شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ

شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ
محمد خلیل الرحمٰن
[ہمیں بچپن ہی سے شعر و شاعری کا شوق رہا ہے۔ ہماری لاٹری تو اس وقت نکلی جب اپنے نانا ماموں کے چار کمروں کے فلیٹ میں شفٹ ہوئے ، جہاں پر تین کمرے چھت تک کتابوں سے بھرے ہوئے تھے۔ پھول کی اڑتالیس سالہ جلدوں کا انتخاب، مولانا محمد حسین آزاد کی اردو کی پہلی کتاب، عطیہ خلیل عرب کا کیا ہوا خوبصورت ترجمہ، علامہ توفیق الحکیم کا شہرہ آفاق ڈرامہ ’’ محمد الرسول اللہ‘‘، نیا دور، نقوش اور ماہِ نو رسالوں کی جلدوں کی جلدیں اُن کتابوں میں سے چند ایک نام ہیں جن پر ہم نے ہاتھ صاف کیا اور اردو ادب و شاعری سے مستفید ہوئے۔البتہ علمِ عروض کی ابجد سے بھی ہم واقف نہ تھےاور نہ اب تک ہیں۔ مندرجہ ذیل مضمون میں ہم نے کوشش کی ہے کہ اپنے ساتھی محفلین کو عروض کی باریکیوں اور دقیق بحثوں میں جھانکے بغیر، وزن اور بحر سیکھنے میں مدد دے سکیں۔ گو اِس میں یقیناً ہمیں اساتذہ کی ناراضگی مول لینی پڑے گی]



شاعری اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر آپ صحیح بحر میں شاعری کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو موسیقی کی مدد لینی پڑے گی۔ اِس سلسلے میں فلمی گیت آپ کی بجا طور پر مدد کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل مشہور فلمی گیت کو لے لیجیے۔
اے دِل مجھے بتادے، تو کِس پہ آگیا ہے
وہ کون ہے جو آکر خوابوں پہ چھا گیا ہے

اب ذرا بانگِ درا نکالیے اور علامہ اقبال کی شہرہ آفاق نظم
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

پڑھ جائیے۔اب اسی نظم کو اس فلمی گیت کی دھن میں گائیے۔
اب چند صفحے آگے بڑھ جائیے اور اقبال ہی کی نظم بزمِ انجم نکال لیجیے۔
سورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو
طشتِ افق سے لے کر لالے کے پھول مارے

اب اِس نظم کو بھی اسی فلمی گیت کے انترے اور استھائی سمیت گادیجیے۔ اسی پر بس نہ کرتے ہوئے، اب پھول کی اڑتالیس سالہ جلدوں کا انتخاب ( غلام عباس کا ترتیب دیا ہوا) نکال لیجیے اور اختر شیرانی کی دونظموں
۱۔ یارب رہے سلامت اردو زباں ہماری
ہر لفظ پر ہے جسکے قربان جاں ہماری
اور


۲۔ چندر اور بندر
مشہور ہے جہاں میں بندر کی بے ایمانی
لوہم تمہیں سنائیں اِک ایسی ہی کہانی

کو اسی فارمولے کے تحت دہرائیے۔ اگر کوئی چھوٹا بچہ سامنے ہوتو سونے پر سہاگہ ہے کہ اس طرح آپ کو لطف بھی آئے گا اور اس بحر کو سمجھنے میں مدد بھی ملے گی۔

اِس طرح گویا آپ نے ایک بحر کی مشق کرلی۔ اب خود سے اسی بحر میں اشعار کہنے کی کوشش کریں۔ظاہر ہے کہ جو مصرع اس بحر میں ہوگا، آپ اسے اس فلمی گیت کی دھن میں کبھی انترہ اور کبھی استھائی بناکر بآسانی گنگناسکیں گے۔

