عہدِ طفلی سے عنفوانِ شباب تک (انٹرویو)
عہدِ طفلی سے عنفوانِ شباب تک
(مرزا ظفر الحسن سے ایک گفتگو)
ہمارے شعرا کو مستقلاً یہ شکایت رہی ہے کہ زمانے نے ان کی قدر نہیں کی۔ ناقدریِ ابنائے وطن ہماری شاعری کا ایک مستقل موضوع ہے۔ ہمیں اس سے اُلٹ شکایت یہ ہے کہ ہم پہ لطف و عنایات کی اس قدر بارش رہی ہے، اپنے دوستوں کی طرف سے، اپنے ملنے والوں کی طرف سے اور ان کی جانب سے بھی جن کو ہم جانتے بھی نہیں، اکثر ندامت ہوتی ہے کہ اتنی داد و دہش کا مستحق ہونے کے لیے جو تھوڑا بہت کام ہم نے کیا ہے اس سے بہت زیادہ ہمیں کرنا چاہیے تھا۔
یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ بچپن ہی سے اس قسم کا تاثر رہا ہے۔ جب ہم بہت چھوٹے تھے اسکول میں پڑھتے تھے تو سکول کے لڑکوں کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات قائم ہو گئے تھے کہ خوامخواہ انہوں نے ہمیں لیڈر تسلیم کر لیا تھا حالانکہ لیڈری کی صفات ہم میں نہیں تھیں۔ یا تو آدمی بہت لٹھ باز ہو کہ دوسرے اس کا رعب مانیں یا وہ سب سے بڑا فاضل ہو۔ ہم پڑھنے لکھنے میں ٹھیک تھے، کھیل بھی لیتے تھے، لیکن پڑھائی میں ہم نے کوئی ایسا کمال پیدا نہیں کیا تھا کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔
بچپن کا میں سوچتا ہوں تو ایک یہ بات خاص طور پر یاد آتی ہے کہ ہمارے گھر میں خواتین کا ایک ہجوم تھا۔ ہم جو تین بھائی تھے ان میں ہمارے چھوٹے بھائی (عنایت) اور بڑے بھائی (طفیل) خواتین سے باغی ہو کر کھیل کود میں مصروف رہتے تھے۔ ہم اکیلے ان خواتین کے ہاتھ آ گئے۔ اس کا کچھ نقصان بھی ہوا اور کچھ فائدہ بھی۔ فائدہ تو یہ ہوا کہ ان خواتین نے ہم کو انتہائی شریفانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا۔ جس کی وجہ سے کوئی غیر مہذب یا اجڈ قسم کی بات اس زمانے میں ہمارے منہ سے نہیں نکلتی تھی۔ اب بھی نہیں نکلتی۔ نقصان یہ ہوا، جس کا مجھے اکثر افسوس ہوتا ہے کہ بچپن میں کھلنڈرے پن یا ایک طرح کے لہو و لعب کی زندگی گزارنے سے ہم محروم رہے۔ مثلاً یہ کہ گلی میں کوئی پتنگ اُڑا رہا ہے، کوئی گولیاں کھیل رہا ہے، کوئی لٹو چلا رہا ہے، ہم بس کھیل کود کو دیکھتے رہتے تھے، اکیلے بیٹھ کر۔ ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے کے مصداق ہم ان تماشوں کے صرف تماشائی بنے رہتے اور ان میں شریک ہونے کی ہمت اس لیے نہیں ہوتی تھی کہ اسے شریفانہ شغل یا شریفانہ کام نہیں سمجھتے تھے۔
