شب دِن، دِن شب ہو سکتا ہے غزل نمبر 181 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ
فعلن فعلن فعلن فعلن
شب دِن، دِن شب ہو سکتا ہے
رب چاہے سب ہو سکتا ہے

تُو چاہے تو صحرا، گلشن
اے میرے رب! ہو سکتا ہے

بچپن لوٹ آئے پھر اپنا
کیا ایسا اب ہو سکتا ہے؟

مجنُوں کو مِل جائے لیلیٰ
عِشق میں یہ کب ہو سکتا ہے؟

اُس نے تبسم سے ہے دیکھا
کُچھ تو مطلب ہو سکتا ہے

اُن سے اب اِظہارِ مُحبت
کر اے دِل! جب ہو سکتا ہے

چمکا دے جو اپنی قِسمت
کوئی تو کوکب ہو سکتا ہے

کل بن جائے عالمِ عالم
طُفلِ مکتب ہو سکتا ہے

دِل میں اگر تعظیم نہ ہو تو
کون مہذب ہو سکتا ہے؟

سانپ ہیں کہتے عدُو کو لیکن
دوست بھی عقرب ہو سکتا ہے

اِس دُنیا میں سب ہے مُمکن
عدُو اِک اقرب ہو سکتا ہے

جو دِکھتا ہے ویسا نہیں ہے
یہ اِک کرتب ہو سکتا ہے

جِس کو دُنیا مجنُوں سمجھے
رب کا مقرب ہو سکتا ہے

چشمِ کرم گر کرلے ساقی
جام لبالب ہو سکتا ہے

غزلِ
شارؔق سُن کر سب کے
کُھل جائیں لب ہو سکتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
باقی اشعار تو سب درست ہیں لیکن ایک ہی ساتھ اتنے اشعار بیکار ہیں جنہیں غز ل بدر کیا جا سکتا ہے

کل بن جائے عالمِ عالم
طُفلِ مکتب ہو سکتا ہے
واضح نہیں
دِل میں اگر تعظیم نہ ہو تو
کون مہذب ہو سکتا ہے؟
کس کی تعظیم؟
سانپ ہیں کہتے عدُو کو لیکن
دوست بھی عقرب ہو سکتا ہے
روانی بیکار ہے
اِس دُنیا میں سب ہے مُمکن
عدُو اِک اقرب ہو سکتا ہے
اقرب یا عقرب؟
 
Top