شاہ نیازبریلویؒ کی شاعری میں عرفانِ حق

فاخر

محفلین
شاہ نیازبریلویؒ کی شاعری میں عرفانِ حق اور خودی کی تشخیص
13678.jpg


احمد فاخر ، نئی دہلی

شاہ نیازؔ بریلوی [متوفی 1852] سلسلہ چشتیہ کے صوفی شعرا میں گہرآبدار کی حیثیت رکھتے ہیں،جنہیں مبدأ فیاض نے تصوف و سلوک کے ساتھ ساتھ عرفانِ حق اور خودی کی تشخیص کی بیش بہا دولت سے بھی سرفراز کیا تھا۔ مولانا روم ، جامی ،حافظ شیرازی،شیخ سعدی اور امیر خسرووغیرہم ایسے مسلم الثبوت شاعر ہیں، جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ عرفانِ حق اور خودی کی تشخیص کا واضح اعلان کیا ہے۔شاہ نیازؔ بریلوی کی شاعری کا دور کم و بیش وہی دور سمجھا جاتا ہے،جس دو رمیں میر تقی میر ،متوفی [1810] اور مصحفیؔ[1824]جیسے دیگر شعراء اُردو کے بال و پر سنوا رتے ہوئے فارسی زبان کے اثرات کے تحت انہی خیالوں کو اُردو کا جامہ پہنا رہے تھے۔ واضح ہو کہ دہلی کے دور ثانی کے اہم نمائندہ شاعر غلام ہمدانی مصحفیؔ کو شاہ نیازؔ بریلوی سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ جس کا ذکر مصحفیؔ نے ’ریاض الفصحاء ‘ میں کیا ہے، مصحفیؔ نے قیام ِ دہلی میں شاہ نیازؔ بریلوی سے ’میزان الصرف ‘ پڑھی ہے۔میزان الصرف درس نظامی کی مشہور، اہم اور جزو لازم سمجھی جانی والی ابتدائی کتاب ہے۔ یہ ہمارے ذہن نشیں ہونا چاہیے کہ اس وقت دہلی کے شعراء ایہام گوئی کو ترک کر چکے تھے، ان کی شاعر ی میں تصوف کااثر و شمول محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شاہ نیازؔ بریلوی نے باضابطہ طورپر اپنے لیے رسمی شاعری کا میدان منتخب نہیں کیا،بلکہ جو کچھ قلبی کیفیات پیدا ہوئیں، انہیں اپنے مریدین و حاضرین کے سامنے پیش کردیا ۔ان کی شاعری کا سب سے اہم جزو ’عشق محمود‘ ہے،جس کی تعلیم صوفیا ء کی تعلیمات کا جزو اعظم ہے ۔ شاہ نیازؔ بریلوی[متوفی 1852] کی شاعری کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں،تو اُن کی شاعری میں ایک مکمل کائنات کھل کر سامنے آتی ہے، جس کے مختلف گل سرسبد ہیں۔ اُ ن کی شاعری فارسی اور اردو کے دو حصوں میں تقسیم ہے،تاہم اُن کی شاعری کا اصل جوہر فارسی شاعری میں نظر آتا ہے۔ ان کے پیر و مرشد شاہ فخر الدین تھے، شاہ فخرالدین مشائخ چشت میں ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں ۔شاہ نیازؔ بریلوی کو کئی علوم و فنون پر دسترس حاصل تھی۔عربی، فارسی زبان پر انہیں خصوصی ملکہ حاصل تھا،جس کا اظہار ان کی شاعری کے مطالعہ سے بھی ہوتا ہے۔فارسی شاعری اس عہد کی اہل علم اور صوفیاکی زبان تھی، فارسی شاعری اپنی مثال آپ ہے، اردو زبان ان کے عہد میں نئی نویلی زبان تھی ، اردو میں بھی ان کے اشعار برجستہ او ربرمحل ہیں۔ دیوان نیازؔ بریلوی مرتبہ ڈاکٹر انوارالحسن کے مطابق:’پروفیسر خلیق نظامی نے نیازؔ بریلوی کی8 تصانیف کا ذکر کیا ہے‘۔ جس میں تحفۂ نیازیہ حضرت نیاز بے نیاز، حاشیہ شرح چغمنی،دیوان نیازؔ فارسی، اردو ، رسالہ تسمیۃ المراتب ،رسالہ راز و نیاز ، شرح قصائد عربیہ ،شمس العین شریف اورمجموعہ قصائدعربیہ قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی خانقاہ کی لائبریری میں ان کی دیگر تصانیف موجود ہوں گی ، تاہم راقم الحروف کے مطالعہ میں سوائے اُن کے فارسی -اردو دیوان کے ،کوئی اور دوسری کتاب نہیں گزری،یہ خیال رہے کہ ’دیوان نیاز‘ کو ان کی نمائندہ تصنیف سمجھا جاتا ہے۔