اساتذہ بھی ہم پر مہربان رہے۔ آج کل کی میں نہیں جانتا، ہمارے زمانے میں تو سکول میں سخت پٹائی ہوتی تھی۔ ہمارے عہد کے استاد تو نہایت ہی جلاد قسم کے لوگ تھے۔ صرف یہی نہیں کہ ان میں سے کسی نے ہم کو ہاتھ نہیں لگایا بلکہ ہر کلاس میں ہم کو مانیٹر بناتے تھے۔ بلکہ (ساتھی لڑکوں کو) سزا دینے کا منصب بھی ہمارے حوالے کرتے تھے۔ یعنی فلاں کو چانٹا لگاؤ، فلاں کو تھپڑ مارو۔ اس کام سے ہمیں بہت کوفت ہوتی تھی اور ہم کوشش کرتے تھے کہ جس قدر بھی ممکن ہو یوں سزا دیں کہ ہمارے شکار کو وہ سزا محسوس نہ ہو۔ طمانچے کی بجائے گال تھپتھپا دیا، یا کان آہستہ سے کھینچا وغیرہ۔ کبھی ہم پکڑے جاتے تو استاد کہتے یہ کیا کر رہے ہو، زور سے چانٹا مارو۔
دو تاثر بہت گہرے ہیں ایک تو یہ کہ بچوں کی جو دلچسپیاں ہوتی ہیں ان سے محروم رہے۔ دوسرے یہ کہ اپنے دوستوں، ہم جماعتوں اور اپنے اساتذہ سے ہمیں بے پایاں شفقت و خلوص ملا جو بعد کے زمانے کے دوستوں اور معاصرین سے بھی ملا اور آج تک مل رہا ہے۔
صبح ہم اپنے ابّا کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ اذان کے ساتھ ہم اُٹھ بیٹھے، ابّا کے ساتھ مسجد گئے، نماز ادا کی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے، درس قرآن سنا، ابّا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی سیر کے لیے گئے پھر سکول۔ رات کو ابّا بُلا لیا کرتے خط لکھنے کے لیے۔ اس زمانے میں انہیں خط لکھنے میں کچھ دقّت ہوتی تھی۔ ہم ان کے سیکرٹری کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں اخبار بھی پڑھ کر سناتے تھے۔ ان مصروفیات کی وجہ سے ہمیں بچپن میں بہت فائدہ ہوا۔ انگریزی اخبارات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے ہماری استعداد میں کافی اضافہ ہوا۔
ایک اور یاد تازہ ہوئی۔ ہمارے گھر سے ملی ہوئی ایک دکان تھی، جہاں کتابیں کرائے پر ملتی تھیں۔ ایک کتاب کا کرایہ دو پیسے ہوتا۔ وہاں ایک صاحب ہوا کرتے تھے جنہیں سب "بھائی صاحب" کہتے تھے۔ بھائی صاحب کی دکان میں اردو ادب کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ ہماری چھٹی ساتویں جماعت کی طالب علمی میں جن کتابوں کا رواج تھا وہ آج کل قریب قریب مفقود ہو چکی ہیں جیسے طلسم ہوش ربا، فسانہ آزاد، عبد الحلیم شرر کے ناول وغیرہ۔ یہ سب کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اس کے بعد شاعروں کا کلام پڑھنا شروع کیا۔ داغ کا کلام پڑھا۔ میر کا کلام۔ غالب تو اس وقت بہت زیادہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسروں کا کلام بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا نہیں آتا تھا۔ لیکن ان کا دل پہ اثر کچھ عجب قسم کا ہوتا تھا۔ یوں شعر سے لگاؤ پیدا ہوا اور ادب میں دلچسپی ہونے لگی۔
ہمارے ابّا کے منشی گھر کے ایک طرح کے مینجر بھی تھے۔ ہمارا ان سے کسی بات پر اختلاف ہو گیا تو انہوں نے کہا کہ اچھا آج ہم تمہاری شکایت کریں گے کہ تم ناول پڑھتے ہو۔ سکول کی کتابیں پڑھنے کی بجائے چھُپ کر انٹ سنت کتابیں پڑھتے ہو۔ ہمیں اس سے بہت ڈر لگا اور ہم نے ان کی بہت منّت کی کہ شکایت نہ کریں مگر وہ نہ مانے اور ابّا سے شکایت کر ہی دی۔ ابّا نے ہمیں بلایا اور کہا میں نے سنا ہے تم ناول پڑھتے ہو۔ میں نے کہا جی ہاں۔ کہنے لگے ناول ہی پڑھنا ہے تو انگریزی ناول پڑھو۔ اردو کے ناول اچھے نہیں ہوتے۔ شہر کے قلعہ میں جو لائبریری ہے وہاں سے ناول لا کر پڑھا کرو۔
