شام کے سرمئی اندھیروں میں۔۔۔ علی شیر

محسن حجازی

محفلین
[youtube]



شام کے سرمئی اندھیروں میں یوں میرے دل کے داغ جلتے ہیں
جیسے پربت کے سبز پیڑوں پر برف کے بعد دھوپ پڑتی ہے
جیسے صحرا کی ریت اڑ اڑ کر اجنبی کا طواف کرتی ہے۔۔۔

شام کے سرمئی اندھیروں میں۔۔۔

دور کر رہ کر جو دل میں رہتا ہے وہ ستم گر بھی غیر کہتا ہے
کتنی معصوم آرزؤں کو اس طرح لوگ توڑ جاتے ہیں
جیسے دم توڑتے مسافر کو قافلے والے چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔

شام کے سرمئی اندھیروں میں۔۔۔

آہیں بھرتا ہوں اشک پیتا ہوں روز مرتا ہوں پھر بھی جیتا ہوں
تیری یادوں کی تشنگی اب تک یوں میرے دل کو تھام لیتی ہے
جیسے اک تازہ قبر پر بیوہ مرنے والے کا نام لیتی ہے۔۔۔
 
Top