مکتوب شبِ عاشور

سیما علی

لائبریرین
آج کی شب جسے شب عاشور کہا گیا، اس شب بھی ایک بار پھر امام ؑ نے اپنے تمام اصحاب و انصار، حتٰی اقرباء کو اپنے خیمہ میں جمع کیا اور ان سے واشگاف الفاظ میں کہا کہ میں بیعت اٹھا لیتا ہوں، رات کی تاریکی ہے، ان لوگوں کی مجھ سے دشمنی ہے، میں کل شہید کیا جاؤں گا، آپ چلے جائیں۔ کیا لوگ جمع کئے تھے نبی کے نور عین نے کہ ہر ایک اپنی زبان میں کہہ اٹھا کہ ہم اپنے خون کا آخری قطرہ تک آپ کی راہبری و امامت میں بہائیں گے اور اس پر فخر کرینگے، سب سے پہلے تو بھائی ابولفضل ؑ نے کلام کیا، لا ارانا اللہ ذلک ابدا،، خدا کبھی ایسا دن نہ دکھلائے کہ ہم آپکو چھوڑ کر اپنے گھروں کیطرف پلٹ جائیں، اسکے بعد تمام بنی ہاشم نے یہی بات دہرائی۔۔۔۔۔
اسی طرح رات کی تاریکی میں شب کے ستارے اس خیمہ حسینی میں برپا اس کائنات کی سب سے افضل عبادت اور سچے جذبوں کو دیکھ کے کتنا للچاتے ہونگے کہ اے کاش! وہ بھی اصحاب امام ؑ ہوتے اور انہیں بھی اذن جہاد ہوتا، انہیں بھی اپنا لہو ان کے حکم پر بہانے کا اذن ہوتا تو وہ دریغ نہ کرتے، اس شب صحرا میں چلنے والی ہوا بھی ادھر ادھر چلتے پھرتے کس قدر پریشان ہوئی ہوگی اور اسے کس قدر رشک آیا ہوگا کہ اے کاش وہ بھی اصحاب امام ؑ میں شمار ہوتی اور ان وفاؤں کے قصوں میں شمار کی جاتی، مگر یہ اعزاز تو کسی نبی کے اصحاب کو بھی حاصل نہیں ہوا، سورج نے جو منظر اس دن دیکھا، وہ یہی کہتا رہا کہ اے کاش اس دن یہی رات طویل ہوجاتی اور میں طلوع نہ ہوتا، اے کاش زہرا سلام اللہ کا لاڈلا اور نبی زادیوں کو بے مقنعہ و چادر نہ دیکھتا، اے کاش میں اس دن ڈوبتا اور پھر کبھی نہ نکلتا۔ بقول غالب
موج سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ مثلِ جوہرِ تیغ آب دار تھا
اور پھر عصر عاشور کا وقت میدان کربلا میں جب ہر سو لاشے پڑے تھے، امام حسین ؑ اکیلے بچ گئے تھے اور خیام سے روانہ ہوئے، کیا کہرام برپا ہوا، کیا سخت گھڑیاں تھیں، جب امام حسین ؑ اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ خیام میں پاکباز بیبیاں ہیں اور بیمار سید سجادؑ اور کم سن باقر ؑ ہے، ایسے میں عشق کی سچائی اور صداقت کا امتحان کیلئے جانا اس قدر گراں ہے کہ یہ حوصلہ انبیاء میں بھی نہیں دکھائی دیتا، جس کے سامنے اتنے قیمتی لوگ مارے گئے ہوں، اسے تو ویسے ہی ناتوانی اور ضعف سے موت آجاتی ہے، مگر کیا صبر تھا ابن علی ؑ کا، کائنات کو کیا منظر دکھایا کہ آج چودہ صدیاں گذر جانے کے باوجود اس سے نظریں نہیں ہٹتیں۔۔ بقول شاعر
اے اہل عالم کن آنکھوں سے وہ منظر دیکھا تم نے
جب شمع اکیلی روشن تھی اور کوئی نہ تھا پروانوں میں
 

سیما علی

لائبریرین
امامِ سجاد علیہ السلام سے روایت ہے جو فرما رہے تھے کہ جب عاشورا کے دن دشمنوں کے لشکر امام حسین علیہ السلام کے قتل کرنے پر جمع ہوگئے تو سید الشہداء علیہ السلام نے اپنے ہاتھ اٹھا کر فرمایا:
"پروردگارا! ہر سختی میں تو ہی میری پناہ ہے اور ہر مصیبت میں میری اُمیدیں تجھ ہی سے وابستہ ہیں۔ ہر آنے والی مشکل گھڑی میں تو ہی میرا موردِ وثوق اور سرمایہ ہے۔کتنی ایسی سختیاں ہیں جو دلوں کو لرزادیتی ہیں ۔ تمام کوششیں اور طریقے بے فائدہ ہوجاتے ہیں، جہاں پر دوست بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ جب دشمن جری ہو کر کھلی دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ میں ایسے کاموں کو تیرے حضور میں پیش کرتاہوں اور تیری بارگاہ میں ہی شکایت کرتاہوں کیونکہ میری اُمیدیں تجھ ہی سے وابستہ ہیں۔ پس تو نے ہی میرے کاموں کے انجام پانے کیلئے کوئی راہ مقرر فرمائی اور میری مشکلات کو حل فرمایا؛ پس تو ہی ہر نعمت کے دینے والا اور ہر ایک اچھائی اور نیکی کا مالک ہے۔ ہر ایک کیلئے تو ہی آخری اُمید ہے۔

(بحار۴۵:۴،مستدرک الوسائل۱۱:۱۱۲)
 
Top