شہر خالی ، جادہ خالی ، کوچہ خالی۔ ۔۔۔۔

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سن دو ہزار بیس میں کووِڈ کی آمد ہوئی تو شروع شروع میں کئی ماہ تک زندگی کا معمول درہم برہم ہو کر رہ گیا ۔ اچھی طرح یاد ہے کہ مجھے اپنے مریض بھی دوہفتوں تک وڈیو پر دیکھنے پڑے تھے۔ تمام لوگ اپنے اپنے گھروں میں محبوس ہو کر رہ گئے تھے۔ سڑکین اور گلی کوچ سنسان ہو گئے تھے۔ یہ تصاویر انہی دنوں کی یاد گار ہیں کہ میں سہ پہر کو چہل ہزار قدمی کے لیے گھر سے نکل جایا کرتا تھا۔ ایسے میں امیر جان صبوری کی شہرۂ آفاق نظم ( جسے نگارہ خالوا نے گا کر امر کردیا ہے) سماعت میں گونجا کرتی تھی۔ یہ تصاویر گھر کے اردو گرد سات آٹھ میل کے دائرے میں سیل فون کے خود کار موڈ پر لی گئی ہیں۔
 
Top