’عرفان حق ‘یا’خودی کی تشخیص‘ کے ذیل میں اہل علم نے صفحات در صفحات سیاہ کئے ہیں،البتہ اس کی مختصر تعریف یہ ہے کہ انسان خداکے پیغام اور دی ہوئی شریعت کے تقاضوں کو مکمل طور پر پہچانے ، اور اُس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرے۔عرفانِ حق یہ وہی الہامی شی ہے ،جس کی تبلیغ کیلئے خدا نے کم و بیش ایک لاکھ چوتیس ہزار سے زائدانبیاء و رسل کو دُنیا میں مبعوث کیا ۔ انبیاء و رسل کے پیغامات کی تبلیغ اور اس کے نفوذ کیلئے ہی صوفیا کا قافلہ ہندوستان وارد ہوا، انہیں صوفیا کے گروہ کے ایک فرد شاہ نیازؔ بریلوی ہیں۔اپنے مرشد شیخ فخرالدین کے ایماء پردہلی سے بریلی مقیم ہوئے ، اور یہیں پوری زندگی عرفان حق کی تبلیغ کے لیے وقف کردی۔
شاہ نیازؔ بریلوی کی زندگی سلسلہ چشت کے اصولوں کے تحت اسلام کی اشاعت کے لیے وقف تھی، چنانچہ ان کی شاعری میں عرفان حق اور خودی کی تشخیص کی ایک وسیع کائنات آباد ہے، جا بجا اسے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے: اپنی ایک فارسی غزل میں کہتے ہیں:
بہ بستانِ تجمل گل عذارے کردہ ام پیدا
سراپا دل کشے ، رنگیں نگارے کردہ ام پیدا

قیامت قامتے ، بالا بلائے آفت جانے
بتے غارت گرِ دیں سحر کارے کردہ ام پیدا

نگارے ، کافرے زاہد فریبے عشوہ پردازے
عجائب دل ربائے طرفہ یارے کردہ ام پیدا

غزل کے ان اشعار میں عاشقانہ کیف و سرور کے ساتھ ’محبوب و مطلوب‘ کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے ۔محبوب کبھی ’دلکش ‘ ، کبھی ’رنگیں نگار‘ تو کبھی قیامت قامت بالا اور’آفتِ جاں‘کی شکل میں نظر آتا ہے۔حتیٰ کہ عشق حقیقی کی سرگرانیاں اس مقام کو بھی پہنچ گئیں کہ محبوب کو ’کافر‘ اور ’زاہدفریبے‘ بھی کہہ دیا۔ اِسے عشق اور اُس کے بے تکلفانہ رشتہ سے معنون کیا جاناچاہیے کہ عاشق اپنے معشوق حقیقی کو کافر اور اور ’زاہد فریبے‘ کہہ دے۔عشق حقیقی میں ان تکلفات کی اجازت ہے یا نہیں ؛ لیکن وہ شعراء جن کا تعلق تصوف سے ہے، اپنے محبوب کے ساتھ بے تکلف نظر آتے ہیں، یہ عشق کا مطالبہ ہے یا پھر رشتہ کی معراج ، کہ عاشق اپنے معشوق کے ساتھ بے تکلف نظر آتا ہے۔ اسی غزل میں یہ بھی کہا کہ :
بیا جاناں تماشہ کن، چراغانِ تنِ سوزاں
بہ داغستان دل رنگیں بہارے کردہ ام پیدا

