شامِ شہرِ یاراں ۔ فیض احمد فیض (نثری مضامین)

فاتح

لائبریرین
پیش گفتار

پیش گفتار
جب میں نے اس مجموعے کا مسودہ اشاعت کے لیے بھیجا تو اپنے دوست اور ناشر چودھری عبد الحمید صاحب کی جانب سے فرمائش وصول ہوئی کہ اس میں کچھ نثر کا بھی اضافہ ہونا چاہیے، اس لیے کہ بقول ان کے بعض لوگوں کو مصنف کی ذات میں بھی دلچسپی ہے۔ ایک عزیز اور کرم فرما مرزا ظفر الحسن پہلے ہی سے اس کام کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ چنانچہ انہی کے جمع کردہ مصالح کا کچھ حصہ ان صفحات میں شامل کر دیا گیا ہے۔
فیض​
 

فاتح

لائبریرین
عہدِ طفلی سے عنفوانِ شباب تک (انٹرویو)

عہدِ طفلی سے عنفوانِ شباب تک
(مرزا ظفر الحسن سے ایک گفتگو)​
ہمارے شعرا کو مستقلاً یہ شکایت رہی ہے کہ زمانے نے ان کی قدر نہیں کی۔ ناقدریِ ابنائے وطن ہماری شاعری کا ایک مستقل موضوع ہے۔ ہمیں اس سے اُلٹ شکایت یہ ہے کہ ہم پہ لطف و عنایات کی اس قدر بارش رہی ہے، اپنے دوستوں کی طرف سے، اپنے ملنے والوں کی طرف سے اور ان کی جانب سے بھی جن کو ہم جانتے بھی نہیں، اکثر ندامت ہوتی ہے کہ اتنی داد و دہش کا مستحق ہونے کے لیے جو تھوڑا بہت کام ہم نے کیا ہے اس سے بہت زیادہ ہمیں کرنا چاہیے تھا۔
یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ بچپن ہی سے اس قسم کا تاثر رہا ہے۔ جب ہم بہت چھوٹے تھے اسکول میں پڑھتے تھے تو سکول کے لڑکوں کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات قائم ہو گئے تھے کہ خوامخواہ انہوں نے ہمیں لیڈر تسلیم کر لیا تھا حالانکہ لیڈری کی صفات ہم میں نہیں تھیں۔ یا تو آدمی بہت لٹھ باز ہو کہ دوسرے اس کا رعب مانیں یا وہ سب سے بڑا فاضل ہو۔ ہم پڑھنے لکھنے میں ٹھیک تھے، کھیل بھی لیتے تھے، لیکن پڑھائی میں ہم نے کوئی ایسا کمال پیدا نہیں کیا تھا کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔
بچپن کا میں سوچتا ہوں تو ایک یہ بات خاص طور پر یاد آتی ہے کہ ہمارے گھر میں خواتین کا ایک ہجوم تھا۔ ہم جو تین بھائی تھے ان میں ہمارے چھوٹے بھائی (عنایت) اور بڑے بھائی (طفیل) خواتین سے باغی ہو کر کھیل کود میں مصروف رہتے تھے۔ ہم اکیلے ان خواتین کے ہاتھ آ گئے۔ اس کا کچھ نقصان بھی ہوا اور کچھ فائدہ بھی۔ فائدہ تو یہ ہوا کہ ان خواتین نے ہم کو انتہائی شریفانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا۔ جس کی وجہ سے کوئی غیر مہذب یا اجڈ قسم کی بات اس زمانے میں ہمارے منہ سے نہیں نکلتی تھی۔ اب بھی نہیں نکلتی۔ نقصان یہ ہوا، جس کا مجھے اکثر افسوس ہوتا ہے کہ بچپن میں کھلنڈرے پن یا ایک طرح کے لہو و لعب کی زندگی گزارنے سے ہم محروم رہے۔ مثلاً یہ کہ گلی میں کوئی پتنگ اُڑا رہا ہے، کوئی گولیاں کھیل رہا ہے، کوئی لٹو چلا رہا ہے، ہم بس کھیل کود کو دیکھتے رہتے تھے، اکیلے بیٹھ کر۔ ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے کے مصداق ہم ان تماشوں کے صرف تماشائی بنے رہتے اور ان میں شریک ہونے کی ہمت اس لیے نہیں ہوتی تھی کہ اسے شریفانہ شغل یا شریفانہ کام نہیں سمجھتے تھے۔
اساتذہ بھی ہم پر مہربان رہے۔ آج کل کی میں نہیں جانتا، ہمارے زمانے میں تو سکول میں سخت پٹائی ہوتی تھی۔ ہمارے عہد کے استاد تو نہایت ہی جلاد قسم کے لوگ تھے۔ صرف یہی نہیں کہ ان میں سے کسی نے ہم کو ہاتھ نہیں لگایا بلکہ ہر کلاس میں ہم کو مانیٹر بناتے تھے۔ بلکہ (ساتھی لڑکوں کو) سزا دینے کا منصب بھی ہمارے حوالے کرتے تھے۔ یعنی فلاں کو چانٹا لگاؤ، فلاں کو تھپڑ مارو۔ اس کام سے ہمیں بہت کوفت ہوتی تھی اور ہم کوشش کرتے تھے کہ جس قدر بھی ممکن ہو یوں سزا دیں کہ ہمارے شکار کو وہ سزا محسوس نہ ہو۔ طمانچے کی بجائے گال تھپتھپا دیا، یا کان آہستہ سے کھینچا وغیرہ۔ کبھی ہم پکڑے جاتے تو استاد کہتے یہ کیا کر رہے ہو، زور سے چانٹا مارو۔
دو تاثر بہت گہرے ہیں ایک تو یہ کہ بچوں کی جو دلچسپیاں ہوتی ہیں ان سے محروم رہے۔ دوسرے یہ کہ اپنے دوستوں، ہم جماعتوں اور اپنے اساتذہ سے ہمیں بے پایاں شفقت و خلوص ملا جو بعد کے زمانے کے دوستوں اور معاصرین سے بھی ملا اور آج تک مل رہا ہے۔