ہم نے انگریزی ناول پڑھنے شروع کیے۔ ڈکنس، ہارڈی اور نہ جانے کیا کیا پڑھ ڈالا۔ وہ بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا پلّے نہ پڑتا تھا۔ اس مطالعہ کی وجہ سے ہماری انگریزی بہتر ہو گئی۔ دسویں جماعت میں پہنچنے تک محسوس ہوا کہ بعض استاد پڑھانے میں کچھ غلطیاں کر جاتے ہیں۔ ہم ان کی انگریزی درست کرنے لگے۔ اس پر ہماری پٹائی تو نہ ہوئی البتہ وہ استاد کبھی خفا ہو جاتے اور کہتے تمھیں ہم سے اچھی انگریزی آتی ہے تو پھر تم ہی پڑھایا کرو ہم سے کیوں پڑھتے ہو۔
اس زمانے میں کبھی کبھی مجھ پر ایک خاص قسم کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ جیسے یکایک آسمان کا رنگ بدل گیا ہے۔ بعض چیزیں کہیں دور چلی گئی ہیں۔ دھوپ کا رنگ اچانک حنائی ہو گیا ہے۔ پہلے جو دیکھنے میں آیا تھا، اس کی صورت بالکل مختلف ہو گئی ہے۔ دنیا ایک طرح کی پردۂ تصویر کے قسم کی چیز محسوس ہونے لگتی تھی۔ اس کیفیت کا بعد میں بھی کبھی کبھی احساس ہوا ہے مگر اب نہیں ہوتا۔
مشاعَرے بھی ہوا کرتے تھے۔ ہمارے گھر سے ملی ہوئی ایک حویلی تھی جہاں سردیوں کے زمانے میں مشاعرے کیے جاتے تھے۔ سیالکوٹ میں پنڈت راج نرائن ارمان ہوا کرتے تھے جو ان مشاعروں کے انتظامات کرتے تھے، ایک بزرگ منشی سراج دین مرحوم تھے۔ علّامہ اقبال کے دوست سری نگر میں مہاراجہ کشمیر کے میر منشی۔ وہ صدارت کیا کرتے تھے۔ جب دسویں جماعت میں پہنچے تو ہم نے بھی تک بندی شروع کر دی اور ایک دو مشاعروں میں شعر پڑھ دیے۔ منشی سراج دین نے ہم سے کہا میاں ٹھیک ہے۔ تم بہت تلاش سے شعر کہتے ہو، مگر یہ کام چھوڑ دو، ابھی تو تم پڑھو لکھو اور جب تمہارے دل و دماغ میں پختگی آ جائے، تب یہ کام کرنا۔ اِس وقت یہ تضیع اوقات ہے۔ ہم نے شعر کہنا ترک کر دیا۔
جب ہم مرّے کالج سیالکوٹ میں داخل ہوئے اور وہاں پروفیسر یوسف سلیم چشتی اردو پڑھانے آئے جو اقبال کے مفسر بھی ہیں تو انہوں نے مشاعرے کی طرح ڈالی اور کہا طرح پر شعر کہو۔ ہم نے کچھ شعر کہے اور ہمیں بہت داد ملی۔ چشتی صاحب نے منشی سراج دین کے بالکل خلاف مشورہ دیا اور کہا فوراً اس طرف توجہ کرو۔ شاید تم کسی دن شاعر ہو جاؤ۔
گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے جہاں بہت ہی فاضل اور مشفّق اساتذہ سے نیاز مندی ہوئی۔ پطرس بخاری تھے، اسلامیہ کالج میں ڈاکٹر تاثیر تھے، بعد میں صوفی تبسّم صاحب آ گئے۔ ان کے علاوہ شہر کے جو بڑے ادیب تھے، امتیاز علی تاج تھے، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری صاحب تھے، اختر شیرانی تھے، ان سب سے ذاتی مراسم ہو گئے۔ ان دنوں اساتذہ اور طلبا کا رشتہ ادب کے ساتھ ساتھ کچھ دوستی کا سا بھی ہوتا تھا۔ کالج کی کلاسوں میں تو شاید ہم نے کچھ زیادہ نہیں پڑھا۔ لیکن ان بزرگوں کی صحبت اور محبت سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی محفلوں میں ہم پر شفقت ہوتی تھی اور ہم وہاں سے بہت کچھ حاصل کر کے اٹھتے تھے۔
ہم نے اپنے دوستوں سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ جب شعر کہتے تھے تو سب سے پہلے خاص دوستوں کو ہی سناتے تھے۔ ان سے داد ملتی تو مشاعروں میں پڑھتے۔ اگر کوئی شعر خود کو پسند نہ آیا یا دوستوں نے کہا نکال دو تو اسے کاٹ دیتے۔ ایم اے میں پہنچنے تک باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا تھا۔
ہمارے ایک دوست ہیں خواجہ خورشید انور، ان کی وجہ سے ہمیں موسیقی میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ خورشید انور پہلے تو دہشت پسند تھے، بھگت سنگھ گروپ میں شامل۔ انہیں سزا بھی ہوئی جو بعد میں معاف کر دی گئی۔ دہشت پسندی ترک کر کے وہ موسیقی کی طرف مائل ہوئے۔ ہم دن میں کالج جاتے اور شام کو خورشید انور کے والد خواجہ فیروز الدّین مرحوم کی بیٹھک میں بڑے بڑے استادوں کا گانا سنتے۔ یہاں اس زمانے کے سبھی استاد آیا کرتے تھے۔ استاد توکل حسین خاں، استاد عبد الوحید خاں، استاد عاشق علی خاں اور چھوٹے غلام علی خاں وغیرہ۔ ان استادوں کے ہم عصر اور ہمارے دوست رفیق غزنوی مرحوم سے بھی صحبت ہوتی تھی۔ رفیق لاء کالج میں پڑھتے تھے۔ پڑھتے تو خاک تھے، رسمی طور پر کالج میں داخلہ لے رکھا تھا۔ کبھی خورشید انور کے کمرے میں اور کبھی رفیق کے کمرے میں بیٹھک ہو جاتی تھی۔ غرض اس طرح ہمیں اس فن لطیف سے حظ اندوز ہونے کا کافی موقع ملا۔
جب ہمارے والد فوت ہوئے تو پتا چلا کہ گھر میں کھانے تک کو کچھ نہیں ہے۔ کئی سال تک در بدر پھرے اور فاقہ مستی کی۔ اس میں بھی لطف آیا، اس لیے کہ اس کی وجہ سے تماشائے اہلِ کرم دیکھنے کا موقع ملا۔ خاص طور پر اپنے دوستوں سے کالج میں ایک چھوٹا سا حلقہ بن گیا تھا۔ کوئٹہ کے ہمارے دو دوست تھے احتشام الدّین اور شیخ احمد حسین۔ ڈاکٹر حمید الدّین بھی اس حلقے میں شامل تھے۔ ان کے ساتھ شام کو محفل رہا کرتی۔ جوانی کے دنوں میں جو دوسرے واقعات ہوتے ہیں وہ بھی ہوئے اور ہر کسی کے ساتھ ہوتے ہیں۔
گرمیوں کی تعطیلات ہوتیں تو ہم کبھی خورشید انور اور بھائی طفیل کے ساتھ سری نگر چلے جایا کرتے اور کبھی اپنی ہمشیرہ کے پاس لائل پور پہنچ جاتے۔ لائل پور میں باری علیگ اور ان کے گروہ کے دوسرے لوگوں سے ملاقات رہتی۔ کبھی اپنی سب سے بڑی ہمشیرہ کے ہاں دھرم سالہ چلے جاتے۔ جہاں منظر قدرت دیکھنے کا موقع ملتا اور دل پر ایک خاص قسم کا نقش ہوتا۔ ہمیں انسانوں سے جتنا لگاؤ رہا اتنا قدرت کے مناظر اور مطالعۂ حسن فطرت سے نہیں رہا۔ پھر بھی ان دنوں میں نے محسوس کیا کہ شہر کے جو گلی محلے ہیں ان میں بھی اپنا ایک حسن ہے جو دریا و صحرا کوہسار یا سرو و سمن سے کم نہیں۔ البتہ اس کو دیکھنے کے لیے بالکل دوسری طرح کی نظر چاہیے۔