جگر آتش دل آتش، سینہ آتش دیدہ ہاآتش
بایں ہر چار آتش کاروبارے کردہ ام پیدا

پھر عشق کی سرگرانیوں اور لذتِ دید کی کامجوئیوں کی طلب اس قدر اپنے شباب کو پہنچی کہ راست طور پر یہ اپنے محبوب سے ’سراپاتجلی ‘ کی فرمائش کردی ۔ دل کے ’داغستان‘ میں تن سوزاں نے تیری آمد کی خوشی میں چراغاںکیا ہے ، نیز جگر آتش ، دل آتش، سینہ آتش ، اور دیدہ ہا آتش کے ذریعہ نخلِ تمناپیدا کیا ہے ،اور یہی میری حالت اصلی ہے ۔نیز اس حالت اور کیفیت میں ہم تیری ’تجلی ‘ کے منتظر ہیں۔یہ کیفیات غزل کے محاسن میں شمار کی جاتی ہیں۔عاشقانہ لب ولہجے میں در حقیقت میں ’عرفان حق‘ کی تصویر کی رُونمائی گئی ہے، جیسا کہ ان اشعار کے کیفیات سے بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔شاہ نیازؔ بریلوی کے تصوف اور ان کے مسلک کا مغزوحدت الوجود ،جسے ہم دوسرے لفظوں میں’ہمہ اوست ‘بھی کہہ سکتے ہیں، اور یہی نظریہ ان کی شاعری کا بھی ماحصل ہے۔، البتہ کچھ صوفیا وحدت الوجود کے قائل نہیں ، اِس سلسلے میں کئی علمی معرکے سر کئے گئے ہیں ، دلائل کے انبار لگائے گئے ، کتابیں لکھی گئیں اور مناظرہ کئے گئے ، لیکن عشق کی سرگرانیوں کے آگے وہ تمام دلائل و براہین بونے ثابت ہوئے ، آخر کار عشق نے اپنی معراج حاصل کرلی ۔ اپنے نظریہ کو شاہ نیازؔ بریلوی کچھ اس طرح ثابت کرتے ہیں، کہتے ہیں:
حسن جہاں ز حسنِ رُخِ دلربائے اوست
آبِ روانِ گلشنش از جوئہائے اوست

گہہ شاخ و گاہ برگ وگہے غنچہ گاہ گل
بالجملہ ایں ہمہ نشو و نمائے اوست

سورۂ نورمیں اللہ نورالسموات والأرض الخ میں باری تعالیٰ نے اپنی صفات بیان کرتے ہوئے کہا کہ’ اللہ تعالیٰ کا نور زمین و آسمان میں پھیلا ہوا ہے ‘، جس کی تفسیر ،علماء تفسیر نے کئی طرح سے بیان کی ہیں۔صوفی شعراء نے بھی اس مضمون کو اپنے اپنے طور پر بخوبی ادا کیاہے۔ شاہ نیاز بریلوی نے اسی عنصر کو اپنے عاشقانہ لب ولہجے اور زیر و بم میں کہاکہ دُنیا میں جو کچھ ہے، اور جہاں روشنی، حسن اور رعنائی نظر آرہی ہے،یہ تمام میرے محبوب کی رُخ کے حسن کا پر تو ہے۔ اِس سے دوقدم آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ درخت میں جو کبھی شاخ، کبھی برگ ، کبھی غنچہ ، اور کبھی پھول جو اُگتا ہے، اس کی نشو ونما میں میرے محبوب کے تصرف کا دخل ہے۔ پھر اپنے محبوب کے تصرف و ملکیت کا بیان کچھ اس طرح محبوبیت کے انداز میں کیا ہے کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے، کہتے ہیں:
ہر چند ذرہ ذرہ ز مہر ہست کامیاب
تاہم بہ گردش از پئے مہرو ہوائے اوست