صبح ہم اپنے ابّا کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ اذان کے ساتھ ہم اُٹھ بیٹھے، ابّا کے ساتھ مسجد گئے، نماز ادا کی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے، درس قرآن سنا، ابّا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی سیر کے لیے گئے پھر سکول۔ رات کو ابّا بُلا لیا کرتے خط لکھنے کے لیے۔ اس زمانے میں انہیں خط لکھنے میں کچھ دقّت ہوتی تھی۔ ہم ان کے سیکرٹری کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں اخبار بھی پڑھ کر سناتے تھے۔ ان مصروفیات کی وجہ سے ہمیں بچپن میں بہت فائدہ ہوا۔ انگریزی اخبارات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے ہماری استعداد میں کافی اضافہ ہوا۔
ایک اور یاد تازہ ہوئی۔ ہمارے گھر سے ملی ہوئی ایک دکان تھی، جہاں کتابیں کرائے پر ملتی تھیں۔ ایک کتاب کا کرایہ دو پیسے ہوتا۔ وہاں ایک صاحب ہوا کرتے تھے جنہیں سب "بھائی صاحب" کہتے تھے۔ بھائی صاحب کی دکان میں اردو ادب کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ ہماری چھٹی ساتویں جماعت کی طالب علمی میں جن کتابوں کا رواج تھا وہ آج کل قریب قریب مفقود ہو چکی ہیں جیسے طلسم ہوش ربا، فسانہ آزاد، عبد الحلیم شرر کے ناول وغیرہ۔ یہ سب کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اس کے بعد شاعروں کا کلام پڑھنا شروع کیا۔ داغ کا کلام پڑھا۔ میر کا کلام۔ غالب تو اس وقت بہت زیادہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسروں کا کلام بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا نہیں آتا تھا۔ لیکن ان کا دل پہ اثر کچھ عجب قسم کا ہوتا تھا۔ یوں شعر سے لگاؤ پیدا ہوا اور ادب میں دلچسپی ہونے لگی۔
ہمارے ابّا کے منشی گھر کے ایک طرح کے مینجر بھی تھے۔ ہمارا ان سے کسی بات پر اختلاف ہو گیا تو انہوں نے کہا کہ اچھا آج ہم تمہاری شکایت کریں گے کہ تم ناول پڑھتے ہو۔ سکول کی کتابیں پڑھنے کی بجائے چھُپ کر انٹ سنت کتابیں پڑھتے ہو۔ ہمیں اس سے بہت ڈر لگا اور ہم نے ان کی بہت منّت کی کہ شکایت نہ کریں مگر وہ نہ مانے اور ابّا سے شکایت کر ہی دی۔ ابّا نے ہمیں بلایا اور کہا میں نے سنا ہے تم ناول پڑھتے ہو۔ میں نے کہا جی ہاں۔ کہنے لگے ناول ہی پڑھنا ہے تو انگریزی ناول پڑھو۔ اردو کے ناول اچھے نہیں ہوتے۔ شہر کے قلعہ میں جو لائبریری ہے وہاں سے ناول لا کر پڑھا کرو۔
ہم نے انگریزی ناول پڑھنے شروع کیے۔ ڈکنس، ہارڈی اور نہ جانے کیا کیا پڑھ ڈالا۔ وہ بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا پلّے نہ پڑتا تھا۔ اس مطالعہ کی وجہ سے ہماری انگریزی بہتر ہو گئی۔ دسویں جماعت میں پہنچنے تک محسوس ہوا کہ بعض استاد پڑھانے میں کچھ غلطیاں کر جاتے ہیں۔ ہم ان کی انگریزی درست کرنے لگے۔ اس پر ہماری پٹائی تو نہ ہوئی البتہ وہ استاد کبھی خفا ہو جاتے اور کہتے تمھیں ہم سے اچھی انگریزی آتی ہے تو پھر تم ہی پڑھایا کرو ہم سے کیوں پڑھتے ہو۔
اس زمانے میں کبھی کبھی مجھ پر ایک خاص قسم کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ جیسے یکایک آسمان کا رنگ بدل گیا ہے۔ بعض چیزیں کہیں دور چلی گئی ہیں۔ دھوپ کا رنگ اچانک حنائی ہو گیا ہے۔ پہلے جو دیکھنے میں آیا تھا، اس کی صورت بالکل مختلف ہو گئی ہے۔ دنیا ایک طرح کی پردۂ تصویر کے قسم کی چیز محسوس ہونے لگتی تھی۔ اس کیفیت کا بعد میں بھی کبھی کبھی احساس ہوا ہے مگر اب نہیں ہوتا۔
مشاعَرے بھی ہوا کرتے تھے۔ ہمارے گھر سے ملی ہوئی ایک حویلی تھی جہاں سردیوں کے زمانے میں مشاعرے کیے جاتے تھے۔ سیالکوٹ میں پنڈت راج نرائن ارمان ہوا کرتے تھے جو ان مشاعروں کے انتظامات کرتے تھے، ایک بزرگ منشی سراج دین مرحوم تھے۔ علّامہ اقبال کے دوست سری نگر میں مہاراجہ کشمیر کے میر منشی۔ وہ صدارت کیا کرتے تھے۔ جب دسویں جماعت میں پہنچے تو ہم نے بھی تک بندی شروع کر دی اور ایک دو مشاعروں میں شعر پڑھ دیے۔ منشی سراج دین نے ہم سے کہا میاں ٹھیک ہے۔ تم بہت تلاش سے شعر کہتے ہو، مگر یہ کام چھوڑ دو، ابھی تو تم پڑھو لکھو اور جب تمہارے دل و دماغ میں پختگی آ جائے، تب یہ کام کرنا۔ اِس وقت یہ تضیع اوقات ہے۔ ہم نے شعر کہنا ترک کر دیا۔
جب ہم مرّے کالج سیالکوٹ میں داخل ہوئے اور وہاں پروفیسر یوسف سلیم چشتی اردو پڑھانے آئے جو اقبال کے مفسر بھی ہیں تو انہوں نے مشاعرے کی طرح ڈالی اور کہا طرح پر شعر کہو۔ ہم نے کچھ شعر کہے اور ہمیں بہت داد ملی۔ چشتی صاحب نے منشی سراج دین کے بالکل خلاف مشورہ دیا اور کہا فوراً اس طرف توجہ کرو۔ شاید تم کسی دن شاعر ہو جاؤ۔
گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے جہاں بہت ہی فاضل اور مشفّق اساتذہ سے نیاز مندی ہوئی۔ پطرس بخاری تھے، اسلامیہ کالج میں ڈاکٹر تاثیر تھے، بعد میں صوفی تبسّم صاحب آ گئے۔ ان کے علاوہ شہر کے جو بڑے ادیب تھے، امتیاز علی تاج تھے، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری صاحب تھے، اختر شیرانی تھے، ان سب سے ذاتی مراسم ہو گئے۔ ان دنوں اساتذہ اور طلبا کا رشتہ ادب کے ساتھ ساتھ کچھ دوستی کا سا بھی ہوتا تھا۔ کالج کی کلاسوں میں تو شاید ہم نے کچھ زیادہ نہیں پڑھا۔ لیکن ان بزرگوں کی صحبت اور محبت سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی محفلوں میں ہم پر شفقت ہوتی تھی اور ہم وہاں سے بہت کچھ حاصل کر کے اٹھتے تھے۔
ہم نے اپنے دوستوں سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ جب شعر کہتے تھے تو سب سے پہلے خاص دوستوں کو ہی سناتے تھے۔ ان سے داد ملتی تو مشاعروں میں پڑھتے۔ اگر کوئی شعر خود کو پسند نہ آیا یا دوستوں نے کہا نکال دو تو اسے کاٹ دیتے۔ ایم اے میں پہنچنے تک باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا تھا۔
ہمارے ایک دوست ہیں خواجہ خورشید انور، ان کی وجہ سے ہمیں موسیقی میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ خورشید انور پہلے تو دہشت پسند تھے، بھگت سنگھ گروپ میں شامل۔ انہیں سزا بھی ہوئی جو بعد میں معاف کر دی گئی۔ دہشت پسندی ترک کر کے وہ موسیقی کی طرف مائل ہوئے۔ ہم دن میں کالج جاتے اور شام کو خورشید انور کے والد خواجہ فیروز الدّین مرحوم کی بیٹھک میں بڑے بڑے استادوں کا گانا سنتے۔ یہاں اس زمانے کے سبھی استاد آیا کرتے تھے۔ استاد توکل حسین خاں، استاد عبد الوحید خاں، استاد عاشق علی خاں اور چھوٹے غلام علی خاں وغیرہ۔ ان استادوں کے ہم عصر اور ہمارے دوست رفیق غزنوی مرحوم سے بھی صحبت ہوتی تھی۔ رفیق لاء کالج میں پڑھتے تھے۔ پڑھتے تو خاک تھے، رسمی طور پر کالج میں داخلہ لے رکھا تھا۔ کبھی خورشید انور کے کمرے میں اور کبھی رفیق کے کمرے میں بیٹھک ہو جاتی تھی۔ غرض اس طرح ہمیں اس فن لطیف سے حظ اندوز ہونے کا کافی موقع ملا۔
جب ہمارے والد فوت ہوئے تو پتا چلا کہ گھر میں کھانے تک کو کچھ نہیں ہے۔ کئی سال تک در بدر پھرے اور فاقہ مستی کی۔ اس میں بھی لطف آیا، اس لیے کہ اس کی وجہ سے تماشائے اہلِ کرم دیکھنے کا موقع ملا۔ خاص طور پر اپنے دوستوں سے کالج میں ایک چھوٹا سا حلقہ بن گیا تھا۔ کوئٹہ کے ہمارے دو دوست تھے احتشام الدّین اور شیخ احمد حسین۔ ڈاکٹر حمید الدّین بھی اس حلقے میں شامل تھے۔ ان کے ساتھ شام کو محفل رہا کرتی۔ جوانی کے دنوں میں جو دوسرے واقعات ہوتے ہیں وہ بھی ہوئے اور ہر کسی کے ساتھ ہوتے ہیں۔
گرمیوں کی تعطیلات ہوتیں تو ہم کبھی خورشید انور اور بھائی طفیل کے ساتھ سری نگر چلے جایا کرتے اور کبھی اپنی ہمشیرہ کے پاس لائل پور پہنچ جاتے۔ لائل پور میں باری علیگ اور ان کے گروہ کے دوسرے لوگوں سے ملاقات رہتی۔ کبھی اپنی سب سے بڑی ہمشیرہ کے ہاں دھرم سالہ چلے جاتے۔ جہاں منظر قدرت دیکھنے کا موقع ملتا اور دل پر ایک خاص قسم کا نقش ہوتا۔ ہمیں انسانوں سے جتنا لگاؤ رہا اتنا قدرت کے مناظر اور مطالعۂ حسن فطرت سے نہیں رہا۔ پھر بھی ان دنوں میں نے محسوس کیا کہ شہر کے جو گلی محلے ہیں ان میں بھی اپنا ایک حسن ہے جو دریا و صحرا کوہسار یا سرو و سمن سے کم نہیں۔ البتہ اس کو دیکھنے کے لیے بالکل دوسری طرح کی نظر چاہیے۔
مجھے یاد ہے کہ ہم مستی دروازے کے اندر رہتے تھے۔ ہمارا گھر بالائی سطح پر تھا۔ نیچے بدرو بہتی تھی۔ چھوٹا سا ایک چمن تھا۔ چار طرف باغات تھے۔ ایک رات چاند نکلا ہوا تھا۔ چاندنی بدرو اور ارد گرد کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پڑ رہی تھی۔ چاندنی اور سائے یہ سب مل کر کچھ عجیب پر اسرار منظر بن گئے تھے۔ چاند کی عنایت سے منظر کی بد وضعی چھپ گئی تھی اور کچھ عجیب ہی قسم کا حسن پیدا ہو گیا تھا۔ جسے میں نے لکھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ایک آدھ نظم میں منظر کشی کی ہے جب شہر کی گلیوں محلّوں اور کٹڑیوں میں کبھی دوپہر کے وقت کبھی شام کے وقت کچھ اس قسم کا روپ آ جاتا ہے جیسے معلوم ہو کوئی پرستان ہے۔ "نیم شب، چاند، خود فراموشی، بام و در، خامشی کے بوجھ سے چُور" وغیرہ اسی زمانے سے متعلق ہیں۔
