شگوفۂ محبت

شمشاد

لائبریرین
شگوفۂ محبت صفحہ 2

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حمد پروردگار بحر ذخار دریاے ناپید کنار ہے بڑی بڑی پیرا کون نے اس میں غواصی کی اپنے اپنی ظرف کے موافق بھر لیا شر پر دھر لیا نہ کسی کو تھاہ ملی نہ کنارا نظر آیا۔ زیادہ بڑھے تو غوطہ کھایا۔ جل جلالہ، بال سے باریک یہ راہ ہے خیرہ اس میں دور بینوں کی نگاہ ہے۔ مولوی معنوی ؂

در بہاران زاد و مرگش دردی ست
پشہ کے داند کہ این باغ ازکی ست

لڑکپن میں تمیز نہیں ہوتی۔ صائب ؂

گہ بپاے خم افتم گہ سبوز تن برسر
ساقیا مرنج ازمن عالم جوانی است

القصہ ان خرابیوں سے بچ گئی سوار کی تیاری ہوئی کوچ کی غل مچ گئی نشہ اوتری مُسن ہوے بڑھاپے کی ون ہوے سمجھنے بوجھنے کا جب موقع آیا تو ادھر ضعف نے جھکایا اِدھر قضا نے گور کے گڑھے کو جھکایا وہ قادر و توانا ہے علیم و دانا ہے جس نے دو حرف سنا کے ایک عالم کا جلوہ دکھایا اس میں بشر ہے جس کی طبیعت کا میلان یہ شر ہے یہ بہت پسند آیا


شگوفۂ محبت صفحہ 3

اسی میں نبی ہوئے ولی ہوے شاہ و گدا ہوئے بغور دیکھیے تو کیا تھے اور کیا ہوے کبھی رات ہوتی ہے کبھی دن ہے اسی کی امکان میں ناممکن ہے۔ ہر قطرہ اس بحر کا محیط ہے، دریا ہے ہر ذرا اس صحرا کا بسیط ہے دیکھنے کا تماشا ہے۔ اس گلشن خزاں مآل میں وہی خار ہے جو اٹکا سب کی آنکھ میں کھٹکا، کُمیت فکر بصد جولانی گشت سے رہ گیا۔ تازیانے کی چوٹ سہ گیا۔ اسکندری کھائی بھٹکا پھر کوئی پاس نہ پھٹکا مگر اس کائنات بے ثبات کے معاملوں سے سر رشتۂ محبت سلسلۂ اتحاد اگرچہ وہ بھی بے بنیاد ہے اس پر سب کو پسند آیا ہے۔ پاکبازوں نے لطف اٹھایا ہے۔ رم خوردہ اس میں رام ہوے ہیں۔ اسی دام میں گرفتار ددو دام مدام ہوے ہیں جب دوئی کو دور کیا یک رنگی نے ظہور کیا سُنا ہو گا لیلی کے ہاتھ پر گذر نشتر ہوا مجنوں کا تمام جسم لہو سے تر ہوا ایک کا دل خون ہوا تو دوسرے کی خانہ خرابی ہو گئی۔ جنون ہوا آخر کار رانا لیلی کی حالت جب ہو جاتی ہے وہ کیفیت بہر کیف تحریر تقریر میں نہیں آتی ہے۔ ہم سے کور باطنوں کی نظر میں دید کی طاقت کہاں حقیقت حال دریافت کرنے کی لیاقت کہاں ورنہ ہر برگ گل تر ہزار بلبل کے خون کا محضر ہے نخمہ سنجاں گلشن ایجاد کی بولنے کا کچھ اور ہی گھر ہے سرو کی دار پر لاکھ قمری کے قتل کا مدار ہے فاختہ کی کو کو گواہ تارا جی صبر و قرار ہے تلون پر اس کارگاہ بے بنیاد کی رونق ہے مستعا سب نقش و نگار ہے عبر الناظرین کو کافی تفرقۂ لیل و نہار ہے۔ یہ حیرت نگر جو طلسم خانہ ہے ہوشیار یہاں دیوانہ ہے۔ بے سقف و جدار ہے دیوار ہے نہ در ہے پھنسے ہوے کہتے ہیں گھر ہے اوجڑے ہوے بستے ہیں۔ رونے کو ہنستے ہیں۔ کون و فسا میں نئی طرح یہ مخمصہ پڑا ہے کہ شاہ کے محل سے ملا ہوا چور کا جھوپڑا ہے۔ ہر نفو گونوں کو کھٹکا رہتا ہے۔ دغدغہ اٹکا رہتا ہے کوئی بگڑتا ہے کوئی بنتا ہے کوئی اینٹھ جاتا ہے کوئی تنتاہی اگر منتظم اس کا غفلت پر مدار نہ رکھتا تو اس کارخانے میں سودائی بھی قدم زینہار نہ رکھت۔ ہوشیار یہاں پھونک پھونک کے قدم رکتھے ہیں۔ جھلاتے ہیں ٹھوکر کا مزا جب دکھتے ہیں، اور وہ جو مست صنم پرست ہیں بخدا جس دم بے دغدغہ باگ اٹھاٹی ہیں منزل مقصد پر پہونچ جاتے ہیں۔ جائے دم زون نہیں خموشی درکار ہے۔ منصور تو


شگوفۂ محبت صفحہ 4

لڑائی فتح کر گیا۔ اب تک اس دار ناپائدار میں ہزارہا دار ہے۔ عجز میں نباہ ہوتا ہے۔ غرور میں تباہ ہوتا ہے۔ سر رشتہ عقل کوتاہ ہے کہ آیہ گواہ ہے فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿١٣

نعت سرورِ کائنات ہے چھوٹا منہ بڑی بات ہے

وہ گروہ بہت خوش نصیب ہے جن کا حامی اور شفاعت کنندہ خدا کا حبیب ہے، خلقت میں اولین اور خاتم المرسلین اس کی ذات اور صفات کی کنہ یا حقیقت کون پائے جس کا سایہ تک نظر نہ آئے۔ تقرب میں اس درجہ پر چڑھ گیا کہ قاب قوسین رے مرتبہ بڑھ گیا۔ جس طرح پروردگار لاشریک ہے، اسی طور پر یہ پیمبر دوربینوں کے نزدیک ہے۔ نبی اور اس کی آل اور اصاحب پر شب و روز درود پڑھے بکھیڑے میں نہ پڑے آگے نہ بڑھے۔

صفب بادشاۃِ خجستہ خصال پری پیکر ماہ رو والی لکھنؤ رشک فریدون غیرت جم سلطان عالم خلد اللہ ملکہ

اور تاج سلطانی اریکۂ جہانبانی نے اس کے سر و پا سے زیب و زینت پائی ہے جس کے خاندان میں نسلاً بعد نسل فرمانروائی چلی آئی ہے، ہر چند کہ موسم شباب ہے، نور کی صورت نہایت آب و تاب ہے۔ زور شور پر عالم جوانی ہے نقاش قددرت کے ہاتھ کا نقشہ انتخاب ہے۔ اس پر جتنی خصلتیں فرمانرایان خجستہ خصال کی ماضی و حال کی ہیں سب میں لاثانی ہے ہمت و جرأت میں یکتا ہے جود و سخا میں حاتم سے بڑھ گیا ہے۔ عدل و داد میں یادگار نوشیروان ہے اس چمک دمک کی سلطنت زیر آسمان بروے زمین دوسری کہاں ہے۔ رفقا کو جاہ و حشمت سے نہال کیا۔ غریب و غربا کو مال اور دولت سے مالا مال کیا۔ شب شب برات ہر دم عیش و نشاط میں بسر ہوتی ہے۔ روز نو روز ہر صبح عید کی سحر ہوتی ہے۔ مکانات ایسے بنوائے کہ سمار کی عقل میں ہ آئے۔ ہر قطعہ فردوس بریں کا نمونہ ہے اور قیصر باغ تو حسن و لطافت میں گزار ارم سے دونا ہے جس چیز کا خیال آیا اسی انتہا کو پہونچایا یا طبع والا میں نہایت جودت ہے، جو شے ہے اللہ کی قدرت ہے ایسا کرم کارساز اور عنایت بے نیاز ہے کہ اولو العزمی کا سب سامان و ساز ہے۔ وزیر بے نظیر خود سلیمان زمان وہ آصفِ دوران باہم قضیہ لازم و ملزوم ہے یہ نکتہ سبکو معلوم ہے دیوان ہوشیار وابسہ فرمان سر دفتر خیر خواہان

شگوفۂ محبت صفحہ 5

کائنات میں فرد ہے چہرم مورت نیک سیرت خوبصورت جوانمرد ہے حساب کیجیے تو سابقین کی نشانی باقی ہے اس فن میں بڑی مشاقی ہے فیض کی ندی اس کے دم سے بھی ہے۔ رشوت کھاتا نہیں بڑی بڑی جفا سہی ہے۔ سپاہی وضع ہر چند نہیں لیکن جان نثاری پر بند نہیں خلاصہ یہ ہے کہ ملازموں میں ایک سے ایک بہتر ہے۔ یادگار روزگار ہے اگر سب کی شرح کروں طول ہو منظور اختصار ہے جب تک گردش لیل و نہار ہے کہ جلسہ برقرار رہے۔

سبب تالیف اس قصے لاثانی کی لکھنے کی وجہ اس کہانی کی

متوقع عنایت امیدوار رحمت رب غفور مرزا رجب علی تخلص سرور ناظرین پر تمکین سامعان باریک بین کی خدمت میں عرض پیرا ہے کہ نامساعدت اور نیرنگی زمانہ سے نہ عربی میں دخل ہوا نہ فارسی میں کامل ہوا۔ دونوں سے ناآشنا رہا۔ ایک کا بھی علم نہ حاصل ہوا۔ پست ہمتی سے اردو کے لکھنے میں اوقات بسر کی۔ تردد کی شام سحر کی۔ کچھ دن نظم کا انتظام رہا۔ شہر کہنے کا خیال خام رہا۔ جب وہ بھی نہ ہو سکا، نثر کی طرف خیال آیا۔ اس کو اس سے زیادہ مشکل پایا۔ چنانچہ فسانۂ عجائب کہ قصۂ جان عالم ہی بہت مطبوع ساکنان عالم ہے بموجب مثل ع قبولِ خاطر و لطفِ سخن خدا دا دست، اور تحریر ثانی حسب ارشاد ہدایت بنیاد حضرت ظل سبحانی سرور سلطانی ہے۔ یہ بھی ہر شخص کو پسند ہے۔ جو سنجیدہ فہمیدہ ہے اس کا خواہشمند ہے اور چند حکایات مختصر و طول سامع قاری ان سے بھی ملول نہیں۔ جب ان تحریروں سے فرصت پا چکا تو قضیہ اتفاقیہ درپیش ہوا۔ ایک شفیق کہ مجمع صفات ان کی ذات ہے، جوان حسین رعنا جرات میں یکتا غیور ذی شعور جوہر شناش قاعدہ دان ہیں۔ قوم کے رئیس ہیں۔ نام نامی امجد علی خان ہے۔ ان کی حسب و نسب سے آگاہ جہان ہے۔ شگفتہ خاطر دل شاد ساکن سنڈیلہ ملیح آباد۔ جتنا کام اس ملک میں مشکل ہے وہ مالی ہے۔ خدا کی عنایت سے اس میں طبیعت کو رسائی ہے ۔ نہایت ذہن عالی ہے۔ ہمیشہ عمالان سرکار ابد قرار میں وثوق و اعتبار رہا ہے ۔ نظامت کے انتظام پر بلا جبر اختیار رہا ہے۔ راقم کے حال پر بہت نظر عنایت ہے۔ منظور سب طرح کی رعایت ہے۔ ایک قصہ مہر چند کھتری کا لکھا جو ان کی نظر سے گذرا۔ اکثر مضمون


شگوفۂ محبت صفحہ 6

اس کا پسندِ خاطر ہوا۔ لیکن وہ بیان اور زبان گذشتہ یعنی تقویم پارینہ ہے۔ اب جو ہندی کی چندی ہوئی ہے، اس سے سراسر خالی تھا۔ روزمرہ محاورہ لاوبالی تھا۔ فقیر نے باعث رغبت خان والا شان اس داستان کی جان جو کہ مطبوع طبع اس نکتہ دان کی تھی نکال لی، خوگیر کی بھرتی اُچھال دی۔ غالب کہ منظور نظر اہل بصر ہو۔ اور اس کا مطالعہ مدنظر ہو۔ حظ اٹھائیں یا کچھ لطف پائیں تو گنہگار کو دعائے خیر سے بھول نہ جائیں۔ یاد فرمائیں اگرچہ پڑھنے لکھنے والے کم نہ ہوں گے۔ تاسف اتنا ہے کہ ہم نہ ہوں گے۔ قصہ اگر پسند آئیے گا تو مشہور ہو گا۔ ہمارا ذکر ضرور ہو گا۔ اس وقت سہو اور غلطی معاف کر کے طبیعت کدورت سے صاف کر کے بنظر انصاف جو صاحب اوصاف کلام سرور سے مسرور ہو تو اتنا کلمہ فرمائے کہ عاصی غلامان حسین علیہ السلام کے ہمراہ محشور ہو۔ نہ فردوسی رہا نہ خاقانی، نہ عرفی نہ سعدی ہے۔ شہرۂ آفاق اس سرا کی سراسر بے بنیادی ہے۔ ہزاروں جنگل ایک دم میں آباد ہو گئے۔ لاکھوں بسے بسائے شہر اس عالم میں برباد ہو گئے۔ شادی کیسی بڑا غم تو یہ ہے کہ دوام غم نہیں رہتا۔ ایک وضع پر طرز عالم نہیں رہتا۔ عجیب و غریب یہاں کا لکھا ہے۔ ایک کا جنازہ چار کے کندھے پر دیکھا ہے۔ ہر چند اس کی بھی کس کو امید ہے۔ مگر جس کا نام یہاں بہ نیکی رہ گیا ہے وہ ہی زندۂ جاوید ہے۔ دنیا میں سخت جانی سے کڑی نرم سب سہہ جاتا ہے۔ عالم اسباب کا اسب اب سب چھوٹتا ہے۔ غیر مزے لوٹتا ہے لیکن نام ہو یا بد وہ رہ جاتا ہے۔ نہ کچھ ساتھ لاتا ہے نہ لے جاتا ہے۔ جیسا عمل سرزد ہوتا ہے اس کی جزا پاتا ہے ؂ قلم بشکن سیاہی ریز کاغذ سوز دم درکش۔ حسن ایں قصۂ عشق ست در دفتر تمیگنجد۔ خدا کی عنایت سے آغاز اس کا خوب ہوا، بخیر انجام ہے۔ شگورہ محبت اس کا نام ہے۔ امیدوار پروردگار سے ہے کہ جب یہ داستان تمام ہو، مقبول خاؤ و عام ہوا۔

ابردا اس کہانی کی ہے جس کے ہر فقرے میں انتہا خوش بیانی کی ہے اضطرار میں نکلنا آذر شاہ کا پہاڑ پر مل جانا ولی اللہ کا

محرران حال و مآل شاہان گذشتہ مورخان ذی اعتبار تاریخ دان دانستہ لکھتے ہیں کہ یہ جو چاردانگ عالم ہندوستان مشہور ہے، شہر تو کیا ہر دیہ و قریہ تک اس کا لطافت اور حسن و خوبی سے معمور ہے۔ کسی زمانے میں یہاں کا تاجدار پُر صولت


شگوفۂ محبت صفحہ 7

باوقار آذر شاہ معدلت پناہ تھا۔ سزاوار اریکۂ جہان بانی بزم افروز محفل کیانی ؂

بہت بادشاہ اس کو دیتی تھی باج
خطا و ختن تک تھا اس کا خراج
کوئی دیکھتا آ کے گر اس کی فوج
سمجھتا کہ ہے بحر ہستی کی موج

عدل و داد کہ ملک جس سے آباد ہوتا ہے رعایا کا دل شاد ہوتا ہے اس میں بیمثل لاثانی تھا۔ فی الحقیقت زینت بخش سریر سلطانی تھا۔ گردن کچان دہر غاشیۂ اطاعت بر دوش رہتے تھے۔ سطوت و صولت سے باختہ سب کے ہوش رہتے تھے۔ فوج ظفر موج عدد اور شمار سے افزوں ہزراہا گنج رشک خزانۂ قارون وزیر امیر عقیل امانت دار دیانت شعار پسینے پر لہو بہانے والے جان نثار ندیم فہیم ادیب غریب فہمیدہ طبیب عجیب سنجیدہ زمانے کے چیدہ امورات جہان نیرنگی گردون گردان سے فارغ البال لاولدی کے غم چھٹ رنج نہ ملال، اکثر سلطنت کی ضرورت سے فرصت پا کے تخلیہ میں وہ ندیم تجربہ رسیدہ سیاہ روزگار اور وہ حکیم جہان دیدہ فلاطور شعار جو تھے سب کو بلا کے ان سے گفتگو رہتی تھی۔ کہ دنیا مقام گذران ہے۔ ہر شخص یہاں رواں دوان ہے۔ بجز ذات پروردگار یہان کے لیل و نہار کو ایک ڈھنگ پر دم بھر ثبات و قرار نہیں۔ یہاں کہ ہر شے سے پیدا ہے کہ پائدار نہیں۔ خدا نے ساز و سامان سلطنت اسباب شوکت و حشمت سب کچھ عطا کیا مگر وارث اس کا جو پیدا نہ ہوا تو ہم نے یہ سب جمع کر کے کیا کیا جو کچھ ہے، ہم تو اس کے چھوڑنے کی حسرت قبر میں لے جائیں گے۔ غیر اس پر قبضہ کر کے زندگی کے مزے اڑائیں گے۔ اس سے تو بہتر یہ ہے کہ زیادہ بوجھ اپنے سر پر نہ لیجیے، چھوٹ جانے سے پہلے سلطنت کو چھوڑ دیجیے۔ اس کے جواب میں متفق اللفظ سب تسکین اور تشفی کے کلام عرض کرتے تھے کہ آپ اتنا نہ گھبرائیے۔ ایسے خیال مزاج مبارک میں نہ لائیں۔ ہر شے کے واسطے ایک وقت معین مقرر ہے۔ غیب کی کس کو خبر ہے۔ کسی کو دقت سے پیش اور مقدر سے بیش کچھ ملا نہیں حاکم کا گلہ نہیں۔ یہ سن کے چپ ہو رہتا۔ گو دل کا نہ ملال جاتا، کج بحثی نہ کرتا۔ ٹال جاتا۔ ایک روز نصف شب گزری، اس کی آنکھ کھل گئی، وہی خیال بہرحال رہتا تھا، صدمے سہتا تھا، الجھن میں نیند نہ آئی، دفعۃً زیادہ جو گھبرایا، سلطنت سے منہ کو موڑا، سرد آہ بھر کر گرم رفتار ہوا، شہر کو خالی چھوڑا، بے توشہ و زاد راہ وہ بادشاہ جنگل کی طرف


شگوفۂ محبت صفحہ 8

چل نکلا۔ شب تیرہ و تار رفیق نہ غمگسار اندھیری رات، میدان کی سائیں سائیں، عقل گم، ہوش حواس پران، نہ سواری کا اہتمام، نہ لوگوں کی دھوم دھام، نہ صدائے نقارہ، نہ ندائے بوق و کوس، پیادہ یایکہ۔۔۔ تنہا بصد حسرت و افسوس، بُری نوبت سے کئی کوس طے کیے کہ فلک جفا پسند پر گزند نے وہ خراب حال دکھانے کو شمع مومی و کافوری کے فراق میں جلانے کو مشعل ماہ آسمان اول پر روشن کی۔ اب جو کوئی ٹھوکر کھائے تو پستی و بلندی نظر آئے۔ پہاڑ دیکھا سر بفلک کشیدہ چوٹی اُس کی آسمان سے ملی، ہر قسم کا درخت خود رو پھلا پھلا تھا۔ جنگل تک پھولوں کی بو باس سے مہک رہا تھا، جس کو جینے سے یاس ہو، اس کو مرنے کا کب وسواس ہو۔ بادشاہ کو نہ درندے کا ڈر تھا نہ گزندہ سے خوف و خطر تھا۔ مردانہ وار قدم ہمت بڑھاتا تھا۔ بے تکلف اس نشیب و فراز میں چڑھا جاتا تھا، جب تھکتا تو کسی پتھر پر بیٹھ جاتا۔ دم لیکے آگے قدم اٹھاتا۔ القصہ بہزار خرابی راہ طے کی۔ اوپر پہونچا۔ اس عرصے میں صبح کا سپیدا چمکا۔ جانوران خوش الحان بذکر یزداںزمزمہ سنج اور نغمہ پرواز ہوئے۔ در اجابت حاجتمند و پنر باز ہوئے اور سجادہ نشین چرخ اول نے جانماز انجم لپیٹی۔ و الفجر کی صدا آئی۔ زاہد فلک چارم چونکا، اپنی چمک دمک دکھائی، جہاں تک نگاہ گئی گہلائے رنگا رنگ نظر آئے۔ چشمہ ہاے سرد و شیریں جا بجا جاری پائے۔ اس نے وضو کر کے نماز صبح پڑھی پھر دستِ دعا بدرگاہ خالقِ ارض و سما بلند کر کےبہت رویا، کہا اے پروردگار کل تو وہ شان و شوکت تھی آج عالم تنہائی اور یہ سامان ہے۔ تو قادر و توانا علیم و دانا ہے، اگر مژدۂ تمنا پاؤں گا تو مُنہ لوگوں کو دکھاؤں گا، وگرنہ اس پہاڑ سے نیچے گر کے جان دوں گا۔ دربدر بھٹکتا نہ پھروں گا۔ یہ تو اس شغل میں تھا، دفعۃً ایک مرد بزرگ سن رسیدہ گرم سرد زمانہ دیدہ نظر آئے۔ عمامہ سر پر عبا زیب دوش و بر داہنے ہاتھ کنٹھا بائیں میں عصا، زیتون کا وظیفہ پڑھتا قریب آیا۔ بادشاہ اٹھ کر کھڑا ہوا۔ سلام کیا۔ اس نے جواب دے کر کہا، اے شہر یار باوقار اتنے سے امتحان میں اس کی رحمت کی وسعت کو بھول گئے۔ ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ آذر شاہ سمجھا کہ گو اس کا مسکن کہ وجبال ہے مگر یہ برگزیدہ مقرر صاحب کمال ہے۔ لجاجت اور سماجت سے اپنی گذشتہ داستان مشروحاً بیان کی۔ اس مقبول ذوالجلال شیریں مقال نے


شگوفۂ محبت صفحہ 9

فرمایا کہ یہ امور تقدیر ہیں۔ اضطراب اس میں بیجا ہے۔ بابا دنیا کا معاملہ بہت ٹیڑھا ہے۔ حکومت تدبیر عقل مال و زر فوج لشکر یہاں سب کچھ بیکار ہے۔ حاکم احکم الحاکمین ہے، اس کا اختیار ہے بہر حال اسی سے التجا کرو۔ محتاجوں کی حاجت بر لاؤ، بھوکے کو کھانا، ننگے کو کپڑے پہناؤ۔ سوال کسی کا نہ رد کرو۔ دعا مانگنے میں کد کرو، وہ ارحم الراحمین مشہور ہے۔ اس کی عنایت سے کیا دور ہے کہ نخل تمنا تمہارا گل و بار لاے۔ فرزند سعادتمند پروردگار مرحمت فرمائے۔ اس کلام سے بادشاہ کی یاش امید سے بدل گئی۔ طبیعت سنبھل گئی۔ پوچھا کہ آپ کون ہیں، جگہ یہ کیا ہے، بود و باس کیونکر ہے، معاش کیونکر ہے، تنہا ہو یا شریک اور کوئی بندہ خدا ہے۔ دن رات کس شغل میں بسر ہوتی ہے۔ شامِ تنہا کس طرح سحر ہوتی ہے۔ وہ مرد پیر باول دلگیر بیٹھ گیا، کہا اے سلطان ذی شان یہ بڑی داشتان ہے مگر عبر کرنے کا بیان ہے۔ اور تو مضطر ہے۔ تجھ سے کہنا بہتر ہے۔ بگوش ہوش سُن اے والا نزاد بندہ بھی آدم زاد ہے۔ یہ جو موسم جوانی عالم شباب ہوتا ہے بہت خراب ہوتا ہے۔ انسان بے خوف و خطر ہوتا ہے۔ نہ خدا سے شرم نہ حاکم کا ڈر ہوتا ہے۔ ان دنوں میرا پیشہ قضاقی کا تھا۔ انکار خدا کی رزاقی کا تھا۔ ہاتھ پاؤں میں یہ طاقت تھی کہ ہزار جوان جرار کا یکہ و تنہا مقابلہ کرتا تھا۔ قتل اور غارت پر اوقات تھی۔ بہ تمنائے زر و مال بہرحال دن رات کشت و خون میں اوقات بسر ہوتی تھی۔ نفع دنیا میں عقبیٰ کا ضرر تھا۔ مجھ کو کچھ خبر نہ ہوتی تھی۔ اتفاقات زمانہ ایک پری پیکر نوجوان بالباس پر زر سترہ اٹھارہ برس کا سن شباب کے دن برق دم گھوڑا طلائی مرصع کار ساز ویراق ہتھیار کی قسم سے فقط قرولی کمر میں۔ خود غرق دریائے جواہر مگر اس غزال چشم کے شیر سے بُرے تیور نین تو ہزار خونخوار کا تنہا شکار کرتا تھا۔ وہ جو نموو ہوا تو نظر میں جلوائے بے۔۔۔۔ ہوا۔ نرم آواز سے میں نے کہا یہ سب ساز و ساقمان اے نادان یہاں رکھ دے اور گھر کو سیدھ پھر جا۔ تیرے حال پر رحم آتا ہے۔ اس صورت کے انسان کو کون ستاتا ہے۔ اسے نہ خوف ہوا نہ ہراس ہوا۔ نہ مجھ سے ایذا پہنچنے کا وسواس ہوا۔ بکشادہ پیشانی میرے پاس آ کے جواب دیا کہ اے شخص تو بھی بشر ہے۔ بندۂ خدا ہے مگر یہ کام جو تون ے اختیار کیا ہے اس میں شر ہی بہت بُرا ہے۔ در توبہ باز ہے آقا بندہ نواز ہے۔ اس فعل لغو سے منفعل ہو۔ توبہ کر۔ میرے خیال سے درگذر کہ میں ستم رسیدہ یکہ و تنہا


شگوفۂ محبت صفحہ 10

جریدہ ہوں مورد رنج و محن غریب الوطن یارو دیار سے جدا اللہ اعلم ہے کس مصیبت میں مبتلا ہوں۔ا ور جو تجھ کو اپنے زور و طاقت کا گھمنڈ ہے تو بیجا ہے کہ ہر فرعون کے واسطے ایک موسیٰ خلق میں خلق ہوا ہے۔ مجھ کو اسکے کلام پر ہنسی آئی۔ ترش رو ہو کے اس سے کہا صاحبزادے ملک الموت سے درشت کلام کرتا ہے۔ کوئی ایسا کام کرتا ہے۔ مصلحت یہی ہے کہ اسباب اور گھوڑا مجھے دے، پیادہ پا اپنی راہ لے۔ کیوں بے گور و کفن طعمۂ زاغ و زغن ہوتا ہے۔ جان سی چیز جنگل میں کھوتا ہے۔ یہ بات سن کر اس نے تیور بدلے، کہا، اے مردک کیا جھک مارتا ہے۔ شیخی بگھارتا ہے۔ انکار قدرت خدا کرتا ہے۔ دیکھوں تو میرا کیا کرتا ہے۔ پھر تو بموجب مثل کمزور پر غصہ جلد آتا ہے۔ نزلہ برضعیف مے ریزد میں نے کمان کا حلقہ کاندھے سے اتار اور یہ سوچا دو چار تیر بے تاخیر بچا کے اس کو لگاؤ کہ ڈر جائے۔ مال اسباب یہاں دھر جائے۔ میں نے کمان کھینچی، اس نے قرولی جو تیر قریب آیا بوضع دلکش کاٹا۔ قصہ مختصر سارا ترکش کاٹا۔ پھر تو میں جھلایا، تلوار کھینچ کے اس کے برابر آیا۔ خبردار کہہ کے وار کیا۔ اس نے چالاکی سے تجب کار کیا کہ وہی قرولی قبضے میں ڈال کر جھٹکا جو دیا، تلوار نے ہاتھ سے نکل کے میدان کا رستہ لیا اور دفعتہً بایاں ہاتھ بڑھا کے میری گردن پکڑی۔ گویا ملک الموت کے پنجے میں آئی۔ دم گھٹنے لگا، گلے کا فشار ہوا۔ یقین ہو گیا کہ انگوٹھا اس کا حلق اور گردن میں دوسار ہوا۔ مجھ کو غش آ گیا۔ دو گھری کے بعد جو آنکھ کھلی، دیکھا سرنگوں باگ ڈور سے بندھا درخت میں لٹکتا ہوں۔ اس کو جو پاس پایا، آپ کو بدحواس پایا۔ ڈر کے مارے زار و نالے کرنے لگا۔ اپنا عجز اس فعل قبیح کا انکار، اس پر حالی کرنے لگا۔ جس دم قسمیں زبان پر لایا، اس جرار کو رحم آیا۔ فوراً مجھ کو درخت سے کھول دیا اور میرے ہتھیار اس اشجع روزگار نے مجھ کو دے کے قریب بلایا، فرمایا، خبردار جس بات کو تو انکار کرتا ہے، اس کام کو زینہار نہ کرنا۔ قضاقی کے قصد پر اس دشت میں قدم نہ دھرنا۔ جو روزی کی فکر ہو تو پروردگار صادق الاقرار ہے، اس نے فرمایا ہے، قرآن مجید میں آیا ہے, وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّ۔هِ رِزْقُهَا، اور رسول الثقلین لو کان تحت الجبلین فرماتے ہیں۔ بشر اپنی حماقت سے گھبراتے ہیں۔ خالق بہر کیف اپنے بندے کو روزی پہونچاتا ہے۔ بھوکا اٹھاتا ہے، پیٹ بھر کے


شگوفۂ محبت صفحہ 11

سُلاتا ہے۔ ع :

