شاہ عالمی گیٹ : تاریخ اور ثقافت - شیراز حسن


تحریر: شیراز حسن
شہر لاہور کے دروازے
تقسیم ہند
فضا دھوئیں سے آلود تھی…. گلی کوچوں میں ہُو کا عالم تھا اور لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے…. اور شاہ عالمی سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے…. اندرون شہر جہاں کبھی خوشبوﺅں سے گلیاں مہکتی اور چہروں پر مسکان لئے افراد خوشیوں کے گیت گنگناتے تھے تقسیم ہند کے وقت ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے تھے۔شہر فسادات کی لپیٹ میں تھا اور شاہ عالمی جل رہا تھا۔ شہر قدیم کا تاریخی شاہ عالمی دروازے کا علاقہ تقسیم کے وقت لگائی جانے والی آگ کی نذر ہوگیا ۔
تاریخی پسمنظر
شہر قدیم کے جنوب کی سمت موچی دروازے اور لوہاری دروازے کے درمیان شاہ عالمی دروازہ واقع ہے۔ یہ دروازہ اورنگزیب عالمگیر کے بیٹے اور جانشین محمد معظم شاہ کے نام سے موسوم ہے۔جس کی وفات لاہور میں ہوئی تھی۔ قبل ازیں اس دروازے کو کسی اور نام سے پکارا جاتا تھا۔ ایک روایت کے مطابق اس دروازے کا پرانا نام بھیر والا دروازہ تھا۔ کنہیا لال تاریخ لاہور میں اس دروازے کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ”چند دنوں کے لئے بادشاہ لاہور آیا تو اس نے چاہا کہ اکبر بادشاہ اپنے جدّ اعلیٰ کی طرح ایک دروازہ اس شہر میں اپنے نام سے موسوم کرے اور اپنے رونق افزا ہونے کی یادگار لاہور میں چھوڑ جائے۔ اس نے یہ تجویز قائم کر کے منادی کرادی کہ آئندہ یہ دروازہ شاہ عالمی پکارا جائے گا۔ چنانچہ اس روز سے آج تک شاہ عالمی دروازہ کہلاتا ہے“۔ انگریز دور میں اس دروازے کی پرانی عمارت کو گرا کر از سر نو تعمیر کیا گیا تھا اور محققین کے مطابق اس دروازے کی وضع قطع پرانی عمارت جیسی ہی تھی۔
دور انگریز اور قیام پاکستان
غافر شہزاد اپنی تصنیف ”گھر، گلیاں اور دروازے“ میں شاہ عالمی دروازے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”یہ دروازہ بھی انگریزی عہد میں دیگر دروازوں کی طرح پرانے اندازِ تعمیر میں1892ءسے قبل چھوٹی اینٹوں سے تعمیر ہوا اور چونے کا مسالہ استعمال کیا گیا۔ بالائی منزل پر پولیس کی گارد رہتی تھی۔ قیام پاکستان کے وقت اندرون شہر کے اس حصے میں زیادہ لوٹ مار ہوئی، عمارات کو آگ لگا دی گئی بڑی بڑی عمارات اینٹوں کا ڈھیر بن گئیں ۔ قیام پاکستان کے بعد شاہ عالمی دروازے کو گرا دیا گیا اندرون شاہ عالمی دروازہ ملبہ صاف کر کے قدرے کھلی اور بڑی عمارات بنا دی گئیں جو آج غیر ملکی اشیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔“
قیام پاکستان سے پہلے شاہ عالمی دروازے کے اندر ہندو اکثریت کی آبادی تھی اور بازار اتنے تنگ تھے کہ وہاں سے پیدل گزر مشکل سے ہوتا تھا۔ البتہ اس دور میں بھی یہ علاقہ تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔
آج کا شاہ علمی
آج شاہ عالمی دروازے کا علاقہ شہر قدیم کے دیگر دروازوں سے بالکل مختلف ہے۔ یہ گمان بھی نہیں ہوتا کہ کبھی یہاں پر شہر لاہور کا تاریخی دروازہ ہوا کرتا تھا۔ اب اس دروازے کا فقط نام رہ گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے یہ دروازہ دیکھا تھا وہ یہاں سے گزرتے ہوئے اس کے آثار ڈھونڈنے کے لئے کچھ عرصہ ضرور قیام کرتے تھے بلکہ ان کے پاﺅں خود بخود یہاں رک جاتے تھے۔