ایم۔اے میں پہنچے تو کبھی کلاس میں جانے کی ضرورت ہوئی کبھی بالکل جی نہ چاہا۔ دوسری کتابیں جو نصاب میں نہیں تھیں پڑھتے رہے۔ اس لیے امتحان میں کوئی خاص اعزاز حاصل نہیں کیا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ جو لوگ اول دوم آتے ہیں ہم ان سے زیادہ جانتے ہیں خواہ ہمارے نمبر ان سے کم ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ نات ہمارے اساتذہ بھی جانتے تھے۔ جب کسی استاد کا جیسے پروفیسر ڈکنسن یا پروفیسر ہریش چندر کٹا پالیا تھے، لیکچر دینے کو جی نہ چاہتا تو ہم سے کہتے ہماری بجائے تم لیکچر دو، ایک ہی بات ہے۔ البتہ پروفیسر بخاری بڑے قاعدے کے پروفیسر تھے وہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ پروفیسر ڈکنسن کے ذمّے انیسویں صدی کا نثری ادب تھا مگر انہیں اس موضوع سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے ہم سے کہا دو تین لیکچر تیار کر لو۔ دوسرے جو دو تین لائق لڑکے ہمارے ساتھ تھے ان سے بھی کہا دو دو تین تین لیکچر تم لوگ بھی تیار کر لو۔ کتابوں وغیرہ کے بارے میں کچھ پوچھنا ہو آ کے ہم سے پوچھ لینا۔ چنانچہ نیم استاد ہم اسی زمانے میں ہو گئے تھے۔
ابتدائی شاعری کے دوران میں یا کال کے زمانے میں ہمیں کوئی خیال ہی نہ گزرا کہ ہم شاعر بنیں گے۔ سیاست وغیرہ تو اس وقت ذہن میں بالک ہی نہ تھی۔ اگرچہ اس وقت کی تحریکوں، مثلاً کانگریس تحریک، خلافت تحریک یا بھگت سنگھ کی دہشت پسند تحریک کے اثرات تو ذہن میں تھے۔ مگر ہم خود ان میں سے کسی قصے میں شریک نہیں تھے۔
شروع میں خیال ہوا کہ ہم کوئی بڑے کرکٹر بن جائیں کیونکہ لڑکپن سے کرکٹ کا شوق تھا وہ بہت کھیل چکے تھے۔ پھر جی چاہا استاد بننا چاہیے۔ ریسرچ کرنے کا شوق تھا۔ ان میں سے کوئی بات بھی نہ بنی۔ ہم کرکٹر بنے نہ نقّاد اور نہ ریسرچ کیا۔ البتہ استاد ہو کر امرتسر چلے گئے۔
ہماری زندگی کا شاید سب سے خوشگوار زمانہ امرتسر ہی کا تھا اور کئی اعتبار سے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ جب ہمیں پہلی دفعہ پڑھانے کا موقع ملا تو بہت لطف آیا، اپنے طلبا سے دوستی کا لطف۔ ان سے ملنے اور روز مرہ کی رسم و راہ کا لطف، ان سے کچھ سیکھنے اور انہیں پڑھانے کا لطف۔ ان لوگوں سے دوستی اب تک قائم ہے۔ دوسرے یہ کہ اس زمانے میں کچھ سنجیدگی سے شعر لکھنا شروع کیا۔ تیسرے یہ کہ امرتسر میں ہی پہلی بار سیاست میں تھوڑی بہت بصیرت اپنے کچھ رفقا کی وجہ سے پیدا ہوئی جن میں محمود الظفر تھے، ڈاکٹر رشید جہاں تھیں۔ بعد میں ڈاکٹر تاثیر آ گئے تھے۔ یہ ایک نئی دنیا ثابت ہوئی۔ مزدوروں میں کام شروع کیا۔ سول لبرٹیز کی ایک انجمن بنی تو اس میں کام کیا۔ ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تو اس کی تنظیم میں کام کیا۔ ان سب سے ذہنی تسکین کا ایک بالکل نیا میدان ہاتھ آیا۔
ترقی پسند ادب کے بارے میں بحثیں شروع ہوئیں اور ان میں حصہ لیا۔ 'ادب لطیف' کی ادارت کی پیش کش ہوئی تو دو تین برس اس کا کام کیا۔ اس زمانے میں لکھنے والوں کے دو بڑے گروہ تھے۔ ایک "ادب برائے ادب" والے دوسرے ترقی پسند تھے۔ کئی برس تک ان دونوں کے درمیان بحثیں چلتی رہیں جس کی وجہ سے کافی مصروفیت رہی جو بجائے خود ایک بہت ہی دلچسپ اور تسکین دہ تجربہ تھا۔ بر صغیر میں ریڈیو شروع ہوا۔ ریڈیو میں ہمارے دوست تھے۔ ایک سید رشید احمد تھے جو ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ہوئے۔ دوسرے سومناتھ چپ تھے، جو آج کل ہندوستان میں شعبۂ سیاحت کے سربراہ ہیں۔ دونوں باری باری سے لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ہم اور ہمارے ساتھ شہر کے دو چار اور ادیب ڈاکٹر تاثیر، حسرت، صوفی صاحب اور ہری چند اختر وغیرہ، ریڈیو اسٹیشن آنے جانے لگے۔ اس زمانے میں ریڈیو کا پروگرام ڈائریکٹر آف پروگرامز نہیں بناتا تھا۔ ہم لوگ مل کر بنایا کرتے تھے۔ نئی نئی باتیں سوچتے تھے۔ ان دنوں ہم نے ڈرامے لکھے، فیچر لکھے، دو چار کہانیاں لکھیں، یہ سب ایک مستقل مشغلہ تھا۔ رشید جب دلی چلے گئے تو ہم دہلی جانے لگے۔ وہاں نئے نئے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ دہلی اور لکھنئو کے لکھنے والے گروہوں سے شناسائی ہوئی۔ مجاز، سردار جعفری، جاں نثار اختر، جذبی اور مخدوم مرحوم سے ریڈیو کے توسط سے رابطہ پیدا ہوا جس سے دوستی کے علاوہ بصیرت اور سوجھ بوجھ میں طرح طرح کے اضافے ہوئے۔ وہ سارا زمانہ مصروفیت کا بھی تھا اور ایک طرح سے بے فکری کا بھی۔
(ناتمام)​
 

