صفحہ 44
کرتے تھے کہ وہ جھینپ جاتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر کہیں میرے داڑھی نہ ہوتی تو مجھ سے یار دوستوں کے مذاق کا جواب ہی دیتے نہ بن پڑتا۔
-------------------------------
صبح ہماری آنکھ ذرا دیر سے کھلی۔ اٹھ کر ہم باہر پہنچے۔ سردار صاحب غسل خانہ میں تھے ہم برآمدہ میں ایک کرسی پر بیٹھے تھے کہ سردار صاحب نہا کر مسکراتے ہوئے نکلے۔ ڈیڑھ بالشت کی داڑھی اس خوبصورت چہرے پر عجیب بہار دے رہی تھی ایک سفید دھوتی ساڑھی کی طرح باندھے ہوئے تھے اور اُدھی اوڑھے ہوئے تھے جس سے سارا بدن سوائے کہنیوں تک ہاتھوں کے اور سر کے کھلا ہوا تھا ان کے لمبے اور ریشمی بال کمر تک لٹک رہے تھے۔ ہماری کرسی ہی کے پاس میز تھی۔ جس پر آئینہ رکھا تھا۔ وہ کرسی کے برابر آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر بال پونچھنے لگے اور کہنے لگے کہ " بھئی تم اپنی بیوی سے کب ملاقات کراؤ گے؟"
ہم نے ہنستے ہوئے اور ان کے بالوں سے کھیلتے ہوئے کہا جو ہمارے سامنے لٹک رہے تھے کہ " سردار صاحب ہمارا تو یہ ارادہ تھا کہ آپ سے کل ہی ملاقات کرا دیں۔ مگر بدقسمتی سے یہ ارادہ بدل دینا پڑا اور اب شاید ملاقات قطعی نہ کرا سکیں۔"
"بھئی یہ کیوں؟" سردار صاحب نے اپنے ریشمی بال جھٹکتے ہوئے عجیب ادا سے کہا۔