شہدائے(اے پی ایس) کو ہمارا سرخ سلام

ایس ایم شاہ

محفلین
شہدائے(اے پی ایس) کو ہمارا سرخ سلام
تحریر: ایس ایم شاہ
تعلیم و تربیت دو ایسے پر ہیں کہ جن کے ذریعے انسان کمالات کا سفر طے کرتا ہے۔ گھرانے کے بعد تعلیمی ادارے ہی انسانی شخصیت کو تشکیل دینے کا بنیادی عنصر ہیں۔ آرمی پبلک سکول پشاور بھی ایک انسانیت ساز ادارہ ہے۔ جس نے زیور تعلیم و تربیت سے آراستہ پیراستہ باکمال انسان پیدا کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ 16 دسمبر 2014ء کا دن اس ادارے کے لئے بادخزاں بن کر آیا۔ اس دن طالبان دہشت گردوں نے دن دیہاڑے اس ادارے پر حملہ آور ہوکر ڈیڑھ سو نونہالان ملت کو خاک خوں میں غلطیاں کر دیا، ان کے بہت سارے اساتذہ کرام بھی اس سانحے میں جام شہادت نوش کر گئے۔ آج کل ان کی چھٹی برسی کے ایام ہیں، ان شہیدوں کی یادوں کو باقی رکھنا ہمارا فریضہ ہے، کیونکہ ایک بہت بڑے اسلامی روحانی پیشوا کے بقول شہیدوں کی یادوں کو باقی رکھنا شہادت سے کم نہیں۔ ان ڈیڑھ سو طلباء میں سے ہر ایک ملت کے مقدر کا ستارا تھا۔
ان میں سے کسی نے ڈاکٹر بن کر غریبوں کا مداوا بننے تھا، کسی نے انجینیئر بن کر ملک و ملت کی تعمیر ترقی کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دینی تھیں، کسی نے بیوروکریٹ بن کر ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا تھا، کسی نے سیاست دان بن کر ملکی سیاسی میدان میں خاطر خواہ اقدامات اٹھانے تھے، کسی نے استاد بن کر تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھانے تھا تو کسی نے سائنس دان بن کر نت نئی ایجادات کے ذریعے ہمارے لئے تابناک مستقبل فراہم کرنا تھا۔ ان میں سے بہت سارے گھر کے اکلوتے بیٹے تھے، جنہوں نے اپنے والدین کے بڑھاپے کا سہارا بننا تھا، بہت سارے اکیلی بہن کے لئے امیدوں کی کرن تھے، جنہوں نے اپنی بہنوں کی امیدوں پر پورا اترنا تھا، لیکن یہ ساری امیدیں اس وقت خاک میں مل گئیں، جب امریکہ اور دیگر استعماری طاقتوں کے لئے آلہ کار بن کر طالبان دہشت گرد ٹولے نے دن دیہاڑے آرمی پبلک سکول پر بھاری اسلحوں سے حملہ کیا۔
کہاں چھوٹی چھوٹی کلیاں اور کہاں وہ جدید اسلحہ!!! اس کیفیت کو صفحہ قرطاس پر اتارتے ہوئے نوک قلم کند ہو جاتی ہے، ہاتھ لرزنے لگتا ہے اور آنکھیں خون کے آنسو بہانے لگ جاتی ہیں، مگر کتنے شقی القلب تھے وہ انسان نما درندے، جن کے دلوں میں ان معصوم پھولوں کو مرجھاتے ہوئے دیکھ کر ذرہ برابر بھی رحم نہیں آیا، جن کے ہاتھ میں ان ننھی کلیوں کو توڑتے ہوئے معمولی سی بھی تھرتھراہٹ محسوس نہیں ہوئی، آخر ایسا کیوں؟! کیونکہ ان کے لئے یہ قتل و غارت گری نہ پہلا واقعہ تھا اور نہ ہی آخری بلکہ ایسی وارداتیں کرتے کرتے ان کے دل مردہ ہوچکے تھے، ان کے ضمیر کا سودا کافی پہلے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ہوچکا تھا، وہ ایسی وارداتوں کے ذریعے تقریباً 70 ہزار بے گناہ پاکستانی مسلمانوں کے خون سے بھی ہولی کھیل چکے تھے۔ اگرچہ پاک فوج نے بروقت کارروائی کرکے ان حملہ آوروں کا خاتمہ کر دیا اور ملک میں موجود ضیاء الحق کی باقیات کا خاتمہ اور دہشتگرد ساز فیکٹریوں کو تباہ کرنے کے لئے ضرب عضب اور ردالفساد کے نام سے بڑے آپریشنز بھی کئے۔