فاتح

لائبریرین
فیض سے میری پہلی ملاقات (صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

فیض سے میری پہلی ملاقات
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم​

سن 1929ء تھا اور اکتوبر کا مہینہ۔ مجھے سینٹرل ٹریننگ کالج سے گورنمنٹ کالج میں آئے ہوئے کوئی تین ہفتے گزرے تھے۔ سابقہ درس گاہ کی خشک تدریسی فضا اور ضبط و نظم سے طبیعت گھٹی گھٹی سی تھی۔ نئے کالج میں آتے ہی طبیعت میں انبساط کی لہر دوڑ گئی۔ ادب و شعر کا شوق پھر سے ابھرا۔ چنانچہ "بزم سخن" کی وساطت سے ایک بڑے مشاعرے کی صدارت پروفیسر پطرس بخاری کے سپرد ہوئی۔ شام ہوتے ہی کالج کا ہال طلبہ سے بھر گیا۔ سٹیج کے ایک طرف نیاز مندانِ لاہور اپنی پوری شان سے براجمان تھے۔
مقابل میں لاہور کی تمام ادبی انجمنوں کے نمائندے صف آرا تھے۔ دونوں جانب سے خوش ذوقی اور حریفانہ شگفتگی ایک دوسرے کا خیر مقدم کر رہی تھی۔
روایتی دستور کے مطابق صدر نے اپنے کالج کے طلباء سے شعر پڑھانے کا اعلان کیا۔ دو ایک برخوردار آئے اور بڑے ادب و انکسار سے کلام پڑھ کر چلے گئے۔ اچانک ایک دبلا پتلا، منحنی سا لڑکا سٹیج پر نمودار ہوا، سیاہ رنگ، سادہ لباس، انداز میں متانت بلکہ خشونت، چہرے پر اجنبی ہونے کا شدید احساس۔ ادھر اُدھر چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ اتنے میں اس نے کہا: عرض کیا ہے، کلام میں ابتداء مشق کے باوجود پختگی اور اسلوب میں برجستگی تھی۔ سب نے داد دی۔ یہ حفیظ ہوشیار پوری تھے۔
پھر ایک نوجوان آئے، گورے چٹّے، کشادہ جبیں، حرکات میں شیریں روانی، آنکھیں اور لب بیک وقت نیم تبسم میں ڈوبے ہوئے۔ پطرس نے کچھ معنی خیز نظروں میں لاہور کے نیاز مندوں سے باتیں کیں اور ان کی نیم خاموشی کو رضا سمجھ کر دونوں نوجوانوں کو دوبارہ سٹیج پر بلایا۔ نیا کلام سنا۔ فیض صاحب نے غزل کے علاوہ ایک نظم بھی سنائی۔ غزل اور نظم دونوں میں سوچ کا انداز اور بیان کا اچھوتا اسلوب تھا۔
مشاعرہ ختم ہوا۔ قرار پایا کہ احباب ان دونوں کو ہمراہ لے کر غریب خانے پر جمع ہوں۔ رات کافی گزر چکی تھی۔ انہیں بورڈنگ میں پہنچنا تھا۔ بخاری صاحب نے ان کی غیر حاضری کا ذمہ لیا اور پھر گھنٹہ بھر کے لیے شعر و سخن کی صحبت قائم رہی۔ یہ ان کی طبع آزمائی کا امتحان نہیں، اساتذہ کی حوصلہ افزائی کا امتحان تھا۔ دونوں کامیاب رہے۔
ابھی پورا مہینہ نہیں گزرا تھا کہ کالج کے امتحانات کا آغاز ہوا، جس دن کی میں بات کر رہا ہوں اس دن پطرس کالج ہال میں مہتمم امتحانات تھے اور ہم جیسے نو تجربوں کو چھوٹے کمرے سپرد کیے گئے تھے۔ مجھے کالج کی دوسری منزل میں متعین کیا گیا۔ یہاں ایم۔اے انگلش کے طلبہ تھے اور ان میں فیض احمد فیض بھی تھے۔
امتحان کا کمرہ مقام احرام ہوتا ہے۔ امید واروں کے ذہنی امتحان کے ساتھ ساتھ ضبط و نظم کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ سگریٹ نوشی ممنوع تھی۔ میں نے اپنی عادت کو دبانے کے لیے پان کا انتظام کر لیا تھا۔ مگر فیض صاحب کبھی سوالات کے پرچے کی طرف نظر ڈالتے اور کبھی میری طرف نیم متبسم نظروں سے دیکھتے اور پھر قلم کو اُٹھا کر سر کو کھجاتے اور کبھی خاموشی سے اپنے پڑوسیوں کی مزاج پرسی کرتے، کبھی کبھی ان کا بایاں ہاتھ ایسے حرکت کرتا جیسے وہ کسی نامعلوم شے کو ٹٹول رہے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا، وہ اٹھے اور کہا ہمیں یہاں سگریٹ پینے کی اجازت ہے؟ میں نے کہا میں ابھی بتاتا ہوں۔
اتنے میں پطرس مختلف کمروں کا معاینہ کرتے کرتے میرے کمرے کے باہر آ کر کھڑے ہو گئے۔ میں تعظیماً پلیٹ فارم سے اتر کر دروازے پر پہنچا، پوچھا: سب ٹھیک ہے؟
میں نے کہا: جی!
میں نے عرض کیا: پروفیسر صاحب (میں انہیں پروفیسر صاحب کہا کرتا تھا) بعض طلبہ سگریٹ پینا چاہتے ہیں۔ اجازت ہے؟
پطرس نے میرے کان میں دبی آواز میں کہا۔
"جب تک پروفیسر جودھ سنگھ اس کالج کے پرنسپل نہیں بنتے، اس وقت تک پی سکتے ہیں۔" اور پھر مسکرا کر چلے گئے۔
میں نے اندر آتے ہی فیض صاحب کی طرف دیکھا اور اشاروں سے سگریٹ نوشی کا اعلان کیا۔ فیض صاحب کے ہاتھ میں فی الفور ایک سگریٹ نمودار ہوا جیسے قلم ہی سے ابھر آیا ہے۔
پھر قلم کے رش اور سگریٹ کے کش میں مقابلہ شروع ہوا اور اس کشمکش میں معطر دھوئیں کے غبارے پورے کمرے میں پھیل گئے۔ میں معلم تھا، ضبط و نظم کی زنجیروں میں جکڑا ہوا بیٹھا رہا اور قوام دار پان کو چھوڑ کر اس خوشبو سے اپنے ذوق سگریٹ نوشی کی تسکین میں محو ہو گیا۔
کیا معلوم تھا کہ دھوئیں کے یہ غبارے کالج کی چار دیواری سے دور دور تک فضا میں پھیل جائیں گے اور ان میں سگریٹ پینے والے کے معطر انفاس کی خوشبوئیں بھی لہرائیں گی اور ہنر و فن اور ادب کی دنیا کو اپنی آغوش میں لے لیں گی۔
 

فاتح

لائبریرین
ملامتی صوفی (اشفاق احمد)