مگر نشنیدۂ بیدل خدا داری چہ غم داری، ؂

جب دانت نہ تھے تب دودھ دیو
اب دانت بھئے کا ان نہ دہیے

یہ فرما کے وہ تو چل نکلا۔ مجھ کو تمام دن حیرت رہی۔ وہ ذلت و خواری جو مجھ پر گذری تھی، اس کی غیرت رہی۔ تمام رات نیند نہ آئی۔ صبح کو وہ مال اسباب جو حرام کا جمع کیا تھا، اس کو لٹا کے ایک سمت چلا اور دل میں یہ عزم بالجزم ہوا کہ اگر اکل حلال بہ مشقت کمال میسر ہوا تو کھاؤں گا، ورنہ فاقے کر کے مر جاؤں گا۔ انسان تو سست اساس ہے، بہت بدحواس ہے۔ یہ خیال آیا کہ اب دیکھیے کیوں کر آب و دانہ ملتا ہے۔ اس دشت پُرخار میں کیا گل کھلتا ہے۔ چلتے چلتے جب تھکا، ایک درخت سایہ دار دیکھ کے بیٹھا۔ بسکہ وہ خوش قطع تھا، بغور اس کو دیکھنے لگا۔ عجب ماجرا نظر آیا۔ ایک کوا بے پر و بال بُرا حال اس کے کول میں گردن باہر نکالے پڑا تھا۔ مجھ کو پھر وہی خیال آیا کہ اس کے دانے اور پانی کی زندگانی کی صورت کیوں کر ہوتی ہو گی۔ یہ تو درخت سے نیچے آتا نہ ہو گا، کچھ پیتا کھاتا نہ ہو گا۔ ابھی یہ وسوسہ دور نہ ہوا تھا کہ ایک باز تیز پرواز جانور پنجے میں دبائے ٹہنی پر آ بیٹھا۔ وہ جو شکار لایا تھا، پنجے میں جسے دبایا تھا، اس کا گوشت نوچ نوچ کر کچھ کھانے لگا کچھ گرانے لگا۔ غور جو کرتا ہوں تو کیا دیکھا جو کچھ باز گراتا ہے وہ کوے کے مُنہ میں آتا ہے۔ بے تکلف کھاتا ہے۔ جب کوا سیر ہوا، گردن کو اندر کھینچا، باز اُڑ گیا، مجھ پر عجب حال طاری ہوا۔ بارے قائل قدرت باری ہوا۔ دل سے کہا جل جلالہ یہ جو سنتے تھے، درست ہے۔ ؂

بے مگس روزی نماند عنکبوت
رزق را روزی رساں پرمیدہد

جو تقدیر میں ہے اُڑ کے اسطرح آتا ہے۔ بے ہاتھ پاؤں ہلائے حلق میں اتر جاتا ہے۔ اسی دن اس پہاڑ پر پھرتا پھرتا آ نکلا۔ یہاں کی بہار جابجا چشمہ ہائے سرد و شیریں خوشگوار گل بوٹے کی دید مجمع خلق سے بعید تنہائی بہت پسند آئی۔ یہ مصرع پڑھ کے بیٹھ رہا۔ ع

اوقات مکن ضائع و تنہا بنشین

ازروے حساب بہر حال چالیس سال گذر گئے، دود دام سے صحبت رہتی ہے۔ جانوروں کی طرف رغبت رہتی ہے۔ جس لذیذ طعام پر خواہش ہوتی ہے، سرِ شام رازق مطلق اس مقام پر بھیج دیتا ہے۔ نہ جستجو کرتا ہوں نہ کاہش ہوتی ہے۔ سیر ہو کے کھاتا ہوں۔ ولی نعمت کا سجدہ شکر بجا لاتا ہوں۔ بعد نماز عشاء صدا کان میں آئی تھی، ہاتف نے تیرے آنے کی خبر سنائی تھی کہ آذر شاہ بحال تباہ فرزند کی حسرت میں


شگوفۂ محبت صفحہ 12

اس پہاڑ پر آئے گا اور مایوس ہو کے مر جانے کا خیال دل میں لائے گا تو اس کو منع کرنا، سمجھانا، لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّ۔هِ پڑھ کر سنانا، کہہ دینا کہ اپنے ملک کو پھر جا اور خاقان چین سے اس کی بیٹی کا پیام دے۔ عجب وہ یاسمین پیکر گل اندام ہے، سمن رخ اس مہر جبین کا نام ہے۔ نمونہ کلک قدرت صانع نادر نگا ہے۔ یکتائے روزگار ہے۔ جب اس کے ساتھ تیری شادی ہو گی، تخل تمنا بار لائے گا۔ خانہ آبادی ہو گی۔ لیکن تیری پہلی عورت جو زلالہ ہے وہ سخت دلالہ ہے۔ اس پر سحر کرے گی۔ چندے اس کو جنون ہو جائے گا۔ حال زار زبون ہو جائے گا۔ مگر با دعائے درویش وہ دلریش نجات پائے گی۔ تیری مراد بر آئے گی۔ یہ کلمہ کہہ کے وہ تو ایک سمت رواں ہوا، آنکھوں سے نہاں ہوا۔ آذر شاہ بہت شاد ہوا۔ بند فکر سے آزاد ہوا۔ دل میں سوچا کہ دن زیادہ آیا، واللہ اعلم شہر کتنی دور ہے۔ بندہ پیادہ راہ چلنے سے معذور ہے۔ یہ تو اس خیال میں لب چشمہ حیران تھا، ہر طرف نگران تھا، اب دو فقرے ان کی ملازمان خاص کے سینے کہ دم سحر بصد کروفر وزیر امیر ارکان سلطنت ترقیخوہاں دولت در دیوان خاص پر حاضر ہوئے۔ یہاں سناٹا نظر آیا۔ ہر ایک کو بحال یاس سراسیمہ و بدحواس پایا۔ معلوم ہوا کہ شب کو شاہ کیوان جاہ کسی سمت راہی ہوا۔ زمانہ سب کی نظر میں سیاہ ہو گیا۔ ہر شخص کا حال تباہ ہو گیا۔ وزیر صائب تدبیر نے پہلے تو شہر کا بند و بست کیا، کوتوال کو حکم نگہبانی ہوا وہ مصروف جانفشانی ہوا۔ سب نے بادلِ درد مند شہر کے دروازے بند کیے۔ فرمایا کہ بجز مسافر کوئی اندر آنے نہ پائے۔ شہر سے جانے نہ پائے۔ پھر اپنا سر اور منہ آغشہ بہ خاک کیا۔ تا دامن گریبان چاک کیا۔ کچھ سورا جرار تھوڑے سے پیادے ہمراہ لے کے بہ تلاش شاہ گم گشتہ وہ جگر برشتہ شہر سے باہر نکلا۔ جا بجا خاک اُڑاتا پتا لگاتا چلا۔ قضاے کار اتفاقات روزگار اسی پہاڑ کے قریب پہونچا۔ دل میں آیا اس کے اوپر چلو، کیا عجب ہے کہ اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آئے۔ بادشاہ یہیں مل جائے۔ القصہ بجد و کد پہاڑ پر چڑھا۔ دور سے بادشاہ اسی چشمہ پر نظر پڑا۔ تشنۂ دیدار نے غریق بحر ذخار نے ساحل کامیابی پایا۔ دوڑ کر لپٹ گیا۔ رونے لگا۔ داغ مہاجرت دھونے لگا۔ الغرض شوکت و شان ساز و سامان سے بادشاہ کو لے کے شہر میں داخل ہوا۔ جس مطلب کو جویا تھا حاصل ہوا۔ جان نثاروں نے نذریں دیں، خلعت و انعام پائے۔ خوش و خرم اپنے اپنے


شگوفۂ محبت صفحہ 13

گھر آئے۔ شاہ ذی جاہ امور سلطنت میں موافق معمول مشغول تو ہوا مگر ہر دم فراق سمن رخ میں انتظام شہر کا بھولا۔ یہ تازہ شگوفہ پھولا۔ گل رخسار کی بہار پر خزاں چھائی۔ زعفران زر کی کیفیت نظر آئی۔ نخلِ محبت نے سینہ میں لگاؤ کیا۔ الفت کے کانٹے نے جگر میں کھٹک کی۔ کلیجے میں گھاؤ کیا۔ نہ گل و گلزار کی سیر سے رغبت رہی، نہ معاملات سے کچھ کام رہا۔ نہ گانا سُنا، نہ ناچ دیکھا۔ نہ شرب بادہ علی الدوام رہا، جو کہیں کھڑا ہو گیا تو بت کی طرح کھڑا رہا۔ جو پلنگ پر گر پڑا تو بہ خدا گھڑیوں پڑا رہا۔ لب خشک آنکھیں پرنم ہوئیں۔ اندوہ کی کثرت خوشی کی صحبتیں برہم ہوئیں۔ ؂

کہا گر کسی نے کہ کچھ کھائیے
تو کہنا کہ بہتر ہے منگوائیے

کسی کی تلاش میں خود رفتہ ہو حیرت زدہ ہر طرف نگاہ کرنے لگا۔ سوزش دل کی دم سرو نے تسکین کی۔ جی گھبرایا تو آہ آہ کرنے لگا۔ ہوش و حواس سر سے یکسر سرکے۔ عقل اور عشق میں لڑائی ہونے لگی۔ متاع صبر و خرد لُٹ گئی۔ عنان ضبط ہاتھ سے چُھٹ گئی۔ مملکت جسم کی تباہی ہونے لگی۔ دست جنوں تا گریباں پہونچا۔جیب کا چاک سرِ داماں پہونچا۔ بھوک پیاس پاس نہ آئی۔ غم کھا کے آنسو پینا اختیار کیا۔ فرقت جاناں میں مر مر کے جینا اخیتار کیا۔ جنگل سے رغبت ہوئی۔ بستی اجاڑ معلوم ہونے لگی۔ تنہائی کا دن تڑپ کے کاٹا۔ فرقت کی رات پہاڑ معلوم ہونے لگی۔ دربار میں آیا تو مجمع سے گھبرانے لگا۔ اکیلا ہوا تو سر پٹک کے پچھاڑیں کھانے لگا۔ صبح سے تا شام آہ و زاری کی۔ شام سے صبح تک تارے گنے۔ بیقراری کے دن کو گلزار میں اگر گذر ہوا، گل و بلبل کی صحبت کا خار ہوا۔ رات کا جلسہ مد نظر ٹھہرا تو شمع پروانے کی گرم جوشی دیکھ کے بخار ہوا۔ الغرض جب خلاف مقدموں کو طول ہوا تو سلطنت کی بربادی سے ہر ایک جان نثار نمکخوار ملول ہوا۔ زمانۂ سابق میں اس قدر لوگ بدنام نہ تھے۔ نرے خود کام نہ تھے۔ باہم سب نے جمع ہو کے بصد پریشانی عقل و دور اندیش سے کام لیا۔ ذہن جو لگایا تو بالاتفاق طبیعت کا میلان کسی جانب ٹھہرایا۔ ؂

مُنہ پر اس کے جو رنگ خوں نہیں
عشق ہے صاف یہ جنوں نہیں

ایک روز سر پاؤں پر دھر بجرأت تمامتر وزیر اعظم عرض پیرا ہوا کہ ہم لوگ خانہ زاد ہیں،۔ جان نثار ہیں، جس جا حضرت کا پسینہ گرے اپنا لہو بہانے کو تیار ہیں۔ لیکن کچھ اشارہ اگر پائیں، جان جوکھوں کر کے خدمت بجا لائیں، ورنہ ہم سب اپنا سر زیر قدم فدا کریں گے۔


شگوفۂ محبت صفحہ 14

اور تو کیا کریں گے۔ اس وقت چار و ناچار بجز اظہار حال آذر شاہ کو چارہ نہ ہوا، ذکر چھڑ جو گیا یارہ نہ ہوا۔ ابتدا سے انتہا تک پہاڑ پر جانا ملاقات کا ہونا جو حقیقت گذری تھی وہ سب کہہ سنائی۔ پھر فرمایا کہ بے وصل سمن رخ اپنا وصال ہے۔ فرقت میں جینا محال ہے۔ جب سرگذشت بادشاہ کی وُن لی، متفق اللفظ سب نے عرض کی کہ پیر و مرشد جو بادشاہ ہے، در دولت کا گدا ہے، اور جس جا جو حاکم ہے وہ حضرت کا محکوم ہے۔ چار دانگ میں اس سلطنت کا شہرہ ہے۔ صولت و سطوت کی دھوم ہے۔ کس کی مجال ہے جو نافرمانی کرے۔ تلخ چار دن کی زندگانی کرے۔ وزیر اعظم کی صلاح ہوئی کہ غلام پہلے ایلچی کے ہاتھ نامہ روانہ کرتا ہے۔ دیکھیے تو وہ راضی ہوتا ہے یا کوئی بہانہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جو مصلحت وقت ہو گی وہ بات کریں گے۔ جو صلح میں مطلب بر آیا تو خیر نہیں شر ہو گا۔ لڑیں گے۔ پیر و مرشد خاطر مبارک بہر کیف جمع فرمائیں جس کام میں دل لگے، جی بہلائیں۔ ان شاء اللہ المستعان بفضل یزدان قریب تر حسب دلخواہ یہ امر ظہور میں آتا ہے۔ خدا نے چاہا تو پیک خوش قدم شادی کا پیام ادھر سے لاتا ہے۔ یہ رائے بادشاہ نے بہت پسند کی۔ ذہن کی رسائی پر تحسین و آفرین فرمائی اور وہ جو تڑپ دل میں بیقراری آب و گل میں تھی اس سے نجات پائی۔ پھر منشی بے نظیر جادو تحریر کو یاد فرمایا۔ اس نے نیزۂ واسطی ہاتھ میں اٹھا کے سمند طبع کو صفحۂ قرطاس پر مہمیز اور تازیانہ فکر کہ چھپکے تو سن ذہن رسا کی دوردمی دکھا کے زبان خامہ کو حمد و نعت میں گہر ریز کیا۔

صلاح سے دبیر خجستہ تدبیر کی ایلچی روانہ کرنا آذر شاہ کا خاقان چین کو اور نامہ مسلل لکھنا منشی ترقیخواہ کا، طلب کرنا او مہ جبین کو

پس از حمد و سپاس خالق دو جہان صانع انس و جان جس نے یہ خیمۂ رنگاری بے چوب ریسمان استاد کیا اور ستاروں کی گلکاری بے مدد دست و قلم دکھا کے خاک کا فرش بروے آب رواں ایجاد کیا۔ اور اپنی صنعت نادر نگار سے فیض ترشح ابر بہار سے زمین کو پہونچا کہ قوت نامیہ عطا کی۔ کیا کیا سرو شمشاد نسرین و نسترن نے اس بے بنیاد گلشن میں سر اٹھایا اور کون کون سا گل بوٹا اس خاکدان پر محن میں کھلایا اور اس کی بو باس اور جوبن سے کس کس پُر الم کا


شگوفۂ محبت صفحہ 15

آسمان ٹوٹا، کوئی غریب دیار ہوا، کوئی دام میں گرفتار ہوا، کسی سے گلشن چھوٹا پر وہ بہار اور خزان کا حائل کیا کسی کا حلقۂ اطاعت قمری کی گردن میں ڈالا، کسی پر بلبل کا دل مائل کیا۔ ایک محبت کی شمشیر آبدار اس کے زخمی ہزاروں ہزار اس رمز میں بڑے بڑے دور بینوں کو سرگردانی رہی۔ آخر کار آئینہ وار حیرانی رہی۔ جتنا چھانا کر کرایا یا جب آنکھیں بہم پہونچائیں کچھ نظر نہ آیا۔ مجبور ہو کے مبہوت ہوئے۔ جسقدر تخلیہ تھے منجربہ سکوت ہوئے۔ سر جھکانے اور خاموشی کے سوا چارہ نہوا۔ دم مارنے کا یارا نہ ہوا اور تحفہ درود و سلام اس برگزیدۂ خاص و عام کے وسطے ہے جس نے شمع ہدایت روشن کر کے تیرۂ باطن جو گم کردہ راہ تھے، صراط مستقیم سے نہ آگاہ تھے، ان کو اسلام سے مشرف کیا۔ کفر و ضلالت سے بچایا، جہالت سے چھڑایا۔ زندگی کا لطف اٹھانے کو سلسلہ اتحاد میں الجھایا، راحت اور آرام پانے کو سررشتہ محبت و داد میں پھنسایا کہ خیر و شر سے ماہر ہو کے باہم بود و باش کریں۔ ع

دو دل یک شود بشکند کوہ را

شراکت میں تلاش معاش کریں، چنانچہ کافۂ انام میں بلکہ خاص و عام میں بحکم شرع شریف قرابت قریبہ کا ظہور ہوا۔ وہ جو تہلکہ بیگانگی کا معاملہ خانہ بدوشی کا تھا باہم کی روپوشی کا تھا درمیان سے دور ہوا۔ ہر چند ہر ملت و مذہب میں محبت کا طریقہ مروت کا سلیقہ قرابت کا ہونا بیگانگی کا کھونا سب کو پسند ہے۔ دانا ہونا یہ نادان، اس کا بہت خواہشمند ہے۔ اس واسطے کہ ع

بنی آدم اعضاے یک دیگر اند

بدہین یا نیک ہیں، حقیقت میں دونوں ایک ہیں، نہ کہ دو سریر آراے اریکۂ جہان بانی اور دو تاجدار رونق افزاے دیہیم سلطانی یہ رسم مرسلان ذوالجلال اور طریقہ آبا و اجداد ستورہ افعال باہم بجا لائیں تو بندہ ہاے نیکو کردار کہ بدایع و وایع پروردگار ہیں، کسقدر منفعت اور مسرت پائیں۔ محتاجوں کی حاجت روا ہوا، اہل حرفہ کو نفع پہونچے بھلا ہو، گو صرف فی الحال زیادہ ہو مگر دو مملکت ایک ہوں تو دولت اور مال زیادہ ہو۔ جب دوستوں میں شادی ہوتی ہے تو بیشک دشمن کو غم ہوتا ہے۔ خانہ بربادی ہوتی ہے۔ ورنیولا دل صفا منزل کہ مرأت جہان نما ہی بقول مشہور خانۂ خدا ہے۔ اس میں یہ امر عکس افگن ہوا ہے کہ فیما بین سواے روابط دیرینہ کوئی سررشتہ جدید کا قرینہ پیدا ہو کہ اکثر جو مخفی امور ہیں ان کا نتیجہ اس کائنات بے ثبات میں ہویدا ہو جو کام ہو


شگوفۂ محبت صفحہ 16

حسب احکام خدا ورسول ہو کہ خاص و عام کو گفتگو کی جگہ نہ ہو۔ قبول ہو یہ جو حکم مثنے و ثلث و رباع آیا ہے، یہ اشارہ گروہ سلاطین کی طرف شارع متین نے فرمایا ہے۔ لہذا خالق کا فرمان بجا لانا مخلوق کو پر ضرور ہے۔ انکار میں فتور ہے اور یقین ہے کہ وقائع نگاروں سے گوش حق نیوش تک یہ خبر پہونچی ہو کہ مملکتِ دکن میں چند اشرار سرگشتۂ بادیۂ ادبار متفق ہو کے راہزنی کرتے تھے۔ کچھ مال حرام اور بدمعاش قلاش بد انجام بصد پریشانی جمع کر کے سیاحان رو نورد کو تاجران جہان گرد کو ایذا دیتے تھے۔ مال اسباب چھین لیتے تھے۔ جس وقت یہ خبر بیجا متکفلان اخبر ہر شہر و دیار سے گوش زد ہوئی۔ بیخ کنی اس گروہ دنی کی منظور ہوئی۔ قلع و قمع کی کد ہوئی۔ مقربان بارگاہ قلیل سپاہ ہمرہ لیکے روان ہوے۔ جلوریز ان خود سروں کو یلان خنبر گذارنے بہ تیغ آبدار کیا۔ مسافر گل چھرے اڑاتے چلے جاتے ہیں۔ تمام راہوں کو بنچار کیا۔ دوسرے فتح ملک زنگبار اور تنبیہ اس فرقۂ تیرہ روزگار کی خاطر والا پر روشن ہوئی ہو گی۔ یہ امانت پروردگار جو ہماری ظل عنایت تحت حکومت ہے دن رات ان کی پاسبانی اور راحت رسانی میں بسر ہوتی ہے۔ تامظلوم کو ظالم سے، محکوم کو حاکم سے گزند و ضرر نہ پہونچے۔ تافلک ان کا شور و شر نہ پہونچے۔ انہیں مشغلوں کے باعث چندے رسل و رسائل میں توقف ہو اور نہ بیشتر دل خیریت طلب جویاے خبر صحت و سلامت ذات خجستہ صفات ہر اوقات میں رہتا ہے۔ والسلام نامہ تمام ہوا۔ کچھ اور تحفہ ہاے شہر و دیار نو اور روزگار مع نامہ جان نثار خان کابلی کو دے کے رخصت کیا اور یہ فرمایا جسقدر سریع السیری جانے آنے میں ہو گی، ناموری زمانے میں ہو گی۔ باعث تقرب بارگاہ آسمان جاہ ہو گا۔ خورسند مزاج ظل اللہ ہو گا۔ ایلچی برق و باد سے چست و تیرزہ نورد گرم خیز ہو کے عرصۂ قلیل میں برسر منزل مقصد پہونچا۔ وہاں اس کی آمد کی خبر ورود سے پیشتر ہو چکی تھی۔ سرِ راہ ناظموں کو فرمان اہالیان سلطانے بھیجدیے تھے۔ ہر منزل و مقام میں صبح و شام اسے آسائش ملی جو شے درکار ہوئی بے فرمائش ملی۔ جس دم بیت السلطنت میں داخل ہوا، وزیر کے روبرو ہاتھوں ہاتھ لوگ لے گئے۔ پہلے سے بود و باش کو مکان اکل و شرب کا


شگوفۂ محبت صفحہ 17

سامان تیار تھا۔ اس میں اس کو اتارا۔ ملازمت کا وعدہ دو دن کے وقفے پر ہوا۔ القصہ بروز معہود و ساعت مسعود وزیر اعظم نامہ بر کو ہمراہ لیکے حضور میں حاضر ہوا۔ طریقہ ملازمت شہر یار و شاہ سے یہ دستور دان آگاہ تھا۔ بعنوان شائستہ نامہ پیشکش کیا۔ تحائف گذرانے اور تقریر زبانی اپنی خوش بیانی سے بادشاہ کو بہت راضی کیا۔ تادیر ذکر حال و ماضی کیا۔ منشی بدیع نگار داناے روزگار طلب ہوا۔ نامہ سربستہ کھول کے زر و جواہر میں تول کے پڑھنے لگا۔ شہریار کا مگارنے حمد و نعت کو بہ کشادہ پیشانی سنا۔ وہ نکتہ جو مطلب خیز تھا، وہاں تجاہل عارفانہ کر کے بگوش نادانی سُنا۔ سطوت و صولت پر فرمایا۔ بادشاہوں کا یہی کام ہے۔ فتح و شکست کی جازبان پر آیا۔ گردش ایام ہے۔ القصہ حرف حرف وہ ماجراے شگرف سن کے ایلچی کو بقدر لیاقت خلعت و انعام دیا۔ چندے حکم قیام دیا۔ یہ تو رخصت ہو کر اپنے مکان پر آیا۔ وہاں مقربان بارگاہ دانایان ترقی خواہ کو خلوت میں یاد فرمایا۔ بعد رد و قدح یہ بات نکلی کہ اگر اس کام کا انکار ہو تو ملک الموت کی گرم بازاری کیجیے۔ مرنے کی تیاری کیجیے۔وہ الوالعزم ہے۔ آمادۂ نبرد مستعد پیکار ہو گا۔ بندہ ہائے خدا کا ناحق کشت و خون ہو جائے گا۔ ملک ویران رعیت نالاں سب کا حالِ زار و زبون ہو جائے گا۔ مناسب یہی ہے کہ بخوشی و خرمی اس امر کا اقبال ہو۔ موقوف جنگ و جدال ہوا۔ اس راے کو بادشاہ نے بھی پسند کیا۔ نامہ کا جواب القاب آداب محرر نے قلمبند کیا۔

انشا پردازی دبیر خاقان چین کی ظاہر انکار باطن میں اقرار کس خوبصورتی سے نہیں نہیں کی

مستوجب حمد قابل ثنا وہ صناع عجائب نگار ہے جو ۔۔۔۔ سے سلیمان کا جن و انساں کا پرودگار ہے، جس نے یہ ہفت گنبد بے ستون ودر ہموار اور مدور بناے اور مشعل مہر و ماہ سے شام و پگاہ میں فرق کیا۔ ستاروں کی چراغاں سے کیا کیا جھمکڑے نظر آئے، جو دن ہے تو کسقدر روشن ہے کہ بال کی کھال نظر آتی ہے۔ اگر رات ہے تو ظلمات ہے وہ تاریکی ہے کہ اپنا ہاتھ سرِ دست ہیہات سوجھتا نہیں ۔ طبیعت گھبراتی ہے، ہماری عجز سے اور کا اختیار ثابت ہوتا ہے۔ وہ قدرت کردگار ہے، دعوی وہم غلط بیکار ہے۔ جسدم وہ اپنی طاقت دکھاتا ہے۔


شگوفۂ محبت صفحہ 18

مور ضعیف سے فیل مست کو پست کرتا ہے۔ اینٹ کی خاطر مسجد ڈھاتا ہے۔ پشے نے نمرود سے سرکش کے دماغ پُر باد میں جاپائی فرعون کی قضا موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں سونپی پانی میں ڈوبا کہ جہنم کی آگ دکھائی۔ بجز عجز و قصور فتور اس درگاہ میں پسند نہیں۔ کام اس کا کسی چیز پر بند نہیں۔ جس نے گردن کشی سے سرتابی کی۔ طرفۃ العین میں خانہ خرابی کی قدرتین اس کی قابل اظہار لائق بیان نہیں کا الشمس نصف النہار عالم پر روشن ہیں۔ نہاں نہیں اور سزاوار درود و سلام نبی ہمارا علیہ السلام ہے جس نے ایک انگلی کے اشارے سے قمر کو دو کیا۔ فرماں برداروں نے اس کی جو چہا سو کیا، وہ شرع کی شاہراہ نکالی کہ عاصیوں نے مغفرت کی سبیل پائی، ہر کلمہ گو کو اس کے پیرو کو اطاعت و فرمانبرداری اس خجستہ صفات کی سند ہے۔ وسیلہ نجات کی لہذا اس وادی ناپیدا کنار سے عنان شبدیز خامہ معطوف کر کے گرم خیز دشت مدعا کیا۔ محبت نامہ عطوفت شمامہ مع تحائف مرسلہ بہ ساعت سعید ذریعہ برید سے ملاحظہ میں آیا۔ ہر فقرے نے اتحاد کا لطف دکھایا۔ مضمون مکتوب سے خیر و شر کے بھی پہلو ظاہر ہوے۔ حقیقت حال کیفیت مآل سے ماہر ہوے۔ مجبور ہیں کہ تم نے کلام خدا کی اس پر میں پناہ لی ہے۔ گواہی مخبر صادق علیہ السلام کی حدیث سے دی ہے۔ مجبور چارا نہ ہوا۔ انکار گوارا نہ ہوا۔ کہ آدم علیہ السلام کے زمانے سے تا ایندم بے بیش و کم یہی سلسلہ چلا آیا ہے۔ اور نسلاً بعد نسل، بطناً بعد بطن اس گُتھی کو کسی نے نہیں سلجھایا ہے۔ اور اظہار قدرت پروردگار آبادی شہر و دیار منحصر اس کار پر ہے جو امور شرعیہ خدا اور رسول کے احکام سے اجتناب کرے۔ مثل شیطان واجب اللعن ہو۔ آبرو کو خراب کرے۔ ورنہ اے مہربان یہی گویہی میدان ہوتا، خدا نہ دکھائے جو سامان ہوتا۔ دوسری یہ بات ہے کہ بددِ شعور سے آجتک تا مقدور طبیعت جویاے صلح رہی۔ جنگ سے انکار رہا۔ مروت اور محبت پر دارمدار رہا۔ آج نہیں کل اس وادی میں قدم دھرنا تھا۔ بار دوش اتارنے کو یہی کام کرنا تھا۔ اب بے جستجو یہ معاملہ رو برو آگیا۔ آیہ و حدیث پر عمل کیا، گردن جھکائی، تمہارے تمنا بر آئی۔ جس وقت جی چاہے۔ بے تردد رہ نور و منزل مقصد ہو۔ حست امکان جو کچھ ہو سکے گا۔ ظہور میں آئے گا۔ سفر وسیلہ ظفر ہے۔ لطف دکھاے گا۔ وہ جو جنگ و جدال کا حال


شگوفۂ محبت صفحہ 19

لکھا تھا۔ شاہان نامدار کا شب و روز یہی کار ہے۔ راحت خلق اپنا آزار ہے۔ پاسبان بدایع دوایع کردگار ہیں۔ یہی مشغلے ہمارے لیل و نہار ہیں۔ مجبور ہیں کہ اسی کام پر مامور ہیں۔ نامہ تمام ہو کے بند ہوا۔ درِ امید کھلا۔ سربمہر ایلچی کو حوالے کیا۔ دم رخصت اور خلعت گراں بہا نوادرات جا بجا دوستانہ دے کر روانہ کیا۔ تامنہ دار فائز المرام شاد کام نسیم صبا سے تیز تر دشت و کوہسار طے کر کے در دولت پر حاضرو ہوا۔ بشرہ شناسوں نے مژدہ بشاشت مشتاق لیل و نہار سلطان ذی وقار کو دیا۔ روبرو طلب کیا۔ نامے کا جواب سن کے آذر شاہ فرط مسرت سے بت ہو گیا۔ وزیر سے فرمایا کہ یہ ماجرا سچ ہے یا بات کی پچ ہے۔ وہ قسم شدید بے تامل کھانے لگا۔ اس وقت شہریار کو یقین آنے لگا۔ اسی دم بے اندیشہ و غم تیاری سفر گھر گھر ہونے لگی۔ منجمان دقیقہ رس اختر شناساں پاکیزہ نفس کو یاد فرمایا۔ متفق اللفظ سبنے دیکھ بھال کے ایام بدی میں ٹال کے ایک روز مقرر کیا۔ وزیر صائب تدبیر نے بلا توقف و تاخیر علم و کمال کے مطابق فرد فرد کو مالا مال دنیا کی احتیاج سے فارغ البال کیا۔ بروز معین ساعت مقرر بڑے کر و فر سے مع فوج و لشکر شاہ خجستہ نہاد روانہ ہوا۔ نت نیا مد نظر آب و دانہ ہوا۔

روانہ ہونا آزر شاہ کا شوکت و شان سے جلو میں فوج و سپاہ گرد ترقی خواہ بڑے تزک اور سامان سے

