شریف برادران کو کوئی رقم نہیں دی، یونس حبیب کی قلابازی

اسلام آباد (انصار عباسی) مہران گیٹ اسکینڈل کے مرکزی کردار یونس حبیب نے اپنا بیان تبدیل کرتے ہوئے اب کہا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی میاں نواز شریف یا ان کے بھائی شہباز شریف کو رقم ادا نہیں کی ہے۔ جمعہ کو دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے مہران بینک کے سابق صدر نے کہا کہ جب انہوں نے اپنی ڈائری میں شریف برادران کے حوالے سے بیان کو دوبارہ چیک کیا تو معلو ہوا کہ انہوں نے جاتی عمرا کے شریف برادران کو کوئی رقم نہیں دی بلکہ یہ رقم اپنے ایک دوست کو دی جو جہلم میں ایک بڑا ریستوران چلا رہا ہے۔ الزامات لگا کر واپس لینے والی شخصیت بن چکے یونس حبیب نے اصغر خان کیس میں دوران سماعت کہا تھا کہ انہوں نے آصف جمشید نامی شخص کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو پینتیس لاکھ روپے دیئے تھے اور شہباز شریف کو پچیس لاکھ روپے دیئے تھے۔ لیکن اب جبکہ ایف آئی اے نے ماضی کے اس جرم کی تفتیش شروع کردی ہے تو یونس حبیب نے موجودہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو اس الزام سے کلیئر کردیا ہے جو وہ ماضی میں عائد کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ صرف غلط فہمی تھی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے اپنی ڈائری چیک کی تو معلوم ہوا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ رقم میں نے اپنے ایک دوست شریف کو دی تھی جو جہلم میں ٹیولپ ریستوراں چلا رہا ہے۔ یونس حبیب سے اس لیے رابطہ کیا گیا تاکہ اس اطلاع کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا ایف آئی اے نے ان سے تفتیش کے سلسلے میں ررابطہ کیا ہے۔ یونس حبیب نے کہا کہ اب تک ایف آئی اے نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ یونس حبیب نے 2012؁ میں سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ سابق صدر غلام اسحاق خان اور سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے ان پر دبائو ڈالا کہ 1990؁ کے عام انتخابات سے قبل قومی مفاد کے نام پر سیاست دانوں کےلیے 40؍ کروڑ روپے کا بندوبست کیا جائے۔ عدالت میں اپنے پہلے انکشاف کے طور پر پیش ہوتے ہوئے، علیل اور وہیل چیئر پر آنے والے یونس حبیب نے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ یونس حبیب نے اپنا بیان تحریری طور پر جمع کراتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں قومی مفاد کا متاثر ہوں اور جو کچھ بھی میں نے کیا، صدر پاکستان کے کہنے پر کیا اس کے لیے معافی مانگتا ہوں۔ میں اب خود کو اس عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔‘‘ عدالت کی ہدایت پر یونس حبیب نے تین صفحات پر مشتمل ایک بیان پڑھا تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایک سینئر فوجی عہدیدار کے گھر پر مرزا اسلم بیگ سے ملاقات کی تھی اور اس کے بعد ان کے اور مرزا کے درمیان اکثر بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بعد ازاں مارچ 1990؁ میں مرزا اسلم بیگ نے بتایا کہ صدر غلام اسحاق خان مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں عام انتخابات کے لیے 400؍ ملین روپے کا بندوبست کروں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ چند ماہ بعد، مرزا اسلم بیگ نے مجھے کراچی میں ہونے والی ایک تقریب میں دعوت دی جہاں میرے ساتھ مہمانِ خصوصی جیسا برتائو کیا گیا۔ یونس حبیب نے عدالت کو ایک تصویر بھی پیش کی جس میں انہیں صدر پاکستان اور فوجی افسران بشمول مرزا اسلم بیگ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ یونس حبیب نے عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ اسلم بیگ نے 340؍ سے 400؍ ملین روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ یونس حبیب نے کہا کہ 400؍ ملین روپے سیاست دانوں میں تقسیم کیے گئے جبکہ ایک ارب روپے سرمایہ کاری کی مد میں مختلف لوگوں پر خرچ کیے گئے۔ یونس حبیب نے کہا کہ نیشنلائزڈ بینک کے سربراہ کی حیثیت سے ان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ صدر مملکت کے احکامات کی تعمیل کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان پر روئیداد خان اور اٹارنی جنرل نے بھی دبائو ڈالا تھا کہ زرداری کے خلاف 1990؁ میں مقدمہ درج کرائیں۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=156968
 
Top