ملامتی صوفی
اشفاق احمد​
میرا اور فیض صاحب کا نظریاتی اختلاف ہے۔ میں ایک شرعی آدمی ہوں اور فیض صاحب ملامتی صوفی ہیں۔ تاریخ میں ڈھونڈنے سے آپ کو کئی ایسی مثالیں مل جائیں گی جہاں ایک شرعی اور صوفی کی دوستی ہو گئ اور دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آخری منزلیں طے کیں۔ لیکن ایک شرعی آدمی کی کسی ملامتی سے دوستی نہیں ہوئی۔ فیض صاحب نے صوفی ازم کا اکتساب کسی سلسلہ میں بیعت کر کے نہیں کیا۔ نا ہی میرے اندازہ اور تحقیق کے مطابق انہوں نے ورد و وظیفہ یا چلہ کشی کی ہے۔ انہوں نے صوفیا کا ایک تیسرا راستہ اختیار کیا ہے جو مجاہدے پر محیط ہے، اسی کو بزرگانِ دین ادب اور تواضع کا نام دیتے ہیں۔
حضرت حاجی صاحب مہاجر مکی فرماتے ہیں کہ ایک دم میں ولایت حاصل کرنے کے لیے ادب اور خدمت کو اختیار کرنا چاہیے۔ بزرگانِ دین اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طریقِ تصوف کے طالب کو چاہیے کہ ادبِ ظاہری اور باطنی کو نگاہ میں رکھے۔ ادبِ ظاہری یہ ہے کہ مخلوقِ خدا کے ساتھ بحسنِ ادب و کمال تواضع اور اخلاق کے ساتھ پیش آوے اور ادبِ باطنی یہ ہے کہ تمام اوقات و احوال و مقامات میں با حق رہے۔ حسنِ ادب ظاہر سرنامہ ادبِ باطن کا ہے اور حسنِ ادب ترجمانِ عقل ہے اور عقل چراغِ راہِ صداقت کے تیل سے منور ہے۔
یہ ادب، یہ صبر، ایسا دھیما پن، اس قدر درگزر، کم سخنی اور احتجاج سے گریز۔ یہ صوفیوں کے کام ہیں۔ ان سب کو فیض صاحب نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ اوپر سے ملامتی رنگ یہ اختیار کیا ہے کہ اشتراکیت کا گھنٹا بجاتے پھرتے ہیں کہ کوئی قریب نہ آئے اور محبوب کا راز کھل جائے۔ واہ بابا ٹل واہ! کیا کہنے! چوری کر، تے بھن گھر رب دا اوس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ۔
میرا تعلق چونکہ اونچے خانوادے سے ہے اور میں مسلمان بادشاہوں کا پرستار ہوں اور ملوکیت کو ہی اسلام سمجھتا ہوں، اس لیے میری اور بابا ٹل کی نہیں بن سکتی۔ لیکن کبھی اکیلے بیٹھے بیٹھے، خاموش اور چپ چاپ، میں سوچا کرتا ہوں کہ اگر فیض صاحب حضور سرور کائنات صلّی اللہ علیہ و سلّم کے زمانے میں ہوتے تو ان کے چہیتے غلاموں میں سے ہوتے۔ جب بھی کسی بد زبان، تند خو، بد اندیش یہودی دکاندار کی دراز دستی کی خبر پہنچتی تو حضور صلّی اللہ علیہ و سلّم کبھی کبھی ضرور فرماتے: آج فیض کو بھیجو، یہ بھی دھیما ہے، صابر ہے، برد بار ہے، احتجاج نہیں کرتا پتھر بھی کھا لیتا ہے۔ ہمارے مسلک پر عمل کرتا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
فیض سے میری رفاقت

فیض سے میری رفاقت
شیر محمد حمید​
1929ء کی بات ہے کہ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں تیسرے سال کا طالبعلم تھا۔ چوہدری نبی احمد اور آغا عبد الحمید میرے دوست تھے۔ ہم سب نیو ہاسٹل میں رہتے تھے۔ ہر شام ہم سیر کو نکلتے تو ایک نوجوان کو دیکھتے جو باہر جنگلے پاس تنہا کھڑا گرد و پیش سے بے خبر کالج ٹاور کی سمت نظریں جمائے، دور کہیں افق کی بلندیوں کو دیکھ رہا ہوتا۔ اس کا سراپا دلکش اور محویت جاذب توجہ۔ تین چار دنوں کے بعد نبی احمد کے ذوق جستجو نے ہمیں اس نوجوان سے ہم کلام ہونے پر آمادہ کر لیا۔ قریب جا کر نبی احمد نے پوچھا "معاف کیجیے گا، آپ کون ہیں اور یوں گم سم تنہا کھڑے کیا دیکھا کرتے ہیں؟" نوجوان محویت کے عالم سے چونکا اور کہنے لگا "میرا نام فیض ہے، میں نے مرے کالج سیالکوٹ سے ایف۔اے پاس کر کے یہاں تھرڈ ایئر میں داخلہ لیا ہے۔ یہاں میرا کوئی واقف آشنا نہیں ہے"! نبی احمد نے معاً کہا۔ آئیے آج سے آپ ہمارے دوست ہیں۔ یہ شیر محمد ہیں، یہ آغا حمید ہیں، یہ بھی آپ کے ہم جماعت ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن، ایک کم پچاس برس بیت چکے ہیں، زندگی ہزاروں نشیب و فراز سے گزری فیض کی دوستی کا وہ بندھن بدستور برقرار ہے، اور یہ دوستی ہمارے لیے فخر و مسرت کا باعث رہی ہے۔

فیض کے والد خان بہادر سلطان محمد خان سیالکوٹ کے سرکردہ وکیل، معزز و مخیر شہری، ڈسٹرکٹ بورڈ کے چیئرمین تھے۔ وجاہت و شرافت کا پیکر تھے، گھر میں ہر طرح کی آسودگی تھی۔ فیض نے ناز و نعمت میں آنکھ کھولی تھی، لاڈ پیار میں پرورش اور گھریلو رکھ رکھاؤ اور ناز برداریوں میں تعلیم و تربیت حاصل کی۔ لاہور آئے تو ماحول مختلف پایا۔ کچھ گھُٹے گھُٹے رہتے۔ ہمیں کافی جدّ و جہد کرنا پڑی کہ فیض اپنے خول سے باہر نکلیں۔ چھے سات ماہ کے بعد ہم کامیاب ہوئے اور فیض حلقۂ احباب میں چہچہانے لگے۔

وہ زمانہ گورنمنٹ کالج کا سنہری دور تھا۔ بڑے بڑے نامور اساتذہ مختلف شعبوں کے سربراہ تھے۔ پروفیسر لینگ ہارن انگریزی کے صدر شعبہ تھے۔ تھرڈ ایئر کے امتحان میں انہوں نے ہمارے انگریزی کے پرچے دیکھے۔ پرچے واپس ملے تو فیض کے پرچے پر ایک سو پینسٹھ نمبر درج تھے، کسی طالب علم نے پروفیسر صاحب سے پوچھا ان کو ڈیڑھ سو میں سے ایک سو پینسٹھ نمبر کیسے مل گئے۔ جواب ملا Because I could not give more.فیض کی انگریزی دانی کے متعلق ایک نامور انگریز استاد کے یہ الفاظ سند رہیں گے۔