قصہ کوتاہ سب مرحلے طے کر کے جس دم چین کی سرحد میں لشکر کا گذر ہوا۔ آمادہ کار براری سرگرم خدمتگذاری ہر جگہ کا اہلکار ہوا۔ القصہ کوہ و دشت بلند و پست طے کر کے بیت السلطنت کے متصل خیام ذوی الاحترم نصب ہوے۔ آمد کا غلغلہ ساکنان شہر کے گوش زد ہوا۔ چھوٹا بڑا مسرور از حد ہوا۔ وزیر اعظم بصد جاہ و حشم مقربان بارگاہِ آسمان جاہ کو ہمراہ لے کے حاضر ہوا۔ دست بستہ سب نے نذر دی۔ ملازمت کی سعادت حاصل کی اور بادشاہ کا تشریف نہ لانا بموجب رسم زمانا عرض کیا۔ رات اسی جگہ گذری۔ بڑے تکلف سے تمام لشکر کی دعوت کی۔ دمِ سحر وزیر شاہ کو شہر میں لایا۔ مکاناتِ مرتفع عالی سجے سجاے ان کے واسطے خالی ہوے تھے۔ رہنے کو وہ مقام ملا۔ رنج و سفر سے آرام ملا۔ کچھ دنوں میں تعب راہ سے حرج شام و


شگوفۂ محبت صفحہ 20

پگاہ سے فرصت پائی۔ ساچق مہندی برات کی رات آئی۔ اگر اس کا بیان قلیل ہو، داستان طول طویل ہو، موافق آئین شاہان نامدار بڑے عز وقار سے شادی ہو گئی۔ مشتاق کی خانہ آبادی ہو گئی۔ کچھ دن بہر کیف راحت اور آرام میں بسر ہوئے۔ جلسے ہمدگر ہوے۔ بعذ لانتظامی شہر مملکت کی نطع و ضرر میں مصلحت سفر میں دیکھی۔ رخصت کا پیام ہوا۔ سامان سب مہیا ہوا۔ چلنے کا اہتمام ہوا۔ دم رخصت فرمانرواے چین نے اس قدر مال و اسباب نقد و جنس سیم و زر الماس و گہر اس رقم خاص کے سوا اور ایسا کچھ دیا کہ چشم ہمت آذر شاہ نے اس سے پہلے نہ دیکھا تھا۔ صدہا غلام زریں کمر، ہزاروں لونڈیاں، گل اندام یاسمین پیکر سمن رخ کی خدمت کو دے کر بادیدہ تر وداع کیا۔ اس سانحہ کی خبر شہروں میں جو دور تر تھے، گھر گھر پہنچی۔ غرضیکہ روز و شب قطع راہ بسان خورشید و ماہ آذر شاہ نے کی۔ بعد چندے بوے وطن دماغ میں آئی۔ فلک نے اپنے شہر کی صورت دکھائی۔ مطلب دلی حاصل ہوا۔ مع الخیر شہر میں داخل ہو اور باری سے بازاری تک مسرور دیکھا۔ دل سب کا شاد ہوا۔ از سر نو اتنا پرانا شہر آباد ہوا۔ جان نثار اور ترقی خواہوں نے اپنے حوصلے سے افزوں جلسےکیے۔

سمن رخ کا حاملہ ہونا، زلالہ کے باعث جنون کا معاملہ ہونا، حکماے حاذق کا بلانا وحشی کو صحت نہ پانا، شاہ صاحب کا بڑی جستجو سے ہاتھ آنا، ان کی دعا سے اچھا ہو جانا

محرر سحر بیان راقم داستان لکھتا ہے کہ اب آذر شاہ شام و پگاہ امورات سلطنت سے فرصت پا کے نئی محلسرا میں جا کے شام کو بعیش و نشاط سحر کرنے لگا۔ بڑے لطف سے زیست بسر کرنے لگا۔ ہنوز وہ فصل تمام نہ ہونے پائی کہ شاخ آرزو پھولی اور ثمر لائی۔ سب کے دست قابلہ نے خلوت میں آذر شاہ سے عرض کیا کہ مبارک ہو خوشی کا معاملہ ہے۔ سمن رخ شاہزادی حاملہ ہے۔ بادشاہ کو انتہا کی مسرت ہوئی۔ حد سے زیادہ سرور ہوا۔ وہ جو ملک کے انتقال کا بغیر اولاد خیال تھا، دل سے دور ہوا، درِ خزانہ وا ہوا۔ محتاجوں کا بھلا ہوا۔ فقرا مساکین گوشہ نشین کامیاب ہوے۔ ہزارہا کار ۔۔۔اب ہوے۔ رفتہ رفتہ یہ خبر وحشت اثر زلالہ جو پہلی بی بی تھی اس کے گوش زد ہوئی۔آتش رشک میں بُھن کے منہ کو پیٹ سر کو دھن کے خور و خواب وہ خانہ خراب بھولی
 

شمشاد

لائبریرین
شگوفۂ محبت صفحہ 21

سمن رخ کے مار ڈالنے کی کد ہوئی۔ سوت کو ڈاہ خوانخواہ ہوتی ہے۔ دوسری کو چین سے سونے نہیں دیتی۔ نہ خود سوتی ہے۔ زندگی اس کو وبال ہوئی، کھانا پانی حرام ہوا۔ سمجھی کہ سلطنت میں اسی کو دخل تام ہوا۔ پہلے تو دائیاں مقرر ہوئیں کہ اسقاط حمل ہو۔ جب ان سے کچھ نہ ہو سکا۔ ساحروں کی رسائیاں ہوئیں کہ زیست میں خلل ہو۔ فرمائش اول یہ تھی سمن رخ کا خون ہو، بعدہ یہ ٹھہری کہ مر نہ جائے تو جنون ہو۔ آخر کار ایک غدار اس پر آمادہ ہوا۔ عرض کی خداوند نعمت غلام یہ کام کرے گا۔ اس کے خون میں ہاتھ بھرے گا۔ القصہ وہ پیر و شیطان علیہ اللعن اپنے کام میں مصروف ہوا۔ یہاں وہ دن آیا کہ گود بھرنے کی تیاری ہوئی۔ از سرِ نو ۔۔۔۔۔ کلام وحست ناک کرنے لگی۔ کپڑے لتے کر ڈالے۔ گریبان چاک کرنے لگی۔ کسی کو گالیاں دیں، کسی کو مار بیٹھی۔ مسند جلا دی۔ فرش خاک پر دیوانہ وار بیٹھی۔ دن کو پوچھا تو رات کہی، کسی کی سمجھ میں نہ آئی۔ جو بات کہی۔ حال بہت زار و زبون ہوا۔ گھنگور جنون ہوا۔ سامان عیش و نشاط سب درہم برہم ہو گیا۔ عین شادی میں غم ہوا۔ محل میں برپا ماتم ہو گیا۔ آذر شاہ کو شدت سے رنج و ملال ہوا۔ بھلا چاہنے والوں کا بُرا حال ہوا۔ حکیم طبیب ملازم غیر ملازم درِ دولت پر حاضر ہوے۔ رمال منجم بے بلاے چلے آئے۔ خلقت کا ہجوم ہوا۔ تمام شہر کو یہ حال معلوم ہوا۔ بادشاہ نے طبیبوں سے فرمایا کہ تم لوگ اسی دن کی خاطر ہزارہا روپیہ کی تنخواہ پاتے ہو، گھر بیٹھے چین سے کھاتے ہو۔ آج امتحان کا دن ہے۔ بتاؤ تو مرض ہے یا جن ہے۔ بہرکیف اگر اس ہفتے میں ماہ دو ہفتہ کا مزاج اعتدال پر آیا تو سب کو نقد و جنس خلعت و انعام فراخورِ حال دوں گا۔ حاصلہ سے باہر زر و مال دوں گا۔ وگر خدانخواستہ اس کا یہی طور رہے گا تو تم پر ستم و جور رہے گا۔ ایک ایک کا پیٹ چاک کروں گا۔ بُری طرح ہلاک کروں گا۔ وہ وہ طبیب حاذق تھا کہ انسان تو کیا سر بے مغز آسمان کا سودا کھوتا تھا، مگر کچھ کسی سے نہ ہوتا تھا۔ غرضیکہ دوا موقوف ہوئی۔ جھاڑ پھونک کی دعا ہونے لگی۔ صدقہ رد بلا ہے، اس سے اور شدت سوا ہونے لگی۔ ایک شخص سیاح شہر و دیار نیرنگ دیدۂ روزگار ملاذمان سرکار میں حاضر تھا۔ بادشاہ کا رنج و ملال دیکھ نہ سکا۔ مقربان


شگوفۂ محبت صفحہ 22

بارگاہ سے کہا کہ وہ جو سرزمین اجمیر ہے، وہاں ایک خدا کا شیر ہے۔ اسد علی شاہ، اس مقبول بارگاہ کا نام ہے۔ ان کا اچھا کرنا ان کا کام ہے۔ جس عارضے کا مریض وہاں جاتا ہے، اس مسیحا نفس کے ہاتھ سے شفا پاتا ہے۔ پہلے دوا ہے، اس کے بعد بیر دعا ہے۔ زہے نصیب جو ایک چلہ اس خدا کے حبیب سے جدا نہ ہو۔ مجھے توپ کے منہ میں توپنا، اگر سمن رخ کو شفا نہ ہوا۔ جو کہا وہ ہو گیا۔ دست بستہ حکم و قضا و قدر ہے۔ فرشتہ خصال وہ بشر ہے۔ ؟صدہا کا جنون دور کیا۔ جنون کو پھونکا مارا ہے، ہزارہا پری کوشیشے میں اتارا ہے۔ بھوت پلیت بے پلیتے صورت دیکھ کے بھاگ جاتا ہے۔ شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پانی پلاتا ہے۔ جس دم یہ ماجرا آذر شاہ کو معلوم ہوا، فوراً ۔۔۔۔۔۔ کو جاؤ۔ جس طرح سے بنے شاہ صاحب کو تلاش کر کے لاؤ۔ یاد رکھنا اگر تم کو دیر لگی، سمن رخ کی جان گئی، ہمارا زندہ رہنا بہت محال ہے۔بے اس کے زیست وبال ہے۔ وزیر مطیع فرمان جلوریز منزل مقصد کی طرف گرم خیز ہوا۔ اور ابر و باد سے جلد وہ نیک نہاد اجمیر میں داخل ہوا، مگر شاہ صاحب کا نشان بود باس کا مکان جنگل سنسان صحرائے بے پایاں میں اُنا، اسی سمت چلا۔ معاذ اللہ پناہ بخدا بیابان خوفناک جہان، انسان کا کوسوں پتا نہیں، نام نہیں، دشت کا آغاز تو دیکھا، انجام نہیں، ہر سمت سے سائیں سائیں کی آواز کان میں آتی تھی۔ کلیجہ ہلتا تھا۔ ہیبت سے جان نکلی جاتی تھی۔ سخت پریشان، ہر سو نگران، گھبراتا تھا، پاس نمک یہاں تک تھا، اس پر تلاش میں چلا جاتا تھا۔ بعد خرابی بسیار معائنہ گل و خار بر سر چشمۂ آب اس مضطر و بیتاب کا گذر ہوا۔ چند درخت گنجان پھول پھل جدا جدا شاخیں، باہم چسپاں اس میں نے کو جھوپڑا، نئے ڈھنگ کا مکان، دیوار نہ در وحشت کا گھر، چھت او چھت غائب، رقط دالان کا نقشہ، کوٹھریاں ڈہی مگر بڑی شوکت و شان کا نقشہ، ایک دو تین گرمکا چوترہ، چار پانچ پُرانے بانس کا چھپر جُھکا پرا ؂

پانچ بتی کہ کہنہ سا چھپر
ساتھ سایہ کے دھوپ آٹھ پہر

پھٹا پرانا سا بوریا بچھا، اس پر ایک بزرگ سر بزانو اکڑو بیٹھا۔ وزیر دیکھ کر تھرانےلگا۔ خوف سے دل ہل گیا۔ کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ چہرہ مثل بدر تاباں تھا، مگر ریاضت شاقہ سے جسم کا ہیدہ بمرتبہ کمال چہرا استخوان بست و نہم کا ہلال گوشت کا نام نہیں، فقط کھال، سفید داڑھی، ناف تک نظر آئی۔ کپڑےکی قسم سے لنگی پائی، یہ رعت و جلال چند مشت


شگوفۂ محبت صفحہ 23

استخوان پر عنایت ذوالجلال اس نحیف و ناتوان پر دل سے کہا یہ ہیبت حق ہے۔ جو میرے پاؤں نہیں جمتے۔ اس کوچے میں لڑکھڑاتے ہیں۔ سب آثار عظمت اور بزرگی کے نظر آتے ہیں۔ بہت جھکا ادب سے، سلام کیا، چندے سکوت رہا، پھر کلام کیا کہ یہ محتاج دور سے حاجت لایا ہے۔ بادشاہ ہمارا مضطر ہے۔ دین و دنیا سے بے خبر ہے۔ اس نے بصد عجز و منت آپ کو بلایا ہے۔ فقیر نے مسکرا کر جواب دیا کہ بادشاہ خود حاجت روا ہے۔ اس کو فقیر کی کیا پروا ہے۔ اور بابا سنو جس دن سے دنیاے دون کی بے ثباتی نظر آئی، اس ہرجائی قحبہ کو بے وفا سمجھ کے چھوڑا۔ اہل دنیا اس کے مبتلا ہیں۔ نام پر فدا ہیں۔ ان سے نہ بنی۔ بگڑ کر منہ موڑا۔ اس دن سے شاہ و گدا اپنی نظر میں ایک ہیں۔ مساوی بد و نیک ہیں۔ خواہش مٹا دی۔ غرض الغرض اٹھا دی، بستی چھوڑی، ویرانہ پسند آیا۔ اینٹ کا گھر مٹی کر کانے کا کاشانہ پسند آیا۔نہ کچھ پاس ہونے کی شادی نہ نہونے کا غم ہے، دونوں حال میں ایک سا عالم ہے۔ ؂

ہے یہ تقریر عارفان الست
غمِ نیست ہو نہ شادی ہست

وزیر نے عرض کی پیر و مرشد بے چراغ خانۂ سلطان ہوتا ہے، بنا کھیل بگڑتا ہے۔ بسا ہواگھر ویران ہوتا ہے۔ خلق خدا کو اس کی ذات سے راحت ملتی ہے۔ سب کا بھلا ہوتا ہے۔ مقام غور ہے ایسے شخص کا مٹ جانا بُرا ہوتا ہے۔ یہ کہہ کے سب داستان آذر شاہ کی کیفیت بیاہ کی سمن رخ کا حاملہ ہو کے مجنون ہونا، اس لیلی شمائل کے اندوہ میں بادشاہ کا ناحق خون ہونا۔ مشرح بیان کیا۔ سچی بات اثر رکھتی ہے۔ شاہ صاحب کو یہ ماجرا سن کے تاسف ہوا، فرمایا اے وزیر یہ تیرے بادشاہ کی خوبی تقدیر ہے، جو مجھ کو رنج ہوا۔ اب بھی جو کسی کی ایسی حاجت گوش زد ہوتی ہے تو خوف خدا سے اس کی کاربرآری کی کد ہوتی ہے۔ مرشد کا شعر یاد آ جاتا ہے۔ پڑھ کر فقیر گھبراتا ہے۔ ؂

کبھی حوالۂ حرماں کسی کی آس نہ ہو
عدو کا بھی جو عدو ہوا سیر یاس نہ ہو

ورنہ بادشاہ کی ملاقات کی خواہش ہے، نہ محتاج کی صحبت سے بیزاری ہے۔ الا اس کے اضطرار سے خوف عتاب جناب باری ہے۔ بسم اللہ تم برسرِ ڈاک روانہ ہو۔ فقیر منزل و مقام دیکھتا آتا ہے۔ منزل رساں کی قدرت دیکھنا کون جلد پہنچ جاتا ہے۔ وہاں تو ساز و سامان شاہانہ تھا، وزیر بادشاہوں کا جانا آنا تھا۔ اور یہاں فقیر کا کارخانہ تھا۔ خیمہ نہ ڈیرا


شگوفۂ محبت صفحہ 24

نہ کہیں ٹھہر جانا بسیرا تھا۔ ایے کے ساتھ کب ہوا پہنچی جو ادھر قصد کرے ادھر جا پہنچے۔ غرضیکہ وزیر منزل اول میں تھکے۔ شاہ صاحب ایک جست میں برجستہ شہر میں داخل ہوئے۔ آذر شاہ سے ملاقات ہو گئی۔ یہ بات پہلے کرامات ہو گئی۔ سمن رخ کو دیکھا، حال سنایا، بادشاہ کو تسلی دی۔ کہا اللہ کو یاد کرو، دل غمِ رسیدہ شاد کرو ۔ وہ شافی مطلق ہے۔ دفع بلا کرے گا۔ فقیر بہ دل دعا کرے گا۔ ایک ہفتہ تامل کیجیے۔ عروج ماہ میں پانچویں تاریخ پنجشنبہ ہو گا۔ اس دن سے فقیر با درگاہ رب قدیر دست دعا بلند کرے گا۔ اگر مالک میری گریہ و زاری، تمہاری بے قراری پسند کرے تو مطلب مل جائے۔ سمن رخ اس بلا سے نجات پائے۔ ؂

دم عیسےٰ کی برابر ہے دمِ درویشاں
باعثِ رد بلا ہے قدمِ درویشاں

اور آج کے دن سے مقرر یہ بات کیجیے کہ تا شفا اس مریض کے روز خیرات کیجیے۔ فوراً صدہا من کی پخت مقرر ہوئی۔ غریب غربا محتاج مع زر نقد جپانے لگے۔ پیٹ بھر کے کھانے لگے۔ تیر دعا سپر چرخ تک پہنچانے لگے۔ اور بروز معمودہ عبد برگزیدہ معبود ایک مکان پاک صاف آراستہ کر کے چلے میں میں بیٹھا، وہیں گوشہ میں شاہزادی کو جا دی۔ مرید ان کا اعجاز شاہ ہمراہ تھا۔ اس سے فرمایا، میان تا ظہور اثر دعا کچھ باتیں دلچسپ کر کے تم تو شہ زادی کا دل بہلاؤ۔ فقیر ہمہ تن صرف دعا ہوتا ہے۔ دیکھو یہ رات حرف و حکایات میں کیسی کٹتی ہے۔ دم سحر یہ سحر کا کارخانہ کیا ہوتا ہے۔ یہ کلمہ زبان پر لا وہ بندہ خدا حجرے میں جا عنز و انکسار سے مصروف مناجات با درگاہ بر آرندۂ حاجات خشوع و خصوع رجوع قلب سے بصد گریہ و زاری ہوا۔ مرید زبردست مرشد پرست سحر بیانی تقریر زبانی سے متوجہ دلداری آمادۂ غمخواری ہوا۔ کہا شاہزادی فقیر کو عالم سیاحی دشت نوردی جہاں گردی میں عجیب و غریب حادثے پیش آئے۔ فلک شعبدہ باز عربدہ ساز کہن نے نئے نئے سانحے دکھائے۔ اگرچہ طول طویل داستان ہے، لیکن قابل تقریر وہ بیان ہے۔ بگوش دل متوجہ لو کے اگر سنیے، غالب ہے، ملال خاطر دور ہو۔ طبیعت مسرور ہو۔ وہاں شاہ صاحب اسم باری کئی باری پڑھ چکے تھے۔ اثر کی کیفیت جو حاضر تھے ان کے قیاس میں آ گئی۔ کہ شاہزادی از خود رفتہ وحشت زدہ تھی یا فوراً حواس میں آ گئی۔ جوب دیا، بہت خوب۔ کچھ فرمائیے۔ حکایت دلچسپ اگر یاد ہو، امداد ہو، سُنائیے


شگوفۂ محبت صفحہ 25

تقریر دلپذیر اعجاز شاہ کی حکایت بیان کرنی، جہان آرا شاہزادہ اور مہر جمال پریزاد کی سمن رخ کا سنبھل جانا، خود رفتگی سے ہوش میں آنا

اعجاز شاہ نے کہا اے ملکہ سرزمن ایران یعنی خراسان میں ایک شاہزادہ تھا، مہر پیکر ماہ آسا شہزادہ، جہاں آرا اس کا نام تھا۔ سرو قامت لالہ رخسار عنبرین مو سنبلیں گیسو، اس کے حسن کا شہرہ روم سے تا شام تھا۔ جسدم تخت سلطنت پر جلوس فرمات اتھا، نزدیک و دور سے ہزار ہا بندۂ خدا اس صنم کے دیکھنے کو آتا تھا۔ ضوان رعنا، چاند کا ٹکڑا، خلق مروت، ہمت شجاعت میں لاثانی، اس زمانے میں وہ آفت کا بانی اپنا عدیل و نظیر نہ رکھتا تھا۔ دوسری تصویر مرقع دہر میں فلک پیر نہ رکھتا تھا۔ رعایا کا دل عدل و داد سے شاد تھا۔ ملک زرریز بہت آباد تھا۔ لیکن طبیعت کو میل سیر و شکار دیکھنا عجائبات روزگار کا ہر دم مدِ نظر رہتا تھا۔ آٹھوں پہر تیار سامان سفر رہتا تھا۔ ایک روز بعزم شکار و صید نخچیر وہ بہرام گورگیر ہمراہیوں سے جدا یکہ و تنہا جنگل میں نکل گیا۔ جس دم خسرو خاور تمنائے جمال میں اس ہزبر خصال کی نصف منزل فلک طے کر چکا، حرارت کی تیزی سے دوپہر کی جلو ریزی سے شہزادے کو بھوک پیاس کا غلبہ ہوا۔ ساتھ والوں کے چُھٹ جانے کا مطلق خیال نہ رہا۔ شکار کے نہ پانے کا ملال نہ رہا۔ جس طرف سے پانی کا گمان ہوتا، ادھر باگ اٹھاتا۔ جہاں درخت سایہ دار گنجان کا شبہ پڑتا، سیدھا چلا جاتا۔ اسی دوڑ دھوپ میں صحرائے پربہار دشتِ لالہ زار میں اس کا گذار ہوا۔ ہر سو متحیر نگران بے دانہ و آب خستہ خراب پریشان تو تھا۔ باغ کا قطعہ دور سے جو نظر آیا۔ اسپ صبا خصال رشک غزال کو اس طرف بڑھایا۔ قریب تر جب آیا تو قدرت صانع حقیقی کا جلوہ تقدیر نے دکھایا۔ یعنی دیوار میں ایک اینٹ نقرئی دوسری طلائی ہے۔ جوڑ نہیں معلوم ہوتا۔ اس حُس سے ملالی ہے۔ آفتاب کے عکس سے برعکس غبار ہوتا ہے۔ اسقدر صفائی ہے، چاروں کونوں پر یاقوت کے بنگلے خورشید سے زیادہ چکمتے ہیں۔ الماس کے کلس نظر کو خیرہ کرتے ہیں۔ اس طرح دمکتے ہیں۔ اتنے بڑے آسمان پر ایک آفتاب اس باغ میں چار ہیں۔ عقل باریک بین گم ہوتی ہے۔ جیسے نقش و نگار ہیں۔ دروازہ رشک باب فردوس


شگوفۂ محبت صفحہ 26

عرض طول کئی کوإس، یاقوت کی چوکھٹ، بازو زمرد کے پٹ، بلند اسقدر کہ ہاتھ مع عماری نکل جائے۔ شاہ شہریار کی سواری نکل جائے۔ مثل آغوش پر متنا وا دروازے کا پٹ کُھلا ہوا۔ یہ تو مسافت دراز طے کر کے آیا تھا، حرارت سے گل رخسار مرجھایا تھا۔ وہاں حاجب نہ دربان پایا، سناٹے کا عالم سنسان پایا۔ بے دغدغہ اندر در آیا۔ بمجرد نگاہ حیرت نے نقشۂ تصویر بنایا۔ دیوار کے تلے نہر جاری تھی۔ اس کے متصل انگور کی تاک تھی۔ ہر شجر کی اسی پر تاک تھی۔ جواہر نگار ستون کھپانچ کے بدلے سُنہری روپہلی تیلیاں، خاتم بندیکا کام خوشون پر زربفت کی تھیلیاں، مستانہ وار ہر ایک جھومتا تھا۔ ولوے میں آن کر خوشی کو خوشہ چومتا تھا۔ چمن کی روش پڑی، خوش قطع ڈالی۔ ہر درخت کی ہموار کم و بیش جھانٹ ڈالی تھی۔ نئی روش نکالی تھی۔ نہروں کے گرد پڑیاں بلور کی، قریب ہری بھری گھانس زمرد کو شرماتی تھی۔ نہروں میں فواری چڑھی، بلبل کی روح بلبلا کے درود پڑھی۔ پانی کی شفافی پر جان لہراتی تھی۔ جو گل تھا متصل اس کے بلبلوں کا غنچہ دیکھا۔ نغمہ سنجی زمزمہ سرائی کی صدا تھی۔ خوشبو سے دشت مہکتا تھا۔ مسافر وہم و خیال کا ہر قدم پاؤں بہکتا تھا۔ عنبر فشاں نسیم و صبا تھی۔ مہتم فضا تھی۔ ہر تختہ چمن غیرت دہ صد گلشن جو پھول پھل تھا اس پر ہزار طرح کا جوبن سب فصلوں کا میوہ تیار تھا۔ بہار نثار خزان کو سخت خار تھا۔ ؂

ص ہزاراں گلے شگفتہ درد
سبزہ بیدار آب خفتہ درد
ہر گلے گو نہ گو نہ از رنگے
بوی ہر گل رسیدہ فرسنگے

رنگروں کا تختہ جاے غور تھا۔ کچھ عالم ہی اور تھا۔ سبز سبز پتے سرخ سرخ پھل پائے۔ ہوس لنگ دستِ تمنا شل جان بیکل ہوتی ہی تھی۔ یہ بے ضرر سیب معطر ناشپاتی کو جوبن جدا ذائقہ زبان چاٹتا۔ انار دانہ دار کہیں بیدانہ نادر روزگار یادگار زمانہ امرود حلواے بیدود، شریفے سے شریف تر میوہ نظر نہ آیا۔ میٹھا بہت شیریں، چکوترا بصد تزئین، شربتی فالسے نے عجب چاشنی کا مزا پایا تھا۔ چکیا آڑو کی قطار جدا ایک سمت شفتالو کا پرا، خلاصہ یہ ہے کہ جو کبھی خواب میں نہ دیکھا تھا، وہ فلک کے بیداری میں دکھایا۔ اگر قوت نامیہ اس زمین کی تحریر کروں، عجب نہیں جو چوب خشک خامہ یعنی نے قلم بے قلم برگ نکالے، ثمر آبدار لائے، صفحہ قرطاس تختہ گلشن ہو۔ خط شکستہ میں نستعلیقوں کے روبرو گلزار کا جوبن ہو۔ بین السطور سے دور سے نہر کی لہر آئے


شگوفۂ محبت صفحہ 27

صریر خامہ صفیر بلبل ہو۔ مسطر کا تار دام کا کام کرے۔ عندلیب کی عقل کا چراغ گل ہو۔ نکتہ چین بدبیں کمبخت کو خار ہو۔ تب رشک سے بتخالے ہوں۔ زبان پھل کر بیکار ہو۔ روشنائی سے حاسد اپنا منہ سیب ذقن تک کالا کرے۔ دانت کھٹے ہو جائیں۔ بار دگر کسی کا عیب نہ نکالا کرے۔ غرضیکہ چمن کے تختوں میں عنہا پر ثمر بار دار شاخ سے شاخ مشتاقوں کیطرح پیچاں دست و گریباں چینی کی ناندیں یا بلور کی نور کی طلائی کار روشوں پر برابر برابر ان میں درخت گلدار بیلا ہوتیا نسرین و نسترن جوہی شب بو چنبیلی نرگس یاسمن کسی جالالے کے پیالے یاقوت رنگ افیون سے لبریز کسی طرف نیبو نارنگی کھٹے کی میٹھی میٹھی بو باس تیز کہیں سنبل بازلف پریشان ایک جاسوس سو زبان باغبان قدرت کا مدح خواں ہر تختے میں باد بہاری مستانہ وار لڑکھڑاتی پھولوں کے پھولنے پر پتوں کو کھڑ کھڑاتی ؂

نہریں تھیں لطیف مثل کوثر
لہریں تھیں تمام سلک گوہر
پانی تھا اثر میں آبحیواں
نظارہ تھا جس کا مایۂ جاں

فواروں میں ساون بھادوں کی جھڑی کا مزا، بط و قاز قراقری کے خرام میں کبک دریکا مزا، کویل کوکتی پپیہے سے پی پی کی صدا طاؤسان رقاص کا جا بجا کھمکڑا، برسات کی آمد، گرمی کی فصل کا اختتام، جابجا چشمہاے سرد و شیریں، لہر آتی زمین پر، فرش زمرد فام ؂

ہر نخل کی شان جیسے طوبا
سبزے سے تھا دشت چرخ خضرا

سرو شمشاد پر قمری اور فاختہ کی فریاد تھی، بلبل کی زبان پر گل کی شکایت حد سے زیاد تھی۔ ؂

سنبل میں تھا طرز ذوذوانب
شبنم میں تھا جلوۂ کواکب
مانند شفق وہ پھول رنگین
تھا رشک نجوم لطف نسرین

کوئین پختہ جن کی چاہ میں باؤلی دیوانی ہو جائے۔ پٹریاں ایسی تحفہ کہ انگور کی تاک جوانو کو جھانک لے تو شرمائے۔ رنڈیاں جوان جوان باغبانیوں کی سامان زربفت کے لہنگے دھوتی کے انداز پر کُھسے شبنم کے دوپٹے ان پری پیکروں کے جن میں لچکا ٹکا کرن لگی، اس کی گاتی سورج کرن سے زیادہ جگمگاتی، بنت گوکھرو کی انگیا کھچی طرحدار کچونکا اوبھار جواہر نگار ہاتھوں میں کڑی شونے کی چھڑی پاؤں میں پڑی، چاندی کے بیلچے کندھوں پر کُھرپیاں، طلائی ہاتھوں میں دلفریبی کی گھاتوں میں نسیم صحن چمن سے تو بے تکلف عطر سُہاگ کی لپٹ آتی تھی۔ لیکن اس گلزار کی


