شبنم رومانی۔۔۔

الف عین

لائبریرین
17 فروری کی صبح اپنے جلو میں یہ دل خراش خبر لائی کہ شبنم رومانی بھی راہی ملکِ عدم ہوئے ۔ اللہ غریقِ رحمت کرے ، کیا نفیس آدمی تھے ، تحریر میں بھی نفاست، لباس میں بھی نفاست اور زندگی میں بھی نفاست۔ ایسے بہت کم لوگ دیکھے ہیں جن کی پوری زندگی ایک جیسی گزری۔ ان سے آخری ملاقات ’’جنگ حلقۂ ادب‘‘ کی اس تقریب پزیرائی میں ہوئی تھی جس کا اہتمام پانچ بزرگ شعراء کے اعزاز میں کیا گیا تھا۔ شبنم رومانی دسمبر 1928ء کو شاہ جہاں پور(یو پی) میں پیدا ہوئے ۔ 1944ء میں انہوں نے شاعری کا آغاز کیا۔ صحافت سے بھی انہیں خاصا لگاؤ تھا۔ انہوں نے 1947ء میں ماہنامہ ’’شبنم‘‘ بریلی سے جاری کیا۔ 1968ء میں مجلہ ’’اربابِ قلم‘‘ کراچی سے نکالا۔ 1973ء سے 1983ء تک روزنامہ مشرق میں ’’محفل محفل‘‘ کے عنوان سے کالم نگاری کی 1990ء میں ماہنامہ ’’اقدار‘‘ جاری کیاجس کے کئی اہم نمبر شائع ہوئے ۔ ’’اقدار‘‘ کا ہر شمارہ ایک مکمل کتاب کا درجہ رکھتا ہے ۔ ماہنامہ ’’افکار‘‘ صہبا لکھنوی کے بعد اور ماہنامہ ’’فنون‘‘ احمد ندیم قاسمی کے بعد بند ہو گیا۔ خدا کرے ’’اقدار‘‘ کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ ان کے ہونہار صاحب زادے ، فیصل عظیم بھی ایک اچھے شاعر ہیں ۔ گوکہ وہ بہ سلسلۂ ملازمت امریکہ میں مقیم ہیں ، لیکن اگر وہ چاہیں تو احباب کے تعاون سے ’’اقدار‘‘ کو جاری رکھ سکتے ہیں ۔
شبنم رومانی کی جو کتب منظرِ عام پر آئی ہیں ۔ ان میں مثنوی سیرِ کراچی (طنزومزاح)، جزیرہ (شعری مجموعہ)، حرفِ نسبت (مذہبی شاعری)، ہائیڈپارک (ادبی کالم)، تہمت (غزلیں )، موزے چلغوزے (مزاحیہ مضامین)، بچوں کے لئے نظمیں ، غالب، شخص اور شاعر، ارمغانِ مجنوں اور دوسرا ہمالہ شامل ہیں ۔ مثنوی سیرِ کراچی کا دوسرا حصہ ان دنوں زیرِ طباعت ہے اس کے علاوہ بھی ان کی کئی کتابیں تیار ہیں ۔ جن کی اشاعت و طباعت کا اہتمام کرنا فیصل عظیم کی ذمہ داری ہے ۔ ہم نے 2002 میں ’’جنگ‘‘ کے لئے شبنم رومانی کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔ ان کے حالاتِ زندگی اور خاندانی پس منظر ان ہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں ’’میں شاہ جہاں پور(یو پی) کا رہنے والا ہوں ۔ شہنشاہ کے معتمدِ خاص، بہادر خان کے ارشاد پر ہم اپنے خاندان کے ساتھ ترکِ وطن کر کے غزنی سے شاہ جہاں پور آ گئے تھے ۔ جب سے ہمارا خاندان وہیں آباد ہے ، میں نے ابتدائی تعلیم ایک مدرسے میں حاصل کی۔ اس کے بعد ا سکول میں داخل کرادیا گیا۔ میں جس ا سکول میں پڑ ھتا تھا وہ ہندوؤں کا تھا، میرے علاوہ دو تین مسلمان طالب علم اور تھے ۔ جس سال میں نے میٹرک پاس کیا اسی سال وہ ا سکول انٹر کامرس ہو گیا تھا۔ میں نے 1946ء میں انٹر کامرس کیا، پھر سلسلۂ تعلیم جاری رکھنے کے لیے بانس بریلی چلا گیا اور بریلی کالج میں داخلہ لے لیا۔ ایسا کالج میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ کوئی یونیورسٹی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ میں نے 1948ء میں وہاں بی اے کیا، اسی زمانے میں میرے استاد بھائی، رسا بریلوی اور میں نے مل کر ’’شبنم‘‘ کے نام سے ایک رسالہ نکالا، میں رائے بریلی بھی گیا ہوں ، وہاں میرے خالو کوتوالِ شہر تھے ۔ ہم ا سکول کی سالانہ چھٹیاں وہیں گزارا کرتے تھے ۔ بانس بریلی ایک تاریخی شہر ہے ، وہاں روہیلوں کی اکثریت آباد تھی۔
شاہ جہاں پور میں چند دوستوں کے تعاون سے میں نے ’’ترقی‘‘ کے نام سے ایک فلمی پرچہ نکالا، چونکہ میری رائٹنگ بہت اچھی تھی، چنانچہ پورا پرچہ مجھے لکھنا پڑ تا تھا۔ ہم اس کے تین شمارے نکال سکے ، انہیں دیکھ کر شہر کے علماء اور محققین نے بڑ ی حیرت کا اظہار کیا اور ہماری مدد بھی کی پھر مجھے شاہ جہاں پور کے اسلامیہ کالج میں ملازمت مل گئی۔ کچھ دن بعد لکھنؤ سے ملازمت کی آفر ہوئی، کو آپریٹو اکاؤنٹینٹ کی جگہ ملی۔ کچھ دن کے بعد اکاؤنٹنٹ کم سکریٹری ہو گیا۔ اسی زمانے میں وہاں نسلی فسادات پھوٹ پڑ ے ، زبردست ہندو مسلم فساد ہوا، شاہ جہاں پور پاکستان کا قلعہ کہلاتا تھا۔ وہ پٹھانوں کی بستی تھی وہاں کے لوگ بہت بہادر تھے ۔ وہاں جھنڈوں کا مقابلہ ہوتا تھا کہ کس کا جھنڈا زیادہ اونچا ہوتا ہے ۔ میں نے اور احباب ترمذی نے بھی ان مقابلوں میں بھرپور حصہ لیا، فسادات کی صورت حال ناقابلِ برداشت تھی، چنانچہ ستمبر 1950ء میں ہم اپنے پورے گھر والوں کے ساتھ کراچی آ گئے ۔
یہاں آنے کے بعد بڑ ے تلخ تجربات ہوئے ۔ میں جھونپڑ ی میں بھی رہا ہوں ۔ سال ڈیڑ ھ سال کرائے کے مکان میں بھی رہا۔ بالآخر 1954ء میں مجھے مکان مل گیا۔ ایک دن مولانا ماہر القادری سے بات ہورہی تھی۔ انہوں نے پوچھا، کہاں رہتے ہوں ، میں نے کہا جھونپڑ ی میں ، کہنے لگے چلو تمہیں مکان دلاتا ہوں ، جو صاحب الاٹمنٹ دیتے تھے ۔ وہ رمی کھیلنے میں مصروف تھے ، مولانا نے ان سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ شبنم رومانی میرے اچھے دوست بھی ہیں اور شاعر بھی، جھونپڑ ی میں رہتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ کل آجائیے ، مکان کا الاٹمنٹ مل جائے گا۔ میں آج جس مکان میں بیٹھا ہوں ۔ وہ مولانا ماہر القادری کی عنایت ہے ۔‘‘
(بہ شکریہ : جنگ مڈ ویک میگزین۔ 25 فروری 09)
منصف۔ حیدر آباد، 26 مارچ 2009
 

