جگر شعر و نغمہ، رنگ و نکہت، جام و صہبا ہو گیا

عاطف ملک

محفلین
شعر و نغمہ، رنگ و نکہت، جام و صہبا ہو گیا
زندگی سے حسن نکلا اور رسوا ہو گیا

اور بھی، آج اور بھی ہر زخم گہرا ہو گیا
بس کر اے چشمِ پشیماں، کام اپنا ہو گیا

اس کو کیا کیجے، زبانِ شوق کو چپ لگ گئی
جب یہ دل شائستہِ عرضِ تمنا ہو گیا

اپنی اپنی وسعتِ فکر و یقیں کی بات ہے
جس نے جو عالم بنا ڈالا وہ اس کا ہو گیا

ہم نے سینے سے لگایا، دل نہ اپنا بن سکا
مسکرا کر تم نے دیکھا، دل تمہارا ہو گیا

میں نے جس بت پر نظر ڈالی جنونِ شوق میں
دیکھتا کیا ہوں وہ تیرا ہی سراپا ہو گیا

اٹھ سکا ہم سے نہ بارِ التفاتِ ناز بھی
مرحبا، وہ جس کو تیرا غم گوارا ہو گیا

وہ چمن میں جس روش سے ہو کے گزرے بے نقاب
دفعتاً ہر ایک گل کا رنگ گہرا ہو گیا

شش جہت آئینہِ حسنِ حقیقت سے جگرؔ
قیس دیوانہ تھا، محوِ روئے لیلیٰ ہو گیا​
 
Top