مجھے یاد ہے کہ ہم مستی دروازے کے اندر رہتے تھے۔ ہمارا گھر بالائی سطح پر تھا۔ نیچے بدرو بہتی تھی۔ چھوٹا سا ایک چمن تھا۔ چار طرف باغات تھے۔ ایک رات چاند نکلا ہوا تھا۔ چاندنی بدرو اور ارد گرد کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پڑ رہی تھی۔ چاندنی اور سائے یہ سب مل کر کچھ عجیب پر اسرار منظر بن گئے تھے۔ چاند کی عنایت سے منظر کی بد وضعی چھپ گئی تھی اور کچھ عجیب ہی قسم کا حسن پیدا ہو گیا تھا۔ جسے میں نے لکھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ایک آدھ نظم میں منظر کشی کی ہے جب شہر کی گلیوں محلّوں اور کٹڑیوں میں کبھی دوپہر کے وقت کبھی شام کے وقت کچھ اس قسم کا روپ آ جاتا ہے جیسے معلوم ہو کوئی پرستان ہے۔ "نیم شب، چاند، خود فراموشی، بام و در، خامشی کے بوجھ سے چُور" وغیرہ اسی زمانے سے متعلق ہیں۔
ایم۔اے میں پہنچے تو کبھی کلاس میں جانے کی ضرورت ہوئی کبھی بالکل جی نہ چاہا۔ دوسری کتابیں جو نصاب میں نہیں تھیں پڑھتے رہے۔ اس لیے امتحان میں کوئی خاص اعزاز حاصل نہیں کیا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ جو لوگ اول دوم آتے ہیں ہم ان سے زیادہ جانتے ہیں خواہ ہمارے نمبر ان سے کم ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ نات ہمارے اساتذہ بھی جانتے تھے۔ جب کسی استاد کا جیسے پروفیسر ڈکنسن یا پروفیسر ہریش چندر کٹا پالیا تھے، لیکچر دینے کو جی نہ چاہتا تو ہم سے کہتے ہماری بجائے تم لیکچر دو، ایک ہی بات ہے۔ البتہ پروفیسر بخاری بڑے قاعدے کے پروفیسر تھے وہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ پروفیسر ڈکنسن کے ذمّے انیسویں صدی کا نثری ادب تھا مگر انہیں اس موضوع سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے ہم سے کہا دو تین لیکچر تیار کر لو۔ دوسرے جو دو تین لائق لڑکے ہمارے ساتھ تھے ان سے بھی کہا دو دو تین تین لیکچر تم لوگ بھی تیار کر لو۔ کتابوں وغیرہ کے بارے میں کچھ پوچھنا ہو آ کے ہم سے پوچھ لینا۔ چنانچہ نیم استاد ہم اسی زمانے میں ہو گئے تھے۔
ابتدائی شاعری کے دوران میں یا کال کے زمانے میں ہمیں کوئی خیال ہی نہ گزرا کہ ہم شاعر بنیں گے۔ سیاست وغیرہ تو اس وقت ذہن میں بالک ہی نہ تھی۔ اگرچہ اس وقت کی تحریکوں، مثلاً کانگریس تحریک، خلافت تحریک یا بھگت سنگھ کی دہشت پسند تحریک کے اثرات تو ذہن میں تھے۔ مگر ہم خود ان میں سے کسی قصے میں شریک نہیں تھے۔
