اقتباسات شعریات از نصیر ترابی سے اقتباس

شعریات:
از نصیر ترابی


تعریفات:
شعر: اصطلاح میں چند با معنی لفظوں پر مشتمل اُس کلام کو شعر کہا جاتا ہے جو ایک مجوزہ وزن کا حامل ہو اور جسے قصداً مرتب کیا جائے۔ شعر کہنے کے لیے بنیادی طور پر پانچ عناصر درکار ہوتے ہیں ( 1) موزونئ طبع، ( 2 ) شعری مطالعہ، ( 3) زبان آشنائی ، (4 ) خیال بندی اور ( 5 ) مشقِ سخن۔​

ہر شعر کے دو حصے ہوتے ہیں اور ہر حصے کو مصرع کہتے ہیں۔ مصرعے کی علامت کے لئے 'ع' لکھتے ہیں۔ دو مصرعوں کی یکجائی کو شعر کہا جاتا ہے۔ پہلے مصرعے کو اولیٰ اور دوسرے مصرعے کو ثانی کہہ کر امتیاز کرتے ہیں۔ طرحی مصرع اس بطور نمونہ مصرعے کو کہتے ہیں جس کی بحر قافیہ اور ردیف کے حوالے سے شعراء اپنے اشعار کہتے ہیں۔ جہاں ان اشعار کو سنایا جائے اسے طرحی مشاعرہ کہا جاتا ہے۔ لغوی اعتبار سے شاعر کے معنی خالقِ شعر یا صاحب شعر کے ہوتے ہیں۔ اہلِ خبر و نظر کے نزدیک شاعر کی چار اقسام ہیں ؛ بڑا شاعر، اہم شاعر خوشگوار شاعر اور شاعر ۔

بڑا شاعر وہ ہے جو ایجادی سطح پر زبان و بیان کے لحاظ سے ایک مرکزی دھارے کی منزلت رکھتا ہے۔ ایسے بڑے شاعر اردو میں پانچ ہیں: میر, غالب, انیس, اقبال اور جوش. اہم شاعر وہ ہے جو توجہ گیری کے باعث عہد ساز ہوتا ہے۔ اس کی ایک مجددی حیثیت ہوتی ہے ۔ اردو کی جدید شاعری میں آٹھ اہم شاعر ہیں: یگانہ، فراق، فیض، راشد، میراجی، عزیز حامد مدنی، ناصر کاظمی اور مجید امجد۔

خوشگوار شاعر وہ ہوتا ہے جو اہل ذوق کے درمیان مجموعی طور پر قابل قبول ہو. شاعر کے خانے میں وہ تمام شاعر درج کیے جا سکتے ہیں جن کے بعض اشعار کسی معتبر انتخاب کے لئے ممکن ہو سکتے ہیں۔ ویسے بقول محبوب خزاں؛

بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا​

بحر: شعر کہنے کے لئے ایک معینہ وزن کو بحر کہتے ہیں اور معینہ اوزان کے مختلف طریقوں کو بحور کہا جاتا ہے۔

مطلع: کسی بھی صنف کے ابتدائی شعر کو مطلع کہتے ہیں۔ مطلع کے لغوی معنیٰ طلوع کے ہیں۔ اس طلوع کے ذریعے سامع یا قاری کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ غزل کی زمین کیا ہے۔ زمین کا تعین بحر، قافیے اور ردیف سے ہوتا ہے. مطلع کے دونوں مصرعوں میں قافیے اور ردیف کی پابندی ہوتی ہے۔


حسن مطلع: مطلع کے بعد دوسرے شعر کے دونوں مصرعوں میں بھی مطلع کی طرح قافیے اور ردیف کو ملحوظ رکھا جائے تو اسے حسنِ مطلع یا زیبِ مطلع کہتے ہیں۔


مقطع: وہ شعر جس میں شاعر اپنا نام یا تخلص استعمال کرے۔ یہ شعر عموماً اس پارۂ صنف کا آخری شعر ہوتا ہے لیکن مقطع کے لیے محض آخری شعر ہونے کی تاکید بھی نہیں ہے۔


