شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

اُداسیوں کا یہ موسم بدل بھی سکتا تھا
وہ چاہتا ، تو مِرے ساتھ چل بھی سکتا تھا

وہ شخص! تُو نے جسے چھوڑنے میں جلدی کی
تِرے مزاج کے سانچے میں ڈھل بھی سکتا تھا

وہ جلدباز! خفا ہو کے چل دِیا، ورنہ
تنازعات کا کچھ حل نکل بھی سکتا تھا

اَنا نے ہاتھ اُٹھانے نہیں دِیا ، ورنہ
مِری دُعا سے، وہ پتّھر پگھل بھی سکتا تھا

تمام عُمرتِر ا منتظر رہا مُحسن
یہ اور بات کہ ، رستہ بدل بھی سکتا تھا

مُحسؔن نقوی
 

طارق شاہ

محفلین

بس اتنا ہوش تھا مجھے روزِ وِداع ِ دوست !
ویرانہ تھا نظر میں، جہاں تک نظر گئی

تلوک چند محرومؔ
 

طارق شاہ

محفلین

دِل ہی نہیں تو کام غمِ جاوِداں سے کیا
غم ہی نہیں ،تو واسطہ عمُرِروَاں سے کیا

معلوُم ہے سب ایک نظر کے فریب ہیں
اُلجھے نگاہِ شوقِ زمان و مکاں سے کیا

صیّاد و برق ہی کی توجّہ نہیں ، تو پھر
مجھ کو حصُولِ خار و خسِ آشیاں سے کیا

مانا غرورِ عِشق بھی اِک چیز ہے، مگر
اِتنے بھی دُور دُور تِرے آستاں سے کیا

جگر مُراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

گُماں جلوُس کا ہوتا ہے، جب بھی چلتا ہے
مِرے جلو میں، مِری حسرتوں کا جمِ غفِیر

احمد ندیم قاسمی
 

طارق شاہ

محفلین

دیکھتے ہیں کہ پہنچتی ہے وہاں کونسی راہ
کعبہ و دَیر سے، کچھ ہم کو سروکار نہیں

الطاف حُسین حالیؔ
 

طارق شاہ

محفلین

بات جو دِل میں چُھپائے نہیں بنتی حالیؔ !
سخت مُشکِل ہے ، کہ وہ قابِلِ اِظہار نہیں

الطاف حُسین حالیؔ
 

طارق شاہ

محفلین

اے معاذاللہ حُسن اور چارہ سازی عِشق کی !
درحقیقت ، یہ کرشمہ جذبۂ کامِل کا ہے

بیگم زاہدہ خلیق الزماں زاہدہؔ
 

طارق شاہ

محفلین

اے معاذاللہ ، یہ عالم ہے اُمید و بیم کا !
کشتیِ دِل ڈوبتی ہے سامنا ساحِل کا ہے


بیگم زاہدہ خلیق الزماں زاہدہؔ
 

طارق شاہ

محفلین

کچھ نہیں یاد، شب رقص کی محِفل میں ظفؔر !

ہم جُدا کِس سے ہُوئے، کِس سے بغلگیر ہُوئے

صابر ظفرؔ

کراچی، پاکستان
 

طارق شاہ

محفلین

کہا ہے دِل کی تسلّی کو بارہا خود سے
ہم اُن کو بُھول چُکے ہیں، مگرکہاں بالکل

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

بے کیفئ روز و شب مُسلسَل
سر مستئ اِنتظار، کُچھ دیر

دُنیا تو سدا رہے گی، ناصر !
ہم لوگ ہیں یادگار، کُچھ دیر

ناصؔر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

کیا سِتم! حال یُوں ہے جن کے سبب
وہ مَرَض کا مِرے دوا بھی ہُوئے

اُس نے سوچا تو ہوگا میری طرح
کیا الگ ہو کے ہم جُدا بھی ہُوئے

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

ہُوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومتِ عِشق
سبب یہ ہے، کہ محبّت زمانہ ساز نہیں

علامہ اقبال
 

طارق شاہ

محفلین

پُوچھونہ تیرے ہجرمیں کاٹے ہیں کیسے سب !
کوہِ گراں سے مجھ پہ وہ شام وسَحر ہُوئے

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

پاگل ہو فراؔز، آج جو رہ دیکھ رہے ہو
جب اُس سے مُلاقات کا وعدہ بھی نہیں تھا

احمد فراؔز
 

طارق شاہ

محفلین

قتلِ عاشِق کسی معشُوق سے کُچھ دُور نہ تھا
پر تِرے عہد سے آگے، تو یہ دستوُر نہ تھا

خواجہ مِیر دردؔ
 

طارق شاہ

محفلین

یہ اور بات، تُو نے زمانے کی بات کی
رُوئے سُخن تو، اے مِری جاں! تھا مِری طرف

احمد فرازؔ
 

طارق شاہ

محفلین

آدمی سے، کوئی تو ایسا گنہ سرزد ہُوا
ایک پر اُترا عذاب اور زد میں صدہا آگئے

محشؔر بدایونی
 
Top