شگوفۂ محبت صفحہ 28

خاک بھی عود و عنبر کی بو باس کو شرماتی تھی، شاہزادہ دل میں سوچا کہ یہ کسی سلطان عالیشان کا باغ ہے۔ نشست کا مکان ہے۔ لیکن رنڈیوں کے بند و بست سے ثابت ہوتا ہے کہ زنانہ سامان ہے۔ پہلے تو سوچا کہ پھر تو جرات ذاتی نے کہا۔ چلو دیکھو تو فلک کیا دکھاتا ہے۔ ایسا باغ بشر کے دیکھنے میں روز کب آتا ہے۔ یہ سوچ کر بیباکانہ باغ میں باخاطر فراغ سیر کرنے لگا۔ دفعتہً لب نہر ایک بنگلہ دیکھا کہ آنکھٰن جھپک گئیں۔ جل جلالہ صانع نادرنگار کی صنعت کا جلوہ ہر بار پیش نظر جگر جگر کرتا تھا۔ رعب ایسا تھا، ہر قدم پاؤں اُس کا لڑکھڑاتا تھا۔ بڑھنے کا قصد اگر کرتا تھا آخر کار یہ بھی تو شاہزادہ عالی تبار تھا گو دشت صعوبت میں غریب دیار تھا۔ قریب پہنچا۔ اس وقت فلک شعبدہ پرداز نے طلسم حیرت افزا کا نقشہ دکھایا۔ جابجا پریزادوں کا غنچہ نظر آیا۔ کچھ تو سکوت کے عالم میں نقش دیوار پائیں تھوڑی سرگرم کاروبار پائیں اں کو کام خدمت میں مصروف پا کے دل سے کہا، مقام غور ہے کہ سب کے سب خدمت گزار فرمانبردار ہیں۔ مالک ان کا کوکئی اور ہے اور یقین کامل ہوا کہ یہ عقل کے خلاف ساز و سامان ہے۔ انسان کا حوصلہ یہ کہاں خطٔ پرستان قوم بنی۔ جان ہے ان کو یہ خیال تھا، وہاں پریزادوں کا عجب حال تھا۔ جو جو وہاں موجود تھیں، کام کاج یک لخت بھول گئیں، شاہزادہ کا جمال بیمثال جو نظر پڑا سکتا سا ہو گیا۔ ہوش و حواس پاس نہ رہا۔ کھو گیا۔ اچھی صورت کا ہونا عجب چیز ہوتا ہے۔ آقا تو آقا ہے۔ بندہ کے نزدیک غلام بھی عزیز ہوتا ہے۔ بلکہ غیر جنس کو تمنا ہو جاتی ہے۔ صاحب نصیبوں کے سوا کس کو یہ دولت ہاتھ آتی ہے۔ ان کو تو جلوہ حسن نے تصویر کا پتلا بنایا۔ کسی نے کچھ نہ پوچھا کہ تم کون ہو کہاں سے آئے ہو، شاہزادہ نے ہاتھ بڑھا کر در سے پردہ اٹھایا۔ دفعتہً غفلت کے پردے آنکھوں پر پڑ گئے۔ قدم اٹھانا محال ہوا۔ عجیب حال ہوا۔ زمین میں پاؤں گڑ گئی۔ ایک آفت آسمانی، بلائے ناگہانی کو بصد انداز مسند ناز پر جلوہ گر پایا، وہ جو چند سیمبر، اس کے ادھر ادھر جلوہ گر تھیں۔ سب نے کون ہو کہاں چلے آئے۔ اس کا غل مچایا۔ شہزادہ تو حیرت کا مبتلا وحشی سا تازہ پھنسا ہر طرف دیکھ رہا تھا۔ کہ شاہزادی نے اس کی صوورت پر نگاہ کی۔ ایک نے کلیجہ پکڑ لیا، دوسرے نے بیساختہ آہ کی۔ محبت کے معاملے تقریر اور تحریر سے باہر ہیں۔ دلفگار دو چار اس


شگوفۂ محبت صفحہ 29

کیفیت سے ماہر ہیں۔ نہ مشاطہ کی حابت ہوتی ہے۔ نہ قاصد کی لجاجت ہوتی ہے۔ نہ دخل نامہ و پیام ہوتا ہے۔ خالی ایک نظر دونوں کو لگ جاتی ہے۔ گردش چشم میں کام تمام ہوتا ہے۔ کبھی خواب میں دیکھ کے خیال ہوتا ہے۔ بے وصل وصال کا ڈول پڑتا ہے۔ دو دن کا جینا محال ہوتا ہے۔ کبھی تصویر دیکھ کے بت ہو جاتا ہے۔ عجب رنگ ہوتا ہے۔ نصیحت سے دل تنگ ہوتا ہے۔ سودے کے زور میں نشتر کوئی کھائے، لہو اور کے ہاتھ سے نکل آئے۔ عیاذاً باللہ ایک کو محمود ہو تو لاکھ کا ضرر بے سود ہوا جبتک داغ دل و جگر آلے رہتے ہیں۔ جینے کے لالے رہتی ہیں۔ یہاں تک خام ہے۔ یعنی کچاہی بالکل جھوٹا ہے۔ گو سچاہی جسدم زخم ہو کہ ناسوور ہو، اوہ بہادر سور ہوا۔ کچھ اور ہی لذت اس کی زبان پر آئی۔ اور یہ کیفیت دکھائی۔ کہ عین جنون میں صاحب حواس و ہوش ہوا۔ سوسن کی صورت ہزار زبان بہم پہونچی الاخموش ہوا اور جو ولولے میں بیٹھے بیٹھے کچھ بول اٹھا، بند منہ کو کھول اٹھا تو محکمے میں گنگار ہوا۔ محتاج ہوا یا سردار مگر برسردار ہوا۔ بال کی کھال اس میں کھینچتی ہے۔ جان کسی عنوان نہیں بچتی ہے۔ بڑے بڑے حوصلے والوں کی صریح بائی بچتی ہے۔ القصہ شاہزادہ نے لڑکھڑا کر قدم سنبھالا، غشی اور بے ہوشی کو بڑی ہشیاری سے ٹالا۔ ادھر وہ بھی سیدھی نہ رہ سکی۔ گردن خم ہو گئی۔ اجنبی کا بہانہ کر کے برہم ہو گئی۔ پریزاد نے دل و جگر کو تھام زبان سے کام لیا، کہا بسم اللہ تشریف لائیے۔ خانہ خاؤ شماست عنایت فرمائیے۔ شاہزادہ بے تکلف مسند پر جا کے تکیہ لگا کے اس گارو کا ہم پہلو ہوا۔ بیٹھتے ہی ایک ساعت تک دونوں کو سکتے کا عالم رہا۔ نہ پریزاد صحیح نہ شاہزادہ سالم رہا۔ صاحب خانہ نے دیکھا، مہمان بولتا نہیں، لب کھولتا نہیں، مجبور ہو کے سلسلۂ کلام اسی سیم اندام نے شروع کیا۔کہ اپنے شہر کا نام، بود و باش کا مقام بتائیے، کچھ حسب و نسب سے آگاہ فرمائیے۔ شہزادہ نے جواب دیا۔ سرزمین ایران بیت السلطنت خراسان، سیر و شکار کی خواہش میں ہمراہیوں سے جدا ہو کے غریب دیار ہوا۔ ایسا شیر افگن غزال رعنا کا شکار ہوا۔ یہ سن کے اس نے جلیسوں سے فرمایا کہ یہ آوارۂ دیار کلیۂ تیرہ میں جلوہ گر ہے۔ مسافر نوازی مدنظر ہے۔ چند پری پیکر اٹھ کر آداب بجا لائیں۔طرفۃ العین میں کشتیاں شراب ناب کی قابیں کباب کی روبرو آئیں، اس کی وزیر زادی تھی


شگوفۂ محبت صفحہ 30

سحر ساز نام بصد ناز و انداز وہ گلفام اٹھی، ساقی بنی، کنٹر ہاتھ میں لیا، گلاس کو بہت آب و تاب سے شراب ناب سے لبریز کر کے پریزاد سے کہنے لگی کہ یہ سیاح بے نام نشان خانہ بے تکلف میں مہمان ہے۔ فرمانروائی کو تہ کیجیے، یہ ساغر لیجیے، اپنے ہاتھ سے پلائیے۔ اور یہ شعر پڑھا ؂

لبریز ہو چکا ہے یہ ساغر شراب کا
دورہ ہو جلد ڈر ہے مجھے انقلاب کا

پریزاد بولی ہم سمجھ گئے۔ یہ مسافر مد نظر ہوا۔ تمہارا میلان خاطر ادھر ہوا بے فائدہ، شرماتی ہو، تمہیں کیوں نہیں پلاتی ہو۔ وزیر زادی نے عرض کی حضور اس وقت بدحواس ہیں۔ آپ میں کہاں ہیں اور ہمتو لڑکپن سے مزاج دان ہیں۔ تقریر میں طول ہو گا۔ اس سے کیا حصول ہو گا۔ فلک جفا سرشت تفرقہ پرداز ہے۔ مشہور شعبدہ باز ہے۔ ع

کسی کا اسے وصل بھاتا نہیں۔ ؂

دم غنیمت صحبتِ احباب ہے
آج جو ہے کل خیال و خواب ہے

پریزاد نے کہا خیر تیری خاطر ہی میان مسافر یہ جام حاضر ہے۔ بے کھٹکے نوش فرمائیے، وسوسے کا خیال نہ لائیے۔ باغ کو کفش خانہ سمجھیے، یہ صحبت اتفاق زمانہ سمجھیے، شہزادہ نے بصد تمنا اس کے ہاتھ سے جام لیا، پی کے پھر اپے ہاتھ سے بھرا اور پریزاد کو دیا۔ علی التواتر پے در پے جام مے چلنے لگے۔ ہوش حواس کے پر جلنے لگے۔ جس وقت آنکھوں میں سرور ہوا۔ چشمکیں شروع ہوئیں، نشہ کافور ہوا۔ ہاتھا پائی کی نوبت آئی۔طرفین سے ولولوں کا جوش ہوا۔ چھڑ چھاڑ کر کے دفعتہً ہم آغوش ہوا۔ ؂

چوخانہ خالی و معشوق مست ناز بود
تو ان گریست برآں کس کہ پاکباز بود

ہم صحبتیں شرمائیں، یہ کلمہ زبان پر لائیں کہ تم نے دیکھا یہ مردوا کتنا جلد باز ہے۔ کسی نے کہا شباب کا آغاز ہے۔ یہ سن بُرا ہوتا ہے۔ مرد و رنڈی میں اور کیا ہوتا ہے، جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ جہلو تو کیوں کھسیانی ہوتی ہے۔ کوئی بولی یہ تو مزے اڑئے گا، اگر حال کُھلا تو چونڈا کس کا مونڈا جائے گا۔ یہ تو اُوہی اُوہی کہہ کے اٹھ بھاگیں، اپنے اپنے موقع پر جا لاگیں۔ جب کوئی پاس نہ رہا، دغدغہ مٹ گیا۔ ہراس نہ رہا، بوس و کنار درکنار مساس ہونے لگا۔ مزے میں آئے۔ نشہ نے پینگ بڑھائے۔ کنج مقفل بے پاسبان نظر آیا۔ مارخفتہ نے سر اٹھایا۔ چاہا تھا کہ ازار بند کھولے۔ دُرج تورے، پریزاد نے سنبھل کر ہاتھ جوڑے، کہا سراسر ہوا و ہوس کا پابند انسان ہے، جلد بازی کار شیطان ہے۔ اس میں تیرا ضرر ہے۔ جان کا خوف و خطر ہے۔ تو خلقتِ بشر فرد انسان، میں پری قوم بنی جان، سن تمیز سے


شگوفۂ محبت صفحہ 31

میں نے مرد کا انکار کیا تھا۔ جنگل میں باغ بنا کے رہنا اختیار کیا تھا۔ اس پر فلک ستمگار نے یہ گل کھلایا۔ تجھ کو شکار کے حیلہ میں یہاں پہنچایا۔ مجھ کو ہمصحبتوں کی آنکھ میں ذلیل و خوار کیا۔ تیرے دام محبت میں گرفتار کیا۔ ننگ و ناموس کا مطلق پاس نہ رہا۔ قوم کیسی، ماں بات کا خوف و ہراس نہ رہا۔ دو گھڑی میں یہ نوبت بہم پہنچی کہ بے تکلف ہو گئے۔ خواہش بیجا کو کام نہ فرما، اسی پر اکتفا کر جا، ورنہ یہ صحبت خواب و خیال ہو جائے گی۔ درِ باغ تک آنے کی بار نہ آئے گی۔ اگر بات بڑھ گئی تو خانۂ سلطنت لاوارث بے چراغ ہو جائے گا۔ تیرے ماں باپ کے دل پر تازہ داغ ہو جائے گا۔ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اس قامت رعنا کا کسی اور ہئیت میں انقلاب ہو گا۔ دربدر شکل جانور خراب ہو گا۔ میں پنبہ دہان سحر زبان ہوں۔ موافق کی دوست منافق کی دشمن جاں ہوں۔ اتنی گرم جوشی کو بہت مغتنم جان لے۔ اپنی جوانی پر رحم کر میری بات مان لے۔ کچھ دن یہاں قیام کر، موقوف خیال خام کر۔ پریزاد کی طرف سے جب یہ روکھا جواب ہوا، شہزادہ سُچک کر بر سر حساب ہو۔ ایکدم چُپ ہو رہا۔ مگر جسم سے جسم ملا تھا۔ پھر وہی ہنگامہ شروع ہوا۔ سچ ہے شباب میں بشر کو کچھ سوجھتا نہیں۔ ہر چند سمجھاؤ، پہیلی بوجھتا نہیں۔ پریزاد نے جو غور کیا کہ اس سمجھانے پر پھر اس نے وہی طور کیا۔ جھلا کر کچھ بُڑؓرائی، کہا او خیرہ سر بن جا کبوتر۔ اس بات کا منہ سے باہر آنا، فوراً وہ جوان زمین پر تڑک کے بیقرار ہوا۔ فلک نے یہ گل کھلایا، کبوتر تو بن گیا مگر نگار ہوا، برسر، عداوت چرخ شعبدہ باز ہوا۔ مجبور خوف زدہ وہاں سے سر گرم پرواز ہوا۔

آوارہ ہونا باغ سے، بادل پر داغ، شاہزادہ کا کبوتر بن کے اور باز کے پنجے سے چاہ کی بدولت کوئیں میں گرنا، ساحروں کا آدمی بنانا، کوئیں سے نکال کے پھر باغ میں جانا، پریزاد کا ہرن بنانا۔

مورخان تاریخ دان حال اس نوجوان کا یہ لکھتے ہیں کہ شاہزادہ کبوتر جب بنا تو اس باغ سے اڑا، راہ میں کبھی شکایت بخت نارساگاہ آسمان کا گلا دل میں آتا تھا۔ الا خاموش اس صحراے قیامت میں اڑا جاتا تھا۔ دو روز خراب خستہ وہ بے بال پر شکستہ بتلاش آب و دانہ، گم کردہ آشیانہ، بتا رہا، تیسرے دن جس دم مرغ زریں بال بصد شوکت و جلال قفس مشرق سے نکل کر سبزہ زر فلک پر جلوہ گر ہوا، صحراے


شگوفۂ محبت صفحہ 32

بے خار شراپا بہار میں کبوتر کا گزر ہوا۔ اس نے خیال کیا کہ تیسرا دن ہے حرام تک حلال ہے، بھوک کی شدت سے غیر حال ہے۔ اگر کہیں دانہ پانی میسر ہو تو جان بچ جاے، موت سے مفر ہو۔ دفعتہً پانی کا چشمہ نظر آیا، یہ اس جگہ ٹھہرا، دم لیا، پانی ڈگڈکا کے پیا۔ ابھی اس احمق نے دانہ زمین سے نہ اٹھایا تھا، پانی کے سوا کچھ نہ کھایا تھا، فلک کو اس جفا پر قرار نہ آیا، موت کا سامان دکھایا، کسی شہر کا تاجدار بہوائے سیر تمناے شکار گھوڑا اڑائے فوج لشکر سے جدا یکہ و تنہا باز تیز پرواز ہاتھ پر بٹھائے سامنے سے چلا آتاتھا۔ اس کی روح دیکھتے ہی قالب سے نکل گئی۔ سکتہ سا ہو گیا۔ حس و حرکت کی طاقت نہ رہی، جس دم قریب تر اس کے سر پر پہنچا، یہ بھی پر مجبور بخوف جان با خاطرِ پریشان اڑا۔ بادشاہ نے شکار جو مد نظر کیا۔ باز کو سر کیا، ہر چند اس نے ڈر کے مارے بہت تیز کندوں کو جوڑا، باز اس کی گرفتاری سے با نہ رہا، پیچھا نہ چھوڑا۔ یہ لیاوہ لیاایسا تعاقت کیا۔ آخرکار کوئین کی جگت پر کبوتر کو دبوچا۔ باہم کشمکش ہونے لگی، خوب نوچا۔ یہ تو انسان گو بظاہر کبوتر کا عالم تھا، وہ جانور، زور اور طاقت میں بہت کم تھا۔ جب تک بادشاہ اس کے قریب آئے، یہ اس کے پنچے سے چُھٹ کر کنوئیں میں گر پڑا۔ باز نے تو باؤلی پائی تھی، سونے کی چڑیا ہاتھ آئی تھی، جگت پر بیٹھ رہا۔ بادشاہ نے طعمہ دکھا باز کو ہاتھ پر بلایا۔ صید کو جو ڈھونڈھا، کہیں نہ پایا۔ وہ تو پھر جنگل کی طرف روانہ وا۔ کبوتر کا اسہ چاہ میں آشیانہ ہوا۔ جان کے خوف سے تا شام وہ ناکام باہر نہ آیا۔ وہ دن میں بھی فاقہ میں گنوایا۔ دمِ سحر جب یوسف چرخ چارم چاہ مشرق سے نکلا، دو ساحر بوضع مسافر اسی کوکئیں کے اوپر آئے۔ پانی کی چاہ کی، کنوئیں کے اندر نگاہ کی۔ دونوں نے دیکھا کہ ایک کبوتر لہو میں تر پانی کے قریب پتھر پر بیٹھا ہے۔ ایک بولا یہ عجب طرح کا کبوتر ہے۔ کتنا پریشان ہے، دوسرا رسی ڈول اٹھا جلدی سے بول اٹھا کہ یہ جانور نہیں مبتلاے سحر انسان ہے۔ پھر رسی میں لکٹری باندھ کے کوئیں میں لٹکائی، کہا اگر تو بشر ہے اس پر بیٹھ کر باہر آ۔ ہم تیرے درد کا درماں کریں گے۔ پھر تجھ کو انسان کریں گے۔ یہ کلمہ سن کے فی الفور ڈانواں ڈول لکٹری پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے کھینچ لیا۔ کبوتر نے باہر نکل کے عجز سے سر کو جھکایا۔ ساحروں کو خوف خدا آیا۔ بڑی مشقت اور جانکاہی سے اس ہیئت واہی سے اصلی صورت پر لاے۔ سرگزشت جو اس کی پوچھی، اس نے کیفیت باغ کی


شگوفۂ محبت صفحہ 33

جانے کی پریزاد پر طبیعت آنے کی ابتدا سے انتہا تک بیان کی۔ ساحر کہنے لگے اب ایسی حرکت بیجا زنیہار نہ کرنا۔ دہن اژدر میں پاؤں نہ دھرنا، ورنہ تازیست خدا جانے کس صورت میں خراب رہے گا۔ سخت عذاب رہے گا۔ شہزادہ نے بعد شکر رہائی کہا، ہرگز ہرگز ادھر کا دھیان کسی عنوان نہ لاؤں گا۔ اپنے وطن کو بہر کیف پھر جاؤں گا۔ وہ دونوں تو جدھر کے عازم تھے اس طرف راہی ہوے، یہ خانہ خرابی گا جویا پھر باغ کی سمت چل نکلا۔ فرقت سے حال اس کا تباہ تھا، بے سامانی کا سامان ہمراہ تھا۔ حسرت و یاس کا ہجوم، بیتابیوں کی دھوم، فوج کے بدلے سپاہ رنج و الم، قشوں کی قشوں اندوہ و غم، دل کی قلق و اضطراب نے ہوا کے گھوڑے پر سوار کیا۔ شوق دیدار نے شتر بے مہار کیا۔ چشم پرنم مہتمم آبپاشی، وحشت دل آمادۂ دور باشی، فغاں کے نقیبوں کی صدا بلند، سینہ مجمر دل و جگر عود و سپند، جنون دہونس دے کے ڈنکا بجاتا کوس حرمانکا کوسوں آوازہ جات، مجنوں کی روح دشت و بر میں ہمراہ پہاڑوں میں کوہ کن کی پناہ علم آہ کا جس طرف رُخ مُڑتا۔ دل کے داغ کا ادھر پھریرا اوڑتا، ناشتہ کے وقت جب آتا، فاقہ دسترخوان بچھاتا، محکمہ ناکامی سر رشتہ ناداری کے کار پرداز طلب غذا کی صدا جو سنتے، عجیب و غریب نعمتیں ہوا پر چنتے۔ باورچی یاس کے نیم برشتہ لختِ جگر سیخ آپ ہر چڑھاتے، کوفت کی کوفتی گرما گرم دکھاتی۔ میسر تو دال نہ دلیا ہوتا، عقیلہ یہ ہے کہ دل اور کلیجے کا قلیا ہوتا۔ حضرت عشق سا کاریگر کہاں ملتا ہے کہ جب بے ہانڈی چولہے کی شیخی بگھار ڈیرھ چانول دم دیتا ہے۔ لاکھ لاکھ طرح کا مزہ فقط درد و ٹم دیتا ہے۔ سات دن یہ غذا اگر روئیں تن کھاے، موم کی طرح بہ جاوے۔ دن کے کوچ کا یہ حال پوچ تھا اور ات کے مقام کا جو انتظام ہوتا تھا، تو منزلوں راحت سے دور، کوسوں آرام سے جدا قیام ہوتا تھا۔ خیمہ بیچو بہ زنگاری رنگ سائر کی قنات صحراے ہولناک جس سے عاطیت تنگ خانہ بے دیوار و در وحشت کا گھر فرش سراسر مردی خود رو گلکاری بالش پر کے بدلے خشت زیر سزا و سپر دم شماری سونے کے وقت چونک چونک اٹھنا، تمام شب کی بیداری حسرت و یاس در بر پہلو میں کنکر پتھر کروٹ بدل کے ادھر ادھر جس دم نگاہ کی، سناٹا نظر آیا۔ دم سرد بھر کے آہ کی۔ ان خرابیوں سے ہزار بیتابیوں سے کئی مہینے کے بعد بصد آزار باغ کی دیوار نظر آئی۔ وحشت حرارہ لائی۔ بے اختیار ہو کے دوڑا ۔ دروازے کے قریب وہ بلا نصیب جب آیا


شگوفۂ محبت صفحہ 34

انسان نہ حیوان، سنسان پایا۔ اندر قدم بڑھایا۔ چمن کے تختے میں اس گلبدن کو محوِ تماشا دیکھ کر گرد پریوں کا پرا دیکھا، ناگاہ ایک خواژ کی نگاہ اس پر پڑ گئی۔ آنکھ لڑ گئی۔ اس نے گھبرا کے شہزادی سے عرض کی کہ وہ ہی مرگ کا آمادہ یعنی شہزادہ پھر آیا۔ پریزاد متحیر اسے دیکھنےلگی۔ یہاں تک تاب کہاں، نزدیک جا کے بیتابانہ مانند پروانہ اس شمع کاشانہ افروز کے گرد پھرنے لگا۔ صعوبت راہ سے گردش شام و پگاہ سے حال باقی نہ تھا۔ دوران ہوا لڑکھڑا کر گرنے لگا۔ پریزاد نے ہاتھ پکڑ لیا۔ سنبھالا، شہزادہ نے کہا، اس کی شرم آپ کے ہاتھ ہے۔ وہ ہنس کے بولی یہ کیا بات ہے۔ جب گزشتہ خطا کا عذر کیا، تو اس نے کہا تیری ایذا اٹھانے سے تکلیف پانے سے مجھ کو خوف خدا ہوا۔ یہ جو مصیبت تجھ پر گزری، تیرے قصور سے میں در گزری۔ آنے سے طبیعت مسرور ہوئی، خفگی گئی، کدورت دور ہوئی۔ آیندہ احتیاط شرط ہے۔ حوصلے سے زیادہ قدم نہ بڑھانا۔ پھر منہ کی نہ کھانا۔ اس کے بعد ہمراہ لے کے دم دے کے بارہ دری میں آئی۔ بیحجابی کی دوا منگائی۔ وہ جو خدمت گزاریں شکر لب شیریں بیان تھیں، اکل و شرب کا سامان لے کے موجود ہوئیں۔ شراب ناب کا جام چل نکلا۔ ناچ گانے کا غلغلہ فلک پر پہنچا۔ بھوک پیاس نے زندگی سے نراسے نے کچھ پیا، کچھ کھایا۔ دماغ کی کیفیت بدل گئی۔ بادۂ گلگوں کا نشہ رنگ لایا۔ مصیبت کی باتوں کا ہجر کی خوفناک راتوں کا ذکر ہونے لگا۔ اپنی خانہ خرابی پر شہزادہ رونے لگا۔ پریزاد ہاتھ پکڑ کر پلنگ پر لے گئی۔ دونوں لیٹے۔ اختلاط شروع ہوا۔ جلیس مزاجدان جتنی بیٹھی تھیں، وہ اپنے اپنے مقاموں پر اٹھ گئیں۔ یہاں عالم تنہائی، نشہ کی کیفیت، ولولۂ طبیعت نے ایذاے گزشتہ شاہزادہ کو بُھلائی، تازہ مصیبت استقبال کو آئی۔ اگلی حرکتیں کرنے لگا۔ بربادی کے وادی میں قدم دھرنے لگا۔ پریزاد نے کہا، تم پھر مزے میں آ گئے۔ اتنا جلد گھبرا گئے۔ سنبھل جاؤ۔ بیہودہ ہاتھ نہ بڑھاؤ۔ اب کی بار کہیں ٹھکانا نہ ملے گا۔ یاد رکھو آب و دانہ نہ ملے گا۔ یہاں آنکھوں پر پردے پڑے تھے۔ شیطان صاحب سر پر کھڑے تھے۔ پری نے ہر چند ٹالا، یہاں کیا پرواہ تھی۔ ازار بند پر ہاتھ ڈالا۔ نہایت بدمزہ ہو کے وہ کچھ بڑبڑائی، پکار کر یہ کلمہ زبان پرلائی کہ اے حامل رنج ق محن بنجا ہرن۔ شہزادہ پلنگ سے گر کر غزال خوش جمال ہو گیا۔ شہوت کا نشہ ہرن ہوا، سکتے کا حال ہو گیا۔ پریزاد نے خواص سے کہا۔ اس وحشی کو باغ سے باہر نکال دے۔ بلا کو ٹال دے۔ اس نے


شگوفۂ محبت صفحہ 35

بموجب فرمان، اسی آن گلزار ہمیشہ بہار کے دروازے سے دور لے جا کے چھوڑا۔ رشتۂ امید اس کا توڑا۔ اس نے ہزار آہ آہ کی، اس نے مطلق اس کے حال پر نہ نگاہ کی۔

دوسری بار پھر بلا میں مبتلا ہونا، اس شیر بیشۂ محبت کا یعنی اس چکارہ نے ہرن بنایا اور باغ سے مثل بہار باہر نکال کے لاکھ طرح کی ایذا میں پھنسایا

فسانہ پردازان آہو گیر اس اجل گرفتہ نخچیر کا حال اس طور پر تحریر کرتے ہیں کہ وہ ہزبر کنام وفا چوکڑی بھول کے آفت رسیدہ از خود رمیدہ اس دشت پُر خطر میں سیدھا چل نکلا۔ تکلے کی طرح بل نکلا۔ حیران و پریشان، درندوں کی گزند سے چھپتا پھرت تھا۔ بدحواسی کے باعث ہر قدم الجھ کے گرتا تھا۔ دل میں نصیب برگشتہ کی شکایت تھی۔ بے مہری پریزاد کی حکایت تھی کہ ناگاہ ایک گرک کہن سال ہزبر خصال اس کو دور سے نظر آیا۔ خوف کے باعث، ہاتھ پاؤں پھول کانپنے لگے۔ بدن تھرایا، اس نے جو دام میں شکار موٹا تازہ تیار دیکھا، نعمت غیر مترقب سمجھ کے دوڑا۔ شاہزادہ کو خوف سے یہ حال تھا کہ پاؤں زمیں نے پکڑ لیے تھے۔ قدم اٹھانا محال تھا۔ سمجھا پیمانہ عمر لبریز ہے، یہ دشت صحراے رستخیز ہے۔ بحسرت آسمان کی طرف سر اٹھا کے رونے لگا۔ دہشت میں جان کھونے لگا۔ اللہ کی قدرت دیکھیے، بے قضا کوئی مرتا نہیں، توپ کا گولہ اثر کرتا نہیں۔؂

اگر تیغ عالم بجنبد زجاے
نُہ بردر گے تانخواہد خداے

جس دم بھیڑیا اس کے نزدیک پہنچا، دفعتہً کوئی شاہزادۂ عالی تبار بشوق شکار گھوڑا ہوا کی طرح اڑاے باگ اٹھائے چلا آتا تھا۔ یہ ماجرا اسے جو نظر آیا۔ بندوق دو نالی غضب کی بھری، بھیڑیے پر خالی کی۔ ماتھے پر گولی پڑی۔ دُم توڑ کے نکل گئی۔ بھیڑیا تو فی النار ہوا، ہرن سے دو چار ہوا۔ اس نے جو اس بلا سے رہائی پائی، گھوڑے کے گرد پھر کے رکاب پر سر دھرنے لگا۔ منت کے اشارے کرنے لگا۔ شاہزادہ ششدر و حیران اس کی حرکتیں دیکھ رہا تھا، کہ ملازمان ہمراہی ڈھونڈھتے ہوئے آ پہنچے۔ انہوں نے چاہا کہ ہرن کو پابند حلقہ ارسن کریں۔ شاہزادہ نے منع کیا۔ وہ گرفتار دام احسان گھوڑے کے پاس کھڑا ہو گیا۔ سب کو اچنبھا ہوا۔ کہ ایسا وحشی جانور کیونکر رام ہوا۔ عجب کا مقام ہوا۔ جس دم شاہزادہ نے گھوڑا وہاں سے بڑھایا، پیچھے پیچھے


