شوکت عزیز اب لکشمی متل کا ملازم!

شمشاد

لائبریرین
اگر پوری قوم ان کے اور اس قبیل کے تمام افراد کے نقش قدم پر چل پڑی تو پاکستان میں کون رہے گا؟
 

شمشاد

لائبریرین
پانی تو سارا انڈیا نے روک لیا، اب کیا نم ہونا۔ اب تو ہمارے آنسو ہی ہیں جو اس کو نم کر سکیں۔
 

ظفری

لائبریرین
آنسو تو نمکین ہوتے ہیں ۔ اس سے تو زمین میں سیم اور تھور پیدا ہونے جانے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا ۔ :)
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

یہ خبر اسلحاظ سے بھی اہم ہے کہ جب افغانستان کے صدر حامد کرزئی ، صدر بش کی ہالی برٹن کمپنی میں ملازمت کے بعد ’’صدر‘‘ جیسے عہدہ پر فائز ہو سکتے ہیں تو پاکستان کا وزیر اعظم اپنی سیاسی ملازمت مکمل کر لینے کے بعد کسی دوسری پرائیویٹ کمپنی میں ملازم کیونکر نہیں‌بن سکتا؟

يہ دعوی کہ افغان صدر حامد کرزئ کسی امريکی تيل کی کمپنی سے منسلک رہے ہيں محض ايک بے بنياد تھيوری ہے۔ اس تھيوری کی بنياد ايک پرانی خبر ہے جو کہ غلط ثابت ہو چکی ہے۔

دسمبر 2 2001 کو ايک فرانسيسی اخبار لی مونڈ نے ايک اداريے ميں يہ دعوی کيا تھا کہ حامد کرزئ ايک امريکی کمپنی يونوکال کے ساتھ ايک کنسلٹنٹ کی حيثيت سے منسلک رہے ہيں۔ ليکن اخبار نے اس دعوے کا کوئ ثبوت پيش نہيں کيا۔ يہی آرٹيکل بعد ميں بہت سے ويب سائٹس پر پوسٹ کيا گيا اور بہت سے ديگر اخبارات نے بھی اس فرانسيسی اخبار ميں شائع ہونے والے اداريے کا حوالہ استعمال کيا۔ ليکن بعد ميں جب اس خبر کی تحقيقق کی گئ تو يہ بے بنياد ثابت ہوئ۔ حامد کرزئ نے نہ ہی يونوکال نامی کمپنی ميں کبھی ملازمت کی اور نہ ہی کبھی کنسلٹنٹ کی حيثيت سے اس کمپنی کے ليے خدمات انجام ديں۔

جولائ 9 2002 کو يونوکال کمپنی کے ترجمان بيری لين نے اپنے ايک انٹرويو ميں فرانسيسی اخبار کے دعوے کو نہ صرف يکسر مسترد کر ديا بلکہ اخبار کو چيلنج بھی کيا کہ وہ اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے ليے ثبوت پيش کريں۔ ليکن يونوکال کے کھلے چيلنج کے بعد فرانسيسی اخبار سميت کوئ بھی نشرياتی ادارہ اس دعوے کو ثابت نہ کر سکا جس کے بعد يہ اقواہ اپنے آپ دم توڑ گئ۔

يونوکال کے ترجمان بيری لين کا مکمل انٹرويو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔


http://emperors-clothes.com/interviews/lane.htm

مسٹر بيری لين کے انٹرويو سے يہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ يونوکال 90 کی دہاہی ميں افغانستان ميں تيل کی پائپ لائن کے حوالے سے ايک منصوبے ميں دلچسپی رکھتی تھی ليکن يہ منصوبہ 1998 ميں منسوخ کر ديا گيا تھا۔ يہ واقعہ 11 ستمبر 2001 سے تين سال پہلے کا ہے۔

اگر ماضی کے تعلقات کی بنا پر مستقبل کی سازشوں کے آپ کے کليے کو درست مان ليا جائے تو پھر يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ حامد کرزئ 80 اور 90 کی دہاہی ميں پاکستان ميں قيام پذير رہے اور اس دوران ان کے بہت سے حکومتی اہلکاروں کے ساتھ بڑے قريبی تعلقات رہے ہيں۔ تو کيا حامد کرزئ کو افغانستان ميں پاکستان کا ايجنٹ قرار دينا چاہيے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