الف عین

لائبریرین
مضطر مجاز

ستمبر/اکتوبر/نومبر 1993ء میں میرے رفیق شفیق ڈاکٹر ضیا الدین شکیبؔ نے میرے لندن اور امریکہ کے دورے کا انتظام کیا تھا۔ پہلا قدم لندن تھا جہاں دو ہفتے تک مشاعرے اور ادبی پروگرام چلتے رہے ۔ وہاں سے نیویارک پرواز کی وہاں زاہد سعید کے یہاں ایک یا دو دن قیام رہا پھر وہاں سے جب ہم فلوریڈا پہونچے تو وہاں بزرگ شاعر بیکل اتساہی کے ساتھ شبنم رومانی اور نجمہ خان(پاکستان) سے ملاقات ہوئی پھر ختم سفر تک ان کا ساتھ رہا۔ شبنم رومانی نہایت دھان پان آدمی تھے بستر میں رضائی اوڑ ھ کر سوتے تو نظر ہی نہیں آتا تھا کہ وہاں کوئی سوبھی رہا ہے ۔ فن و زبان کا بہت خیال رکھتے تھے ان کا تعلق آگرہ سے تھا۔ میری طرح انہوں نے بھی بی کام کیا ہوا تھا پھر وہ پاکستان چلے گئے ۔ اہلِ پاکستان ان کو اکثر امریکہ مدعو کرتے رہتے تھے ۔ وہ مشاعرے کے شاعر نہیں تھے تحت اللفظ میں سناتے تھے ایک آدھ بار ان سے تھوڑ ی سی نوک جھونک بھی رہی مگر نیویارک ایرپورٹ پر خداحافظ کہتے وقت دل صاف کر لیا اور ہماری شاعری وائری کے بارے میں اچھے الفاظ ادا کئے پھر نہ ان سے ملاقات ہوئی نہ فون پر بات ہوئی اچانک خبر آئی کہ وہ 17/فبروری کو داغ مفارقت دے گئے ۔ بڑ ا افسوس ہوا کہ پھرنہ ان سے نہ ملاقات ہوئی نہ فون پر بات۔ عدمؔ نے شاید ایسے ہی موقع کے لئے کہا ہے :
کیا لطف ملاقات سرِ جادئہ ہستی
ہم آپ سے محشر میں ملاقات کریں گے
(مضطرؔ مجاز)
 
Top