مَنْ لَمْ یَسَعْه وُسْعَة أرضٍ وَلاَ سَماء
بیت المقدس دل بے شرک جائے او ست

مذکورہ بالا شعر میں جس آیت کریمہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اسے تلمیح کہتے ہیں، جب کہ عربی میں کہے گئے مصرعہ کو تلمیع کہا جاتا ہے ،تلمیح اور تلمیع کی تعریف انور جمال اپنی کتاب میںیوں بیان کیا ہے ،’’تلمیح کی اصطلاح علم بدیع کے حصے میں آتی ہے، کلام میں کوئی ایسا لفظ یامرکب استعمال کرنا ، جو کسی تاریخی ، مذہبی، یا معاشرتی واقعے یا کہانی کی طرف اشارہ کرے ، تلمیح ہے۔ جب کہ تلمیع کی تعریف بیان کرتے ہوئے انور جمال نے کہا:’ (تلمیع) یہ شعری اصطلاح ہے، وہ کلام (شعر یہ مصرعہ) جس کا ایک حصہ کسی اور زبان کا ہو اور دوسرا کسی اور زبان کا ، تلمیع کہلاتا ہے۔ یہ وہ صنعت ہے، جس کو شعراء نے قادر الکلامی کے اظہار کے لیے شعوری طور پر اپنایا‘‘۔
(ادبی اصطلاحات ، مؤلفہ انور جمال ، صفحہ 82و 83، مطبوعہ نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد،سنہ اشاعت 2019)
مذکورہ بالا اشعار میں شاہ نیازؔبریلوی نے جس طرح اپنے وجدان اور احساس کو لفظوں کا جامہ پہنایا ہے، وہ اُن کا ہی خاصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دُنیا کی ہر شی ، زمین و آسمان ، شمس و قمر ،شجر و حجر ، آب و ہواوغیرہ پر اُسی کا خصوصی تصرف ہے ، اُس کی مرضی اوراجازت کے بغیر کوئی چیز گردش نہیں کرسکتی ؛ لیکن طرفہ تماشاتویہ ہے کہ جو زمین و آسمان کی وسعت میں سما نہیں سکتا ، وہ میرے دل کے نہاں خانہ میں بلاشرکت غیرے سمایا ہوا ہے۔اس بیان کے بعد ’عرفان حق‘ کی مزید تشریح کی کوئی گنجائش نہیں بچتی ہے۔زبان کی سلاست اور ترکیب بیان اچھوتے انداز اور دلکش پیرائے میں ہے۔اسے ہم شاعرانہ تعلی نہیں کہہ سکتے ؛ بلکہ یہ قوت فکرکا اظہار ہے۔ عرفان حق کا ایک پہلو یہ بھی ملاحظہ کریں:

خیال دوست در دل آں چناں است
کہ عالم جملہ در چشمم نہاں است

اگر خواہم کہ بینم خویشتن را
ہمی بینم کہ جانانم عیاں است

بہ بیں در صورتم باچشم تحقیق
حقیقت را مجازم نردباں است

وُجُوْدُ الکُلِّ عِنْدِیْ فِیْ نَیَامی
نمودہ ما سوا وہم و گماں است

عاشقانہ پیرایے اور کیف و مستی کے عالم میں صاف لفظوں میں کہا کہ میری نظر میں ’محبوب‘ کے سواکوئی اور شی ہی ہے نہیں۔یہ زمین و آسمان، تاج و تخت اور بادشاہی و سلطنت کی کوئی وقعت اور حیثیت میری نظر میں نہیں ہے۔ اپنے نظریہ کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی طور غیروں کی طرف نظر بھی کرلوں ،تو اُس میں بھی محبوب کو عیاںدیکھتا ہوں، گویا کہ:
جدھر دیکھتا ہوں، جہاں دیکھتاہوں
تجھی کو عیاں اور نہاں دیکھتا ہوں!
پھر اسی جذبۂ عاشقانہ میں یہ بھی کہہ دیا کہ یہی میرے لیے معراج ہے کہ ان تمام عناصر کو ،جو کہ مجاز ہیں، حقیقت (عرفان حق) کے لیے زینہ تصور کرتا ہوں۔ یہ وہی عرفان حق ہے، جس کی تعلیم صوفیا نے دی ہے،اوریہی عنصر شاہ نیاز بریلوی کا طرۂ امتیازبھی ہے۔مولانا روم کی مثنوی پڑھ ڈالیں، اس مثنوی کا تکملہ اور خلاصہ ’عرفان حق‘ہے، شاہ نیازؔ بریلوی اِسی روایت کواپنی غزلوں میں آگے بڑھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔گزشتہ میں راقم نے ’ہمہ اوست ‘ کے تناظر میں ’مناظرہ اور دلائل و براہین‘ کا ذکر کیا تھا، اسی مناظرانہ رنگ میں عشق سر چڑھ کر بولتا ہوا نظر آتا ہے، شا ہ نیازؔ بریلوی کہتے ہیں:

