۔

لیکن چونکہ ہمارا حالیہ معاشرہ، تعلیم اور تربیت پہلے جیسے نہیں رہے، اس لئے اب ماضی کی سی نابغہ روزگار شخصیات بھی ہمارے معاشرے میں شاذ ہی پیدا ہوتی ہیں۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
المیہ تو یہ ہے کہ ہمارا آج کا نوجوان وقار ذکا کی قسم کے لوگوں کی پیروی میں لگا ہوا ہے۔ ایسے لوگوں کی پیروی کرتے ہوئے آج کا نوجوان کہاں پہنچے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
 
Top