انہی دنوں پطرس بخاری کیمبرج سے فارغ التحصیل ہو کر گورنمنٹ کالج آئے۔ کالج کی علمی و ادبی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ بخاری اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ان کی دلفریب شخصیت کا پرتو کالج کے ہر شعبے پرپڑا۔ کالج میں "بزم سخن" نام کی ایک اردو انجمن موجود تھی۔ اس کے اجلاس مشاعروں اور رسمی تقاریب تک محدود تھے۔ بخاری صاحب نے نا کافی سمجھ کر "مجلس" کے نام سے ایک نئی انجمن کا اجرا کیا۔ اردو علم و ادب سے شغف رکھنے والے طلبا کو چن چن کر اس کا رکن بنایا۔ فیض، راشد، آغا حمید، نبی احمد، حفیظ ہوشیار پوری اور یہ خاکسار اس کے بانی اراکین میں سے تھے۔ طالب علموں کے علاوہ بخاری صاحب کے ایما اور دعوت پر لاہور کے برگزیدہ ادیب و دانشور شریک مجلس ہوتے۔ ڈاکٹر تاثیر، مولانا سالک، امتیاز علی تاج، صوفی تبسم، چراغ حسن حسرت بالالتزام اور حفیظ جالندھری کبھی کبھار تشریف لاتے۔ اجلاس اکثر و بیشتر بخاری کے دولت کدے پر ہوتے۔ ایک طالب علم مقالہ پڑھتا، ایک دو نظم یا غزل پیش کرتے پھر سوال و جواب، تنقید و تبصرے کا دور چلتا۔ صاحب مقالہ کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی اور نئے نئے گوشوں کی طرف رہنمائی بھی۔ موضوع کے ہر پہلو کو کھنگالا جاتا۔ اور مشرق و مغرب کے اسالیب تنقید، قدیم و جدید اصولوں کے معیار پر پرکھا جاتا۔ غرض کوئی زاویہ، کوئی پہلو نظر انداز نہ کیا جاتا۔ اس دوران زمام بحث اکثر بخاری کے چابک دست ہاتھوں میں رہتی۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی یہ نشست مہینوں کی دیدہ ریزی پر حاوی ہوتی۔ ہم لوگ انشراح قلب کی کیفیت لیے واپس لوٹتے۔ یہ بخاری کی کرشمہ زائی تھی کہ مدفون امکانات کو اجاگر کر کے فیض اور راشد جیسے نامور اکابر "مجلس" نے پیدا کیے۔

فیض میں شاعری کا مادہ فطری و وہبی تھا۔ ہم لوگوں میں بھی فیض کی صحبت اور بخاری، تاثیر اور تبسم جیسے جید اساتذہ کے التفات نظر کے باعث شعر و ادب سے کچھ لگن پیدا ہو گئی۔ احباب کا حلقہ وسیع ہو چکا تھا۔ ہر شام ہوسٹل کے کسی کمرہ میں محفل مشاعرہ برپا کر بیٹھتے۔ طرح مصرع پر ہر کوئی دو چار شعر لکھ کر لاتا۔ محفل کے اختتام پر ہر غزل میں سے شعر انتخاب کر کے ایک غزل مرکب تیار کر لیتے جو کالج کے مجلّہ راوی میں "احباب" کے نام سے چھپتی۔ ظاہر ہے اس غزل مرکب میں حصہ وافر فیض کا ہوتا۔ "دی احباب" کے عنوان سے ایک طنزیہ فیض نے راوی میں لکھا تھا جو اب ان کی کتاب "متاع لوح و قلم" میں شامل ہے۔

فیض کی شاعری پروان چڑھتی رہی۔ بین الکلیاتی مشاعروں میں فیض اکثر انعامات سمیٹتے رہے۔ ابھی کالج کا زمانہ تھا کہ فیض صفِ شاگرداں سے اٹھ کر مجلس اساتذہ میں شریک ہو گئے اور بخاری، تاثیر اور تبسم کے احباب میں جگہ پا لی۔

ہم فورتھ ایئر میں تھے۔ دسمبر کی چھٹیوں میں فیض کی ہمشیرہ کی شادی تھی، وہ سیالکوٹ چلے گئے۔ ان کے والد اس تقریب کی تیاری میں مصروف تھے۔ جس صبح برات کو آنا تھا اسی رات حرکت قلب بند ہو جانے سے ان کا انتقال ہو گیا۔ اس قیامت کا اندازہ کیجیے جو اس ناگہانی موت سے ان کے خاندان پر گزر گئی۔ فیض نے ایک فقرہ کا خط لکھا: "تمہارا فیض یتیم ہو گیا" ان حشر سامانیوں کو کون سمجھے جو اس ایک فقرہ کی تہہ میں موجود ہیں۔ اس سانحہ عظیم نے گویا زندگی کی بساط الٹ دی۔ فیض کی زندگی کی کایا پلٹ گئی۔ اس کے قلب و ذہن میں ایک انقلاب آ گیا۔

اچانک گرفتاری، خوف و دہشت کی فضا، قید تنہائی اور پھر سنٹرل جیل میں مقدمے کی سماعت، عجب گو مگو کا عالم تھا۔ فیض کے اعزہ اور اقربا دوست احباب سب پریشان تھے۔ فیض کے بڑے بھائی حاجی طفیل احمد، جو میرے بھی کرم فرما تھے، حیدر آباد جیل میں فیض سے ملاقات کو گئے اور وہیں حرکت قلب رک جانے سے انتقال کر گئے۔ میں تعزیت اور دلجوئی کے لیے فیض سے ملنے حیدر آباد گیا۔ جیل کے اندر ملاقات ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ مقدمے کی سنگینی، جیل کی مصیبت اور اب شفیق بھائی کی ناگہانی موت نے فیض کو سخت مضمحل اور بد حال کر رکھا ہو گا۔ میں یہ دیکھ کر متعجب رہ گیا کہ فیض کی ظاہری شکل و صورت میں کسی غیر معمولی تبدیلی کے آثار نظر نہ آئے۔ اضمحلال و پریشانی کا کوئی خاص نشان نہ تھا۔

فیض ٹھنڈے مزاج کے بے حد صلح پسند آدمی ہیں۔ بات کتنی بھی اشتعال انگیز ہو، حالات کتنے بھی ناسازگار ہوں، وہ نہ برہم ہوتے ہیں اور نہ مایوس۔ سب کچھ تحمل اور خاموشی سے برداشت کر لیتے ہیں۔ نہ کسی کا گلہ نہ چڑچڑاہٹ نہ بد گوئی۔ میں نے فیض کو نہ کبھی طیش میں دیکھا ہے اور نہ کبھی کسی کا شکوہ شکایت کرتے سنا ہے۔ ان کے دل کی گہرائیوں میں لاکھ ہیجان برپا ہوں، چہرے پر برہمی کی یا پریشانی کی کوئی لکیر نظر نہ آئے گی۔ فیض کا ظرف کتنا وسیع ہے۔ سمندر کی تہہ میں طوفانوں کی رستا خیز ہے، سطح پر سکون ہے۔ یہ عظمت ہر کسی کو کہاں نصیب!

