شرح کلام غالب

فرقان احمد

محفلین
اس لڑی میں دنیائے سخن وری کے مہتاب اور لازوال شاعر اسد اللہ خان غالب کے کلام کی تشریحات پیش کی جائیں گی۔ نامی گرامی علماء و ادباء اور نقادوں نے کالم غالب کی شروح تحریر کی ہیں؛ تاہم ان دنوں ہمارے ہاتھ مولانا غلام رسول مہر کی کتاب 'نوائے سروش' لگی ہے۔ اس میں سے جو جواہر پارے ہمارے ہاتھ لگیں گے، ان میں سے چند بطور سوغات آپ کی خدمت میں پیش کر دیے جائیں گے۔ دوست احباب بھی غالب کے پسندیدہ کلام مع تشریح کی شراکت اس لڑی میں کریں تو ہمیں از حد خوشی ہو گی۔

شعر:

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

عنقا: ایک فرضی اور خیالی پرندہ۔ کہتے ہیں، اس کی گردن لمبی ہونے کے باعث یہ نام رکھا گیا ہے۔ نام موجود ہے، پرندہ ناپید ہے۔ اس سے مراد ہے ناپائیدار اور گُم۔


شرح:
آگہی یعنی عقل و علم ہمارا مقصد پھانسنے کے لیے سماعت کے کتنے ہی جال پھیلا دیں، مگر وہ ہمارے مفہوم و مطالب کو پھانس نہیں سکتے۔ یعنی ہم جو کچھ کہتے ہیں، اس کا مفہوم و مطلب بلند ہے۔ اُسے عنقا کی طرح ناپید کہنا بھی نامناسب نہ ہو گا۔
شاعر کا یہ مطلب نہیں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں، اس کا مطلب کچھ نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ ہمارا مطلب اتنا دقیق اور نازک ہوتا ہے کہ اس تک عام علم و عقل کی رسائی نہیں ہو سکتی۔

مرزا نے فارسی میں بھی اس مضمون کا ایک شعر کہا ہے۔

ما ہمائے گرم پروازیم،فیض از ما مجو
سایہ ہمچوں دود بالامی رود از بالِ ما

یعنی ہم تیز اڑنے والے ہُما ہیں اور ہماری پرواز میں اس قدر گرمی ہے کہ سایہ بھی زمین پر نہیں پڑتا، بلکہ دھواں بن کر اُوپر نکل جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ جو شخص ہم سے فیض حاصل کرنا چاہے، اُسے بلندی پر آ جانا چاہیے۔ اپنی جگہ بیٹھ کر ہمارے نیچے اُترنے کا انتظار نہ کرنا چاہیے۔

شرح از مولانا غلام رسول مہر
نام کتاب: نوائے سروش
 

فرقان احمد

محفلین
بُوئے گُل، نالہء دل، دُودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نِکلا

پھول کی خوشبو، دل کی آہ و فغان اور چراغ کا دھواں، ان میں سے جو بھی چیز تری بزم سے نکلی، آشفتہ و پریشاں ہی نکلی۔شاعر نے عشاق کی پریشانی ظاہر کرنے کے لیے تین چیزیں لیں، جو اصلاََ مختلف تھیں، لیکن ان میں ایک خاصیت یعنی پریشانی مشترک پائی گئی اور تینوں کو محبوب کی بزم سے خاص تعلق تھا۔ اول تو پھولوں کی خوشبو جس کا خاصہ ہی پریشان ہونا ہے۔ دوم عشاق کے دل کا نالہ، سوم چراغ کا دھواں۔ مطلب یہ ہے کہ محبوب کی بزم سے جو بھی چیز نکلتی ہے، یعنی محبوب سے جدا ہوتی ہے، وہ پریشان ہی پائی جاتی ہے۔ بے شک ان تین چیزوں کی خاصیت ہی پریشانی ہے۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ مرزا نے شعر میں بزمِ محبوب سے نکلنے کو ان کی پریشانی کا موجب قرار دیا۔

