شہر آشوب

فلک شیر

محفلین
نہ ہی محکموں میں حکومت اور نہ ہی عوام کام کاج میں لگے ہوئے ہیں
نہ ہی کارخانوں ، درس گاہوں اور لین دین کے کام جاری ہیں
گویا یہ شہر تنگ پہاڑی میں واقع ایک صنوبر کا جنگل ہے جہاں نہ تو کوئی ضابطہ ہے نہ ہی کوئی رابطہ
اگر خون کا کوئی سیلاب بھی جاری ہو جائے تو اس کے رکنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے
'انہیں ذوق حریت کو خوب سمجھ لینا چاہیے' کہہ کر طلبہ کی درس گاہوں کو مکمل بند کر دینا چاہیے!
گویا محنت و سختی و دباؤ سے حصول علم بھی ایک طرح کا استبداد ہے۔۔۔
اس لیے بچے ہمیشہ کے لیے آزاد ہیں اور انہیں چھٹی دے دی گئی ہے
ایک جانب تمام اساتذہ بات میں مشغول ہیں تو اس میں کیا حرج ہے جو۔۔۔۔۔
دوسری طرف طلباء بھی اس صحن سے دوسرے میں دوڑتے پھریں
جس طرح بے منہ کا پھوڑا نشتر لگنے سے پھٹ کر بہہ نکلتا ہے
تمام منہ بھی پھٹ پڑے ہیں اور جس میں جو جوہر اور بات ہے
خواہ وہ اچھی ہو یا بری اسے منظر عام پر لا کر اپنے اردگرد پھیلا رہا ہے
اور جس کے دل میں جو بات ہے وہ اب پوشیدہ نہ رہے گی
خوشامد کا دور نہیں، اب قدیم قسم کی مداحی کی بجائے
تمہارے ادیب آپس میں ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں دے رہے ہیں
گوناگوں ناموں سے بےشمار اخبار نکل رہے ہیں
اور ملک میں بڑی فراوانی سے نفاق و انتشار کا بیج بو رہے ہیں
ان لوگوں نے مملکت کی خاک کو کتوں کی پرورش کے لیے بڑی زرخیز پایا ہے
اور آوارہ گرد و بے قلاوہ کتے فحش کی تخم کاری کر رہے ہیں
مٹھی بھر مسخرے دین پر حملے کر رہے ہیں اور تحسین و آفرین کے مستحق قرار پا رہے ہیں

محمد عاکف (ترک قومی شاعر کی نظم کے ترجمہ سے اقتباس)
 
Top