اگر دانی کہ ہر شی ہست لاشی
بداں کہ ہر مکاں ہم لا مکاں است

دلا سر حقیقت کس نداند
مگر صاحب دلے کو رمزداں است

نیازؔ ایں گفتگو از من مپندار
کہ نے گفتار نائے را زباں ا ست
عشق کی طبیعت میں جولانی ہوتی ہے، یہ افتاد طبع بھی ہے ،تو اسے براق ووقاد کی صفت بھی ودیعت کی جاتی ہے،لیکن یہی عشق جب محبوب کا سامناکرتا ہے، تو اِس کی یہ تمام صفتیں منکسرالمزاجی میں تبدیل ہوجاتی ہیںتاہم جب نصیبے میں ہجر ہی ہجر ہو، تو پھر یہی عشق طوفان کی شکل ا ختیار کرلیتا ہے۔ عشق کی کچھ سرگرانیاں دیکھیں ، شاہ نیازؔ بریلوی کہتے ہیں:

قیامت غلغل و غوغا ست در جوش و خروشِ تو
کہ یک سرگوشِ عالم پر شد از ہائے و ہوئے شورت

برآمد ہرچہ از دل بر زباں ہا فاش گو اے دل
کہ ہشیاراں برائے بے ہشی دارند معذورت

جواب رب ارنی، لن ترانی نشنودی ہرگز
بہ عشق آتشیں روئے بہ شد سوزانِ تن طورت

عشق کے ادعا قوی ہوتے ہیں اوراس کی عقلی دلیلیں ہوتی ہیں، اور یہی اس کی کل کائنات بھی ۔ تجلی ، طور ، عشق آتشیں وغیرہم کی تلمیحات عشق محمود کے ہی شایاں ہیں۔موسیٰ علیہ ا لسلام کی گزارش ، حق تعالیٰ کا ’لن ترانی ‘ سے جواب، اور پھر اصرار پر تجلی کے وقوع پر بے ہوشی کابیان یہ حقیقت سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن مجاز میں اس کی اجازت ہے، اور جب عشق محمود ہو ، تو پھر ان استعاروں کو عاشقانہ کیف و کم میں بیان کرنا عشق محمود کا لازمہ ہے۔عشق محمود کی سرگرانیوں نے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کردیا کہ وہ وثوقِ کا مل کے ساتھ ’’جوابِ ربِ ارنی ، لن ترانی نشنودی ہرگز‘‘کہہ سکتے ہیں، ان عناصر کے اظہار کے لیے عشق کو براق ا ور وقادبھی ہونا چاہیے،شاہ نیازؔ بریلوی نے اپنی جودت طبع اور وقاد طبیعت کے بموجب اس عنصر کے اظہار سے سخنوری اور عشق محمود میں اپنے مراتب کاواضح اظہار کیا ہے۔فارسی غزلیات میں ان کی شاعری کے اصل جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں۔ایک مشہور زمانہ فارسی غزل جو اپنے تمام خوبیاں کے ساتھ اہل ذوق کو متوجہ کرتی ہے، اس کے چند اشعار دیکھیں ، عرفان حق کے مظاہرکوکس خوبی کے ساتھ ملاحظہ کیا ہے، کہتے ہیں:

ایں ہمہ بحر و بر منم، ویں ہمہ خشک و تر منم
قطرہ منم گہر منم، من نہ منم، نہ من منم

