شریر بندر

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شریر بندر
شاعر : پروفیسر آفاق صدیقی


برگد کے نیچے بیٹھا ، کوئی غریب نائی
جب دیر تک سروں کی کرتا رہا مونڈائی

فرصت ملی تو اس کو ، کھانے کا دھیان آیا
کھانے کو دال روٹی ، گھر سے تھا ساتھ لایا

ٹہنی پر ایک بندر بیٹھا جو گھات میں تھا
چھوٹے سے آئینے اور ایک استرے پہ جھپٹا

جلدی سے چڑھ گیا پھر ، اک اُونچی شاخ پر وہ
تھا دیر سے جمائے ، نظر ہر چیز پر وہ

آئینہ دیکھا تو وہ خوب مُسکرایا
لیکن سمجھ میں اُس کی تیز اُسترا نہ آیا

نائی نے جب یہ دیکھا ، اک اُسترا اُٹھایا
پھر ناک پر لٹکا کر اُلٹا اسے پھرایا

بندر کو یہ ادا بھی اتنے پسند آئی
کرنے لگا وہی کچھ ، جو کر رہا تھا نائی

دیکھی جو آئینے میں اپنے لہو کی لالی
حیراں ہوا کہ خود ہی کیوں ناک کاٹ ڈالی

غصے میں نیچے پھینکا ، پہلے تو اُسترے کو
پھر آپ ہی اچھالا نفرت سے آئینے کو

کیا خوب آدمی کی تدبیر کام آئی
ہارا شریر بندر ، جیتا غریب نائی


------00------
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
:grin: :)

دلچسپ، شعیب ۔۔۔ پسند آئی آپ کی محنت ۔۔۔ یہ بندر صاحب پہلے آگئے بھالو سے ۔۔۔ :)

اس بارے میں کچھ مزید نکات ذپ میں دیکھ لیں ۔
 

الف عین

لائبریرین
مجھے تو بھالو نظر نہں آئے۔ البتہ بندر اقعی شریر لگ رہا ہے۔
دھوپ میں بارش کی بہ نسبت یہ بہت زیادہ بہتر ہے۔ مبارک ہو شوبی
 
مجھے تو بھالو نظر نہں آئے۔ البتہ بندر اقعی شریر لگ رہا ہے۔
دھوپ میں بارش کی بہ نسبت یہ بہت زیادہ بہتر ہے۔ مبارک ہو شوبی

بہت بہت شکریا اعجاز انکل۔ بھالو اس اینی میشن میں نہیں ہے۔ وہ لندھور بھالو والی نظم میں ہے۔
 
Top