شروع میں خیال ہوا کہ ہم کوئی بڑے کرکٹر بن جائیں کیونکہ لڑکپن سے کرکٹ کا شوق تھا وہ بہت کھیل چکے تھے۔ پھر جی چاہا استاد بننا چاہیے۔ ریسرچ کرنے کا شوق تھا۔ ان میں سے کوئی بات بھی نہ بنی۔ ہم کرکٹر بنے نہ نقّاد اور نہ ریسرچ کیا۔ البتہ استاد ہو کر امرتسر چلے گئے۔
ہماری زندگی کا شاید سب سے خوشگوار زمانہ امرتسر ہی کا تھا اور کئی اعتبار سے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ جب ہمیں پہلی دفعہ پڑھانے کا موقع ملا تو بہت لطف آیا، اپنے طلبا سے دوستی کا لطف۔ ان سے ملنے اور روز مرہ کی رسم و راہ کا لطف، ان سے کچھ سیکھنے اور انہیں پڑھانے کا لطف۔ ان لوگوں سے دوستی اب تک قائم ہے۔ دوسرے یہ کہ اس زمانے میں کچھ سنجیدگی سے شعر لکھنا شروع کیا۔ تیسرے یہ کہ امرتسر میں ہی پہلی بار سیاست میں تھوڑی بہت بصیرت اپنے کچھ رفقا کی وجہ سے پیدا ہوئی جن میں محمود الظفر تھے، ڈاکٹر رشید جہاں تھیں۔ بعد میں ڈاکٹر تاثیر آ گئے تھے۔ یہ ایک نئی دنیا ثابت ہوئی۔ مزدوروں میں کام شروع کیا۔ سول لبرٹیز کی ایک انجمن بنی تو اس میں کام کیا۔ ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تو اس کی تنظیم میں کام کیا۔ ان سب سے ذہنی تسکین کا ایک بالکل نیا میدان ہاتھ آیا۔
ترقی پسند ادب کے بارے میں بحثیں شروع ہوئیں اور ان میں حصہ لیا۔ 'ادب لطیف' کی ادارت کی پیش کش ہوئی تو دو تین برس اس کا کام کیا۔ اس زمانے میں لکھنے والوں کے دو بڑے گروہ تھے۔ ایک "ادب برائے ادب" والے دوسرے ترقی پسند تھے۔ کئی برس تک ان دونوں کے درمیان بحثیں چلتی رہیں جس کی وجہ سے کافی مصروفیت رہی جو بجائے خود ایک بہت ہی دلچسپ اور تسکین دہ تجربہ تھا۔ بر صغیر میں ریڈیو شروع ہوا۔ ریڈیو میں ہمارے دوست تھے۔ ایک سید رشید احمد تھے جو ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ہوئے۔ دوسرے سومناتھ چپ تھے، جو آج کل ہندوستان میں شعبۂ سیاحت کے سربراہ ہیں۔ دونوں باری باری سے لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ہم اور ہمارے ساتھ شہر کے دو چار اور ادیب ڈاکٹر تاثیر، حسرت، صوفی صاحب اور ہری چند اختر وغیرہ، ریڈیو اسٹیشن آنے جانے لگے۔ اس زمانے میں ریڈیو کا پروگرام ڈائریکٹر آف پروگرامز نہیں بناتا تھا۔ ہم لوگ مل کر بنایا کرتے تھے۔ نئی نئی باتیں سوچتے تھے۔ ان دنوں ہم نے ڈرامے لکھے، فیچر لکھے، دو چار کہانیاں لکھیں، یہ سب ایک مستقل مشغلہ تھا۔ رشید جب دلی چلے گئے تو ہم دہلی جانے لگے۔ وہاں نئے نئے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ دہلی اور لکھنئو کے لکھنے والے گروہوں سے شناسائی ہوئی۔ مجاز، سردار جعفری، جاں نثار اختر، جذبی اور مخدوم مرحوم سے ریڈیو کے توسط سے رابطہ پیدا ہوا جس سے دوستی کے علاوہ بصیرت اور سوجھ بوجھ میں طرح طرح کے اضافے ہوئے۔ وہ سارا زمانہ مصروفیت کا بھی تھا اور ایک طرح سے بے فکری کا بھی۔
(ناتمام)