شرح از مولانا غلام رسول مہر
 

فرقان احمد

محفلین
ستائش گر ہے زاہد اس قدر، جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا

زاہد اس بہشت کی اس قدر تعریف کر رہا ہے، ہم بیخودوں کے نزدیک صرف اتنی ہے، جیسے ایک گلدستہ ہو اور اسے طاق پر رکھ کر بھول جائیں۔ مولانا حالی فرماتے ہیں کہ "بہشت کو بیخودوں کے گلدستہ نسیاں سے تشبیہ دینا بالکل ایک نرالی تشبیہ ہے۔ جو کہیں نہیں دیکھی گئی"۔ فارسی میں بھی مرزا غالب نے جنت کو نقش و نگار طاقِ نسیاں کہا ہے:

رنگ ہا چوں شد فراہم مصرفِ دیگر نداشت
خلد را نقش و نگارِ طاقِ نسیاں کردہ ایم
غالب نے بہشت کو گلدستہ طاقِ نسیاں کہہ کر محض تشبیہ اور حُسنِ بیان ہی کے کمالات نہیں دکھائے، بلکہ اجزائے اعمال کے متعلق اپنا فلسفہ بھی پیش کر دیا ہے۔ وہ یہ حقیقت واضح کرنا چاہتا ہے کہ بیخود اور خدا مست اپنے اعمال کی جزا کے لیے بہشت کے خواہاں نہیں، ہم تو بہشت کی یاد ہی دل سے نکال چکے ہیں، اور اسے گلدستہء طاقِ نسیاں بنا چکے ہیں ۔ ہمارے پیش ِ نظر صرف خدا کی رضا اور اس کے حکموں کی تعمیل ہے۔ چنانچہ وہ دوسری جگہ کہتے ہیں۔
طاعت میں تار ہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

شرح از مولانا غلام رسول مہر
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
اچھا سلسلہ شروع کیا ہے
ستائش گھر ہے زاہد اس قدر، جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا
ستائش گھر =ستائش گر
طاعت میں تار ہے نہ مے و نگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
مے و نگبیں =مے و انگبیں
 

یاسر شاہ

محفلین
کہیں آپ نے یہ جان بوجھ کر تو غلطیاں نہیں کیں کہ کوئی عقاب نہیں 'نہ سہی' تندیِ باد مخالف ہی آجائے -:-(
 

عبد الرحمن

لائبریرین
فرقان بھائی پہلے تو پرخلوص شکریہ اس بات پر قبول فرمایے کہ ایک ایسی لڑی شروع کی آپ نے جس کا مجھے کب سے ارمان تھا۔ اپنی کم علمی و کم ہمتی کی باعث یہ بیڑہ خود اٹھانے سے زیادہ کسی صاحب علم کے اٹھانے کا انتظار کرتا تھا جو اب تمام ہوا۔ دوسری شکر گزاری اس بات پر کہ میرے ایسے نالائقوں کو بھی آپ نے اپنے علمی دربار میں قدم رکھنے کی اجازت دی جو کہ ناچیز کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ :)
 

عبد الرحمن

لائبریرین
لیتا ہوں مکتبِ غم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ "رفت" گیا اور "بود" تھا
میں غمِ دل یعنی عشق کے مکتب میں ابھی پڑھنے لگا ہوں اور میرا سبق بالکل ابتدائی حالت میں ہے، یعنی ابھی تک رفت (گیا) اور بود (تھا) یاد کر رہا ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ عشق کی درس گاہ میں ابھی مبتدی اور نو آموز ہوں۔ قدم آگے بڑھے گا اور تعلیم کے ابتدائی درجوں سے ترقی کرتا ہوا اوپر کے درجوں میں پہنچوں گا تو خدا جانے کیا کیفیت رونما ہوگی۔
عشق کی ابتدائی حالت کے متعلق عرفی نے بھی ایک نہایت عمدہ شعر کہا ہے:

