شعر کہنے نہیں آتے ہیں مگر پھر بھی حسیب

غزل

زخم دل سر نہاں روح کی گہرائی میں
کھول دیتے ہیں ہر اک راز کو تنہائ میں

انکو عزت کی تمنا ہے دکھاوے کیلئے
ہم معزز ہیں ہمیں فخر ہے رسوائی میں

ہم ستم جھیلتے رہتے ہیں محبت کے حضور
لطف آتا ہے اسے بھی ستم آرائی میں

ان کو منظر کی حقیقت نظر آتی ہی نہیں
نقص آنکھوں میں نہیں نقص ہے بینائی میں

مرض عشق میں اچھا نہیں ہوتا ہے مریض
ورنہ کچھ کم نہ معالج تھے مسیحائی میں

کتنے ناداں تھے جو داناؤں کے چکر میں رہے
کتنے چکر تھے نئے دور کی دانائی میں

شعر کہنے نہیں آتے ہیں مگر پھر بھی حسیب
شعر کہتے ہو یونہی قافیہ پیمائی میں

حسیب احمد حسیب​
 
Top