شہر اجڑے ہوئے خوابوں کے بسائے کیا کیا۔ مخمور سعیدی

یوسُف

محفلین
شہر اُجڑے ہوئے خوابوں کے بسائے کیا کیا
نیند میں ہم نے در و بام سجائے کیا کیا

ہر قدم پر کسی منزل کا گزرتا تھا گماں
راہ چلتے ہوئے منظر نظر آئے کیا کیا

ہم کہ پھر تیری حقیقت پہ نظر کر نہ سکے
زندگی تو نے ہمیں خواب دکھائے کیا کیا

اک ستارہ کہ چمکتا ہے بہت دور کہیں
ظُلمتِ شب میں ہمیں پاس بلائے کیا کیا

موسمِ گل میں ترا ہم سے جدا ہو جانا
یاد آئے تو ہمیں خون رلائے کیا کیا

کھو سے جاتے ہیں کہیں اس کا خیال آتے ہی
ہم اسے بھول کے بھی بھول نہ پائے کیا کیا

مندمل ہو گئے سب زخم پرانے تو مگر
دل کی اک تازہ کسک ہم کو ستائے کیا کیا

کیا مسافت ہے کہ حیران کیے دیتی ہے
ہر گزرتا ہوا پل سامنے لائے کیا کیا

آنسوؤں نے تری تصویر بھی دھندلی کر دی
نقش پانی پہ مگر ہم نے بنائے کیا کیا

لکھنے بیٹھیں جو کبھی عمرِ گزشتہ کا حساب
ایک اک لمحہ ہمیں یاد دلائے کیا کیا

کیا کہیں وہ بھی ہمیں راس نہ آئی مخمورؔ
اک خوشی جس کے لئے رنج اٹھائے کیا کیا​
 
Top