شگوفۂ محبت صفحہ 36

ہرن بھی چلا آیا۔ دن زیادہ آ چکا تھا۔ شکار کا لطف اٹھا چکا تھا۔ درِ دولت کی طرف باگ موڑی۔ اس جانور نے رفاقت نہ چھوڑی۔ القصہ محل سرا میں داخل ہوا۔ ہرن بے دغدغہ ساتھ رہا۔ شاہزادی یہ نیا سانحہ دیکھ کے بہت خوش ہوئی۔ گود میں بٹھا کے دیر تک پیار کیا۔ اسی دم جواہر نگار پٹہ اس کے گلے میں ڈالا اور سامان تیار کیا۔ جس نے یہ داستان ندرٹ بیان سُنی، حیرت ہوئی۔ تمام شہر میں شہرت ہوئی۔ اس مصیبت زدہ کی راحت کا بہت کچھ سامان ہوا۔ شوہر سے زیادہ بی بی کو میلان ہوا۔ جب تک ہرن ہمراہ نہ ہوتا، کہیں قدم نہ دھرتی تھی۔ ایک ساعت جدا نہ کرتی تھی۔ کبھی وہ جو فرصت پاتا، خانہ باغ میں جاتا۔ کسی درخت کے سایہ تلے گاہ سوتا، جو تنہا ہوتا تو روتا۔ ایک روز شاہزادی نے ہرن کی بے قراری گریہ و زاری دیکھ لی۔ پھر تو اس کو کچھ اور ہی خیال آئے۔ وسوسے خفقان کے معین ہوئے۔ رنگ لالے وزیر زادی کو بلایا، ہرن دکھا کے حال سنایا۔ فرمایا غور کر یہ کیا اسرار ہے۔ ذہن لڑتا نہیں، عقل رسا بیکار ہے۔ جانور کو یوں جان کھوتے نہیں۔ دیکھا کیسا ہی اس پر ستم ہو، روتے نہیں دیکھا۔ وزیر زادی آفت روزگار بلاے بے درمان ہمہ دان تھی۔ بہ نگاہ اول تاڑ گئی۔ کہ یہ انسان ہے۔ مگر اس سحر میں پھنسا ہے کہ عقل حیران ہے۔ یہ بھی سامری کی پوتی تھی۔ شہیال کی نواسی تھی۔ لیکن اس مقدمے میں یہ دقت ہوتی تھی کہ صورت پر بدحواسی تھی۔ القصہ دیر میں جی کو ٹھہرا کے بولی یہ یہ بشر ہے۔ لیکن سحرمیں گرفتار ہے۔ بڑے زبردست جادوگر کا گناہگار ہے۔ شہزادی نے فرمایا کہ ہم تجھے اس دم کامل جانیں، تیر علم مانیں کہ اس کو بہیئت اصل بنا دے۔ اپنے سحر کی طاقت دکھا دے۔ اس نے عرض کی حضور بھی اس وادی میں قدم مارتی ہیں۔ بارہا استادی کا دم مارتی ہیں۔ اس میں امتحان ہوتا ہے۔ دیکھیں تو کس کے ذریعہ سے انسان ہوتا ہے۔ یہ کہہ کے دونوں سحر کرنے لگیں۔ سامرے جمشید کے دم بھرنے لگیں۔ جس جس چیز کا تجربہ تھا، جس پر بڑا اعتماد تھا، جو کچھ دونوں کو یاد تھا، سب کیا، سرِ مو فرق نہ ہوا۔ شاہزادی تو تکھ کے بیٹھ رہی، وزیر زادی نے لوٹ کے پر پرواز نکالے۔ ایک سمت کو راہی ہوئی۔ وہ جو گنبد ہفتا دور سامری نے عمر بھر میں بنا کے سجدہ گاہ ساحران جہاں دارالامان، اس کا نام رکھا تھا، سحر پر آغاز و انجام رکھا تھا۔ ادھر کی راہ لی۔ عجیب غریب سخت مہیب جا تھی۔ منزلوں تک


شگوفۂ محبت صفحہ 37

زمین سحر میں مبتلا تھی۔ چار دریا گرد بہتے تھے۔ جہاں کے ساحر اسی ٹیکری پر رہتے تھے۔ پہلے دریا کا رنگ طلائی تھا۔ جس پر قدرت اس پر آگ کا تھا، سحر کی لاگ کا تھا۔ چالیس دن کی راہ بہت جانکاہ تھی۔ چار چار منزل تک شعلۂ جوالہ آگ کا پرکالہ اڑ کے جاتا تھا۔ عفریت دیکھ کے خوف کھاتا تھا۔ کنارے پر برج مطلا تخت جواہر نگار بچھا سامری کی تصویر بصد توقیر اس پر جلوہ گر تھی۔ چالیس ہزار ساحر بے ایمان شب و روز اس کا نگہبان تھا، جس نے تصویر کو سجدہ کیا وہ تو پار اتر گیا۔ اور جو تامل ہوا، تو وہ خانماں خراب کباب ہو گیا۔ آگے صحراے ہولناک تھا۔ درندوں کے سوا کوئی جانور وہاں جا نہ سکتا تھا۔ پرندہ ڈر کے آ نہ سکتا تھا۔ دوسرا دریائے مروارید تھا، بیضۂ بط سے بڑا بے حصر و حساب دُر نایاب بہ رہا تھا اور یاقوت نگار پُل بالکل تھا اس کے کنارے۔ پیارے پیارے الماس کے شہ نشین بفر و تمکین بے تھے۔ ویسی ہی تصویریں نظر آتی تھیں۔ برق سے فزوں چمک جاتی تھیں۔ اس کا گذر بیس دن سے بیشتر نہ تھا۔ صحرا بھی گلزار دشت پُر بہار میوہ دار اشجار، برگ و بار گل سے گل پھولے پھلے، نہ خزاں کا خوف نہ باغبان کا دست رس تھا، نہ گذرِ کس و ناکس تھا۔ گلہائے خود رو بصد رنگ و بو ہر سو مہک رہے تھے۔ جانور مست ہو ہو بہک رہے تھے۔ تیسرا دریاے قہر و آفت لہر تبرۂ و تار برنگ دل گفتار جس دم طلاطم ہوتا، کوسوں سیاہی پھیل جاتی تھی۔ کسی کی شکل نظر نہ آتی تھی۔ اس پر جسر غضب پر تعب تھا۔ کروروں اژدرِ خونخوار مہیب طویل قامت مار باہم پیچان مُنہ سب کے اوپر وا شعلۂ سوزان نکلتا۔ اسی صورت کا کنارے پر منارہ، اس میں سامری کہ ہیئت دھری گرد آگ بھری، بارہ منزل کا طول مہتمم ساحر نامعقول روبرو دشت دل آزار جہاں کے گل بدتر از خار جواد سمین، سب سے چھوٹا کانٹا تھا، وہ خنجر سے تیز تر چھانٹا تھا، چوتھا دریاے آب تھا۔ اس کا نقشہ اور دن سے زیادہ خراب تھا۔ جس دم اس کے کنارے پر قدم رکھا، شور غل پیدا ہوا، پانی آسمان سے مل گیا۔ یہاں جسر تھا نہ پل تھا، گزاری میں شور و غل تھا۔ جوچو سامری جے پال کے وارث تھے، وہ اس کے حارث تھے۔ اسکے جنگل کا عجیب حال تھا۔ قدم اٹھانا محال تھا۔ جب بہ نون بڑھا کے آگے رکھا، وہ دو قدم پیچھے ہٹ کے پڑا۔ مہینوں راہ چلے جہاں کھڑا ہو وہیں گڑا ہو۔ ان سب کے بعد وہ گنبد ہفتا دور سامری کا


شگوفۂ محبت صفحہ 38

گھر تھا۔ رفیع الشان ہمسر آسمان بروے ہوا معلق بنا ستر در ہر در کے اوپر برج مکلل بدر و جواہر مختلف رنگ یاقوت اور زمرد کی سلین بجائے خشت و سنگ برجوں میں ساحر غدار سہلیتین نرالی سکلیں، کالی کالی، کسی کا شیر کا منہ، جسم انسان کا، کسی کے دس بارہ سر دھڑ حیوان کا، کوئی فیل دندان، کسی کا پتلا کر گدنکا، کوئی دیو پیکر، کوئی فولاد بدن کا کوئی اژدر رہاں شرر افشاں، لاکھ ساحر ایک ایک کے تحت فرمان، زمین پر سر بسجود اپنا معبود، جانتا، ستر لاکھ کا جمگٹھا، برج کے بیچ میں صندوق بے سہارے، اس میں سامری کی نعش، سب کا نام لے کے پکارے۔ دن کو بارہ سورج گنبد کے گرد پھرتے، سرِ شام صندوق کے روبرو سجدے کو گرتے اور رات کو چودہ چاند چار سمت گھومتے۔ دم سحر گرد پھر کر صندوق کو چومتے، ہزارہا ستارہ صندوق سے رات بھر چھوٹتا۔ صبح تک تار نہ ٹوٹتا اور جو کچھ سوال کرو، عرض حال کرو۔ صندوق سے جواب ملے۔ کھانےکو کباب، پینے کو شراب ملے۔ ہزارہا جادوگرنیوں کے غول، ساحروں سے جدا کیسی کیسی کھپاٹ پرانی لگاتا بشر کا گزر ایسے مکان پر خاک ہو، جہاں کی زمین ہولناک ہمسر افلاک ہو۔ القصہ وزیرزادی بے ایمان پران وہاں پہنچی، صندوق کے سامنے سجدہ کیا، ایک کروڑ چالیس لاکھ زن و مرد سے سامری کے جے کا غلغلہ مچا۔ گوش فلک کر ہوا، چار جانب سے جب ہرہر ہوا، پھر اسنے اپنا مطلب بعجز و نیاز بلند آواز سے کہا۔ دفعتہً ہزارہا گھنٹے جو لٹک رہے تھے، ہوا پر اٹک رہے تھے، بے مدد چوب و دست بجنے لگے۔ کوس و کور گرجنے لگے۔ دو گھڑی کے بعد وہ چپ ہوے۔ صندوق سے صدا نکلی کہ وہ جو آہوے حرم در بیت العنم پر مقیم ہے، اس کے پاس جا۔ مطلب سے تیری وہ ماہر ہے۔ سب حقیقت ہمارے عنایت سے اس پر ظاہر ہے۔ اگر زبان اس کی مل جائے گی، تیری تمنا پوری ہو گی، مراد مل جائے گی۔ یہ بتخانے کے در پر حاضر ہوئی۔ دیکھا جواہر نگار کرسی پر ایک ساحر بیٹھا ہے، ہزارہا خادم سر بسجود روبرو موجود ہیں، جسم انسانی چہرہ ہرن کا ہے، سینگ ہر ایک سیکڑوں من کا ہے اور کئی ہزار بیدین اسی شکل و آئین کا چپ و راست کھڑا ہے۔ سینگ سب کے سر پر بڑا بڑا ہے۔ اس نے جھک کے سلام کیا۔ رعب کے باعث اور نہ کلام کیا۔ وہ بولا نہال قدرت کے تلے اکیس دن گن گن پوجا کر، مطلب حصول ہو گا۔ عنایت کوئی شاخ یا پھول ہو گا۔ وزیرزادی نے زیر درخت جاچو کا دے کے سیندور کا ٹیکا لگایا۔ پوجی کو سر جھکایا۔ یا جسدم مدت


شگوفۂ محبت صفحہ 39

تمام ہوئی۔ تراقے کی آواز سرِ شام ہوئی۔ باجوں کی صدا آنےلگی۔ پتی پتی درخت کی یا سامری کا شور و غل مچانے لگی۔ پھر ایک ٹہنی ڈالی سے ٹوٹ کے درخت سے چھوٹ کے اس کی گود میں گری۔ سات بار اس کی گرد پ پھری، پھر اس کو لے کے صندوق کے روبرو آئی۔ سجدہ جو کیا، وہی ہنگامہ بپا ہوا۔ اور آواز نکلی۔ ہمارا لطف تیرا مددگار ہوا۔ تجھ کو کس قدر افتخار ہوا۔ شجر قدرت کی شاغ عنایت ہوئی۔ بڑی حمایت ہوئی۔ گو یہ بے برگ و ثمر ہے، مگر ہزار طرح کا اس میں اثرت ہے۔ جو بات تیری زبان پر آئے گی۔ یہ بجا لائے گی۔ یہ رخصت لے کے چلی۔ اس سوکھی ٹہنی کے ملنے سے پھولی نہ سماتی تھی۔ برق و باد سے تیز خیز کر کے گھر کی طرف اڑتی آتی تھی۔ وہ سالہاے دراز کی راہ چند شام و پگاہ میں طے کر کے گھر پہنچی۔ اسی دم شہزادی کو داخلہ کی خبر پہنچی۔ فوراً سامنے بُلایا۔ مشتاقانہ گلے لگایا۔ وہاں کا حال جانے کا مآل پوچھا۔ اس نے عرض کی جو شے آجتک بڑے بڑے مقربوں نے نہیں پائی ہے، سامری کی سرکار سے تابعدار لائے ہے۔ دوسرے دن اسی گلستان میں اس کا امتحان ہوا۔ لکڑی کا لگانا بہانہ ہوا۔ فوراً شاہزادہ انسان ہوا۔ لیکن پناہ بخدا برقِ جمال شاہزادہ خوشخصال یکایک جو چمک گئی، دونوں کی آنکھ جھپک گئی۔ ہوش و حواس باختہ یک گز دو فاختہ کا طور ہوا۔ نقشہ ہی کچھ اور ہوا۔ شہزادی دل میں سوچنے لگی اس کو کہاں چھپائیے۔ وزیر زادی نے چاہا اپنے گھر لے جائیے۔ ایک بیقرار دوسری لوٹ پوٹ تھی۔ دونوں کے دل پر چوٹ تھی۔ مصلحت وقت یہ ہوئی کہ وزیر زادی ہی اس کو چندے پوشیدہ رکھے۔ اگر شاہزادہ برسرِ تلاش ہو گا تو یہ راز فاش ہو گا۔ غرض کہ یہ گرفتار مصیبت وزیر زادی کے گھر میں صبح و شام آرام سے رہنے لگا۔ شاہزادی نے اپنے شوہر سے اسی دن کہا، آج سانحہ عجائب ہو گیا۔ وہ ہرن سامنے بیٹھا تھا، دفعتہً غائب ہو گیا۔ رنڈی کے مکر سے خدا کی پناہ۔ اس کا کلام گواہ ہے۔ ان کید کُن عظیم، وہ شاہزادہ مرد سادہ تھا، کہنے لگا ہرن کی صورت میں فریب ہوتا ہے۔ بیشتر اس میں آسیب ہوتا ہے۔ اس کو دم میں ٹال دیا۔ تجسس کا خدشہ نکال دیا۔ مگر پوشیدہ ملاقاتیں محبت کی باتیں ہونے لگیں۔ لیکن شہزادہ کو باوجود رہائی فرقت کا سخت ملال تھا۔ ہر دم پریزاد کا خیال تھا۔ رخصت کا سوال تھا، وزیر زادی بھی فریفتہ تھی، مرتی تھی، وہ اپنا ہی


شگوفۂ محبت صفحہ 40

احسان ہر آن ثابت کرتی تھی یہ بیچارہ گرفتار دام وہاں دو ملا میں مرغی حرام، ایک کو فکر تھی شراب پلائیے مزے میں لائیے، دوسری چاہتی تھی کچا نگل جائیے۔ شہزادی وزیر زادی کے لگاؤ سے ہر ووقت نکھرے رہنے سے ہر دم کے بناؤ سے بگڑ گئی۔ باہم جلی کٹی ہونے لگی۔ صحبت کا ڈھنگ بگڑا، نزاع واقع ہوئی۔ طبیعتوں کا رنگ بگڑا، ایک روز باہم لڑائی سحرآزمانی ہوئی۔ وزیر زادی کی فتح شہزادی کی صفائی ہوئی۔ جب وہ مر چکی، یہ میدان صاف کر چکی، روز عالم تنہائی بادہ پیمائی ہونے لگی۔ شہزادہ نے یہ جنگ و جدال قتل و قمع کا حال بغور دیکھا تھا، وزیر زادی کی ظلم و جور دیکھا تھا، خوف ضان سے اس بے ایمان سے دب بیا، جو جو اس نے چاہا وہ کام اس نے کیا۔ ایکدن برسبیل مذکور اپنی رہائی کی حکایت پوچھی، وزیر زادی نے چاہا کہ اپنا احسان صاف بیان کیجیے، گھٹا بڑھا وہ قصہ آمد و رفت کا مشروحاً کہہ دیا۔ شہزادی نے کہا وہ شاخ جس کے شاخسانے میں گو فائدہ کیا ہے لیکن دیکھنے کی تمنا ہے۔ جس دم طبیعت کا لگاؤ ہوتا ہے اور جی آ جاتا ہے تو معشوق سے کوئی چیز نہیں چھپاتا ہے۔ ؂

اے دوست اگر جان طلبی جان بتو بخشم
از جان عزیز ست بگو آن بت بخشم

یہ روبرو لا کے وہ ٹہنی دکھائی۔ شہزادی نے کہا کچھ نہ ایسی صورت ہے نہ جمال ہے یقین نہیں ہوتا کہ اس میں ایسا کمال ہے جب دل کسی پر آتا ہے تو عقل کا شعور اڑ جاتا ہے۔ وزیر زادی انجام کار نہ سوچی، برسرِ امتحان اسی آن ہو گئی، کسی پھل کو جانور کسی درخت کو پتھر بنا دیا۔ شہزادی نے دل میں کہا کہ یہ قحبہ تو بدتمیز ہے لیکن یہ شاخ نایاب چیز ہے۔ ٹہنی ہاتھ میں لے کے بنظر غور دیکھنے لگا اور سوچا کہ جب تک یہ بے ایمان ظاہر کی دوست دشمن جان زندہ ہے، رہائی معلوم اپنے اپنے دلبر تک رسائی معلوم یہ ظالم شہزادی کو قتل کر چکی، بے گناہ کے خون سے ہاتھ بھر چکی۔ تمہاری محبت سے منہ نہ موڑے گی، جیتے جی ساتھ نہ چھوڑے گی۔ دو امروں سے ایک کام کر دیا۔ اس کو ذبح کر دیا، اپنی جان دو قتل الموذی قبل الایذا کیا نہیں سُنا۔ اگر ناکامی میں مر گئے لطگ کیا۔ غریب الوطن ہوے بے گور و کفن ہوے۔ موقع خوب ہے۔ دیر نہ کر۔ بسم اللہ یہ سوچ کے وہ شاخ وزیر زادی کے بدن سے لگا بآواز بلند کہا فوراً باغ سے باہر نکل جا اور جل جا جل جلالہ کہتے ہیں ایک شعلہ تھا کہ چمن سے نکل گیا۔ راکھ کا تودہ رہ گیا۔ روح کی بکھیڑا بدن سے نکل گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
شگوفۂ محبت صفحہ 41

یہ ماجرا دیکھ کے بہت مسرور ہوا۔ قید بند کا خدشہ دور ہوا۔ عمدہ جواہر جسم پر سجا، پھر ٹہنی پر عندلیب دار بیٹھ کر کہا مجھ کو پریزاد کے باغ تک پہنچا۔ بچشم زدن سن سن کے صدا سنی اور باخاطر شگفتہ در باغ نظر آیا۔ مثل فصل بہار بے تکلف اندر آیا۔ شاخ کو پوشیدہ کر کے دلبر کو ڈھونڈھا۔ حوض پر مصروف تماشا پایا۔ دور سے ہی آواز دی۔ اس نے پھر کے جو دیکھا، خود بخود محجوب ہر کے گھبرائی، پھر یہ سوچی، وہ کون سا کامل اس کے رنج میں شامل ہوا ہے جو اس کو پھر انسان بنایا۔ ہمارا کھیل بگاڑا۔ ایسا سامان بنایا، پہلے تو جھچک کے لجالو کیطرح سمٹ گئی، پھر کچھ بن نہ آیا، مجبور لپٹ گئی۔ ہاتھ پکڑ کر بنگلے میں لے گئی۔ مسند پر بٹھایا، جو محرم راز تھیں و دمساز تھیں، ان کو طلب کیا۔ جلسے کا سامان منگایا، حسب حکم اسی دم گانین خوش گلو مع شراب پرتگالی اور جام و سبو موجود ہوئیں۔ طبلے پر تھاپ دی۔ ساقی نے پیالی لبریز کی۔ قتل کو چُھری تیر کی۔ دو چار گلاس میں نشہ جم گیا۔ جوش بادۂ گلرنگ جوانی کی ترنگ نے پینگ بڑھائی، لڑکھڑاتی ہوئی دونوں پلنگ پر آئے۔ وصل کا زمانہ نصیب ہوا۔ بیحجابی کا وقت قریب ہوا، ہاتھا پائی ہونے لگی۔ پریزاد اگلی باتیں یاد دلا کے رونے لگی۔ کہا تم انہیں ہتکھنڈوں پر آئے جن کا انجام بُرا ہے۔ مزاج کیسا ہی شہزادہ کو کبوتر اور ہرن بنانا، وہ رنج و ستم تنہائی میں اٹھانا یاد جو آیا، دل سے کہا، ان باتوں کا عوض ضرور ہو، وہی شاخ اس کے بدن پر لگا کے کہا، او کُتیا دور ہو۔ اس کلمے کا زبان پر آنا تھا، وہ پلنگ پر گر کے کتیا ہو گئی۔ ہر طرف بھونکتی پھرتی تھی۔ اور بار بار بعجز و انکسار شہزادہ کے پاؤں پر گرتی تھی۔ یہ عمداً ٹال بال کرتا تھا۔ مطلق نہ خیال کرتا تھا، جتنی اس کی مصاحب جلیس تھیں، اس حال سے مطلع ہوئیں، شہزادہ کی منت کرنے لگیں، پاؤں پر رو رو کر سر دھرنے لگیں۔ کہا جس کو معشوق بنایا، خود بگڑی رنج اٹھایا۔ اس کا ایسا حال کرتے ہیں، یہ فرقہ ناقص عقل مشہور ہے۔ مرد اس کی بُرائی کا بھلا خیال کر تے ہیں۔ شہزادہ نے جواب دیا کہ دو بار اس نے مجھ سے دغا کی۔ میں نے اس کی کیا خطا کی۔ دنیا کا یہی رنگ ڈھنگ ہے۔ کلوخ انداز کی پاداش سنگ ہے۔ الغرض ایک ہفتہ اس ماہ دو ہفتہ پر یوں گزرا۔ ہر چند سب نے اس کے سامنے سب طرح کھانا چُنا، مگر اس نے رخ نہ کیا۔ سر دُھنا جب ضعف و نقاہت سے حال درہم و برہم اور سب کی خوشامد سے شہزادی کا غصہ کم ہوا، دل ہر ساعت


شگوفۂ محبت صفحہ 42

بیقرار تھا، اس ہیئت کذائی سے اس کا سامنے آنا ناگوار تھا، جی گھبرایا، خوف خدا نے ڈرایا، یہ کج ادائی بیوفائی رنڈی پر ختم ہے، جب بگڑتی ہے، جان کی دشمن بنتی ہے۔ ایسی دل میں تھنتی ہے۔ شرم و حیا، مہر و وفا سے منہ موڑتی ہے۔ بن جان لیے پیچھا نہیں چھوڑتی ہے۔ ایک وزیر زادی اس کی بہت حسین آفت روز گار مہ جبین طرار عیار تھی۔ اس نے یہ کام کیا کہ سلیمان علیہ السلام کو ضامن دے کے یہ عہد و پیمان کیا کہ تمام عمر یہ آپ سے فریب و دغا نہ کرے گی۔ جو کہو گے بجا لائے گی۔ اطاعت سے سر نہ پھرائے گی۔ کسی کام میں انکار بخدا نہ کرے گی۔ شاہزادہ دل سے راضی تھا۔ سہو محو قصہ ماضی تھا۔ فرمایا گو وہ بدتمیز ہے، مگر مجھ کو تیری خاطر عزیز ہے۔ لے آؤ گود میں اٹھا کے۔ روبرو لائے، شاہزادے نے وہ ٹہنی اُس کے بدن پر لگائی، کہا، بقدر خدا جیسی تھی ویسی ہی ہو جا۔ اسی دم وہ حامل غم اصلی صورت پر آ گئی۔ لیکن آنکھ شرما گئی۔ تمام باغ میں ہر ایک گلرو غنچہ دہاں مبارک سلامت کا غل مچانے لگے۔ کوئی گانے کوئی بجانے لگے۔ ناچنے گانے کا سامان اسی آن موجود ہوا۔ شراب ناب کا جام گردش میں آیا۔ ہر ایک نے پیا کھایا۔ گزری باتوں کا، ہجر کی راتوں کا، شہزادہ بیان کرنے لگا۔ اپنی مصیبتوں کا دھیان کرنے لگا۔ ابھی طرفین کے قصے پورے نہ ہونے پائے تھے، نہ کچھ صحبت کا لطف اٹھایا، نہ پلنگ پر آئے تھے، یکایک بروی ہوا ایک تخت دیکھا، جلسہ برہم ہوا، ہر شخص گھبرا کے اسے دیکھنے لگا۔

سرو ناز کا آنا، پیغامِ طلب شاہزادی کو سنانا، بصد تکرار شہزادہ کو لے کے پرستان میں جانا، صحبت برات کی کیفیت، دن رات کی اور ملاقات سلطان پردۂ قاف کی۔

سیاحان اقلیم معانی کے طے کرنے والے مرحلۂ خوش بیانی کے افسانہ خوان فسون پرداز حالیان ممتاز بیان کرتے ہیں، تخت ہوا پر جو آیا، سب نے خوف کھایا، عین کُریال میں غلہ لگا، جس دم زمین پر اتر آیا، سب کو سرو ناز کا منہ نظر آیا۔ دوسرے وزیر زادی بہت مغرور، سراپا ناز و انداز ہے۔ نام سرو ناز ہے۔ ہنوز گل رخسار صدمۂ منقار بلبل سے بری ہزار طرح کی شوخی چالاکی طبیعت میں بھری پہلے آداب بجا لائی۔ نامہ ہاتھ پر رکھ کے قریب آئی۔ پریزاد نے اٹھ کے گلے سے لگایا، مسند کے قریب تر بٹھایا، پوچھا بے اطلاع آنا خیر ہے۔ عرض کی شادی کی کیفیت بڑی سیر ہے۔ شاہزادہ ماہ رخ جو حضور کا بھائی ہے، اس نے حضرت


شگوفۂ محبت صفحہ 43

سلیمان علیہ السلام کی قسم کھائی ہے۔ اگر جلسے کی شریک آپ نہ ہوئیں تو یہ شادی نہ رچے گی۔ سامان برہم ہو گا۔ شادی میں غم ہو گا۔ قیامت مچے گی۔ آپ کو سب نے بلایا ہے۔ میں نے لے آنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ میری سرخروئی حضور کے ہاتھ ہے۔ لونڈی قدموں کے ساتھ ہے۔ یہ بھی ہمجولیوں سے کہہ آئی ہوں۔ اگر نہ آئیں گی، میں بھی نہ آؤں گی۔ پرستان میں کسی کو صورت نہ دکھاؤں گی۔ مصلحت یہی ہے کہ اپنے بلانے کو لونڈی کے آنے کو بہت غنیمت سمجھو۔ شادی کی صحبت میں اپنے بیگانے جمع ہیں۔ شراکت کرو، کس نیند میں سوتی ہو۔ یہ خبر بھی سرکار کو معلوم ہے کہ آج کل آپ کی بدوضعی کی پرستان میں دھوم ہے۔ شکر کا موقع اب ہے کہ اس پر بخواہش آپ کی طلب ہے۔ پریزاد نے کہا میں تو جان پر کھیل چکی ہوں۔ بہت پاپڑ بیل چکی ہوں۔ خدا کی چوری نہیں تو بندوں سے کیا ڈرنا ہے۔ آخرش ایک دن مرنا ہے۔ ایک جان ہے۔ بندہ لے یا خدا لے گا۔ حلوا خاتون نہیں ہو جو کوئی کھا لے گا۔ میں تیرے ہمراہ ہوں، الا شرط یہ ہے کہ شاہزادہ میرے ساتھ چلے گا۔ اگر اس کو دیکھ کے کوئی جلے گا تو میں نہ خیال بد نہ نیک کروں گی۔ اپنی اور اس کی جان ایک کروں گی۔ اماں جان کے نالے آسمان پر پہنچیں گے، ہاتھ مل کے رہ جائیں گے۔ خون کی ندیاں پرستان کی سر زمین میں بہ جائیں گی۔ اس نے عرض کی، بہت خوب شب کو جو مصلحت ٹھہرے گی، وہ عمل میں آئے گی۔ آپ کی خوشی بہرکیف ہو جائے گی۔ دیر تک ناچ گانا رہا۔ دستر خوان بچھا، جب کھانے سے فرصت پائی، دونوں وزیر زادیاں شہزادے کو جدا لے گئیں۔ یہ بات سمجھائی کہ سر و ناز یہاں سے جا کے جدا محلسرا آپ کے واسطے سجوا کے شہزادہ کا آپ کے ہمراہ آنا جناب بیگم صاحبہ سے کسی قالب میں بیان کر کے ان کی اجازت لے، ورنہ خلاف مرضی ان کی یہ کام کرنا آپ کے دشمنوں کو سب میں بدنام کرنا ہے۔ سوچیے تو شاہزادی کی شادی ہے۔ سارا پرستان مہمان، صحبت بے تکلفانہ ہے۔ جلسے میں شریک اپنا بیگانہ ہے۔ دبی ہوئی آگ بھڑکانا ہے، غرضیکہ یہ بھی سمجھ گئی، دم سحر سر و ناز رو بپرواز ہوئی۔ یہاں سفر کی تیاری ہونے لگی، جس دم سر و ناز تن تنہا داخل ہوئی، سب کو خلجان ہوا۔ الجھن حاصل ہوئی۔ علی الخصوص اس کی ماں کو سخت ہراس ہوا۔ نہ آنے سے لاکھ طرح کا وسواس ہوا۔ دل سے کہا اب یہ پردہ کُھل جائے گا۔ دیکھیے فلک کیا رنگ دکھائے گا۔ سر و ناز کو تنہا خلوت کے مکان میں بلایا، اس نے ہو بہو سب قصہ سنایا کہ واقعی ایک شہزادۂ والا نزاد غیرت صد پریزاد وہاں


