شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

نئے تقاضوں پہ ڈھالے گئے عہد نامے
وفا کی شرط گئی ، دِل کے باب بدلے گئے

ہَمِیں ہیں، جو نئے محور پہ گھومتے ہیں، نؔسیم !
یا ، اِس مدار میں سب ماہتاب بدلے گئے ؟


راحت نؔسیم ملک
 

طارق شاہ

محفلین

ہر حرف سے خلُوص جَھلکتا دِکھائی دے
ہر شعر نفرتوں کو کُچلتا دِکھائی دے

ہر اِنتخاب شعر ہے صُورت گری، غدیر !
شعروں سے تیرا پیار چھلکتا دِکھائی دے

محفل کے ہر شریک کا دِل جیتنے والی !
دِل تیرے دیکھنے کو مچلتا دِکھائی دے

مالک دِکھائے سالگرہ ایسی بے شُمار !
ہر دل ہی جس میں ، مجھ کو دھڑکتا دِکھائی دے

اندیشہ ہائے زیست سےباقی وہ ڈر نہیں
ہر روزِ نو ، اب اِس کا چمکتا دکھائی دے


طارق شاہ
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

زخم آپ لیتا ہُوں، لذّتیں اُٹھاتا ہُوں
تجھ کو یاد کرتا ہُوں درد کے بہانے سے

اِس فضائے تِیرہ کو گرم کر، منّور کر
داغِ دِل نہیں کُھلتا دیکھنے دِکھانے سے

اضغؔر گونڈوی
 

طارق شاہ

محفلین

مُوئے مِژگاں سے تِرے سینکڑوں مرجاتے ہیں
یہی نشتر تو رگِ جاں میں اُتر جاتے ہیں

حرم و دیر ہیں عُشاق کے مُشتاق، مگر
تیرے کوُچے سے اِدھر یہ نہ اُدھر جاتے ہیں

کوچۂ یار میں اوّل تو گُزر مُشکل ہے
جو گُزرتے ہیں، زمانے سے گُزر جاتے ہیں

امیؔر مینائی
 

طارق شاہ

محفلین

حاصل ہُوا ہے اُن سے محبّت میں کم سبق
جو پھرسے دیں وہ خود پہ اِجارہ، کبھی نہیں

رکھتے ہیں نرم گوشہ بھی دِل میں کہِیں کوئی
ہم دیں اُنھیں کچھ ایسا اِشارہ، کبھی نہیں

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

دُکھ نہ ہوں تو زندگی میں نُور آئے کِس طرح
شام سے پہلے، ستِارہ جگمگائے کِس طرح

ایک سے سب کے رویّے ، ایک سی سب صُورتیں
کوئی پہچانے بَھلا ، اپنے پرائے کِس طرح

تم کہ کِشتِ گُل میں بھی رہتے ہو اُکتائے ہُوئے !
ہم سے پُوچھو، ہم نے وِیرانے بسائے کِس طرح

ہم نے پلکوں سے تمھاری راہ کے کانٹے چُنے
جانتے ہو ! ہم تمھیں منزِل پہ لائے کِس طرح

چل رہے ہو اجنبی راہوں پہ آنکھیں مُوند کر
اب، تمھیں کوئی بھٹکنے سے بچائے کس طرح

مُشتاق عاجِؔز
 

طارق شاہ

محفلین

اےشبِ عید اب بتا ، دِیدار پائیں کِس طرح
اپنی نظروں میں سُہانا چاند لائیں کِس طرح

اِک ہجومِ شہر ہے نظریں اُٹھائے تاک میں
وہ سرِبام اب اگر آئیں تو آئیں کِس طرح

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

تم آئے ہو، تو تمھیں بھی آزما کے دیکھ لیتا ہُوں !
تمھارے ساتھ بھی، کچھ دُور جا کے دیکھ لیتا ہُوں

احمد مشتاق
 

طارق شاہ

محفلین

کوئی تو کام ہو ایسا، کہ زندگی ہو حَسِیں !
نہیں جوپیار مُقدّر، تو جُستجُو ہی سہی

شفیق خلؔش
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

تِرے دِیوانے، ہر رنگ رہے تِرے دھیان کی جوت جگائے ہُوئے
کبھی نِتھرے سُتھرے کپڑوں میں، کبھی انگ بھبھوت رَمائے ہُوئے

اُس راہ سے چُھپ چُھپ کر گُزری، رُت سبز سُنہرے پُھولوں کی
جس راہ پہ تم کبھی نِکلے تھے ،گھبرائے ہُوئے، شرمائے ہُوئے

اب تک ہے وہی عالَم دِل کا، وہی رنگِ شفق، وہی تیز ہَوا !
وہی سارا منظر جادُو کا، مِرے نین سے نین مِلائے ہُوئے

احمد مشتاؔق
 

طارق شاہ

محفلین

لوگ کہتے ہیں کہ تُو، اب بھی خفا ہے مجھ سے
تیری آنکھوں نے تو، کُچھ اور کہا ہے مجھ سے

جا نثار اختؔر
 

طارق شاہ

محفلین

اِس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں! رکھّا ہے
دِل کے رُخسار پہ اِس وقت تِری یاد نے ہاتھ

یُوں گُماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صُبحِ فِراق !
ڈھل گیا ہجر کا دن ، آ بھی گئی وصل کی رات

فیض احمد فؔیض
 

طارق شاہ

محفلین

مجھے جو بھی دُشمنِ جاں مِلا، وہی پختہ کارِ جفا مِلا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تِیر خطا ہُوا

اقبال عظیم
 

طارق شاہ

محفلین

صدا لگائی، تو پُرسانِ حال کوئی نہ تھا
گُمان تھا ، کہ ہر اِک شخص ہمنوا ہو گا

افتخارعارف
 
آخری تدوین:
Top