طارق شاہ
محفلین

غزل
وفا بیگانۂ رسمِ بیاں ہے
خموشی اہلِ دِل کی داستاں ہے
مِرا دِل ہے کسی کی یاد کا نام
محبّت میری ہستی کا نِشاں ہے
تماشا چاہیے تابِ نظر دے
نگاہِ شوق ہےاور رائیگاں ہے
مُسلّم پُرسِشِ بیمار، لیکن !
وہ شانِ چارہ فرمائی کہاں ہے
تِرا نقشِ قدم ہے ذرّہ ذرّہ
زمِیں کہتے ہیں جس کو، آسماں ہے
بچے گی دِل کی پامالی کہاں تک
تجلّی کارواں در کارواں ہے
مجھی پر ہیں جفائیں چشمِ بد دُور
خُدا رکھّے، وہ مجھ پر مہرباں ہے
پِھر اب منظُور ہے ہنگامۂ برق
پِھر اب قصدِ بنائے آشیاں ہے
وہ دِل کی آڑ میں رہتے ہیں فانؔی
تمنّا میرے اُن کے درمیاں ہے
فانؔی بدایونی
(شوکت علی خاں)