شگوفۂ محبت صفحہ 44

موجود ہے۔ اس کی جاہ و جلال حسن و جمال کی صفت جب تک نظر سے نہ گزرے بے سود ہے۔ اس صورت کا پری پیکر جوان انسان تو کیا قوم بنی جان میں نظر سے نہیں گذرا۔ شاید وہ یہاں آ گیا تو دیکھیے گا، ناظرین کا جو حال ہو گا، بہتوں کو جینا وبال ہو گا۔ اولاد کی محبت مخصوص بیٹی کی الفت ماں کو بہت ہوتی ہے اور یہی شے عقل کھوتی ہے۔ کہنے لگی، خیر جو ہو سو ہو، باغ میں جو بارہ دری ہے، اس میں لا کے اتارو۔ ہم بھی تو دیکھ لیں، انسان کیا چیز ہوتے ہیں، یہ لوگ بیہودہ ہیں یا تمیز باتمیز ہوتے ہیں۔ فوراً بموجب ایماے ملکہ حسب حکم سر و ناز کار پرداز حاضر ہوئی، وہی باغ اور بارہ دری جس میں شہزادی نے پرورش پائی تھی، سنما سے سبکدست کاری گروں نے سالہاے دراز میں بنائی تھی اور گلزار جہاں سے درخت چن کے تحفہ و نادر لگائے تھے، ایک عالم کو اُس کی تیاری پر رشگ آئے تھے، فوراً سج سجا کے دُلہن کی صورت بنا کےآمد کی منتظر ہوئی۔ دوسرے روز سر و ناز باسامان و ساز روانہ ہوئی۔ پریزاد کو اور اس بوستان سلطنت کے شمشاد کو اسی باغ سراپا بہار میں اتارا ، گویا معرکہ مارا۔ پریزاد نے شہزادہ کو خلعت شاہانہ اور جواہر جو نادر زمانہ تھے، ان سے آراستہ کیا۔ قتالِ عالم بنایا، تخت مرصع کار پر بعز و وقار بٹھایا۔ مقربان خاص حاضر ہو کے نذریں دینےلگے۔ خلعت و انعام لینے لگے۔ بعد مدت وہ ماہ طلعت تشریف لائی تھی۔ ہوا خواہ اوڑلاگے۔ مصاحبوں کی بن آئی تھی، مگر جو رو برو نذر لایا، اس نے شہزادہ کو بتایا، جس نے پھر کر نذر دی۔ اس طرف ٹکٹکی لگ گئی۔ جل جلالہ حسن خوب عجب جنس مرغوب ہے۔ دوست کیا دشمن دیوانہ ہوتا ہے۔ دل سے نثار پروانہ وار اپنا بیگانہ ہوتا ہے۔ غرضیکہ قوم بنی جان میں شدہ شدہ کل پرستان میں دھوم مچی۔ لیس کمثلہ یہاں تک کہ پریزاد کے باپ اور بھائی کو اُس کی رعنائی کی خبر پہنچی، بسکہ اس کے بھائی کی زیبائی کی اور جرأت و صولت کی شہرت تھی۔ اسی کی برات تھی اور طاقت میں بھی ثانی رستم تھا۔ دوسرا پرستان میں کم تھا۔ اس کو تو اپنی یکتائی کا خیال تھا۔ باپ سے اجازت خواہ ہوا کہ اگر ارشاد ہو، غلام اس کو جا کے دیکھے، امتحان کرے، ہمارا رعت و جلال اسے کچھ نہ ہوا، بے تکلف یہاں چلا آیا۔ بادشاہ نے فرمایا کیا ضرور وہ مجبور ہے، اسے تو وہ بدبخت لائی ہے۔ یہ قضا آئی ہے۔ ایسا نہ ہو کچھ شور و شر ہو، مسافر کشتی کی پرستان میں خبر ہو جانے میں نفع کیسا، آبرو کا ضرر ہے۔


شگوفۂ محبت صفحہ 45

یہ فتح شکست سے بدتر ہے۔ اس نے باپ کا کہنا نہ مانا۔ مسلح ہو کے باغ کو روانہ ہوا۔ یہاں یہ خبر پہنچی کہ ماہ رخ تمہارا بھائی باسباب ظاہر ملاقات کرنے آتا ہے، مگر گھات کرنے آتا ہے۔ شدت سے بدگمان ہے۔ مدنظر امتحان ہے۔ شہزادہ نے جواب دیا یا اپنی آنکھ دیو سی نہیں جھپکی، وہ تو بنی جان ہے۔ خدا ہمارا ہر دم حافظ و نگہبان ہے۔ ابھی یہ کلمہ ناتمام تھا کہ وہ آ پہنچا۔ شاہزاہ جہاں بیٹھا تھا وہاں سے نہ اٹھا۔ کچھ نہ خیال کیا، نہ استقبال کیا۔ قدرتِ حق دیکھیے، روبرو جو آیا شہزادی کا الٹا رعب چھایا۔ گھبرا کے پہلے تو سلام کیا، پھر ہنس کے یہ کلام کیا۔ بندہ حضور کا شدت سے مشتاق تھا۔ زمانہ مہجوری سخت شاق تھا۔ یہ کہہ کے ہاتھ پھیلائے کہ آئیے گلے سے لگ جائیے۔ اب تامل عجب و نخوت سمجھ کے شاہزادہ اٹھا، بغلگیر ہوا، دو باتیں جو کیں، دام محبت میں اسیر ہوا۔ بہت تعظیم سے پاس بٹھایا۔ یہ شعر سنایا۔ سعدی علیہ الرحمہ :
تواضع زگردن فرازان نکوست
گداگر تواضع کند خوی اوست

ماضی مستقبل کا حال شروع ہوا۔ دلچسپ باتیں کرنے لگا۔ کہ خالق لیل و نہار کی سرکار سے اول خلقت جان ہے، ثانی ظہور انسان ہے، مگر دونوں کو فقط اپنی عبادت کے واسطے بنایا ہے۔ کلام مجید میں آیا ہے کہ ما خلقتُ الجن والانس الا لیعبدون، اگر انصاف ہاتھ سے نہ دو تو تمیز خیر و شر اختیار میں ہے۔ فرق بین نور نار میں ہے۔ ہر چند تم لوگوں نے بڑا مرتبہ پایا ہے، مگر اشرف المخلوقات سوچو تو کس کو فرمایا ہے۔ ہمارے تقرب کی نسبت اور دور دور ہیں، ہمارے روبرو سب مجبور ہیں۔ چار دانگ عالم میں بزور شمشیر لطافت تقریر سے ہمار ڈنکا بجا ہے۔ فرشتوں نے سجدہ کو کو کیا ہے، گو تمہیں بڑی قدرت دی، مہچا سب طرح کا سامان ہوا، مسکن پرستان ہوا لیکن یہ تو کہو تم میں سے کون سلیمان نبی علیہ السلام ہمارا صغیرہ کبیرہ سے پاک ہے۔ اس کی شان میں لولاک ہے۔ اس کے سوا کیسے کیسے اولوالعزم صاحب تخت و تاج ہوے۔ سرکشوں کے کیا کیا علاج ہوے۔ طہمورث دیوبند کی داستان مشہور ہے۔ اسفند یار کی روئیں تنی کا عالم میں مذکور ہے۔ سام و نریمان رستم و سُہراب سے پہلوان گزر گئے، فلک پیر کی مسل میں یہ بیمثل جوان گزر گئے، بادشاہ تو خیر فقیر کیسے کیسے صاحب کمال ہوے۔ اُن کے ہواھ سے تمہارے کیا حال ہوے۔ ماہ رخ کو سخت انفعال ہوا۔ پسینہ آ گیا۔شرم سے عجب حال ہوا، سو اور ست اور خوب وہ محجوب کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔ آئنۂ رخسار شاہزادہ وقار


شگوفۂ محبت صفحہ 46

دیکھ کے سکتا تھا، جس دم یہ جملے تمام کیے، پھر اختلاط کے کلام کیے۔ اس چرب زبانی اور شیریں بیانی سے تقریر دلپذیر کی کہ ماہ رخ کا نُطق بند ہو گیا۔ بیٹھے بٹھائے کھو گیا۔ دو چار گھڑی یہ صحبت رہی، رخصت ہو کے گھر کی راہ لی۔ باپ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اس نے ملاقات کا حال پوچھا۔ شاہزادہ کا فضل و کمال پوچھا۔ پھر تو وہ بحر مواج کی صورت جوش زن ہوا۔ سرگرم سخن ہوا۔ کیفیت عزم و شان کی خوبصورتی بیان کی۔ ذہن کی جودت چہرے کی صورت کہہ کے عرض کی کہ پہلے تو وہ باتیں کیں جن کو سن کے حجاب ہوا۔ دل کو پیچ و تاب ہوا، لیکن سخن حق میں کلام نہیں۔ بجز خموشی جواب کا مقام نہیں۔ بہ نگاہ اول اس کا رعب چھایا۔ باتیں ایسی سنائیں کہ فرمانبردار بنایا۔ خلاصہ یہ کہ عالی منزلت وال دودمان ہے سلطان ابن سلطان سحر کا انسان ہے۔ اس کے بیان سے بادشاہ کو دیکھنے کا ذوق پیدا ہوا۔ دیدہ شیدا ہوا، فرمایا اس کی دعوت کا سامان کرو۔ مہمان کرو۔ اس حیلہ میں ملاقات ہو، حرف و حکایات ہو اور سچ ہے جناب باری نے بشر کو بڑا مرتبہ دیا ہے۔ دیو پری کو اس نے مسخر کیا ہے۔ اس کے قرب کا مرتبہ بہت اعلیٰ ہے۔ گواہ قاب قوسین او ادنیٰ ہے۔ القصہ ماہ رخ نے ملکہ مہر جمال یعنی اپنی بہن کو شریک کر کے بمنت دعوت کا اقرار لیا۔ شاہزادہ خوشامد سے مجبور ہو گیا۔ غرضیکہ شاہزادہ کے جانے کی دعوت کھانے کی تمام پرستان میں دھوم ہوئی۔ تاریخ اور روز کی خبر معلوم ہوئی۔ بروز معین دو رویہ راہ میں انبوہ تھا۔ ہر سمت پریزدوں کا ریلہ تھا۔ دھوم دھڑکے کا میلہ تھا۔ پیک نظر کا گزر محال تھا۔ کثرت کا یہ حال تھا۔ لوگوں کے کپڑے لتے ہوتے تھے۔ شانے سے شانے اپنے بیگانے کے چھلتے تھے۔ جو ساتھ چُھٹ جاتے تھے، ان کا پتا نہ پاتے تھے۔ ڈھوندھے سے نہ ملتے تھے۔ سر راہ سب کی آنکھ لگی تھی۔ تل بھر کی جگہ نہ تھی۔ پُتلی راستہ تکتی تھی۔ نظر نہ پھر سکتی تھی۔ یکایک سواری نظر آئی۔ بڑی تیاری نظر آئی۔ آنکھوں میں چلا آتا تھا۔ مفصل کسی سے دیکھا نہ جاتا تھا۔ جس دم شہزادہ جلوہ گر ہوا، آنکھوں میں گزر ہوا، جب آگے بڑھا، نظروں سے نہاں ہوا، تاریک جہاں ہوا، گلرخوں کے مُنہ پر زردی چھائی۔ نظروں میں سرسوں پھولی، خلقت اپنے اپنے گھر کا رستہ بھولی، دیوان عام تک ماہ رخ پیادہ پا آیا۔ وزیر امیروں نے بڑھ کے استقبال کیا۔ نثار بصد انکسار زر و مال کیا۔ ہاتھوں ہاتھ سریر آراے قاف کے روبرو لاے۔ شہزادہ لحاظ سن سے داب سلطنت بجا لایا۔


شگوفۂ محبت صفحہ 47

ضابطہ کے موافق سر جُھکایا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کے چھاتی سے لگا کے دیر تک پیار کیا۔ بہت سا زر و جواہر اس لعل بے بہا پر نثار کیا۔ برابر بٹھا کر مسکن و ماوا نام جد و آبا پوچھا۔ شاہزادہ والا گہر نے دُرج دہن کو دازبان سحر بیان کو گویا کیا، اس لب و لہجہ سے لب کھولے، حسب و نست شان شوکت کا بیان کیا۔ کہ اہل محفل نے دامن دامن موتی رولے۔ جودت طبع کا امتحان کیا۔ چار طرف سے تحسین و آفرین کی صدا بلند ہوئی۔ خاص و عام کو تقریر بے نظیر پسند ہوئی۔ جتنے شاہ و شہریار امراے نامدار زبردستان روزگار پردۂ قاف کی شادی کی تقریب میں آئے تھے۔ اس کا حسن و جمال تقریر مسلسل کا حال دیکھ کر سب کے سب بزانوے شرم سر خم تھے۔ محفل مرقع تھی۔ سب کو سکتے کے عالم تھے۔ اور کہتے تھے حق ہے کہ انسان کو جمیع مخلوق پر عز و شرف ہے۔ ان کمالوں پر یہ انکسار انہیں لوگوں کا ظرف ہے۔ اگر ہمارے جنس میں یہ بات ہوتی خدا کی عنایات ہوتی، زمین پر پاؤں نہ رکھتے۔ بستیاں بسنے نہ پاتیں، بلکہ آباد قریہ گاؤں نہ رکھتے اور ماہ رخ کا باپ سلطان پرستان تو آپ میں نہ تھا۔ شمع جمال شاہزادہ کا شیدا تھا۔ دیوانہ تھا۔ محفل میں پروانہ تھا۔ بہت تکلف کی دعوت ہوئی۔ ناچ گانے کی اپنے بیگانے کی دیر تک صحبت رہی۔ اس کی محبت کا قصہ تو وہاں مشہور ہو چکا تھا۔ مطلع اناث و ذکور ہو چکا تھا، اب زن و مد فرد فرد نے بچشم دیکھا۔ آمد و رفت دربار میں ہونے لگی۔ گرم صحبتی حضار میں ہونے لگی۔ الغرض جب ماہ رخ کی برات ہو چکی، جو جو شاہ و شہریار رئیسان نامدار اپنے اپنے شہر دیار سے آئے تھے۔ رخصت ہو گئی۔ تمام پرستان میں قوم بنی۔ جان میں شہزادہ کی شکل و شمائل کا چرچا جا بجا مچا رہتا تھا۔ جس نے نہ دیکھا تھا، وہ مستاق سدا رہتا تھا۔ شدہ شدہ یہ خبر مرد کوہ پر پہنچی۔ وہاں کا شہزادہ ملکۂ مہر جمال سے منسوب تھا۔ ماہ رخ کی شادی کے بعد اس کا اسلوب تھا۔ جسدم یہ ماجرا جانگداز اس نے سنا، طیش کھایا، سر دُھنا، اسی دم باپ سے نامہ لکھو کے قاصد صبا رفتار کو دے کے تاکید کی کہ برق و باد سے تند و تیز گرم خیز ہو۔ منتظر سمجھ کے جلد جواب لایا تو انعام ہے، دیر قضا کا پیغام ہے۔ برید سریع السیر مع الخیر مثل صبا اڑ کے پہنچا۔ وزیر اعظم کی وساطت سے ملازمت حاصل کی۔ نامۂ سر بستہ مکتوب الیہ کے حضور حسب دستور گزرانا۔ دبیر عطارد تحریر طلب ہوا۔ خط کھولا، مطالع کر کے چُپ ہو گیا۔ خوف سے کچھ نہ بولا۔ بادشاہ نے فرمایا، برخاست


شگوفۂ محبت صفحہ 48

ہر شخص آداب بجا لا کے روانہ ہوا۔ دربار میں کوئی نہ رہا، بجز وزیر تنہائی کا زمانہ ہوا، وہ ایلچی بھی رخصت ہوا۔ اب منشی نے پڑھنا شروع کیا۔

نامۂ سلطان فیروز کوہ پرشکوہ کا طعن آمیز شکایت بیز شورش انگیز سمت والے قاف بعزم مصاف

بعد حمد خالق انس و جان و نعت حضرت سلیمان علیہ السلام لکھا تھا کہ درنیولا ہم نے سنا ہے کہ تم نے کاشانۂ دولت خانۂ مذلت نئی صورت سے آباد کیا ہے یعنی غیر جنس قسم بشر کو داماد کیا ہے۔ بایں شوکت و شان کہ سلطان ابن سلطان ہو، سلطنگ کی وقعت شاہی کی شوکت خاک میں ملائی۔ عجب پوچ لچر حرکت تم سے ظہور میں آئی ۔ یہ حماقت کثرتِ سن کے ہی زندگی چار دن کی ہے، اس پر کلنک کا ٹیکا پیشانی پر لگایا۔ ننگ و ناموس کا پاس ہم سے خوف و ہراس نہ آیا۔ نہ یہ سوچے کہ سلطنت جاتی رہے گی۔ خلقت ہم کو کیا کہے گی۔ باہم کا رنج و ملال منجز بجنگ و جدال ہو گا۔ ہزاروں کی مفت میں جان جائےئ گی۔ بیگناہوں کے خون کا گردن پر وبال ہو گا۔ روز رستخیز جس دم حرارت آفتاب تند و تیز ہو گی، جوابدہی میں بریز بریز ہو گی۔ سریر آرا مُسن ہو کے ذی اعتبار ہوتا ہے نہ کہ تمہاری طرح سے زیست بیکار کھو کے رعایا کی نظر میں ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ بادشاہ کو لازم ہے وہ بات کرے، رعیت جس کو سند جانے یا مضحکہ ہونے لگے۔ اس فعل کو بد از حد جانے۔ معلوم ہوا کوئی تازہ مشیر پواج ہوا ہے ۔ جو اس قبیح امر کا رواج ہوا ہے۔ کچھ دنوں میں پریاں بنی آدم کو شہروں سے اٹھا لائیں گی۔ مرے اڑائیں گی، پرستان میں غیر جنس کے جوڑے پیدا ہوں گے۔ محبت بچے تھوڑے پیدا ہوں گے۔ کس منہ سے منع کرو گے۔ ان کو بُرا کہو گے۔ گریبان میں منہ ڈال کے کیا کہو گی۔ خدا نہ کرے بادشاہ سے خلاف وضع حرکت سرزد ہو بچشم کم خلق اس کو دیکھنے لگے، زبان زد نیک و بد ہو، والی ملک کا فعل دستور العمل ہوتا ہے۔ الناسُ علےٰ دین مُلۃوکھم، تم نے شیطان کی تحریک سے وہ کام کیا جس سے آبرو میں خلل ہوتا ہے۔ سُنا نہیں بشر کی خلقت بشر عالم میں اسی کے ذات سے تمام شور و شر ہے۔ جو ذی حیات ہے۔ اس کی ذات سے اس کو ضرر ہے۔ کُشت و خون کہ یہ کام سب سے زبون ہے۔ اس کا رواج انسان سے ہے۔ عداوت قلبی قوم بنی جان سے ہے۔ یہ بکھیڑا تمہارے وقوف پر موقوف رہا۔ لازم ہے کہ بمجرد درود نامۂ خائن


شگوفۂ محبت صفحہ 49

متاع عصمت آووردہ علامہ طوق و زنجیر ہو گی۔ قید شدید میں اسیر ہو گی۔ بے آب و دانہ حضور میں روانہ ہو، ورنہ سرانِ سپاہ یلان ترقیخواہ کہ نشۂ جرأت میں دیوانہ وار سر شار ہیں، خلاف کلمے جو شُنے ہیں، آمادۂ حرب مستعد پیکار ہیں، مثل قضاے مبرم اسی جا سمجھو۔ تمہار مملکت کا ہر قریہ ددہ دھاوی سے ویران ہو گا۔ بڑا گھمسان ہو گا۔ پھر عذر بیجا قبول نہ ہو گا۔ خفت کے سوا دشمنوں کو حصول نہ ہو گا۔ ؂

بجنبان مراتا نہ جنبد زمین
ہمیں گویمت باز گویم ہمیں

والسلام نامہ تمام ہوا۔۔ جس وقت یہ تحریر سراسر خلاف اور عزم مصاف تاجدار قاف کے گوش زد ہوئی، دل صفا منزل مکدر ہو گیا۔ طبیعت منغص از حد ہوئی۔ فرط غضب سے ابرو میں بل آیا۔ پیشانی پر شکن پڑی مزاج بگڑا۔ بجز جواب درشت مصلحت نہ بن پڑی۔ وزیر صاحب تدبیر سے فرمایا یہ بات تازی نہیں۔ جواب ترکی ترکی ہوتا ہے۔ ناحق وہ سلطنت کھوتا ہے۔ اسی دم کاتب آئے، اس کا نوشتہ تقدیر لکھا جائے۔ منشی حاضر ہوا۔ نیستان قلمدان سے نیزۂ واسطی اٹھا کے صفحۂ قرطاس کو فقرات دلیرانہ کلمات رستمانہ سے دشت نبر بنایا۔ جوہر تیغ زبان چستی مضمون بران تیزی دست دکھا کے سہام خامہ کو دم اختتام لب معشوق پہنچایا۔

جواب کلبہ شکن حاکم قاف کا سلطان فیروز کوہ کو پریشان سمجھنا، اس کے انبوہ کو کلمات نصیحت مشفقانہ، اس نادان کو سمجھانا، اپنی شوکت و صولت سے دھمکانا

مستوجب حمد سزاوار ثنا حاکم جز و کل ہے۔ جسکے روبرو جن و انس کے روشن دلوں کا چراغ عقل گل ہے۔ ابراہیم علیہ السلام پر کیسی آتش سوزان جس کا شعلۂ زمین سے تا آسمان جاتا تھا، اشارے میں گلزار کی آتش افروز کی سلطنت فی النار کی جب اپنے عبد کو طاقت کی قدرت معبود دکھاتا ہے تو اتنا ضعیف جسہ یعنی پشہ مغز نمرود کھات ہے، موسی علیہ السلام نے فرعون سے سرکش کو کیسا خوار و ذلیل کیا، وہ لشکر جرار بے گور و کفن غرق رود نیل کیا۔ ابابیل نے مع فیل اصحاب فیل کو مار۔ کنکرے نے ہاتھی سے ڈیل کو مارا۔ انس و جان کے نزدیک اشرف المخلوق فرقۂ انسان ہے۔ اس پر خیانت کا وہم بدگمانی حماقت کا نشا ہے۔ اگر اس گروہ حق پژدہ پر عصمت کا یقین امانت کا صادق گمان نہ ہوتا تو فرمانرواے جن و انس


شگوفۂ محبت صفحہ 50

وحش و طیر سلیمان نہ ہوتا۔ بشر میں کیسا کیسا نبی رسالت پناہ ہوا۔ اسی قوم سے کیا کیا الوالعزم بادشاہ ہوا۔ صاحب تاج و دیہیم ہوے۔ فرمانرواے ہفت اقلیم ہوے، جنونکی سلطنت کو کس نے بگاڑا ہے۔ دیوؤں کو سر میدان کس نے پچھاڑا ہے۔ جس نے ان لوگوں سے سرتابی کی، اپنی خانہ خرابی کی، تو اپنی جمیعت پریشان پر مغرور ہوا ہے۔ سر پر باد میں فتور ہوا ہے، یہ جاہ و جلال ملک اور مال تیرے قبضے سے آج نہیں کل نکل جائے گا۔ سرِ میدان بضرب گرز گران تکلے کی طرح بل نکل جائے گا۔ نمکخواران جرار سپہ سالار خنبر گزار بزم طرب میں بیٹھے بیٹھے اب گھبرا اٹھے تھے۔ ہر دم جو یاے جنگ یہ بحر شجاعت کے نہنگ تھے، خیر تیری قضا کشاں کشاں لاتے ہے۔ ان شاء اللہ دلخواہ ان کی مراد بر آتی ہے۔ اور جس کی جانب تمہارا فاسد گمان ہے، معرکۂ نبرد میں دیکھنا وہ مرد میدان ہے۔ دیکھیے عرصۂ جنگاہ میں عروس فتح و فیروزی کسے کے کنار میں آتی ہے اور جنگل کے کنارے کس کی لاش پاش پاش بے گور و کفن ٹھوکریں کھاتی ہے۔ عرصۂ دراز سے وہ وہ پیل تن صف شکن آمادۂ مصاف ہے، جن کا شہرہ قاف سے تا قاف ہے، جس دم سرِ میدان بر سرِ مقابلہ ان کی بار آتی ہے، قضا گھبراتی ہے۔ گو یہ نامدار مشتاق کارزار بہت ناز و نعم سے پلے ہیں، مگر رزم کو بزم سمجھتے ہیں۔ ایسے من چلے ہیں، جس وقت بعزم گیرو دار اور دشمن کے شکار کو یہ جرات شعار راہوار اٹھاتے ہیں، حواس خمسہ عدد کے درست نہیں رہتے۔ ٹاپوں کی ضرب سے میدان حرب میں زمین کے طبقے چھ آسمان آٹھ نظر آتے ہیں۔ ان کے روبرو مریخ کے ہاتھ سے خنجر گرتا ہے، بلکہ سوار عرصۂ فلک تھراتا ہے۔ حریف کو بجز راہ گریز اور کچھ نہیں نظر آتا ہے۔ تلوار وہ باندھتے ہیں، جس کا نام برق غضب ہے۔ غازیان نصرت شعار ان کا لقب ہے۔ نیزہ اژدہا پیکر ان کا نیشتر، خنجر دو زبان الامان بے لاف ہے کہ گزر گراں کوہ شگاف ہے۔ کمند پیچدار ہے، جانستان ہر تار ہے۔ اب بھی جو عذر گستاخی کرو تو شاہزادۂ رحیم قصور معاف کرے گا۔ نہیں تو بات بگڑ جائے گی۔ فرار کے سوا اقرار کی تاب نہ آئیے گی۔ جب وہ صف انداز عزم مصاف کرے گا۔ ہم جنس سمجھ کے سمجھاتے ہیں کہ قوم کی ذلت نہو، آخرش تم بھی پریزاد ہو، حمیت مقتضی نہیں کہ تم برباد ہو، ورنہ نہ سلطنت ہاتھ سے کھوؤ گے، سر پر ہاتھ دھر کے روؤ گے، بھلا کسی نے سنا ہے کہ بُری بات کا نیک انجام ہوا۔ والسلام نامہ تمام ہوا۔ جب منشی نے نامہ بند کیا۔


شگوفۂ محبت صفحہ 51

ایک جرار آزموسہ کار کو طلب کیا۔ فرمایا کہ نامہ بری کی رسم بجا لانا۔ زمرد کوہ میں پہنچانا، جب وہ رخصت ہوا، دبیر جست تحریر کو یاد فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ حسب لیاقت شایان قدر و منزلت فرمان شقہ پروانے حکم نامے بقید تاریخ لکھے جائیں تاکہ دیکھ کے در دولت پر سب مسلح مکمل آئین فراش خانے کے دزروغہ سے فرمایا، شہر سے پانچ کوس جو وہ مرغزار سراپا بہار ہے، چشمہ پشت پر چھوڑ کے خیام ذی اختشام نصب ہوں۔ میدان جو مد نظر ہو، اس میں رزمگاہ درست کرو۔ اس کام پر مرد جنگ دیدہ تجربہ رسیدہ مامور ہو۔ چست چالاک ضرور ہو۔ رن گدھ بنے مورچے کُھدیں، مدمے تیار ہوں ،سطحۂ صحرا شفاف رہے، نہ خس کا نام ہو نہ خار ہوں۔ اسی دم یکقلم خیمے لگ گئے۔ سامان روانہ ہوا تا شام دشت نبرد میں تھانہ ہوا۔ بیلداروں کو حکم ملا پھاوڑا کدال سب سنبھال بلندی کو پست کر کے نشیب فراز کو ہموار کیا۔ کنکر پتھر چُن کر خس و خار کا جدا انبار کیا۔ کہیں نقب کا ڈھنگ بنایا، کسی مورچے کا کوچہ کشاد کسی موقع پر تنگ بنایا، جو زین سُرنگ کوتاکی تھی۔ متصل اس کے توپ کی جھانکی تھی۔ کہیں بارود بچھا کے دمدمے کا نشان کیا، جنگی سب سامان کیا۔ تمام جنگل میںبلندی بستی نہ رہی۔ یکساں ہو گیا۔ نہ جُھندی دیکھی نہ جھاڑی۔ نظر آئی، جدھر نگاہ گئی، میدان جنگی نظر پڑا۔ زمین صاف جھاڑی نظر آئی۔ اس کے بعد باون گنج ننانوے منڈی کے جھنڈے گڑے، صدر کا چبوترہ بنا ، چوپڑ کا بازار سجا، دکانوں کے نشان پڑی، خیامِ شاہی کے روبرو اردوے معلی کا طور ہوا۔ نقشہ ہی کچھ اور ہوا۔ دل بادل خیمہ استاد ہوا، کندلی سرایچے بیچوبے قرینے سے سجے۔ سائر کی قنات تنی، بارگاہ بنی، مسل در مسل پالیں چھولداریاں نمگیرے کھڑے ہوے۔ سرداروں کے واسطے تنبو بڑے برے سواروں کی لین میں اک چوبی چوتری کھینچ گئے۔ لشکر کی آمد شروع ہوئی۔ بازاری بیوپاری کنجڑے قصائی نان بائی حلوائی کو ڈنڈئی لے گئے۔ ہر بازار کے کوتوال اہلکار نے ان کی جگہ معین جو تھی وہاں اتارا۔ سوار پیدل کی مسل نقیبوں نے آراستہ کی۔ پہر نہ بجا تھا کہ فیلی شتری نقاروں کی صدا پیدا ہوئی۔ ظل اللہ مع شاہزادۂ عالیجاہ خیمے میں رونق افزا ہوے۔ وزیر امیر اراکین سلطنت جابجا اترے۔ سلامی کی توپ اردلی کی توپخانہ سے چلنے لگی۔ آسمان کانپا، زمین دہلنے لگی۔ تین پہر بجتے بجتے بہیر بنگاہ فوج کو


شگوفۂ محبت صفحہ 52

تھکے ماندے خیمہ و خر گاہ سب کچھ لشکر میں داخل ہوا۔ لشکر میں شہر کی کیفیت کا لطف حاصل ہوا۔ دکانیں کُھل گئیں۔ خرید و فروخت ہونے لگی۔ بازار میں کٹورا کھنکا، خلقت ہاتھ مُنہ دھونے لگی، سرِ شام دو رویہ چوک میں گلاس روشن ہوے۔ دکانوں میں چراغ جلنے لگے۔ تماش بین پھرنے چلنے لگے۔ ایک طرف چکلہ بہت چوڑا چکلہ ارباب نشاط کا داروغہ جدا دو برجی رتھیں، لے سائبان کی مجھولیاں مختصر عجیب آن بان کی ہر نائکہ نے اپنے چھپرے تانے، رنڈیاں ناچنے گانے لگیں۔ بیفکروں کے ہجوم ہوئے۔ زپٹ لگاتا خرچیاں چکانے لگیں، کسی نے لگی بندھی کو بلایا، کسی نے تازہ پھنسایا۔ تمام لشکر میں چہچہے مچے تھے۔ مسل در مسل لوگ خوشی کر سہے تھے۔ چار سپہ سالار جرار ہزار ہزار سوار ہمرا لشکر کے گرد از شام تا پگاہ طلایہ کو مقرر ہوئے۔ کوتوال گشت کو اٹھا نرسنگا پھنکا نظر باز پھرنے لگے۔ بدمعاش گھرنے لگے۔ پاسبان چوکیدار بیدار باش خبردار باس پکارتے تھے۔ پلٹن کے جوان حکم حیدر للکارتے تھے۔ القصہ تمام شب لشکر میں توپخانہ کے جوان اور مہتم سپاہ انجم بردی آسمان مہتاب روشن رکتھے تھے۔ جب تک شاہ خاور اور شہزادہ پری پیکر برآمد نہ ہوتا تھا، دونوں میں سے ایک بھی نہ سوتا تھا اور در دولت پر اکاسی دیا بھولے بچھڑے کا پتا تھا۔ جو کوئی اپنی مسل بالیں گنج منڈی بازار بھول جاتا، اس کی روشنی میں آ کے پتا لگاتا تھا۔ اب دو کلمے نامہ بر کی سنو، وہ نوشتۂ تقدیر بے تاخیر شاہ زمرد کو دیا، منشی کو طلب کیا۔ مضمون دلخراش سن کے کلیجہ پاش پاش ہوا۔ جھنجھلا کے کہا، اس کا جواب کلک دبیر سے نہیں، سرِ میدار شمشیر کی زبان سے دوں گا۔ یا لب سوفر یا پیکان آبدار گوش گزر کرے گا۔ بے جواب نامہ دار رخصت ہوا۔ افسران سپاہیلان رزم خواہ کو فوراً کوچ کا حکم دیا۔ دیوانہ وار غصہ میں مع لشکر یلغار چلا۔ یہاں تو رات عیش و نشاط میں بسر ہوئی، مؤزن صبح چونکا، صداے اللہ اکبر آئی۔ سحر ہوئی، سلطان نامدار شاہزادہ وال تبار بعد ادائے فریضۂ سحر بعزم دربار تخت رواں پر سوار ہوا۔ اہالیان سرکار ملازمان جان نثار وزیر امیر صغیر کبیر درِ دولت پر ہمہ تن چشم درجہ بدرجہ اپنے اپنے قرینے سے کھڑے تھے۔ دیدے دروازہے سے لڑے تھے۔ یکایک لال پردہ چرخی پر کھچا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا غل مچا۔ مراتب بمراتب سب کا مجرا ہوا، شاہان باج گزار وزیر امیر نامدار سپہ سالار قطار قطار