ہر معتدل آدمی کی طرح فیض پر بھی عشق و محبت کے حادثے گزرے ہیں۔ کچھ عام نوعیت کے رومانی واقعات جن کا دیر پا اثر فیض کی زندگی اور شاعری پر نہیں پڑا۔ لیکن دو ایک وارداتیں اس قدر شدید تھیں کہ فیض کے قلب و جگر کو گرما کے رکھ گئیں۔ "نقش فریادی" کی نظمیں رقیب سے، ایک راہ گزر پر، ایک ایسے ہی حادثہ کی یادگار ہیں جس کا اختتام مرگ سوز محبت پر ہوا۔ ایسے حادثے ہر کسی پر گزرتے ہیں لیکن فیض جیسے حسن بیں اور حسن آفریں حساس فنکار پر ان کت جو گہرے اثرات مرتب ہوئے ان کا سراغ جا بجا ان کی شعری تخلیقات میں مل جاتا ہے۔

یہاں سے اس کی سوچ اور فکر کے ساتھ ساتھ اس کی شاعری نے بھی نیا رخ اختیار کیا، غم جاناں کے ساتھ غم روز گار کا جاں گسل پیوند لگ جانے سے سوچ کے دھارے نئی سَمت میں بہنے لگے۔

فیض نے انگریزی اور عربی میں ایم۔اے کر لینے کے بعد ایم اے او کالج میں انگریزی کے استاد کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ وہاں ڈاکٹر تاثیر بطور پرنسپل اور صاحب زادہ محمود الظفر بطور وائس پرنسپل آ گئے۔ صاحب زادہ کی معروف رفیقہ حیات ڈاکٹر رشیدہ جہاں اور ان کے زمرہ کے دوسرے لوگوں سے میل جول بڑھا تو فکر و نظر کو اور وسعت ملی۔ ترقی پسند مصنفین کی انجمن کا اجرا انہی دنوں ہوا۔ فیض اس کے بانی رکن ہیں۔ اب وہ غم جاناں اور غم روز گار سے گزر کر غم وطن اور غم جہاں کی سنگلاخ راہوں پر چل نکلے۔ اپنی ذات کا دکھ عالمگیر دکھ کے سامنے ہیچ اور اس آفاقی دکھ کا ایک معمولی حصہ نظر آیا۔ فیض وطن دوستی اور انسان دوستی کی جس راہ پر گامزن ہوئے اس میں ہزار آفتوں کا سامنا تھا، جسم و جان کی قربانیاں درکار تھیں۔ الحمد اللہ کہ فیض کسی مصیبت کا سامنا کرنے سے نہیں ہچکچایا۔ نگار وطن کی حرمت آزادی اور پھر تزئین و تجمیل کے شوق نے جس جس قربانی کا تقاضا کیا، پیش کر دی۔ یہ راہ طویل بھی ہے اور کٹھن بھی، لیکن راہرو عشق کے قدموں میں نہ لغزش آئی اور نہ تھکن محسوس کی۔

تحریک آزادی کا یہ جیالا تحریک پاکستان کے معرکوں میں بھی ہراول رہا۔ پاکستان ٹائمز کے اجرا پر مدیر اعلیٰ مقرر ہوا تو صحافتی محاذ پر قلمی جہاد کے معرکے سر کرتا رہا، پاکستان معرض وجود میں آیا تو تعمیر وطن کے مرحلے سامنے آئے۔ جس پاکستان کے خواب دیکھے تھے ان کی تعبیر حسب مراد نظر نہ آئی تو سازش کیس میں دھر لیے گئے اور قید و بند کے مصائب جھیلنا پڑے۔ سازش کیس کا معما کیا تھا۔ اس کے متعلق نہ کبھی ہم نے دریافت کیا اور نہ ہی فیض نے بتایا۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ:

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے​

میرے نزدیک فیض کی زندگی کے اہم ترین واقعات میں ایلس جارج سے ان کی شادی ہے۔ یہ بظاہر ایک مشرقی نوجوان کا ایک فرنگی نژاد خاتون سے نکاح ہے۔ ایسے نکاح آئے دن ہوتے رہتے ہیں، لیکن حقیقتاً یہ مشرقی قلب و روح اور مغربی جسم و دل کا وہ بار آور پیوند ہے جس نے مشرق و مغرب کی رعنائیاں یک جا کر دی ہیں۔ فیض ایک لا ابالی، بے نیاز این و آں اور خود فراموش سا نوجوان تھا۔ ایلس نے اس کی زندگی میں ترتیب اور سنوار پیدا کر دی۔ اس کی بے قرار روح کو ایک حسین قالب میسر آ گیا۔ ایلس نے مغرب اور اس کی تہذیبی روایات کو خیر باد کہہ کر مشرق اور اس کی ثقافتی اقدار کو اپنا لیا۔ دیس کے ساتھ بھیس اور وطن کے ساتھ زبان تک بدل لی۔ مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ ایلس نے فیض کے فکر و نظر، جذبات و حیات اور آدرش تک اپنا لیے۔ قید و بند کی جن جن آزمائشوں سے فیض گزرے ہیں، ایلس کی غم خواری اور حوصلہ مندی کے بغیر ان جان لیوا مراحل سے یوں اعتماد اور یقین محکم کے ساتھ گزرنا مشکل تھا۔

فیض کا پیدائشی شہر سیالکوٹ ہے۔ رہائشی شہر لاہور کہہ لیجیے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ لائل پور سے بھی ان کو نسبت خاص ہے۔ ان کی جوانی کی کئی حسین یادیں اس شہر سے وابستہ ہیں۔ ان کے مداح اور پرستار ملک کے اندر اور باہر ہر جگہ موجود ہیں۔ لیکن لائل پور کے باسی ان سے دو گونہ التفات کے مستحق ہیں۔ اس لیے یہ آرزو کرنا کوئی بڑی جسارت نہ ہو گی کہ فیض ہمیں دل کے کسی محفوظ اور مخصوص گوشے میں جگہ دیے رکھیں۔
 
Top