شاہ عالمی دروازے کے اندر داخل ہوں تو ایک کشادہ سڑک دکھائی دیتی ہے۔ تجارتی مرکز ہونے کی بنا پر یہ دو رویا سڑک تجاوزات اور ٹریفک سے بھری رہتی ہے۔ اس کے بائیں جانب پاپڑ مندی کا بازار شروع ہو جاتا ہے اور متی چوک تک پہنچتا ہے جہاں چھاپہ سٹریٹ اور چوک متی بازار کے راستے بھی آپس میں آن ملتے ہیں۔شاہ عالمی دروازے کی مرکزی سڑک پر آگے بڑھیں تو مچھی ہٹہ بازار سے ہوتے ہوئے رنگ محل چوک پہنچ جاتے ہیں۔ رنگ محل چوک میں لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا تعمیر کردہ کثیر المنزلہ پارکنگ پلازہ ہے۔ البتہ یہ پلازہ اس علاقے کے پارکنگ کے مسائل کے تناسب سے ناکافی ہے۔
بیرون شاہ عالمی دروازے سے رنگ محل تک کا سارا علاقہ بین الاقوامی تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ علاقہ زیورات سے لیکر گارمنٹس، کراکری، گروسری، مٹی کے برتن ہوں یا الیکٹرانکس کا سامان، بچوں کے کھلونے ہوں یا دفتری اورگھریلو استعمال کی اشیا کی بڑی منڈی ہے ۔ غرض روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے والی تمام اشیا یہاں دستیاب ہیں۔ تجارتی اعتبار سے سے رنگ محل کا علاقہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور یہ علاقہ صبح سے رات گئے ٹریفک اور لوگوں کے ہجوم سے بھرا رہتا ہے۔

خواتین کی دلچسپی کے بازار : سوہا بازار، کناری بازار، گمٹی بازار، ڈبی بازار
اندرون شالمی دروازے میں سونے کے زیورات کے حوالے سے مشہور سوہا بازار بھی ہے۔ سوہا بازار کی تنگ و تاریک گلیوں میں سینکڑوں سنیارے قبل از تقسیم سے یہاں کاروبار کر رہے ہیں۔

سوہا بازار، رنگ محل
دکانوں پر سجے سونے کے زیورات بڑی بڑی روشنیوں میں بازار دلہن کی طرح سجا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کناری بازار ہے۔ جو خاص طور پر خواتین کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ یہ بازار گوٹا کناری اور خواتین کے استعمال کی دیگر اشیا کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔خواتین شادیوں کی خریداری اسی بازار سے کرنا پسند کرتی ہیں۔ اسی علاقے میں کھسہ، پشاوری چپل اور کولہا پوری چپل کی بھی بے شمار دوکانیں ہیں۔ دوسری جانب گمٹی بازار اور ڈبی بازار ہیں جو چوڑیوں کے لئے مشہور ہیں۔ مجموعی طور پر یہ سارے بازار خواتین کی دلچسپی کا سارا سامان مہیا کرتے ہیں۔
ایشیا کی سب سے بڑی کپڑے کی منڈی
رنگ محل سے ایک رستہ ایشیا کی سب سے بڑی کپڑے کی منڈی اعظم کلاتھ مارکیٹ سے ہوتا ہوا کشمیری دروازے کی جانب نکل جاتا ہے۔ اعظم کلاتھ مارکیٹ میں لگ بھگ 16000کپڑے کی دوکانیں ہیں اور پورے ملک سے تاجر یہاں روزانہ کروڑوں روپے کی تجارت کرتے ہیں۔ اگر آپ سٹیل، تانبہ اور کانسی کے برتنوں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو دھات کے برتن اور دیگردھاتی سامان کا لئے کسیرا بازار اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا کے حوالے سے بھی اندرون شہر کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی کھانے پینے کی بے شمار دوکانیں ہیں۔ خاص طور رنگ محل کا قلفہ ، پٹھورے اور نہاری خوش ذائقہ اور لذت سے بھرپور ہوتے ہیں۔
ثقافتی و تاریخی اہمیت
اندرون شاہ عالمی دروازے بھی ماضی میں اہم ثقافتی و تاریخی اہمیت کا حامل تھے۔ اندرون شاہ عالمی دروازے کی اہم عمارات میں پری محل، رنگ محل، لال مسجد، مسجد ایاز اور باﺅلی باغ جیسی عمارتیں ہیں۔ لال مسجد کا قدیمی حسن بھی مانند پڑ چکا ہے۔ بالائی منزل کے صحن پر چھت ڈالنے اور پہلی منزل پر پانی کی ٹنکنی و طہارت خانے کی تعمیر سے اس کی بیرونی حسن بھی متاثر ہوا ہے۔