شگوفۂ محبت صفحہ 53

پہلوان تہمتیں یلان صف شکن حلقہ باندھے آہستہ آہستہ قدم قدم دار الامارۃ میں آئی۔ سلطان والا شان تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ جن جن کا مرتبہ بیٹھنے کا تھا وہ بیٹھے، باقی دست ادب بستہ جابجا کھڑے ہوئے۔ دست راست تخت کے برابر دوسرا تخت مختصر جواہر نگار بچھا تھا، اس پر شہزادہ بلند اختر بسان مہر منور جلوہ گر ہوا۔ زر دگا و سر طلائی نقرئی برمین خود مطلا خورشید سے زیادہ چمکتا، سر تا سر الماس زمرد جڑا پر ہما کی کلغی سر پر سایہ فگن شباب کا جوبن خنجر جانستان شیشیر اجل سے بران کمر میں مہر و ماہ کے پھول، سپر مین، فولادی داستانی ہاتھوں میں چڑھے نادر دست کے گڑھے، تیغ ہندی حمائل تیور ونپربل تیکھی چتون نمونۂ قدرت عز و جل چشم غزالی شرمہ گیں لال لالشیر کا رعب و جلال خندہ پیشانی شجاعت کے آثار سخاوت کی نشانی جدھر آنکھ ملاتا تھا، شجاعوں کا زہرہ آب ہوا جاتا تھا۔ اکیس بادشاہ باون 52 امرا کرسی نسین ستودہ آئین پانچ سے تہمتیں، بارہ 12 سے گرد صف شکن مرصع کاردنگلوں پر برابر برابر کل اراکان سلطنت حاضر تھے۔ کہ پہلے لشکر کے کوتوال کا پرچہ گزرا، وزیر اعظم پڑھنےلگا، ہنوز ناتمام تھا۔ دوپیک صبا دم صرصر سے تیز قدم غبار آلودہ، ماتھے سے پسینہ ٹپکتا، نمود ہوے، چوبدار پکارے، سلطان خوشخونگاہ روبرو شہر یار خجستہ اطوار نے ادھر آنکھ اٹھائی، ہرکاروں نے پایۂ تخت کا بوسہ لیکر تسلیم کو گردن جھکائی۔ پھر سر اٹھا دستِ دعا بلند کر کے کہا ؂

الٰہی تا جہان باشد تو باشی
جہان را تانشاں باشد تو باشی

رہیں اس در پہ ہر دم مثل دربان
سہِ روم و عجن اور چین کا خاقان

عمر و دولت شاہنشاہ خضر سے اور خزانہ خسرو سے افزوں ہو۔ دشمن تیرہ روزگار زار و زبون ہو۔ قریب میدان کارزار لشکر شکست اثر حریف آ پہنچا، میدان نبرد کی ہیبت سے ہر شخص کا چہرہ زرد ہے، رعب چھایا ہے۔ پہلوانوں کا دم گھبرایا ہے۔ لب پر آہ سرد ہے۔ آمادہ فرار با رخ پر گردبین بدحواس زن و مرد ہیں، نو لاکھ از روے شمار ہیں۔ چار لاکھ پیادے پانچ لاکھ سوار ہیں۔ شوکت افواج قاہرہ کثرتِ یلان خنجر گزار سے سب کو اضطرار ہے۔ جان کے خوف سے چھوٹا بڑا مغموم ہے۔ بہیر بنگاہ ملا کے بارہ لاکھ کا ہجوم ہے۔ کشکر ظفر پیکر کی مفصل خبر جو پائی ہے، چہروں پر مردنی چھائی ہے۔ سواروں کی خود فراموشی کا ادنیٰ یہ نکتہ ہے۔ اگاڑی کو پچھاڑی سمجھ کے


شگوفۂ محبت صفحہ 54

اُلٹا گھوڑا باندھتے ہیں، پچھاڑی میں کلخور ٹٹولتے ہیں۔ گھوڑے کے بدلے چار جامہ باندھتے ہیں۔ جو کوئی ہنسا تو شرمندہ ہو کے کھولتے ہیں۔ اور پیادوں کے ایسے ہاتھ پاؤں پھولے ہیں مسل کیسی کمید ۔۔۔ کا نام، پلٹن کا نشان بھولے ہیں، جس جا خیمۂ سلطانی نصب ہوتی ہے، وہاں تماشا عجب ہوتا ہے۔ ایک فراش انہی انداز پر آ کر میخ گاڑتا ہے، تو دوسرا عمداً اس کا نقشہ بگاڑتا ہے۔ اور بے چوبا جس نے استاد کیا ہے، سب نے اس کو استاد کیا ہے۔ اس بل پر ہو کسی کی کب مانتا ہے۔ داروغہ ہاں ہاں کرتا ہے، وہ شامیانے کے عوض سائر کی قنات تانتا ہے، جو مہتم فراش خانہ ہے۔ وہ نرا دیوانہ ہے۔ بسنتی خیمہ کی خاطر فراش زرد چوب کا جب نام لیتا ہے، وہ پنساری بن کے بیٹھا ہے۔ ہلدی کی گرہ اپنی گانٹھ سےکھول کے دیتا ہے۔ ملازم سرکاری ہے یا بازاری ہے، شیطان نے سب کی عقل ماری ہے، خوف سے حواس غائب، ہوش گم ہے۔ تمام لشکر میں تلاطم ہے، برگشتہ سب سے اقبال ہے۔ مجنونوں کا حال ہے، القصہ خبرداروں کو حسب ضابطہ انعام ہوا اور وہ دن تمام ہوا۔ سرِ شام بفرحت تمام حکم پہنچا کہ طبل جنگ بے درنگ بجے۔ سب آگاہ ہوں۔ دم سحر ملک الموت کی گرم بازاری ہے۔ دم نقد جان کی خریداری ہے۔ سر تن سے جدا ہو گا، زخم کے ہار ملیں گے۔ خنجر و سنان کے پھل کھا کر دشمن کا لہو پینا ہے۔ سرخرو ہو کر مرنے کا نام جینا ہے۔ یہ خبر سن کے نقارچیوں نے طبل اسکندری کو سینک کر چوب دی۔ نقارۂ جنگی کوس حربی کی کوسوں صدا پہنچی۔ حریف کا لشکر قریب تر تھا۔ صدا کا منتظر تھا۔ وہاں بھی حکم آیا۔ نقارہ بجایا، دشت نبرد کانپنے لگا، خورشید باغ زرد ہانپنے لگا۔ تمام رات سونے کی نوبت جری اور نامرد کو نہ آئی۔ نیند فرد فرد کو نہ آئی۔ بہادر تو رزم و پیکار کی تدبیر سوچتے تھے، بزدلے گھبرا گھبرا کر منہ نوچتے تھے۔ من چلے مشتاقانہ مورچوں کو غور کرتے تھے۔ ہنس ہنس کے رزمگاہ دیکھتے تھے۔ ڈھل گنڈی لمبے ہونے کا طور دیکھتے تھے۔ رو رو کے بھاگنے کی راہ دیکھتے تھے۔ جرار خود بکتر زرہ جامہ کھولتے تھے۔ بدحواس گڑگوڈر ٹٹولتے تھے۔ یہاں چہروں پر سرخی چھائی تھی۔ وہاں منہ پر ہوائی تھی۔ صبح تک جانبین تیاری بیداری رہی۔ آنکھوں میں رات کٹی۔ ہوشیاری رہی، دم سحر بصد کرفرار یکہ آراے زنگاری مشرق سے نمودار ہوا، ظلمتِ شب روبفرار ہوکئی۔ صبح کا سفیدہ آشکار ہوا، دونوں بادشاہ جنگجو رزمخواہ سوار ہو کے میدان حرب میں آئے اور سوار پیدل نے اپنی اپنے صف اوپرے


شگوفۂ محبت صفحہ 55

جمائی۔ طرفین سے نقیب نکلے۔ ہٹی کو بڑھایا۔ جو انداز سے نکل چلا تھا۔ گو بانکا ترچھا تھا، سیدھا کر کے صف میں ملایا، پھر کڑکیت کڑکے، خوش الحان سے تڑکے تڑکے آوازے سنائے۔ شجاعوں کی مونچھوں کے بال بودونکے رنگٹے فی الحال کھڑے ہو آئے۔ پکارے کہ ای بہادرو نریمان ہے نہ سام ہے، نہ صفحۂ ہستی پر نشان زال خون آشام ہے۔ بر زور ہانہ بیزن ہے، نہ اس بلندی پسی پر اسفند یار روئیں، تن ہی کیسے کیسے بہادر صف شکن تہمتن نوجوان رستم و ستان پیر فلک نے بچشم زدن ہلاک کیے، تہ خاک کیے۔ پردۂ زمین پر ان کا پتا ہے نہ نشان ہے۔ مگر جرأت سے نام باقی جانفشانی کی داستان باقی ماندوں کی برزبان ہے۔ جانیں لڑا کے ساکھے کر گئے ہیں، وہی زندہ جاوید ہیں، گو مر گئے ہیں۔ ازل سے تیغ اور گردن میں لاگ ہے۔ تلوار کی آنچ مشہور ہے، گیلی سوکھی دونوں جلتی ہے، یہ وہ آگ ہے قدردان سرِ میدان نظارہ کنان ہیں۔ اپنے جوہر دکھاؤ، دونوں کو گلے ملاو، جرات کے کام کرو۔ ع

دور مجنوں گذشت نوبت ماست

دور وزہ زیست میں نام کرو، جس کا قدم معرکہ میں ڈگ جائے گا، وہ کہیں آبرو نہ پائے گا۔ پگ آ گئی پت رہی پگ پاچھے پت جائے، تلسی جگ مان جس رہے محنت کرے سوکھا۔ یہ صدا دلیروں کو نیستان شجاعت کے شیروں کو شراب پرتگال ہوئی۔ بہادری کا نشہ آ گیا۔ آنکھ ہر ایک کی لال ہوئی۔ دفعتہً پریزاد فرخ نزاد نام ثانی سام ست راست کا سالار بشوق کارزار پرے سے نکلا، گھوڑا چمکا کے نیزۂ دوزبان سنبھالا، پایۂ تخت کو بوسہ دیا اور اجازت میدان اس نوجوان نے چاہی۔ شہزادہ فیروز بخت برابر تخت کے تھا، گوشہ چشم سے ساغر تمنا اس کا لبریز کیا، آداب بجا لایا، صرصر صبا دم کو تیز قدم جنگاہ کی طرف مہمیز کیا۔ گھوڑے کو پوئی کاوے اٹیرن لگا، سرپٹ اڑا نیزے کے طعنے دکھا، مبارز طلب کیا۔ پکارا کہ جس کا جام حیات بادۂ ممات سے لبریز ہو، وہ معرکہ میں گرم خیز ہو، فوج مخالف سے ایک پیلتن بسان اہرمن کر گدن بڑھا کے مقابلہ میں آیا۔ پہلے تو حسب و نسب بیان کیا، پھر لاف گزاف کے کلمے زبان پر لایا، فرخ نزاد والا نہاد نے دست بازو سے عجیب دلیرانہ کار لیا، دو چار طعنوں کی رد و بدل ہوئی، پھر نیزے کی نوک پر اٹھا کے مار لیا۔ دونوں لشکر سے بیساختہ واہ واہ کی صدا پیدا ہوئی۔ روح اس کی جسم سے بحال تباہ نکلی۔ اب لڑائی چھڑ گئی۔ مر جانے کی راہ نکلی، تاشام اس خون آشام نے صبح کر دی۔


شگوفۂ محبت صفحہ 56

دس بارہ نامی مخالف کا پہلوان مارا، حقیقت میں میدان مارا۔ اس عرصہ میں شاہ انجم سپاہ بتماشاے رزمگاہ برآمد ہوا۔ چادر سیاہ سمت حریف پھیلائی، پرسُیکو تیرہ بختوں کی شب دیجور آئی۔ طبل بازگشت بجا، ادھر کے پہلوان بفتح و نصرت ادھر برگشتہ عنان بصد خفت و ذلت اپنے اپنے ڈیرے خیمہ میں داخل ہوئے۔ حارس و نگہبان پاسبانی کرنے لگے۔ لشکروں کی نگہبانی کرنے۔ تمام شب کوئی تو اپنے عزیز و اقربا کر روتا رہا، جو فتح نصیب تھا وہ پاؤں پھیلاے سوتا رہا۔ دمِ سحر جس دم سریر آراے گنبد نیلی فام بشوکت تمام مشرق کے جلو خانہ سے تابان ہوا، دونوں طرف پھر جنگ کا سامان ہوا، عرصۂ جنگاہ میں شاہان رزمخواہ رونق افزا ہوئے، فوجوں کے پرے صف آرا ہوے۔ میمنہ میسرہ قلب و جناح ساقہ کمینگاہ نقیبوں نے ہموار کیا، صفوں کو تیار کیا۔ قلب سپاہ میں بادشاہوں کی سواری آئی۔ من چلوں نے گھوڑے بڑھائے۔ جان نثاری کی باری آئی۔ غرہ سے تاسلخ وہ لشکر فزوں از مورد بلخ لڑتا رہا۔ روز لاشوں کا انبار گرتا رہا۔ دو ہزار نامور ادھر کا تین چار سے پری پیکر ادھر کا تہ خاک ہوا۔ ہلاک ہوا، مگر قصہ نہ پاک ہوا۔ دوسرے مہینے شہزادۂ نیک نہاد نے بانی فساد کو پیام بھیجا کہ اسی طرح ہر روز بیگناہوں کی جان جائے گی، گنجلک نہ مٹے گی۔ لڑائی فیصلہ نہ پائے گی، ہم تم باعث فتنہ بانی شور و شربین مدعی ہمدگرہیں لازم ہے کہ سرِ میدان دل کے ارمان نکلالیں۔ یلان رزمخواہ سران سپاہ تماشائی خاموش رہیں، بولیں نہ چالیں، یہ کارزار دار ناپائدار میں یادگار رہے۔ غیر کا خون کیوں بہے، جس کا یاور اقبال ہو گا، دوسرا اس کے ہاتھ سے پامال ہو گا۔ دیکھیے رن کا نوشاہ کون ہوتا ہے۔ عروس فتح کس سے ہمکنار ہوتی ہے۔ والی وارث کس کا روتا ہے۔ سرِ میدان کس کی لاش ذلیل و خوار ہوتی ہے۔ جس دم یہ جملہ شاہزادۂ زمرد کوہ کے گوش زد ہوا، آنسو پچھے فرحناک از حد ہوا۔ بسکہ اس کو اپنے تنومندی کا بھروسہ، زور و طاقت کا سہار تھا، بارہا سرِ میدان ہزراہا زبردست پہلوانوں کو مارا تھا، جواب دی، کہ الحمد للہ شاہد مراد نے چار آئینہ فولاد میں صورت دکھائ، یہی تمنا تھی سو بر آئی۔ تاریخ نہم مع الخیر ہمارا تمہارا مقابلہ ہے۔ بڑی سیر کا معاملہ ہے۔ جس وت خبردار پھر آئے اور یہ خبر لائے، لشکروں کو بازگشت ہوئی لیکن چرچا مچا کہ یہ لڑائی نئے ایجاد سے ہے۔ انسان کا مقابلہ پریزاد سے ہے۔ ہر چند بادشاہ نے شہزادۂ عازم نبرد کو با دل پر درد


شگوفۂ محبت صفحہ 57

سمجھایا کہ بابا ان نوجوانوں کو گروں کش پہلوانوں کو اسی دن کی خاطر زر و جواہر دیکر پالا ہے۔ بارہا دیکھا بھالا ہے۔ کچھ کام نہ آیا۔ ادھر غول کے غول جراروں کے غٹ کے غٹ جنگ آزمودہ سپہ سالاروں کے دست بستہ روبرو آ کے، غرضیکہ ہم چشموں میں عزت و توقیر ہماری نہ رہے گی۔ دونوں طرف کی فوج کیا کہے گی۔ حضور مشغول جنگ ہوئے، ہم دنیا میں بے نام و ننگ ہوئے۔ ایک تو آپ مسافر اور مہمان، وہ قوم بنی جان زبردست، فیل مست، خدانخواستہ اگر لڑئی بگڑ جائے گی، گلے کاٹنے کی نوبت ہماری آئے گی، شہزادۂ جری نے فرمایا، محبت سے یہ کلمہ تم نے کہا، حافظ حقیقی بہرحال ہمارا یا درد نگہبان ہے، دیکھ لینا، جو ہو گا، یہی گو یہی میدان ہے۔ القصہ آٹھویں تاریخ نویں شب آئی۔ ترقیخواہوں کی مع بادشاہ جان بلب آئی۔ شہزادہ نے بعد فرائص صبح دستِ دعا بدرگارہ خاد بلند کر کےکہا، اے مدد گار جن و انسان خلاق زمین و آسمان، نام کو باقی رات ہے، دمِ سحر مقابلۂ کوہ پیکر ہے۔ اس ضعیف الجسہ کی آبرو تیرے ہاتھ ہے۔ دشمن کو اپنے زور بازو کا سہار ہے، مجھ کو لا تقنطو کا سہارا ہے۔ یہ کہہ کے تاج کیانی سے سر لباس سلطانی سے جسم انور آراستہ کر ہتھیار لگاے۔ نیا رواج کیا، خود وزیر تاج کیا۔ زرہ گا و سر پر چار آئینہ لگایا۔ فتح فیروزی کا نقشہ نظر آیا۔ آفتابی شپر اس ماہ پیکر نے زیب پشت کر کے بوندی کی کٹاری لکہ ابر رحمت نے کمر میں رکھی۔ تسمے کی لاگ سپر مین رکھی۔ فولادی دستانے زر نشان زیب و ست تھے۔ نئے انداز سے ہتھیاروں کے بند و بست تھے۔ تیغ ہندی پٹھ چرا خمیرادبلا رنگ الماسی آب نایاب باڑھ اجل کی گھاٹ تک لہو کی پیاسی حمائل کی قبر میں پیتھ نہ لگے جس کے گھائل کی تپنچے ولایتی جن کے توڑ سے بندوق کا جی چھوٹ جائے۔ قبور میں لگائے اسپ صبادم فرفر کرنے لگا۔ آمد دیکھ کے طراری بھرنے لگا۔ شہزادہ نے یا علی گردن پر انگشت شہادت سے لکھا۔ حلقۂ رکاب ہمہ تن چشم منتظر قدم تھا۔ ایال پر ہاتھ ڈال رکاب میں پاؤں لگا گھوڑے کی پیٹھ پر پہنچا، جلوہ دار نے دامن قبا درست کیا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا شور عظیم ہوا۔ قربوس زین میں ملتانی کمان کھینچ آئی۔ لب سو فار کی دعا قبول ہوئی کہ اب سرخروئی حصول ہوئی۔ ترکش نے کمر کے مگصل رونق پائی۔ ہرنے پر کمند کے لچھے ڈالے ساز یراق گنڈے اچھے سے اچھے ڈالے، دست راست میں نیزۂ دو سر اژدہا پیکر بائیں میں عنان رشک صرصر سر فلک


شگوفۂ محبت صفحہ 55

فرسا فروتنی سے خم کیا۔ ناد علی کو دم کیا۔ میدان کو دیکھ کے تیور پر بل آئے۔ نشۂ جرأت سے دیدے اُبل آئے۔ چہرے کا رنگ جوانی کی ترنگ میں گلنار ہوا۔ گھوڑے کو پٹری سے مسک کے گرم رفتار ہوا، سمند برق دم ہر قدم تڑپ کے جولانی کرتا تھا، زیر ران گرم عنائی کرتا تھا۔ شہسوار بے بدل نے خانۂ زین میں سنبھل کے ٹھکرایا۔ پہلے طرارے میں تخت کے برابر اتار امر رہا۔ نگاہ روبرو پکارا، بادشاہ متوجہ ہوا، یہ آداب بجا لایا۔ رخصت خواہ ہوا۔ ھالی قاف نے آنسو آنکھ میں بھر کے تاج شاہی ہاتھوں پر دھر کے برآرندۂ حاجات مجیب الدعوات سے عرض کی کہ تو قادر توانا علیم و داتا ہے۔ مہمان کا معرکہ میں جانا ہے۔ اے رحیم یہ فتح پاے۔ میری آبرو رہ جائے۔ پھر کہا بحافظ عالم سپر دم اللہ معکم اینا کنتم تمام فوج نے بلبلا کے کہا پروعگار تو اس کی مدد کرنا۔ جو بلا آئے اپنے کرم سے رد کرنا۔ شہزادہ گھوڑے کو چمکارتا راکب و مرکب کا جوبن دکھاتا چلا۔ پری کے برابر آتے ہیں گھوڑا دبا کے سن سے نکل گیا۔ بوے گل کی طرح چمن سے نکل گیا۔ یا تو سب فوج کی نگاہ میں تھا، دو لنبیاں گھوڑے نے کیں، رزمگاہ میں تھا، میدان میں چار طرف نگاہ کی، گھوڑے کی باگ لی، رجز پڑھ کے آگے بڑھ کے اپنا حسب و نسب بآواز بلند سنا، مبارز طلبی کی پھر اس انداز سے نعرہ مارا کہ جانور پرواز سے رہ گئے۔ دونوں لشکر دہل گئے۔ فلم پیر الامان پکارا، مجبور بادل کی رتجور حریف کوہ پیکر دیو منتظر ہمہ تن غرق دریاے آہن کرگدن پر سوار بچشم خونخوار کف در وہاں بزدلی پن پر شیر کی صورت غراں روبرو آیا۔ تنور سے مشابہ تر خود سر پرغرور پر، دام زرہ میں نہنگ سا پھنسا، چار ائنہ میں موت کا منہ دیکھتا، تلوار جو کبھی میان سے باہر نہیں نکلی، ران کے نیچے دبی، سپرپس پشت کلنک کا ٹیکا دستے میں تیر سراسری شہزادہ کے رعب سے لب سوفار خشک کمان کا رخ اوتر برچھا کرگدن کے کان پر سر نوں خنجر کی بے آبی، کیا کہوں دستے تک اوداسا کرگدن میں مٹھا پن گویا بھینس زیر ران، خنجر بے جوہر آب نایاب داسی او داسی یہ کُھلا کہ باندھنے والے کی خون کی پیاسے سوار حیران آتے ہی ہم تگادر ہوا۔ عجب دھماکہ پیدا ہوا۔ کہ فوج دہل گئی۔ پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ میدان زیر و زبر ہوا۔ دس بارہ قدم گینڈا بیدم ہو کے ہٹا، تھرانے لگا، تین چار قدم اسپ برق دم ہٹ کر اپنی چمک بدستور دکھانے لگا۔ کئی روز پیشتر اس لڑئی کی خبر مشتہر ہو چکی تھی کہ پری پیکر


شگوفۂ محبت صفحہ 59

گلغدار کا دیو خونخوار سے اب سامنا ہے۔ غضب سا منا ہے۔ تمام سکنان پرستان ایک سمت کو نظارہ کنان تھے۔ اور ہزارہا پری اور پریزاد بروے ہوا میدان میں گھر آئے تھے۔ زمین پر فوجوں کے دل آسمان پر ان کے بادل چھائے تھے۔ آفتاب نظر نہ آتا تھا۔ اندھیر ہوا جاتا تھا۔ دفعتہً اس تنگدل نے گزر گراں سنگ عرابی سے اٹھایا، شہزادہ کا جلو وار بھی گرز روبرو لایا۔ چار گھڑی کا مل وہ دھما دھم ہوئی کہ زیر زمین مچھلی بیدم ہوئی۔ صفحۂ میدان کرۂ آہنگراں سراسر ہوا۔ گوش گردوں گردان کر ہوا۔ اسی گرمجوشی میں شہزادۂ بلند اختر نے بقوت تمام تر رکاب سے رکاب ملا کے گرز لگایا۔ حریف نے گرز پر روکا۔ ایسی ضرب کڑی پڑی کہ عمود کا کلہ نابود ہو کے دستے میں اتر آیا۔ گیندے کی کمر میں بل پڑا۔ سواری میں خلل پڑا۔ پیادہ ہو کے گھوڑا مانگا۔ اس پر ناچار سوار ہو کے شرک سے کسی طرف دیکھا نہ بھالا۔ نیزہ سنبھالا اور شہزادہ کا سینہ حُسن کا گجنینہ تاک گھوڑا ڈبٹایا، دونوں جانب کے پیدل سوار نیزہ دار سمجھے کہ پورا وار ہوا، برچھا دو سار ہوا۔ یہاں فضل الٰہی شامل حال تھا، وہ کیا مال تھا۔ اس چستی اور پھرتی سے شاہزادہ نے بدن کو چُرایا، ہوا کا بھی صدمہ بدن تک نہ آیا۔ اسپ صبا خصال کا عجب حال تھا۔ اس سناٹے سے پھرتا تھا کہ پتلی تو پتلی پھر کے دیکھ لیتی تھی۔ مگر گردس میں سُم اور نعل وہم اور خیال کے حلقۂ تصر میں نہ گھرتا تھا۔ سُمٌ و بکمٌ کا طور تھا۔ نقشہ ہی کچھ اور تھا۔ مردم دیدہ بغور تمامتر تکتے تھے۔ نقش پا کو دائرہ نظر میں نہ لا سکتے تھے۔ زمین کو رشک آسمان چال سے بناتا تھا، اس چمک سے آتا جاتا تھا، جس جگہ نشان نعل بن جاتا تھا۔ وہ پھر آنے میں بدر ہوتا تھا۔ جانے میں جو ہلال بن جاتا تھا، جہاں جہاں اس نے پاؤں اتارا تھا، میخ کا نشان تارا تھا۔ چمک جنے میں برق جہندہ کا شرارہ تھا۔ گھوڑا کیا تھا سیماب کا پارہ تھا۔ برچھا لگانے میں حریف نے جو منہ کی کھائی تھی، مع گھوڑے زمین پر گرنے کی نوبت آئی تھی۔ مگر شہزادہ رزم آزمانے اس بدحواس کا پاس کیا۔ بسرعت تمام تر وار خالی دے کر گھوڑے کو پلٹا ٹوک لیا۔ نیزہ دو زبان کی ڈانڈ سے گرنے نہ دیا، روک لیا۔ مرحبا صلی علیٰ کی صدا ارض و سما سے آنے لگی۔ نیزہ بازوں کی جان جانے لگی۔ وہ ننگ و ددمان شاہی مزاج کا داہی بل کھا کے جھلا کے پھر ڈانڈا ینڈی پر مستعد ہوا۔ دو اژدر سیاہ بسن ودو آہ باہم پیچان تھے،


شگوفۂ محبت صفحہ 60

دیکھنے والے واہ واہ تو کہتے تھے، مگر انگشت حیرت بہ دہان تھے۔ برق غضب کی طرح سنانیں لڑ کے چمک جاتی تھیں۔ شرارے پیدا ہوتے تھے۔ تماشائیوں کی آنکھیں جھپک جاتی تھیں۔ اس نے بند باندھا تو اس نے بہ کشادہ پیشانی کھول لیا۔ کبھی وہ بڑھ آیا، گاہ اس نے رول لیا۔ ڈانڈ سے ڈانڈ مع سنان و بنان باہم لڑ کے لپٹ جاتے تھے۔ کئی تیری چرخ سے بلند ہو کے آپس کی کھٹا پٹ جاتی تھی۔ آخر کار شہزادۂ نامدار نے ایک پیچ میں باندھ کے گھوڑا اڈرایا، سب نے دیکھ کہ اڑاڑا کے وہ خشمگین بروے زمین آیا، لیکن وہ تو گرتے گرتے گھوڑے پر سنبھل گیا، مگر ہوائی کی طرح نیزہ ہوا ہوا ہاتھ سے نکل گیا۔ دونوں جانب سے تحسین و آفرین کے نعرے آنے لگے۔ ہوا خواہوں کی یہ نوبت ہوئی۔ فرط خوشی سے شادیانے بجانے لگے۔ صبح سے دوپہر ڈھل گئی تھی۔ سب بے دانہ و آب بھوک پیاس سے بیتاب تھے۔ فرمانرواے قاف نے فوراً طبل بازگشت بجوا دیا۔ پنجۂ قضا سے بچوا دیا۔ شہزادہ یاسمین پیکر بافتح و ظفر و شکست نصیب خائف و خاسر میدان سے پھرا۔ سلطان قاف شہزادہ کو گلے سے لگا برابر تخت پر بٹھا خیمہ میں داخل ہوا۔ وہ بداسلوب محجوب برگشتہ قسمت اپنے فرودگاہ کی طرف پھر ا۔ یہاں بزم طرب میں سب چہچہے کرنے لگے۔ مصروف جشن وہ شیر بیشہ ہوا۔ وہاں مجمع اندوہ و ملال رہا۔ چھوٹا بڑا کوفت میں خراب حال رہا۔ سحر مصاف کو سب کو اندیشہ ہوا کہ آج تو سرِ میدان یہ ذلت کا سامان ہوا۔ خدا جانے کل کیا ہو گا۔ شگون زبوں ہوا، انجام کار بُرا ہو گا۔ بات کی بات میں رات تمام ہوئی۔ صبح کا سفیدہ چمکا۔ لشکر میں ملک الموت آ دھمکا۔ نقیبوں نے شکست نصیبوں کو بیدار، سوار پیدل کو آمادہ کارزار کیا۔ ادھر شہر یار قاف اور شاہزادہ وارد میدان مصاف ہوا۔ ادھر کے سوار پیادے مرگ کے آمادے پرے جما کے کھڑے ہوئے۔ دہ دمِ صبح نور کا تڑکا سرد سرد ہوا کے جھونکے صرصر و صبا کے جھونکے، خوش آواز کغکیتوں کا کڑکا، صحرا گلزار پہاڑ کی ڈانک پر آبشار، پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو مہک چار سو، جانورانِ خوش الحان درختوں پر حمد خوان جابجا، جھیلیں تالاب بھری گرد وہاں کے کھیت ہرے، دونوں سمت پریزادوں کے پرے، بیچ میں رن ہزاروں بے گور و کفن کوئی گلغدار کوئی غنچہ دہن لب خشک، زخم ہرے، لڑائی کا کھیت، غیرت گلسن عبر کی جا، حیرت کا مقام، لاشوں کے
 