شاہد دلربا منم، مطرب خوش نوا منم
سمع منم، بصر منم، من نہ منم نہ من منم

حسن و جمال حق منم، عزو جلال حق منم
حشمت و جاہ و فر منم، من نہ منم، نہ من منم

طوطیِ صد زباں منم، بلبل نغمہ خواں منم
روضہ منم، شجر منم ، من نہ منم، نہ من منم

عرفانِ حق کی تصدیق اس امر کی گواہی نہیں دیتے کہ جو کچھ ملاحظہ کیااُس پر بے چوں چرا آمنا و صدقنا بھی کہہ دیاگیا، بلکہ اس کے لیے آزمائش و امتحان کے مراحل بھی گرزنے ہوتے ہیں ۔اس کے جلوے کبھی فریب کی صورت میں نمایاں ہوتے ہیں تو یہ کبھی یک لخت حقیقت میں نظر آتے ہیں؛لیکن آفریں تو یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ ملاحظہ کیا ، پرکھا، اسے حقیقت کی نظروں سے دیکھا اور پھر یہی عشق ایک اثاثۂ زیست بن کر رہ گیا ۔اس امتحان اور فریب نظر کی تکمیل اُس وقت ہوتی ہے، جب محبوب کی نظر عنایت ہوجائے۔یہ وہی عشق ہے ، بسا اوقات جس کی کار فرمائیاں اور سرگرانیاں اس نکتہ شباب کو پہنچتی ہیں کہ مکمل تب و تاب کے ساتھ اعلان کرنا پڑتا کہ ہم ’کفرستان ‘ میں اسلام یعنی مذہبِ عشق پر کار بندہیں۔ اس عشق میں کوئی دخیل و شریک نہیں، کہتے ہیں:
دارد آزادی، نہ تقییدات وہمی بے گماں
ہر کہ دارد در زنجیر، در زندان عشق

کافر عشقم مپرس از دینِ من ، اے ہم نشیں
عشق اسلام است ودیں، در ملک کفرستان عشق

فارغ از رسم و رہِ گبر و مسلماں ساختہ
مرحبا صد مرحبا بر لطف و بر احسانِ عشق

عرفان حق کے ادراک کے بعد عشق کی یہی بے نیازیاںہوتی ہیں۔ وہ ایک صرف عشق کے مذہب کو قبول کرتا ہے، اس کے ماسوا جتنے بھی مشارب ہیں، اس یک گونہ تنفر ہوتا ہے، بلکہ خود کار طریقہ سے اس سے بعد بھی پیدا ہوتاہے، بشرطیکہ عشق محمود ہو، عشق غیر محمود کے نصیبے میں ایسی سعادتیں نہیں ہوتیں۔عرفان حق یعنی ہمہ اوست کو اپنی ایک غزل میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے،ان کی نظر اس مقام کااحاطہ کئے ہوئی تھیں،کہ جس کے احاطہ کے بغیر کوئی عاشق عشق(تصوف) کے اعلیٰ مدارج نہیں پہنچ سکتا ، وہ کہتے ہیں:

کسے کہ سرنہاں است در علن ہمہ اوست
عروس خلوت و ہم شمع انجمن ہمہ اوست

ہمی صدائے بہ گوشم رساند بادِ صبا
کہ لالہ و گل و نسرین و نسترن ہمہ اوست

زمصحف ِ رخِ خوباں ہمی نمود رقم
کہ خط و خال و رخ و زلف پرشکن ہمہ اوست
یہ وہ مثالیں تھیں ، جو شاہ نیازؔ بریلوی کی فارسی شاعری کے جوہر اصلی ہیں۔

اردو شاعری میں عرفان حق :