جب افغانستان کے صدر حامد کرزئی ، صدر بش کی ہالی برٹن کمپنی میں ملازمت کے بعد ’’صدر‘‘ جیسے عہدہ پر فائز ہو سکتے ہیں

صدر بش سياسی زندگی کے دوران تيل کی کسی کمپنی کے مالک نہيں رہے۔ دوسری اور سب سے اہم بات يہ ہے کہ امريکہ ميں قوانين کے مطابق امريکی صدر، نائب صدر يا کسی بھی سينير عہدے پر فائز کوئ بھی شخص اپنی ذاتی حيثيت ميں کسی بھی نجی کاروبار ميں فيصلہ کرنے کا مجاز نہيں ہوتا۔ ہر حکومتی عہديدار قانونی طور پر اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ کسی بھی ايسے حکومتی معاملے سے ہر ممکن دور رہے جس کے ذريعے اسے ذاتی طور پر يا اس کے خاندان کے کسی فرد کو معاشی فائدہ ملنے کا امکان ہو۔ اور اس ضمن ميں امريکی صدر سميت تمام عہدے داروں کو اپنے کمپنی شيرز اور کاروباری فيصلے کے اختيارات ايک "بلائنڈ ٹرسٹ" کے حوالے کرنے پڑتے ہیں۔ ان قوانين کا مقصد ہی يہ ہے کہ کوئ بھی شخص اپنے اختيارات کا ناجائز استعمال کر کے ايسے فيصلے نہ کر سکے جس کے ذريعے وہ ذاتی حيثيت ميں ممکنہ کاروباری فوائد حاصل کر سکے۔

http://www.usoge.gov/training/training_materials/booklets/bkQualTrust_07.pdf

امريکہ کی فيڈرل گورنمنٹ کی ايک شاخ سے منسلک ايک ايجنسی جو يونائيٹڈ اسٹيٹس آف گورنمنٹ ايتھکس کے نام سے جانی جاتی ہے اپنی پاليسيوں کے ذريعے اس بات کو يقينی بناتی ہے کہ حکومت کے تمام اہلکار اور ملازمين اپنے کسی عمل سے ذاتی فوائد حاصل نہ کر سکيں۔ اس ضمن ميں اس ايجنسی کے اہم کاموں ميں ايسے قوائد اور ضوابط بھی تشکيل دينا ہيں جن کے تحت امريکی حکومت کا ہر فرد اس بنيادی فريم ورک کے اندر کام کرتا ہے جس کے تحت نہ صرف تمام اثاثے ايک منظم سسٹم کے تحت جانچ پڑتال کے مراحل سے گزارے جاتے ہیں بلکہ ايسی پابندياں بھی لگائ جاتی ہيں جو ہر شخص کو ذاتی مفادات سے متعلقہ معاملات سے دور رکھتی ہيں۔

http://www.usoge.gov

وہ تمام معاملات جو اس زمرے ميں آتے ہیں، اس کی تفصيل آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

http://www.usoge.gov/common_ethics_issues/conflict_financial.aspx

ايک حکومتی عہديدار کن ضوابط کے تحت اس بات کو يقينی بنانے کا پابند ہے کہ اس کے عہدے سے اسے کوئ معاشی فائدہ حاصل نہ ہو – اس کی تفصيل آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

http://www.usoge.gov/common_ethics_issues/remedies.aspx

آپ ان قوانين کی تفصيل اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

http://www.usoge.gov/laws_regs/regulations/5cfr2635.aspx

جہاں تک صدر بش کا سوال ہے تو ان کے تمام اثاثے سال 2001 ميں ان کی حلف برداری کی تقريب سے کچھ عرصہ قبل نارتھرن ٹرسٹ نامی ايک بلائنڈ ٹرسٹ کے حوالے کر ديے گئے تھے۔ يہ ايک حقي‍قت ہے کہ امریکہ کے صدر کی حيثيت سے انھيں اس بات کا کوئ علم نہيں تھا کہ ان کے اثاثے کتنے ہيں اور ان کی ماليت کتنی ہے۔

کسی بھی امريکی صدر کی طرح صدر بش بھی اس قانون کے پابند تھے جس کے تحت ہر سال انھيں اپنی مالی حيثيت واضح کرنی ہوتی ہے۔ صدر بش اور نائب صدر ڈک چينی کی مالی حيثيت کی جو تفصيلات سال 2006 ميں پيش کی گئ تھيں، وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

http://cbs5.com/business/President.Bush.Dick.2.267762.html


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top