شمالی کوریا کی بات چیت کے لیے مشروط رضامندی

130418052554_north_korea_304x171_s_nocredit.jpg


شمالی کوریا نے بات چيت کے لیے نئی شرائط رکھی ہیں




شمالی کوریا نے کہا کہ اگر ان پر اقوامِ متحدہ کی طرف سے عائد پابندیاں ختم کی جائیں اور امریکہ اور جنوبی کوریا مشترکہ فوجی مشقیں بند کرے تو وہ بات چیت کے لیے تیار ہے۔

مذاکرات کے لیے یہ شرائط شمالی کوریا کے قومی سلامتی کونسل کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہی گئیں ہیں۔

یہ بیان ملک کے سرکاری خبر رساں ادارے کے سی این اے کے ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ نے شمالی کوریا پر فروری میں تیسرا نیوکلیئر دھماکہ کرنے کے بعد پابندیاں عائد کی تھیں جبکہ امریکہ اور جنوبی کوریا نے مشترکہ جنگی مشقیں مارچ میں شروع کی تھیں۔
شمالی کوریا کے ڈیفینس کمیشن کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ اور جنوبی کوریا حقیقی طور پر بات چيت کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں اقوام متحدہ کی اس قرار داد کو ختم کرنا ہوگا جو فرسودہ بنیاد پر منظور کی گئی تھی۔


بیان کے مطابق ’دوسری شرط یہ ہے کہ دنیا کو یہ بتائیں کہ آئندہ سے آپ جوہری جنگ کے لیے مشقیں نہیں کریں گے جو ہماری قوم کے لیے خطرہ ہے۔ بات چيت اور جنگ کا کھیل ایک ساتھ کبھی نہیں چل سکتے۔‘
شمالی کوریا نے جب زیرِ زمین تیسرا جوہری تجربہ کیا ہے تبھی اقوام متحدہ کی جانب سے اس پر پابندیاں عائد کی گئیں اور تب سے خطے میں حالات کشیدہ ہیں۔
حالیہ دنوں میں شمالی کوریا نے جنوبی کوریا، جاپان اور علاقے میں امریکی تنصیاب اور مفادات پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دی تھیں۔
اسی تناظر میں جنوبی کوریا کی صدر پارک جیون ہے نے شمالی کوریا کو بات چیت کرنے کی دعوت دی تھی لیکن شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی اس طرح کی پیشکش دراصل ایک چال ہے۔
امریکہ نے بھی شمالی کوریا سے بات چيت کرنے کو کہا ہے لیکن امریکہ کی شرط یہ ہے کہ پہلے شمالی کوریا جوہری ہتھیاروں سے پاک ہونے کے معاہدے پر عمل کرے۔
ادھر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان گی مون نے بھی شمالی کوریا سے جنوبی کوریا کے ساتھ بات چیت پر سنجیدگي سے غور کرنے کو کہا ہے۔
ان کا کہنا تھا '’مجھے یقین ہے کہ جنوبی کوریا نے حال ہی میں جو بات چيت کی پیشکش کی ہے وہ حقیقی ہے اور شمالی کوریا کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔‘

بہ شکریہ بی بی سی اردو
 
Top