شمشاد

لائبریرین
شگوفۂ محبت صفحہ 61

گرد دو دوام، کسی کے چہرے پر چمک دمک، کسی کے منہ پر اداسی، کہیں دلجمعی، کہیں بدحواسی، موت کی گرم بازاری، جان کا لین دین، سر کی خریداری، دنیا کی بے ثباتی، دولت کی ناپائداری، حکومت کا ساز و سامان، خواب پریشان، جیتے جی قصہ بکھیڑا، ملکی مالی مر گئے، تو ہاتھ خالی مشہور ہے کہ دو گز کفن ساتھ جاتا ہے، جب خاتمہ بالخیر ہوتا ہے، یہ نہیں سمجھتے کہ اپنی اختیار میں نہیں، عطیۂ غیر ہوتا ہے، کچھ تو ایسی ایسی سوچ میں تھے، بہت محو سبرو تماشا تھے۔ بچشم غور دیکھنے کے سامان مہیا تھے، دو دریاے فوج موج در موج کیا کیا نہنگ بحر دغا ماہی مراتب کے پاس کھڑا پرزر پھریری مغرق علم اور نشان کھلے ہر طرح کے باجے بجتے، لڑائی پر تلے زیست سے سیر حکم کی دیر سبکو یہ خیال تھا کہ آج دیکھیے کون سا دلیر کس پر ہت پھیر کرتا ہے۔ کون زبردست کس کو زیر کرتا ہے۔ دفعتہً جو علمدار روبروے سلطان نامدار کھڑا تھا، اس نے علم کو جلوہ دیا۔ شہزادۂ صف شکن مثل تہمتن پرے سے نکلا، رزم کو بزم سمجھ کے مرکب پری نزاد کو جھجکا۔ راحد پر پہنچ کے نیزہ گاڑ دیا۔ حریف کو ڈانٹ للکارا، وہی دام مرگ کا اسیر بادل دلگیر دہن نہنگ میں دلتنگ چلا، مقابل ہوتے ہی، وہ تلوار جس پر اعتبار تھا، کھینچی، شاہزادہ نے بھی قبضۂ شمشیر صاعقہ خصال پر یا ذوالجلال کہہ کے ہاتھ ڈالا، باہم تلوار چلنے لگی۔ قضا رک کر اس کی جان پر کف افسوس ملنے لگی۔ دیر تک دھاوا شپاشپ چھپا چھپ رہی۔ اسی چالاکی میں طپنچے کی چوٹ پر شہزادہ کی شمشیر اس شریر کے گلے پر جو چمک گئی، آنکھ خیرہ سر کی جھپک گئی۔ دفعتہً شہزادہ عیار نے کمند کی حلقے میں گردن اس سرکش کی بند کر کے چہا تھا کہ جھٹکا مارے، گھوڑے سے زمین پر اتارے، برق غضب اس کا عیار جلودار تھا۔ ناگاہ نگاہ اس کی پڑ گئی، کہ کمند پیچان گردن میں گڑ گئی۔ اس چمک سے خنجر پکڑ کے حلقے کاٹی کہ گردن تو رہا ہوئی، مگر پیچ میں کمند نہ معلوم ہوئی کہ کیا ہوئی، عیار سنبھلنے نہ پایا تھا کہ شہزادہ قوی بازو نے ڈانٹ کر تلوار ڈالی، مع خنجر کلائی کاٹ دالی۔ حوصلہ اس کا پست ہو گیا۔ پریزاد کا بازو ٹوٹا، وہ بیدست ہو گیا۔ پھر بدستور وہ صور شمشیر زنی کوہ کنی میں مشغول ہوا ۔اس چستی سے وار ہوتے تھے کہ ڈھالوں کے پرزے ہی ہر بار ہوتے تھے۔ القصہ باد خزاں حسام سے ڈھالوں کے پھول جھڑ گئی۔ اور تلوار زخم رسانی سے عاری ہو گئی۔ دندانے پڑ گئے، سپر پاؤں پر گری اور صمصام دانت نکال کر کری، اس وقت سوچے کہ اس کا یہ حال ہوا، نیزہ بازی گرز زنی کا کچھ نہ مآل ہوا۔ یہ


شگوفۂ محبت صفحہ 62

تینوں کام بے سود ہوے، یہ سمجھ کے دونوں دلاور گھوڑوں سے برابر کود کے کُشتی کو موجود ہوئے۔ کمروں میں ہاتھ پڑ گئے۔ زمین میں قدم گڑ گئے۔ مگر وہ دیوتا زندراں یہ گل اندام جوان، اس کا باپ تو بیٹے کا قد و قامت، زور و طاقت دیکھ کے شاد ہوا۔ سلطان قاف بدرگاہ خدا دعا کرنے لگا، سرگرم نالہ و فریاد ہوا۔ ان دونوں کا یہ حال تھا کہ کسی کا تصور نہ خیال تھا۔ مگر شاہزادہ جب پیچ میں باندھتا تھا تو اس کا بند بند باین تنو مند ٹوٹتا تھا، کھولنا محال ہوتا تھا، ہر بار جی چھوٹتا تھا۔ تاوقت زوال ایک سا حال رہا۔ اب پریزاد کا دم پھولنے لگا۔ داؤ پیچ بھولنے لگا، جب زور گھٹنے لگا، دب کے پسپا ہوا، پیچھے ہٹنے لگا۔ شاہزادہ نے دم سنبھلنے نہ دیا، خوب ریلا اس نے اور کھیل کھیلا، جھلا کے لنگر مارا، پاؤں کو زمین میں اتارا کہ دم درست کر لے، جسم کو چست کر لے۔ شہزادہ بھی استاد تھا، ہزارہا پیچ یاد تھا، دفعتہً کمربند میں دونوں ہاتھ ڈال کے باتوں میں ٹال لے الا اللہ کہہ کے ہکہ جو لگایا، وہ کوہ پیکر پرکاہ سے بدتر اکھڑ آیا۔ مہلت نہ دی، پھرتی کی، بے گزند سر سے بلند کر کے بقوت تمامتر اس طرح سے پٹکا کہ صاف دم نکل گیا۔ کہیں نہ اٹکا چاہا تھا کہ پہلو میں قرولی اتار دے یا تلوار کا ہاتھ مار دے۔ مگر خیال جو کیا تو گرتے ہی فنا ہو گیا۔ راہی ملک بقا ہو گیا۔ ہاتھ روک کے پشتِ مرکب پر آیا، جلو دار نے فتح مبارک کا شور مچایا۔ اس کے باپ نے جو دیکھا جواب بیٹا مارا گیا، پیری کا سہارا گیا، تاج کو پٹک نعرہ کیا، جگر چرخ پارہ کیا۔ تخت کو بڑھایا، فوج کو پکارا کہ تم دیکھتے ہو وارث سلطنت جہان سے سدھارا، یہ سن کے افسروں نے باگ اٹھائی، فوج چار سمت سے گھر آئی۔ ادھر سے سلطان قاف بگٹٹ جا پہنچا۔ ہمراہ رکاب چھوٹا بڑا آ پہنچا۔ دونوں دل سوار، پیدل غٹ پٹ ہو گئے۔ باران تیر صاعقہ شمشیر پڑنے گرنے لگا، ہر طرف لوہا برتا تھا۔ بجز آب شمشیر و خنجر زخمی پانی کو ترستا تھا، اولے کی طرح سر سراسر گرنے لگے۔ دریاے خون رن کے کھیت میں موجزن تھا۔ کشتہ ہر ایک بے گور و کفن تھا، دھاوہ کا غل شپاشپ کو شور، جو وار خالی گیا، تو سن سن کا لطف تھا، زخمیوں کے ہار تیروں کے گھاؤ، سوار خدار خون کے سہرے، جوانوں کے چہرے، مرد و نامرد پر دولہا دلہن کا لطف تھا، ہر شخص شناور بحر خون تھا۔ گلنار جیحون تھا، بہتی ڈھانوں پر کچھووں کی ڈھالتے تھے۔ کاسۂ سر حباب بن کر موجۂ خون سے سر نکالتے تھے۔ دھڑا دھڑ میں غوطے کھا کے


شگوفۂ محبت صفحہ 63

ٹکراتے تھے۔ زرہیں دام مرگ ہو گئی تھیں۔ جنجال میں مردے زندوں کو پھنساتے تھے۔ جابجا کُشتوں کے انبار رہ گئے۔ تیروں کی کثرت سے روحیں اڑ گئیں۔ لاشے پر وار رہ گئی۔ ثابت ہوتا تھا کہ ان کا وارث ہے نہ والی ہے۔ مرغ روح مجروح پرواز کر گیا۔ قفس جسم خالی ہے۔ کشتوں کا رنگ نرالا تھا۔ شہزادے کی تلوار کو جو زخم تھا، وہ آلا تھا۔ پیکان تیر شل زبان دہنِ زخم سے یہ تقریر کرتا تھا۔ کہ کس کا منہ ہے۔ جوان بہادروں کے سوالوں کے چنے چبائے، مرنے کی بدنامی سے چھٹ کے زندہ جاوید ہوئے۔ عجیب عجیب معاملے معرکہ میں نظر آتے تھے۔ سوار تو پیدل ایٹرن پڑے تھے، خالی گھوڑے تنگ ہو کے کاوے لگاتے تھے۔ آقا کے لیے ٹاپتے تھے۔ لاش کی تلاش تھی، مگر وہ پہچانی نہ جاتی تھی۔ ایسی ۔۔۔۔ پاش تھی۔ القصہ نوجوان بیٹے کے سر میدان قتل ہونے سے بوڑھا باپ جنگ کی تاب نہ لایا اور فوج نے بھی جی چھوڑ دیا۔ پیٹھ دکھائی، منہ موڑ دیا۔ پاؤں نہ جما، بھاگ نکلی۔ سلطان قاف کے لشکر میں شادیانوں کی نوبت آئی۔ فراریوں نے داد بیداد کی صدا فلک گراں گوش کو سنائی۔ بادشاہ بیتابانہ شاہزادے کے گرد پھرنے لگا۔ زر و جواہر نثار ہو کر زمین پر گرنے لگا۔ جتنے جرار نامدار تھے، دست و بازو کی طاقت پر حیران تھے، فن سپہ گری میں طفل دبستان تھے۔ سبحان اللہ یا صلی علی کا غل تھا۔ کشتوں کے لہو سے پوشاک پر افشاں تھی، نوشاہ کی شان اس نوجوان کے چہرے سے عیاں تھی۔ جس جا لوہا برسا تھا، وہاں زر سرخ اور سفید برساتے بڑی شوکت اور شان سے خیمہ میں داخل ہوئے۔ دل کے مطلب حاصل ہوئے۔ اس لڑائی کا قصہ شہزادہ کی شجاعت کا مذکور پرستان کیا، دور دور پہنچا۔ سب حیران تھے کہ ایسے پری پیکر انسان نے دیو خصال کو سرِ میدان مار لیا۔ کوہ پیکر کو پرکاہ کی صورت خانۂ زین سے اتار لیا۔ فتح کی نذریں گذریں۔ جشن کی تیاری ہوئی۔ رزم سے فرصت پائی۔ بزم کی باری ہوئی۔ ایک ہفتہ اور وہاں مقام رہا۔ دن کو مقتولوں کو دفن کرنا، رات کو گانے اور ناچ کا اہتمام رہا۔ نویں روز بادشاہ مع شاہزادہ عالی جاہ، شہر میں رونق افزا ہوا، جس قدر پرستان میں حسین اور نامی جوان تھے، شہزادہ کے دیکھنے کو سب کا مجمع ہوا۔ اس فقرے پر بیان کا اختتام ہے، داستان تمام ہے کہ اس بادشاہ کی بیٹے کے مرنے سے جی چھوٹا، ملک و مال سے ناامید ہوا۔ غم کا آسمان ٹوٹا، کہیں پاؤں نہ ٹکا۔ زمرد کوہ کی سیدھی راہ لی۔ شاہزادہ بافتح و ظفر پہرا شہر میں داخل ہو کے مقتول کی منگیتر دھوم دھام سے بیاہ لی، پھر اس کو ہمراہ لے کے


شگوفۂ محبت صفحہ 64

وطن کی سمت روانہ ہوا۔ پرستان میں تمام قوم بنی جان میں یہ قصہ فسانہ ہوا، لیکن مشہور ہے کہ ؂

در پش ہرگریہ آخر خندہ ایست

معرکۂ رزم کے بعد بزم کی صحبت ضرور ہے۔ مؤلف کا لقب سرور ہے۔ اگر فلک کے ہاتھ سے فرصت پاتا ہوں تو قریب ان شاء اللہ تعالی سناتا ہوں۔ کہانی تمام ہوئی۔ جھوٹ کو سچ کر کے دکھا دے، یہی اس کا مزا ہوتا ہے۔ ورنہ قصے میں بکھیڑا ہے اور کیا ہوتا ہے۔ القصہ اعجاز شاہ کرامت کی راہ سے یہ کہانی سُنا چکے اور سمن رخ کے ہوش حواس برجا آ چکے۔ صحت ہوئی۔ مزاج درست ہوا۔ سب باتوں کا بند و بست ہوا ہوا۔ خواہوں نے مبارک سلامت کا غوغا مچایا۔ مطلب دل کا بڑ آیا۔ آذر شاہ گوش برآواز تھا۔ اس کو اعتقاد کامل حاصل ہوا۔ کہ سب شاہ صاحب کا اعجاز تھا۔ جواہر گراں بہا تحائف جا بجا کشتیوں میں چنا۔ شاہ صاحب کے روبرو دست بستہ لایا۔ تاکر دنیا نے دست رو سینۂ قبول پر رکھ کے فرمایا، بابا مدتوں خواہش زر میں دربدر خاک چھانی، مرشد کی نصیحت نہ مانی۔ دن رات خرابیاں سامنے آئیں، دوڑ دوڑ کر ٹھوکریں کھائیں۔ کون سا رنج تھا جو اس کی تلاش میں نہ اٹھایا۔ مگر یہ ظالم کسی طرح ہاتھ نہ آیا۔ جس دن سے اس کو ذلیل و خوار جانا، سراسر پیکار جانا۔ یہ ڈھونڈھ ے پاس آتا ہے۔ فقیر منہ پھراتا ہے۔ اب معبود کے نام چھٹ سب چیز کا لینا حرام ہے۔ یہ بوجھ اٹھانا اہل دنیا کا کام ہے۔ جب یہ پاس آتا ہے، دونوں جہاں کو بُھلاتا ہے۔ اسی کے نشۂ میں آدمی گونگے بہرے ہوتے ہیں۔ اسی کی نگہبانی کو درکار چور پہرے ہوتے ہیں۔ اس کا دوست خدا کا دشمن ہے۔ دین ایمان کا یہی رہزن ہے۔ جب شاہ صاحب نے اس درجہ انکار فرمایا، بادشاہ کا دونا اعتقاد بڑھا، بمنت یہ کلمہ لب پر لایا کہ وضع حمل تک آپ بہرکیف رونق افزا رہیں۔ دست شفقت اس کے سر پر پھیرنا ضرور ہے کہ حضور کی توجہ سے اس کا ظہور ہے۔ گود میں لے کے عمر طبعی کی خالق سے دعا کیجیے۔ بند تفکر سے ہم کو رہا کیجیے۔ بجبر شاہ جی نے یہ امر منظور کیا۔ بادشاہ کو مسرور کیا۔ کچھ دن نہ گزرے تھے کہ قابلہ نے عرض کی قبلۂ عالم مبارک قریب ثمر زندگانی زیب کنار ہوتا ہے۔ شاہزادی کو درد بے اختیار ہوتا ہے۔ شاہ صاحب نے فوراً کوری چینی منگا کے لکھی۔ گڑ پڑھ کر دیا کہ اس کو کھلا کے اس کو سر پر رکھا۔ داتا مشکل آسان کرے گا۔ سرور کا سامان کرے گا۔ بادشاہ نے وزیر اعظم سے ارشاد کیا، شہر کو آراشتہ کرو، منادی فوراً ندا کرے کہ خوشی خلق خدا کرے



شگوفۂ محبت صفحہ 65

در دولت پر جشن عام ہو گا۔ چھوٹا بڑا اس شہر کا حسب لیاقت مورد انعامہو گا۔ درِ خزانہ کھلا، فقیر غریب محتاج لینے لگے۔ دعانیں دینےلگے۔ پنڈت رمال منجم جفردان جو جو شہر میں کامل تھے، حاضر ہو کے وقت ساعتِ نحس و سعد دیکھنے لگے۔ غرضیکہ شرف آفتاب مشتری کی ساعت میں وہ قمر طلعت برج حمل سے نکلا، مبارک سلامت کی صدا زمین آسمان سے پیدا ہوئی۔ محل کی رنڈیوں کا مجمع ہوا۔ جس نے دیکھا،ہزار جان سے شیدا ہوئے۔ حضور شاہ میں نذریں گزرنے لگیں۔ طبل اسکندری پر چوب پڑی، شلک کی توپ پر بتی دی۔ شہر کی خلقت مطلع ہوئی۔ شور و غل بڑے ہلڑ کا ہوا کہ بادشاہ کے گھر میں لڑکا ہوا۔ ہیچڑے زنانی بھانڈ چونے والیاں درِ دولت پر حاضر ہوئیں۔ گانا ناچ ہونے لگا۔ سب انعام شاہی سے مالا مال ہوئے۔ شاخ امید ہر ایک کی گل و ثمر لائی۔ نہال ہوئی۔ ہزارہا گناہگار قید سے رہا ہوا۔ غنی محتاج و گدا ہوا۔ مسجد خانقاہ مہمان سرا کی تعمیریں ہوئیں۔ مشائخوں کے روزینے مقرر ہوئے۔ ملانوں کی جاگیریں ہوئیں، برہمنوں کے سالیانے ٹھہرے۔ پنڈتوں کی توقیریں ہوئیں، حکم اقدس ہوا، لولے لنگڑے ، اندھے، ضعیف جو ہوں، زر نقد ان کو ماہ بماہ دو۔ غریب غربا کی لڑکیاں بیاہ دو، شکستہ مسجدیں، ٹوٹے مقبرے جتنے تھے، از سر نو سب کی تیاری ہوئی۔ مسافر خانے اور مہمان سرائیں خیرات جاری ہوئی۔ کئی سال صیاد جانوروں کو تہ دام نہ لا سکے۔ چڑیا کو نہ پھنسا سکے۔ دو دو کوس کے فاصلے پر پختہ کنوئیں سرِ راہ بنے۔ مکانات شاہی جو گر گئے تھے، وہ بھی خاطر خواہ بنے۔ کئی کوس کے عرض اور طول کا باغ بنا۔ اس میں مکانات مرتفع عالی، شہزادی کی بود باش کو درست ہوئی۔ کاریگر مقرر، چالاک و چست ہوئے۔ دو رویہ شہر میں ٹھاٹھر گڑ گئی۔ تیل کی ریل پیل سے بندھن سڑ گئے۔ روشنی کو لاکھوں مزدور آیا۔ شبِ دیجور کو شہر سے بھگایا۔ ہر محلے میں تنور گڑے، کڑہاو چڑھے، کھانا اور مٹھائی ہندو مسلمان کے واسطے کہ کوئی اپنے اپنے گھر میں ہنڈیا نہ چڑھاے، پکا پکایا سرکار کی طرف سے پاے۔ چالیس دن یہ کیفیت رہی۔ چھٹی چلے کی رسم ہو گئی۔ وہ گوہر گرانمایہ آغوش دایہ میں پرورش پاتا تھا۔ ہر روز نمو کی بہار دکھاتا تھا۔ موافق معمول دودھ بڑھا، کھیر چٹائی، کھانے پینے کی نوبت آئی، جو دن گزرا، وہ مہینا تھا، ہر ماہ سال ہوا، نو دس برس میں بدر کامل وہ ہلال ہوا۔ بسم اللہ ہوئی۔ معلم ادیب خوشنویس پڑھانے لکھانے لگے۔



شگوفۂ محبت صفحہ 66

سن تمیز میں گھوڑے پر چڑھا، تیر اندازی کی۔ لکڑی پھینکی، برچھا ہلانا سکھانے لگے۔ القصہ علم و فضل، کسب و ہنر میں کمال ہوا۔ خُلق و مروت، جود و سخا میں بیمثال ہوا، جرأت میں رستم کا یادگار، طاقت میں اسفند یار، جس دم سیر تماشے کو سوار ہوتا تھا، تمام شہر چال ڈھال پر نثار ہوتا تھا۔ شاہزادہ تو ماں باپ کے سایہ عاطفت میں پرورش پا کے زندگی کا لطف اٹھاتا ہے۔ محرر خاموش ہو کے دُکان بڑھاتا ہے۔ اگر زیست باقی رہی اور کسی شائق نے خواہش کی تو اس کی جوانی کا زور شور، طبیعت کا لگاؤ، محبت، بگاڑ بناؤ، صفحۂ قرطاس پر قلمبند ہو گا۔ نوجوانوں کو سخن فہم قدر دانوں کو پسند ہو گا۔ ورجہ اللہ بس ہے، باقی ہوس ہے۔ اس واسطے کہ جینے پر مدار ہے۔ غور کیجیے تو وہ مستعار ہے۔ اس کا کیا اعتبار ہے۔ دیکھو تو ایسی زیست پر کس کس طرح سے لوگ مرتے ہیں۔ ٹیڑھے تار کی ٹوپی اگر بھولے سے سیدھی ہوئی تو کج کر کے سر پر دھرتے ہیں۔ باہم ہر دم کج مریز ہے، دوسرے کے قتل پر خنجر تیز ہے۔ یہ نہیں سمجھتے مالک اور ہے۔ جس دم وہ اپنی طاقت دکھاتا ہے، بگاڑ کر بناتا ہے۔ آگاہ بادشاہ اور فقیر ہے، کہ یہ قول جناب امیر ہے عرفتُ ربی بفسخِ الغرائم، اس پر خباثت نفس سے نہیں چوکتے ہیں۔ ایک ساعت کی سیر کو دوسری کا گھر پھونکتے ہیں۔ ایسی بے بنیادی پر نائیں مستحکم بنانا مآل کے حرص میں مآل بھول جانا اگر قدرے مقدور ہوا، فوراً دماغ میں فتور ہوا۔ غفلت کا پردہ آنکھوں کے آگے پڑ گیا۔ کسی کو پہچانتے نہیں اور تو اور ہے، مقام غور ہے۔ اپنی حقیقت آپ جانتے نہیں۔ اس زمانے میں اگر کوئی کسی کو خاک سے پاک کرے، عوض یہ ملے کہ جب اس کا قابو چلے، اس کو تہِ خاک کرے۔ زندگی سی شے دنیا میں کھو کے کوچہ گرد مشہور ہو کے کیا کیا نہ ملا، کہاں کہاں کی خاک چھانی، کسی کی بات نہ مانی۔ اس پر آشنا نہ ملا، ظاہر میں قبلہ آئیے، کفش خانے میں قدم رنجہ فرمائیے، مقدمہ سب زبانی پایا، باطن میں دشمن جانی پایا۔ پہلے تو کیا کیا گرمجوشی دیکھی، سرِ دست سرفروشی دیکھی۔ خدانخواستہ نشیب و فراز زمانے سے حیلے میں کسی بہانے سے کچھ کڑی پڑ گئی۔ کل پرسوں کی نہیں برسوں کی بنی بنائی بات بگڑ گئی۔ بقسم کہتا ہوں جو فروش گندم نما بہت ہیں۔ بندہ کے زعم میں دوست کم دشمن خدا بہت ہیں۔ اس عصر میں نمکحرامی نے ایسا رواج پایا ہے۔ یاروں کی زبان پر اس کا ذائقہ آیا ہے کہ گو سلطنت بگڑ جاے، بسا بسایا شہر اجڑ جائے



شگوفۂ محبت صفحہ 67

زرد رو نہیں۔ مُنہ کالا ہوا، ایک کا نہیں جہاں کا سُسرا سالا ہوا۔ سپر بھی جس ادھیڑ بن میں ہو، وہی کام کرے۔ نطفہ حرامی سے نہ چوکے، کنبے کو بدنام کرے، عالم اللہ کا مبتلا روز سیاہ کا ظلم و جور دیکھ کے نئے نئے طور دیکھ کے بریز بریز کرے، وہ عدوے خدا قاتل آل مصطفےٰ ﷺ سلی نہ پائے تو گھر کی سل اٹھا لائے۔ نسلاً بعد نسل جو خنجر چلا آیا ہے، اس کو تیز کرے۔ اس مثل کو سارا جہان جانتا ہے۔ بوڑھا لڑکا نوجوان جانتا ہے کہ جو جیسا کرتا ہے ویسا پاتا ہے۔ پانی میں جس نے ہگا، اس کے مُنہ پر آتا ہے، لیکن شیطان نے فلاں کے ساتھ عقل بھی ماری ہے۔ گلی گلی ہر کوچے میں ذلتِ و خواری ہے۔ ؂

سکتا نہیں ہوتا اسے حیرت نہیں آتی
چکنا جو گھڑا ہے کبھی غیرت نہیں آتی

جزشتی اعمال سے دنیا میں بدنام ہوا۔ مردود و موردِ لعن خاص و عام ہوا۔ احیاناً کسی اور نے کچھ بگاڑا، مگر اسی کا نام پکارا جاے۔ کوئی پادی بھٹیاری کا لونڈا مارا جائے۔ انسان کو لازم ہے کہ کون و فساد میں زیست برباد نہ کرے۔ دوست کو اپنے حال پر نہ رولاے۔ دشمن کو شاد نہ کرے۔ کاش بین بین میں بسر ہو تو بھی چین میں بسر ہو۔ سوچے تو دارا اور سکندر کیا ہوے، کاؤس و کیقباد نہیں۔ نام ان کا کسی کو یاد نہیں۔ خسرو کے گنج کدھر گئے۔ جام کیسا جم نہیں، یہ سب راہی ہوے، کچھ دنوں کے بعد ہم نہیں، دنیا سراے فنا ہے۔ ایک شب رات کا بسیرا ہے۔ بیکار خیمہ سراسر بار ڈیرا ہے۔ جس نے اس محیط بے کنار میں غوطہ لگایا، ترا نہیں اور جس نے اس وادیِ پُر خار میں قدم رکھا، پھر انہیں حُب دنیا میں ہزار طرح کا خوف و خطر ہے۔ اس مرحلے میں جان کیسی، دین و ایمان کا ضرر ہے۔ اندھوں کہ بار سو بہتر سن ہجری 1272 اور مہینہ شعبان کا ہے۔ مجمع پریشانیوںکے سامان کا ہے۔ یعنی سریر آراے اریکۂ سلطنت حامل رنج و سفر، غربت بعزم لندن ہے۔ شہر میں چھوٹا بڑا مبتلائے مصیبت تختہ مشق جور و محن ہے۔ اس گلزار ہمیشہ بہار میں بہمن ددی کا سامان ہے۔ ایسا آباد ملک سنسان سراسر ویران ہے۔ دیکھنے والوں کا دل و جگر خون ہوتا ہے۔ وحشت برستی ہے۔ جنون ہوتا ہے۔ جناب مولوی محمد یعقوب صاحب کی توجہ سے یہ قصہ یوسف جمال بحسن کو خوبی کمال جاہ و غفلت سے بے اعانت ولو و رسن بصد جوبن نکل کے یا تو چھپا تھا اب چھپا، جب یہ زیر و زبر ہوا۔ تب مدنظر ہوا۔ سبکو عزیز ہوا۔ عجب چیز ہوا۔ لہذا برادران


شگوفۂ محبت صفحہ 68

ہم فن گرگ باراں، دیدہ رونق انجمن جو جو ہیں، ان سے یہ سوال ہے کہ مصنف کی مشقت اور مولوی صاحب کی محنت غور کر کے بنظر اصلاح ملاحظہ ہو، تو عین عنایت احسان کمال ہے۔ جس جگہ سہو یا غلطی مقتضاے بشری سے پائیں، بے تکلف اس کو بگاڑ کے بنائیں اور جہاں سے کچھ مزا ملے، کچھ لطف اٹھے، فقرے چُست خاطر خواہ ہوں، تو دعائے خیر سے یاد دونوں پُر گناہ ہوں۔ اس قصے کا کہنے والا لکھنؤ کا رہنے والا ناظم نہیں، نثار نہیں، گو ٹکسال باہر نہیں، مگر اس فن سے ماہر نہیں۔ کامل العیار نہیں، لیکن جناب مولوی محمد یعقوب صاحب وحید عصر جوانِ صالح گوشتہ نشین مرد قانع عزلت گزیں اکل حلال پر ان کی ہمت مصرف بخدا یہ بندہ بہمہ صفت موصوف ہے۔ اسم ایسا فعل ایسے شگرف کرتے ہیں، اسی نحو سے اوقات صرف کرتے ہیں۔ بسکہ فقیر کے حال پر نظر عنایت بمرتبۂ کمال ہے۔ رطب دیابس جو کچھ کہا ہے اس کے چھاپنے کا خیال ہے۔ یہ اوراق پریشان جو پسند آئے، باہتمام تمام چھپوائے۔
فقط۔
تمت
خاطمہ الطبع

الحمد للہ کہ کتاب لاجواب مقبول ہر ذی شعور مسمیٰ شگوفۂ محبت مصنفہ رجب علی بیگ سرور
باہتمام ابو الحسنات قطب الدین احمد قریشی بار چہارم ماہ ذی الحجہ 1319ھ مطابق مارچ 1902ء در مطبع نامی لکھنؤ حلۂ طبع در برکشید۔
 
فسانہ عجائب کا حصہ دوم یعنی شگوفہ محبت انتہائی نادر کتاب ہے اور چند ہی کتب خانوں میں ملتی ہے۔ اردو محفل اور شمشاد بھائی کی توسط سے پہلی مرتبہ آن لائن شائع ہوئی وہ بھی یونی کوڈ میں۔ :)
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
شمشاد بھائی کی حیرت انگیز رفتار اب کرامت کی حدوں کو چھو رہی ہے۔ اللہ انھیں اس کا شایان شان بدلہ عنایت فرمائے۔ :)
بھیا آپ بھی ماشاء اللّہ کمال کرتے ہیں بہت ساری دعائیں آپ کے لئیے۔:in-love::in-love:
فسانہ عجائب کا حصہ دوم یعنی شگوفہ محبت انتہائی نایاب کتاب ہے اور چند ہی کتب خانوں میں ملتی ہے۔ اردو محفل اور شمشاد بھائی کی توسط سے پہلی مرتبہ آن لائن شائع ہوئی وہ بھی یونی کوڈ میں۔ :)
ذرہ نوازی ہے شعیب بھائی آپ کی اور سیما آپی آپ کی بھی۔
 
Top