شام کے بحران پر مذاکرات: ایران سے شرکت کی دعوت واپس

حاتم راجپوت

لائبریرین
140120070532_aleppo_free_army_304x171_reuters_nocredit.jpg

شام میں تین سال سے جاری خانہ جنگی میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے امریکی دباؤ پر ایران کو شام کے تنازعے پر اس ہفتے سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کی دعوت واپس لے لی ہے جس کا امریکہ نے خیر مقدم کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی جانب سے ایران کو مذاکرات میں شرکت دعوت دینے پر امریکہ اور مغرب کی حمایت یافتہ شامی حزبِ مخالف ناراض ہو گئے تھے۔

اس سے قبل اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے ایران کو دعوت دی تھی کہ وہ شام کے تنازعے پر ہونے والے مذاکرات میں شرکت کرے۔

اقوامِ متحدہ کے ترجمان مارٹن نے ایران کی جانب سے شام کی عبوری حکومت کے قیام کے منصوبے کی حمایت نہ کرنے پر تنقید کی تھی۔

مارٹن کا کہنا تھا کہ بان کی مون نے سینئیر ایرانی حکام سے پرائیوٹ ملاقات کے بعد ایران کو ان مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی تھی جس کے بعد ایرانی حکام نے انھیں یقین دلایا تھا کہ وہ اس کانفرنس کے مقاصد کی حمایت کرتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ایران نے پیر کو ایسے بیانات جاری کیے جس میں اس نے اس کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے کسی بھی شرط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ایران دو روز کے بعد جنیوا میں ہونے والے ان مذاکرات میں شامل ہو گا یا نہیں۔

ادھر امریکی حکام نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایران کو مذاکرات میں شرکت کی دعوت واپس لینے کا خیر مقدم کیا ہے۔

140117130933_aleppo_304x171_reuters.jpg

شامی تنازعے کی وجہ سے ایک تخمینے کے مطابق 20 لاکھ شامی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں

شامی حکومت اور مغرب کی حمایت یافتہ شامی حزبِ مخالف اس کانفرنس کے لیے اپنے وفود بھیج رہے ہیں۔

شام کی حزبِ مخالف کے قومی اتحاد نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایران ان مذاکرات میں شامل ہوا تو وہ ان مذاکرات سے نکل جائیں گے۔

قومی اتحاد کے چیف آف سٹاف منذر اکبک نے بی بی سی کو بتایا کہ ایران کو مذاکرات میں شرکت کی دعوت واپس لینے کا فیصلہ ایک درست فیصلہ ہے۔

شامی حزبِ اختلاف نے اس سے قبل اس وقت تک سوئٹزرلینڈ جانے سے انکار کر دیا تھا جب کہ شامی صدر بشارالاسد کو آئندہ بننے والی کسی عبوری حکومت میں حصہ نہ لینے دیا جائے۔

بشارالاسد نے پیر کو کہا تھا اس بات کا امکان کہ قومی اتحاد کو ایک نئی حکومت میں وزارت دی جائے گی بالکل غیر حقیقت پسندانہ عمل ہے۔

روس شام میں ایران کے کردار کے حامی ہے لیکن امریکہ کو اس پر تحفظات ہیں کیونکہ ایران نے سنہ 2012 کے جنیوا مراسلے کی توثیق نہیں کی جس میں شام کے عبوری سیاسی عمل کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

امریکہ کو ایران کی جانب سے شام میں فوجی بھیجنے پر اور اس کی لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کی حمایت پر بھی تشویش ہے۔ حزب اللہ نے شام کی سرکاری فوج کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے اپنے جنگجو بھیجے تھے۔

ان مذاکرات کو جنیوا ٹو کا نام دیا گیا ہے اور یہ جنیوا کے قریب مونٹرو نامی قصبے میں بدھ سے شروع ہو رہے ہیں۔

شام میں تین سال سے جاری خانہ جنگی میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک تخمینے کے مطابق 20 لاکھ شامی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں جب کہ 65 لاکھ سے زائد ملک کے اندر بےگھر ہو گئے ہیں۔

ربط۔
 
Top