شمشاد نہیں کرنا

رشید حسرت

محفلین
گو پنکھ نہیں پِھر بھی آزاد نہِیں کرنا
نا شاد رکھو مُجھ کو تُم شاد نہِیں کرنا

قد کاٹھ اگر دو گے، سمجُھوں گا تُمہیں بونا
بونا ہی رکھو مُجھ کو شمشاد نہیں کرنا

تُم عام سی لڑکی ہو، میں عام سا لڑکا ہوں
شِیرِیںؔ نہ سمجھ بیٹھو، فرہادؔ نہِیں کرنا

ایسے نہ اُجڑ جانا دیکھو تو کہّیں تُم بھی
بستی ہی کوئی دِل کی آباد نہِیں کرنا

جو ذہن کے ریشوں میں رچ بس کے رہا اس سے
کیسے یہ کرُوں وعدہ اب یاد نہِیں کرنا

اِس شہر کے حاکِم نے یہ حُکم کیا جاری
کُچھ بھی ہو کوئی ہرگز فریاد نہِیں کرنا

بس ایک انا پائی، گھر اپنا لُٹا بیٹھے
اے بیٹِیو! اے بیٹو! اضداد نہِیں کرنا

تہذِیب بتا دے گی، تُم کتنے مُہذّب ہو
ظاہر ہی کسی پر تُم اسناد نہِیں کرنا

کُچھ وقت کبھی ہم نے اِک ساتھ گُزارا ہے
اب جور و جفا حسرتؔ، بے داد نہِیں کرنا

رشِید حسرتؔ
 
Top