اردو سے قبل دہلی میں فارسی شاعری کا غلغلہ تھا، اس عہد میں خسروؔ، عرفیؔ، نظیریؔ، طالبؔ، صائبؔ، بیدلؔ، حزیںؔ فارسی کے نمائندہ شاعر سمجھے جاتے تھے، ہمارے فارسی ادب کے سرمایہ میں جو کچھ بھی اثاثہ ہے، انہیں نمائندہ شعراء کی تخیلات کا پرتو ہے۔ ا یرانی اثرات کے باعث ہندوستان کی فارسی شاعری پربھی تصوف کا بڑا اثر ہے، اس عہد کے شعراء کی شاعری تصوف کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہے۔دبستانِ دہلی کے نمائندہ شعرا کے دو ادوار گزرے ہیں، دور اوّل میں خان آرزوؔ، آبروؔ، ناجیؔ، مرزا مظہر جانِ جانان، عبدالحئی تاباںؔ، حاتم ، مخلص ؔاور یک رنگؔ جیسے شعراء شامل ہیں، تاہم دور اوّ ل کے شعراء میں ایہام گوئی کا چلن زیادہ تھا، دورِ ثانی کے شعرا نے ایہام گوئی کو یک لخت ترک کردینے میں ہی عافیت سمجھی، لہٰذا اس سے گریز کیا ،اس تناظر میں ڈاکٹر ضیاء الرحمن لکھتے ہیں:
’’دبستان دہلی کے دور اول کے شعرا میں خان آرزو، آبرو ؔ، حاتم ، ناجی، مظہر جانِ جاناں ، تاباںؔ، یکرنگ ، مخلص وغیرہ اہم شعراء ہیں ۔ ان شعراء کے کلام میں ایہام گوئی کا بہت رواج تھا، لیکن بعد کے شعراء نے ایہام گوئی سے گریز کیا۔دوسرے دور میں میرؔ ، دردؔ، سوزؔ، سوداؔ، وغیرہ اہم ہیں ۔ان کے یہاں تصوف کا رنگ صاف دکھائی دیتا ہے‘‘۔
(اردو ادب کی تاریخ : ص 43-44، ناشر : تخلیق کار پبلشر، دہلی )
دہلی کے دور ثانی کے شعراء میں میر تقی میر، خواجہ میردردؔ،سوداؔ، نمائندہ شاعر ہیں۔ ان شعر ا کے یہاں تصوف کی چاشنی صاف طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔انہی دنوںشاہ نیازؔ بریلوی اپنے شیخ شاہ فخرالدین کی خانقاہ میں ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل میں مصروف تھے۔ اور یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان شعراء کے ا شعار اور اس کے گھن گرج سے دہلی کے اہل علم آشناہوئے ہوں گے۔اس سلسلے میں کوئی ٹھوس نقلی دلیل تو نہیں ہے، لیکن گمان اغلب ہے کہ ان شاعروں کے اثرات شاہ نیازؔ بریلوی نے بھی قبول کئے ہوں،کیوں کہ قرین زمان ہے۔ ہندوی ، ریختہ ، ریختی ، یا پھر اردو میں سب سے پہلی غزل امیر خسروؔ نے لکھی تھی۔ ہندوی کی پہلی غزل میں ہی تصوف جلوہ گرہے۔اردو چونکہ عامی زبان تھی، اس لیے صوفیا اور اہل دل نے عوام کی اصلاح کے لیے اسی زبان کا سہارا لیا،چنانچہ انہوں نے بھی اِس زبان میں شاعری کی اور اپنے نظریات و خیالات کو عام کیا ۔شاہ نیازؔ بریلوی کانظریۂ تصوف ’ہمہ اوست‘ کا ہے، اپنے نظریۂ ’وحدت الوجود‘ کے ذریعہ ’عرفان حق‘ کو اپنے انداز اور مخصوص طرزِ نوا کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں:

