شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

صہباؔ ، بہت سِیاہ سہی، یہ شبِ ملال !
گونجے گی پھر سَحر کی اذاں جاگتے رہو

صہباؔ اختر
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

ضبط ِغم ہی کا یہ صِلہ سا لگے
مُنہ میں اشکوں کا ذائقہ سا لگے

اپنا سایا ہو ہمقدم تو مجھے !
تیرے ہونے کا شائبہ سا لگے

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

سب ڈھلے وہ حقیقتوں میں قیاس !
پہلے پہلے جو واہمہ سا لگے

سہل کیا اُن سے گفتگو تھی خلِؔش
اب تو مُشکِل ہے رابطہ سا لگے

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

عتابِ اہلِ جہاں سب بُھُلا دِئے، لیکن
وہ زخم یاد ہیں اب تک، جو غائبانہ لگے

دِکھاؤں داغِ مُحبّت جو نا گوار نہ ہو
سُناؤں قصّۂ فُرقت، اگر بُرا نہ لگے

ناصؔر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

سب ہیں اسِیرِ راہگزر، کیا کرُوں گا میں
اِن قافِلوں کے ساتھ سفر کیا کرُوں گا میں

مِلتا نہیں مِزاج مِرا، اہلِ بزم سے !
آ تو گیا ہُوں سیفؔ! مگر کیا کرُوں گا میں

سیف الدین سیفؔ
 

طارق شاہ

محفلین

جو عُمر تھی، وہ گوشہ نشینی میں کٹ گئی
اب کاروبار جنسِ ہُنر، کیا کرُوں گا میں

جو دِن گُزر گئے ہیں، گُزارے ہیں کِس طرح !
جو عُمر بچ رہی ہے بَسر کیا کرُوں گا میں

سیف الدین سیفؔ
 

طارق شاہ

محفلین

یہ دِل ہے کہ جلتے سینے میں، اِک درد کا پھوڑا الہڑ سا !
ناگپت رہے، نا پُھوٹ بہے، کوئی مرہَم ہو، کوئی نشتر ہو

وہ راتیں، چاند کے ساتھ گئیں، وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں !
اب سُکھ کے سپنے کیا دیکھیں، جب دُکھ کا سُورج سر پر ہو

ابنِ انشؔا
 

طارق شاہ

محفلین

دُھوپ ڈھلنے لگی، دِیوار سے سایا اُترا
سطح ہموار ہُوئی، پیار کا دریا اُترا

یاد سے نام مِٹا، ذہن سے چہرہ اُترا
چند لمحوں میں نظر سے تِری کیا کیا اُترا

پروین شاکر
 

طارق شاہ

محفلین

شامِ غم کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو !
بےخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو

نام بھی لینا ہے جس کا اِک جہانِ رنگ و بُو
دوستو! اُس نَو بہارِ ناز کی باتیں کرو

ہر رگِ دِل وجد میں آتی رہے، دُکھتی رہے !
یونہی اُس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو

جو عدَم کی جان ہے، جو ہے پیامِ زندگی !
اُس سُکوتِ راز، اُس آواز کی باتیں کرو

کِس لِئے عُذرِ تغافُل، کِس لِئے اِلزامِ عِشق
آج چرخِ تفرقہ پرداز کی باتیں کرو

جو حیاتِ جاوِداں ہے، جو ہے مرگِ ناگہاں
آج کُچھ اُس ناز، اُس انداز کی باتیں کرو

جس کی فُرقت نے پَلٹ دی عِشق کی کایا فِراؔق
آج اُس عیسیٰ نفَس دَم ساز کی باتیں کرو

فِراؔق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

دامنِ دل پہ نہیں بارشِ الہام ابھی
عشق نا پُختہ ابھی، جذبِ دروں خام ابھی

خود جھجکتا ہُوں کہ دعوائے جنُوں کیا کیجے
کچھ گوارا بھی ہے یہ قید در و بام ابھی

اسرار الحق مجاؔز لکھنوی
 

طارق شاہ

محفلین

وہ میرے ضبط کا اندازہ کرنے آیا تھا
میں ہنس کے زخم نہ کھاتا، تو اور کیا کرتا ؟

اگر زبان نہ کَٹتی، تو شہر میں مُحسنؔ !
مَیں پتّھروں کو بھی اِک روز ہمنوا کرتا

مُحسؔن نقوی
 

طارق شاہ

محفلین

گیت جِتنے لِکھے اُن کے لیے، اے موج صبا!
دل یہی چاہا کہ تُو اُن کو سُنا آئی ہو

تیرے تحفے تو سب اچّھے ہیں، مگر موجِ بہار!
اب کے میرے لیے خوشبوئے حِنا آئی ہو

پروین شاکر
 
Top