اندرون شاہ عالمی دروازے رنگ محل میں واقع قدیم مسجد پری محل کو گرا کر نئی مسجد ایاز تعمیر کر دی گئی ہے۔قدیم مسجد پری محل کی عمارت دو منزلہ تھی۔ مسجد ایاز کے سامنے سکھ دور میں تعمیر ہونے والا تاریخی باﺅلی باغ ہے۔ ماضی میں یہ سکھوں کی اہم عبادت گاہ کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ اس باغ اور اس میں موجود قدیم عمارتوں کی تعمیرکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو نے جہانگیر کے دور میں تعمیر کروائی تھی۔ شہر کے تجارتی مرکز میں واقع یہ پرسکون احاطہ ذہن کو آسودگی بخشتا ہے۔ یہاں اب بھی روایتی بیٹھکیں ہوتی ہیں اور فارغ اوقات میں لوگ مختلف کھیل کھیلتے ہیں۔
چوک رنگ محل سے آگے دائیں جانب جائیں تو سنہری مسجد اور مسجد وزیر خان تک پہنچ جاتے ہیں اور یہ راستہ دہلی دروازے کی جانب آن نکلتا ہے۔ اسی طرح چوک رنگ محل سے بائیں جانب جائیں تو یہ راستہ چونا منڈی اور مسجد مریم زمانی سے ہوتا ہوا مستی دروازے کی جانب جا نکلتا ہے۔ کنہیا لال کی نے ’تاریخ لاہور‘ میں اندرون شاہ عالمی دروازے میں دیوان لکھپت رائے اور حویلی جسپت رائے کا ذکر ملتا ہے۔ یہ دو عالی شان عمارتیں زنانہ حویلیاں جو دونوں بھائےوں نے کمال استحکام سے تعمیر کروائی تھی۔ لکھپت رائے کا دیوان پاپڑ منڈی میں بھی تھا جو سکھی عہد میں ضبط رہا اور انگریز دور میں نیلام کر دیا گیا۔
شاہ جہاں کے دور میں وزیر خان نے شاہ عالمی دروازے کے اندر پری محل کے نام سے ایک حویلی تعمیر کروائی۔ یہ عمارت حسن و خوبصورتی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھی اسی لیے اس کو پری محل کا نام دیا گیا۔ اس کے دو درجے تھے ایک زنانہ اور دوسرا مردانہ تھا۔ نواب وزیر خان نے اپنے عہد حکومت میں اسی جگہ قیام کیا تھا۔ سکھ عہد کے اولین دور میں تین سکھ سرداروں نے اس کے پتھر نکلوائے اور فروخت کر دیے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تو یہ حویلی بھی اس کی ملکیت میں آگئی اور اس حویلی میں رنجیت سنگھ کی فوج نے قیام کیا اور اسے بارود سے بھر دیا گیا اور بڑی بڑی عمارتوں کو گرا کر کھلا میدان بنا دیا گیا۔ انگریز دور میں اگرچہ نواب وزیر خان کی اولاد نے اس حویلی کے حصول کے لئے بہت کوششیں کی لیکن ان کے دعوے کی سماعت کسی نے نہیں کی کیونکہ یہ حویلی عرصہ دراز تک سکھوں کے قبضے میں رہی۔ بعدازاں ٹھیکیدار محمد سلطان نے اس عمارت کو خرید لیا اور اینٹیں دیگر عمارتوں کی تعمیر کے لئے استعمال کی گئیں۔
لاہور کی ہندو آبادی
تقسیم ہند سے قبل جن علاقوں میں ہندوﺅں کی واضح اکثریت تھی ان میں اندرون شاہ عالمی، کرشن نگر، نسبت روڈ، قلعہ گوجر سنگھ ، ماڈل ٹاﺅن، سنت نگر، شام نگر، چوک سوتر منڈی ، رام گلی اور پرانی انارکلی شامل تھے۔ نکلسن روڈ اور بیڈن روڈ پر ہندوﺅں اور سکھوں کی ملی جلی آبادی تھی۔ اندرون شہر شاہ عالمی اور سوہا بازار سے متصل گلی کو چوں میں ہندوﺅں کی اکثریت آباد تھی اور ان علاقوں کو ہندوﺅں کا گڑھ بھی کہا جاتا تھا۔تقسیم کے وقت سب سے زیادہ فسادات کی نذر ہونے والا علاقہ شاہ عالمی دروازے کا تھا۔ یہ ہندو اکثریتی اور تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے بری طرح تباہ ہوا۔ لوٹ مار کے بعد گھروں اور دوکانوں کو آگ لگا دی گئی ۔ اور چاروں جانب سے آگ کے شعلے بلند ہوتے رہے۔ بعدازاں بارشوں کے باعث کہنہ اور خستہ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔
لاہور کی ہندو آبادی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ لاہور پاکستان میں شامل کر لیا جائے گا۔ جب پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس پر یہ اعلان ہوا کہ لاہور پاکستان کے حصے میں آیا اور واہگہ پاکستان کی سرحد مقرر ہوئی ہے تو ہندوﺅں کے اوسان خطا ہوگئے۔ گوپال متل اس حوالے سے اپنی آپ بیتی ”لاہور کا جو ذکر کیا“ میں لکھتے ہیں کہ ہندوﺅں کے رنگ اُڑ گئے۔ بعد میں ایک روایت یہ بھی سنی گئی کہ ہندوﺅں نے یہ کوشش بھی کی کہ لاہور کو برلن کی طرح دوحصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ شاہ عالمی سے کرشن نگر تک کا علاقہ ہندوﺅں کے پاس رہے مگر یہ خیال خام ثابت ہوا۔ سوم آنند اپنی تصنیف ”باتیں لاہور کی“ میں شاہ عالمی کے علاقے میں ہونے والی تباہی کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں کہ”صورتحال اپنے نقطہ عروج پر اس وقت پہنچی جب شاہ عالمی کے علاقے کو آگ لگی۔ آبادی یہاں کی بہت گھنی تھی اور گلیاں اس قدر تنگ تھیں کہ بیک وقت دو افراد کا گزرنا بھی مشکل ہوتا۔ بہت سے مقامات پر تو دوپہر کو سورج کی روشنی بھی نہ نظر آتی۔ اگست یا ستمبر کے دنوں میں یہاں آگ لگنے کے واقعات ہونے لگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہ عالمی کی آگ بہت بھیانک تھی ۔ رات کے وقت شہر سے پانچ میل دور ماڈل ٹاﺅن میں بھی اس کی روشنی دکھائی دیتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے سارا لاہور جل رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سارا شاہ عالمی ملبے کا ڈھیر ہوگیا۔“ شاہ عالمی کی تباہی کے بعد اس دروازے کے عمارت کو بھی گرا دیا گیا اور ملبہ ہٹانے کے بعد یہ علاقہ خاصا کشادہ شکل اختیار کر گیا۔ تقسیم سے قبل شاہ عالمی کا مرکزی بازار بمشکل 20فٹ چوڑا تھا۔ حکومت پاکستان نے ایک آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت بیس فٹ چوڑی سڑک کو اسی فٹ چوڑا کر دیا گیا۔ نو مرلہ کمرشل پلاٹ بنائے گئے۔ عمارات کی حد اونچائی ساٹھ فٹ مقرر کی گئی۔ کھلی اور کشادہ سڑکوں کی تعمیر کی گئی اور نکاسی آب کے نظام کو بھی بہتر بنایا گیا۔
فن و ثقافت کا گہوارہ
آج شاہ عالمی دروازے کا علاقہ اپنی تاریخی و اہمیت کھو رہا ہے۔ کمرشل پلازوں کی تعمیر اور ٹریفک کے بے پناہ رش، دھوئیں اور شور کے باعث صبح سے رات گئے تک اس علاقے میں افرا تفری کا سماں رہتا ہے۔ البتہ شاہ عالمی مارکیٹ لاہور کی سب سے بڑی تجارتی منڈی ہے۔ تقسیم ہند کے وقت یہ علاقہ آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں تھا اور آج پاکستان کا اہم تجارتی مرکز بن چکا ہے۔ البتہ آگ لگنے کے واقعات اکثر و بیشتر پیش آتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر بجلی کے ناقص انتظامات کے باعث وقتاً فوقتاً یہ علاوقہ شعلوں کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ ٹریفک جام اور بے پناہ رش کے باعث ایمبولنس اور فائر بریگیڈز کا متاثرہ مقامات تک پہنچنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اندرون شاہ عالمی کبھی شہر قدیم کے دیگر دروازوں کی طرح فن و ثقافت کا گہوارہ ہوا کرتا تھا ۔ یہاں کے گلی کوچوں میں چہل پہل اور جھروکوں سے قہقہوں کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔ اس علاقے نے تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات کے زخم اپنے سینے پر کھائے اور آج یہاں کی بلند و بالا عمارتوں، ٹریفک کا دھوئیں ، شور اور دن رات جاری تجارتی سرگرمیوں میں لاہور کی ثقافت کہیں دب کر رہ گئی ہے۔
 
Top