ہوتا نہ اگر اس کے تماشے میں تحیر
حیرت سے میں آئینہ نمطِ دنگ نہ ہوتا

گر شان پیمبر کی، بوجہل پہ کھلتی
اسلام کے لانے میں اسے ننگ نہ ہوتا

اسرارِ حقیقت کے خبردار جو ہوتے
ہفتاد و دوملت میں کبھی جنگ نہ ہوتا

لفظ’ جنگ‘کو اس مقام پر انہوں نے بطور مذکراستعمال کیا ہے، جبکہ عموماً لفظ’جنگ‘ کو مؤنث کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بطور مذکر استعمال کرنا قافیہ کی پابندی ہے ، یا پھراُس وقت لفظ’ جنگ‘ اردو میں مذکر ہی استعمال ہوتی تھی، یہ ایک الگ موضوعِ بحث ہے۔تاہم ہم اس مقام پر ان کے عرفان حق کی بابت گفتگو کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ، یہ عشق کی کامجوئیاں اور اس کی سرگرانیاں ہیں کہ اس کی الفت میں میں سراپا حیرت ہی ہوں۔دوسرے مصرعہ میں صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ عرفان ہر کسی کے نصیب میں نہیں ؛ کیوں کہ ابو جہل پر نبی کریمﷺ کی شان پیغمبری منکشف ہوتی ، تو اسے قبول اسلام میں کوئی شرمندگی نہ ہوتی ، لیکن اس کے نصیب میں قبولِ اسلام کا شرف حاصل کرنا لکھا ہوا نہ تھا۔اس لیے وہ اس سعادت سے ہمیشہ کے لیے محروم رہا ۔یہ مضمون قرآن کریم کی آیت مبارکہ ’’انک لا تھدی من احببت‘‘ کی تفسیر بھی ہے ۔ نیز انہوں نے ایک تلخ سچائی یعنی مسلکی تنازعات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ’حقیقت‘ یعنی ’عرفان حق‘ سے ہم اگر واقف ہوتے ،تو 72فرقوں کی ہمارے درمیان جنگ نہ ہوتی، عرفان حق کا تقاضا تو یہ ہے کہ ملت کے تمام افراد ایک جسم ایک جان بن کر رہیں، یہی تعلیمات نبوی اور فرموداتِ الٰہیہ بھی ہے۔اردو شاعری میں عرفان حق کی جلوہ کا نظارہ دیکھیں ، کہتے ہیں:

یا رکو ہم نے جا بجا دیکھا
کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا

کہیں ممکن ہوا کہیں واجب
کہیں فانی کہیں بقا دیکھا

دید اپنے کی تھی اسے خواہش
آپ کو ہر طرح بنا دیکھا

صورتِ گل میں کھلکھلا کے ہنسا
شکل بلبل میں چہچہا دیکھا

یہ غزل،شاہ نیاز بریلوی کی اردو شاعری کی معروف غزل ہے ۔ یہ غزل اہل علم و عرفان اور شائستہ افراد کے محفلوں میں بھی پڑھی جاتی ہے،تو وہیں رندمشربوں کے ’نائٹ کلب‘ میں بھی ڈھول اور طبلے کے ساتھ گائی جاتی ہے،جبکہ یہ غزل اپنے تقدس کے تئیں احترام کا مقتضی ہے۔الغرض ،یہ غزل اپنے لب و لہجہ اور اپنی ہیئت اورساخت کے باعث عرفان حق کا ادعا کرتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اس عشق محمود نے جب عرفان حق کے پردہ کو وا کیا،تو کسی کو منصور بنایا ، تو کسی کو تخت شاہی سے اُتا رکر کاسۂ گدائی اور لباسِ فقیری عطا کردیا ۔عشق کی مختلف الجہات نیرنگیاں ہیں ،کبھی یہ کھال کھنچواتا ہے، کبھی تختۂ دار پر چڑھاتا ہے، کبھی لباسِ معشوقاں میں ناز و عشوہ برداریوں کے ساتھ تغافل کیش ہوتا ہے،تو کبھی موسیٰ کے اصرار پرفروغِ تجلی سے طور کو خاکستر کردیتا ہے۔اردو غزلیں ان کے اپنے مشہور نظریے ’’ہمہ اوست‘‘ کا آئینہ ہیں۔ زبان و بیان پر قدرت، اظہارِ بیان میں ندرت ، فصاحت اور معانی کی بلاغت میں اپنی مثال آپ ہیں۔فارسی غزلیں ہوں یا اردو غزلیں، ان میں یہ تمام شاعرانہ کمالات اور نظریاتی جمالیات دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کا مشرب عرفان حق اور اس کے مقتضیات پر کاربند ہونے کا ہے۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ عشق کا تقاضہ پریشانی خاطر ہے، اور یہی پریشانی خاطر ہمارا ایمان ہے:

قید ِ مذہب سببِ سلفِ تجرد تا دید
دل بے قید زہر گبر و مسلماں برگشت

ہر کہ سودائے محبت بہ سرزلف تو کرد
نقدِ جمعیت دل داد و پریشاں برگشت

ختم شد
 
آخری تدوین:
Top