شعلے ہی بتیوں میں مقدّر تھے موم کے - منیب الفؔ

منیب الف

محفلین
شعلے ہی بتیوں میں مقدّر تھے موم کے
شب بوند بوند ٹپکے جو گوہر تھے موم کے

جب تک نگاہ سامنے رکھی تھے آفتاب
دیکھا جو ایک بار پلٹ کر تھے موم کے

آتش سے کھیلنے کا تھا شوقین بادشاہ
حالانکہ سلطنت میں سبھی گھر تھے موم کے

سورج تھا سر پہ، دل میں بلندی کی تھی ہوس
ہوش آیا گرتے وقت مرے پر تھے موم کے

اپنی ہی آرزو کی تپش سے پگھل گئے
ہم لوگ بھی الفؔ کوئی پیکر تھے موم کے​
 

محمداحمد

لائبریرین
آتش سے کھیلنے کا تھا شوقین بادشاہ
حالانکہ سلطنت میں سبھی گھر تھے موم کے

سورج تھا سر پہ، دل میں بلندی کی تھی ہوس
ہوش آیا گرتے وقت مرے پر تھے موم کے

اپنی ہی آرزو کی تپش سے پگھل گئے
ہم لوگ بھی الفؔ کوئی پیکر تھے موم کے

واہ واہ واہ!

خوبصورت اشعار!

بہت سی داد حاضر خدمت ہے۔
 
شعلے ہی بتیوں میں مقدّر تھے موم کے
شب بوند بوند ٹپکے جو گوہر تھے موم کے

جب تک نگاہ سامنے رکھی تھے آفتاب
دیکھا جو ایک بار پلٹ کر تھے موم کے

آتش سے کھیلنے کا تھا شوقین بادشاہ
حالانکہ سلطنت میں سبھی گھر تھے موم کے

سورج تھا سر پہ، دل میں بلندی کی تھی ہوس
ہوش آیا گرتے وقت مرے پر تھے موم کے

اپنی ہی آرزو کی تپش سے پگھل گئے
ہم لوگ بھی الفؔ کوئی پیکر تھے موم کے

کیا کہنے منیب بھائی۔
یہ کیسے نظر سے رہ گئی؟ :)
 

احمد وصال

محفلین
شعلے ہی بتیوں میں مقدّر تھے موم کے
شب بوند بوند ٹپکے جو گوہر تھے موم کے

جب تک نگاہ سامنے رکھی تھے آفتاب
دیکھا جو ایک بار پلٹ کر تھے موم کے

آتش سے کھیلنے کا تھا شوقین بادشاہ
حالانکہ سلطنت میں سبھی گھر تھے موم کے

سورج تھا سر پہ، دل میں بلندی کی تھی ہوس
ہوش آیا گرتے وقت مرے پر تھے موم کے

اپنی ہی آرزو کی تپش سے پگھل گئے
ہم لوگ بھی الفؔ کوئی پیکر تھے موم کے​
۔۔
وااااااااہ بہت عمدہ
داد قبول۔فرمائیں
 
Top