شدت پسندانہ سوچ کو تبدیل کرنے کے لئے جمہوری حکومت اور پاک فوج نے مل کر 20 نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان بھی ترتیب دیا اور اسلام آباد میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو اکٹھا کرکے ان کو اعتماد میں لے کر 1800 علماء سے اس پر دستخط بھی لئے، ان کوششوں کے باعث اگرچہ مسلحانہ دہشت گردی پر کافی حد تک کنٹرول کر لیا گیا، لیکن پھر بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، علاوہ ازیں ابھی تک اس پلان کی بہت ساری شقوں پر عملدرآمد نہیں ہو پایا۔ جن میں سرفہرست اس پلان کی پہلی شق یعنی سزا یافتہ دہشت گردوں کی سزائے موت پر عملدرآمد کرانا ہے۔ مزید برآں ایسی وارداتیں انجام دینے والوں کا مائنڈ سیٹ ابھی تک تبدیل نہیں ہو پایا ہے، مسلکی شدت پسندی کا لاوا اب بھی پک رہا ہے، تکفیری سوچ ابھی تک تبدیل نہیں ہو پائی ہے۔
ایسے لوگوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرانے کے لئے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔ بنابریں جب تک نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا جاتا اور اس میں موجود کمزوریوں کا ازالہ کرکے ایک جامع حکمت عملی کے تحت پرعزم ہوکر آگے نہیں بڑھا جاتا، اس وقت تک ایسی وارداتوں کا اعادہ کسی بھی وقت ممکن ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صرف ایک مرتبہ علمائے کرام اور مفتیان مذاہب کو جمع کرکے ان سے دستخط لینا کافی نہیں بلکہ وزارت مذہبی امور کی وساطت سے تواتر کے ساتھ ایسے پروگراموں کو تشکیل دیتے رہنے کی ضرورت ہے کہ جس کے ذریعے ملت کے اندر زیادہ سے زیادہ مذہبی رواداری کو فروغ دیا جاسکے، وسعت نظری ایجاد کی جاسکے، منفی سوچ کا خاتمہ اور مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے اقدامات کئے جاسکیں۔
الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کو پابند بنایا جائے کہ جس طرح کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ریاست کے اس ستون نے بہترین انداز سے مہم چلائے۔ اسی طرح شدت پسندی کے وائرس، تکفیریت کے وائرس، نفرت کے وائرس، تنگ نظری کے وائرس اور عدم برداشت کے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور ان موذی امراض کے مکمل خاتمے کے لئے بھی بنیادی کردار ادا کرے۔ علمائے کرام جمعے کے خطبوں اور دیگر مذہبی اجتماعات میں اتحاد بین المسلمین اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی تلقین کرتے رہیں تو ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں کہ مملکت خداداد پاکستان امن کا گہوارہ بن کر ابھرے گا، ہم پوری دنیا میں سرخرو ہو جائیں گے اور روز قیامت ان ننھے پھولوں سے بھی ہم کھلے چہرے اور مسکراہٹ کے ساتھ ملاقات کرسکیں گے۔
https://www.islamtimes.org/ur/artic...Fiz230rF-5YV1iC44dHO31GzMKb4LC7gC4rFgrEkeCdag
 
Top