عشق می خوانم و می گریم زار
طفل نادانم و اول سبق است​

یعنی میں عشق کا درس لے رہا ہوں اور زار زار رو رہا ہوں۔ گویا میں ناسمجھ بچہ ہوں اور یہ میرا پہلا سبق ہے۔ اس میں خوبی یہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو آزاد پھرتے پھرتے مکتب میں بٹھا دیا جائے اور وہ پابند ہوجائیں تو پڑھتے پڑھتے رونا شروع کردیتے ہیں۔
غالب اور عرفی دونوں نے عشق کی ابتدائی کیفیت پیش کرنے کے لیے درسگاہ سے مثالیں لیں، لیکن اس کے سوا دونوں شعروں میں کوئی یکسانی نہیں۔ عرفی کے شعر سے واضح ہوتا ہے کہ اس نے جو پہلا سبق پڑھا، وہ عشق کا تھا۔ غالب اپنے عشق کی صرف ابتدائی کیفیت پیش کر رہا ہے۔

انتخاب از شرح مولانا غلام رسول مہر
 

فہد اشرف

محفلین
فرقان احمد بھائی نوائے سروش کا پی ڈی ایف مل سکتا ہے؟
میں قریب دو سال سے یہ کتاب ڈھونڈ رہا ہوں نہ یہاں لائبریری میں مل رہی ہے نہ کہیں آنلائن مل رہی ہے اور نہ ہی کسی کتب فروش کے یہاں دستیاب ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
فرقان احمد بھائی نوائے سروش کا پی ڈی ایف مل سکتا ہے؟
میں قریب دو سال سے یہ کتاب ڈھونڈ رہا ہوں نہ یہاں لائبریری میں مل رہی ہے نہ کہیں آنلائن مل رہی ہے اور نہ ہی کسی کتب فروش کے یہاں دستیاب ہے۔
لیجیے صاحب! ربط!

اب کچھ ٹائپنگ میں بھی حصہ ڈالیے گا۔۔۔!
 

فرقان احمد

محفلین
نسیہ و نقدِ دو عالم کی حقیقت معلوم ۔۔۔۔۔!
لے لیا مجھ سے مری ہمتِ عالی نے مجھے

نِسیہ: عام معنی ادھار، مقصود وہ چیز ہے، جو ابھی ہاتھ نہیں آئی اور آنے کی امید ہے، یعنی آخرت کی زندگی، بہشت۔
نقد: وہ چیز جو میسر ہے یعنی دنیا اور اس کی زندگی۔


مجھے دنیا اور عقبیٰ کی حقیقت معلوم ہے۔ میری بلند ہمتی نے ان کے عوض بکنا گوارا نہ کیا۔ دونوں کو ٹھکرا دیا۔ اور دونوں سے بے نیازی برتی۔مطلب یہ کہ انسان اپنی حقیقت پر غور کرے تو نہ دنیا کی کوئی چیز اسے لبھا کر دام میں الجھا سکتی ہے اور نہ عقبیٰ کی کوئی نعمت اس کے لیے ترغیب کا سامان بن سکتی ہے۔ وہ ذاتِ باری تعالیٰ کی رضا کے سوا ہر شے سے بے پروا رہے گا۔ یہی دعوت مرزا غالب کی اصل مقصود ہے۔ (شرح از مولانا غلام رسول مہر)
 

عبد الرحمن

لائبریرین
نہیں گر سر و برگِ ادراکِ معنی
تماشاے نیرنگِ صورت سلامت!

اگر حقیقت کا راز پالینے اور سمجھنے کا سامان میسر نہیں تو نہ سہی، صورت کی نیرنگیوں کے تماشے ہی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
حقیقت پالینا اور سمجھنا معرفت کا درجہء کمال ہے، لیکن اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو تو اس کائنات کی تمام اشیاء میں رات دن جو نیرنگیاں ظہور پذیر ہوتی ہیں، ان پر توجہ جمائے رکھنے سے بھی بہت کچھ حاصل ہوسکتا ہے۔ وہ بھی درحقیقت معرفت ہی کی طرف لے جاتی ہیں، بشرطیکہ ہم توجہ سے انھیں دیکھیں اور غور کریں۔

(شرح از مولانا مہر)
 
Top