ردیف و قافیہ: ردیف اور قافیے میں واضح فرق یہ ہے کہ قافیے کے الفاظ بلحاظ معنیٰ متفرق لیکن صوتی اعتبار سے ہم آواز ہوتے ہیں۔ ردیف کا لفظ یا الفاظ معنیٰ اور آواز کی مناسبت سے مشابہت رکھتے ہیں۔ مثلاٌ مہماں کیے ہوئے، چراغاں کئے ہوئے۔ ان دونوں ٹکڑوں میں مہماں اور چراغاں قافیے ہیں اور کئے ہوئے ردیف۔ وہ اشعار، جن میں صرف قافیہ ہوتا ہے اور ردیف نہیں ہوتی، انہیں غیر مردّف کہا جاتا ہے۔ ردیف دراصل اہل فارس کی ایجاد ہے۔ ردیف شعر کی وہ کشش ہے جو قافیے کے آہنگ میں اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ ردیف شعر کا ایک ایسا حسن ہے جس کے سبب شعر کی غنائیت کو ایک قوت حاصل ہوتی ہے۔ قواعد میں ردیف وہ مستقل کلمہ ہے جو اشعار کے آخر میں قافیے کے بعد تکراراً شامل ہوتا رہتا ہے لیکن ہر شعر میں ایک ہی معنی رکھتا ہے۔ ردیف کی بھرپور تعریف یہ ہے کہ اس کے بغیر شعر موثر نہیں ہوتا یعنی ردیف کسی خانہ پوری کا جواز نہیں ہوسکتی۔ ردیف ایک لفظ یا دو تین لفظوں پر بھی مشتمل ہوسکتی ہے۔ قافیہ عربی شعریات میں اس لفظ کو کہتے ہیں جس پر شعر کا اختتام ہو۔ چونکہ عربی شاعری میں ردیف کا رواج نہیں ہوتا لہذا قافیے کو شعر کا آخری لفظ کہا جاتا ہے۔ جن اشعار میں صرف قافیہ ہو اسے مقفیٰ کہتے ہیں۔ فارسی اور اردو شاعری میں آخری لفظ ردیف ہوتا ہے۔ ردیف سے پہلے آنے والے الفاظ قافیے ہوتے ہیں۔ عیوبِ قافیہ یوں تو متعدد ہیں لیکن مطلعے میں ایطا کا عیب بڑا واضح ہے۔ اس کے معنی قافیے کی تکرار ہے۔ ایطا کو شائیگاں بھی کہتے ہیں اس کی دو قسمیں ہیں: ایطائے جلی اور یطائے خفی۔


ایطائے جلی کی پہچان یہ ہے کہ اگر مشترکہ حروف کو منہا کر دیا جائے اور باقی ماندہ حروف کو بامعنی کر دیں تو یہ ایطا ہے۔ ثناگر اور خوگر میں گر کو نکال دیں تو ثنا اور خو باقی رہ جاتے ہیں۔ یہ بامعنی لفظ ہیں لیکن ثنا اور خو آپس میں قافیہ نہیں ہو سکتے۔


ایطائے خفی: یہ وہ عیب ہے جہاں قافیوں کے الفاظ میں آخری دو یا تین حرف مشترک ہوتے ہیں اور قافیے کی تکرار علانیہ ظاہر نہیں ہوتی مثلاَ ایمان، مان، گلاب اور آب۔



قافیہ: قافیے کی بابت ابتدائی معلومات کے لئے مختصر اور مفید بیان یہ ہے کہ حرف روی قافیے کا بنیادی جز ہوتا ہے۔ وہ آخری حرف جو قافیے کے آخر میں آئے مثلا دمیدہ اور کشیدہ میں 'ہ' حرف روی ہے۔ قافیے میں حرفِ ردف سے مراد وہ ساکن الف واؤ اور ہے ، کہ جس کے اور حرف روی کے درمیان کسی طرح کا واسطہ نہ ہو، مثلا قالیں اور زریں میں اگر نون کو حرف روی لیا جائے تو " یے " حرفِ ردف ہوگا۔
روی سے پہلے حرف کی حرکت اگر مختلف ہو تو اُسے عیوبِ قافیہ میں شمار کرتے ہیں۔ مثلا 'شبنم" کے ساتھ اگر " نادم " باندھ لیا جائے۔ اس کے علاؤہ جس قافیے میں حرف روی کا اختلاف نمایاں ہو مثلا "خسیس" کا قافیہ " تخصیص" لکھا جائے تو اسے بھی عیب سمجھا گیا ہے۔ فی زمانہ اِس عیب کو رفع کرنے کے لیے اِسے صوتی قافیہ کہا جاتا ہے۔ مثلا شاد اور یاد کے ساتھ رعد اور بعد کا قافیہ۔ جمع کے ہم آواز لفظوں کو یعنی قوافی کو واحد کے ذریعے پرکھنا چاہیے۔ مثلا گُلوں اور دلبروں۔ واحد میں یہ دونوں لفظ گل اور دلبر قوافی شمار نہیں ہوں گے۔


عروض: یہ ایک با ضابطہ علم ہے۔ اس علم کے حصول کے لیے اسے بالاستیعاب کسی عروض داں معلم سے درساً درساً پڑھنا ہوگا۔سادہ الفاظ میں عروض کو اشعار کا میزان کہا جاتا ہے۔ تمام بحور کے ناموں کو ایک قطعے میں اس طرح نظم کیا گیا ہے۔


رجز، خفیف، رّمل، منسرح دگر مُجتث
بسیط و وافر و کامل، ہزج، طویل و جدید
مشاکل و متقارب، سریع و مقتضب است
مضارع و متدارک قریب و نیز مدید​

مذکورہ انیس بحور کے علاؤہ نو بحریں وہ بھی ہیں جو فارسی میں نافذ ہیں۔
حریم، کبیر، بدیل، حمید، اصیم، جتب، عریض، عمیق اور صوفیہ۔

زحاف: اصطلاحاً تغیرِ بحر کو کہا جاتا ہے۔ یعنی زحاف سے مراد مصرعے میں کسی کمی یا بیشی سے کام لیا جائے۔

تقطیع: علمِ عروض کی اصطلاح میں مصرعوں کو صوتی حرکات کے خانوں میں بانٹ کر ارکانِ افاعیل کی مناسبت سے ہم وزن کرنے کو کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top