پھول آپ کے سامنے ہے۔ اب ذرا حفیظ جالندھری کی نظم ’’ جھوٹا گواہ‘‘ نکالیے اور آخری شعر پڑھیے۔
دُڑم دُم، دُڑم دُم، دُڑم دُم ،دُڑم
تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم

اب اِس نظم کے ہر مصرع کو اِس شعر کے ساتھ دہرائیےتو یہ بحر بھی آپ کی سمجھ میں آجائے گی۔ اب مولانا محمد حسین آزاد کی ’’ اردو کی پہلی کتاب‘‘ کھولیے اور مندرجہ ذیل نظموں کے ساتھ بھی
’’ دُڑمدُم، دُڑم دُم، دُڑم دُم، دُڑم کیجیے۔

۱۔ سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی
(سویرے اُٹھنا)


۲۔ بس اُٹھ بیٹھو بیٹا بہت سو چکے
بہت وقت بے کار تم کھو چکے
(سورج کے فائدے)


۳۔ سنا ہے کہ لڑکا تھا اِک ہونہار
بہت اِس کو ماں باپ کرتے تھے پیار
( سچائی)


۴۔ عنایت کا اُس کی بیاں کیا کریں
عجب نعمتیں اُس نے بخشی ہمیں
(خدا کی شکر گزاری)


۵۔ مسافر غریب ایک رستے میں تھا
وہ چوروں کے ہاتھوں میں جاکر پھنسا
(ہمدردی)
لیجیے اب آپ
دُڑم دُم، دُڑم دُم ، دُڑم دُم ، دُڑم
کی بحر میں غزل یا نظم کہنے کے لیے تیار ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ اسے اِس بحر میں مترنم پڑھ سکیں۔

اسی طرح اب آپ اپنی پسندیدہ شاعرہ پروین شاکر کی یہ غزل نکالیے اور اسے تحت اللفظ پڑھ جائیے۔
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

اب اسے مہدی حسن کے خوبصورت فلمی گیت
آنکھ سے دور سہی ، دِل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا

کی طرز میں مترنم پڑھئیے۔ اب اسی بحر کی مشق کیجیے اور کچھ اشعار کہنے کی کوشش کریں۔ امید ہے کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔

ہم نے بھی جب لتا منگیشکر کا یہ گانا سنا
ستمگر مجھے بے وفا جانتا ہے
مرے دِل کی حالت خدا جانتا ہے

تو ہم جھوم جھوم اُٹھے اور اسی وجد کت عالم میں داغ کی یہ غزل گنگنانے لگے
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے

فوراً ہی ہم پر اشعار کا نزول ہونے لگا اور پہلے ہم نے اپنے انگریزی داں بچوں کے لیے کمپوز کی اور آخرِ کار اسی بحر میں ایک سنجیدہ غزل کہنے پر مجبور ہوگئے۔
ہوئے آج گم جسم و جاں آتے آتے
یہ حالت ہوئی کب یہاں آتے آتے

امید ہے آپ بھی اسی بحر میں ایک عدد دوغزلہ یا سہہ غزلہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

مندرجہ بالا تمام بحث کے بعد، کیا اب اس بات کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ آپ
فاعلاتُن، فاعلاتُن، فاعلات
ایک تھپڑ، ایک گھونسا ایک لات

وغیرہ کی طرف توجہ دیں۔ نوٹ کیجیے کہ انھی فلمی گیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے پیارے نعت خواں حضرات نے کیا غضب کی نعتیں پڑھی ہیں۔ کچھ ستم ظریفوں نے تو ذکر کو بھی بیٹ کے طور پر استعمال کرکے نعت خوانی کی ایک نئی جہت دریافت کی ہے۔

آپ ہماری اِن باتوں پر غور کیجیے ، نت نئی بحروں میں فلمی گیتوں پر غزلیں کہیے، مشاعروں میں مترنم پیش کیجیے اور مشاعرے لُوٹیے، اور ہم چلے ، اِس سے پہلے کہ محفل میں اساتذہ تشریف لے آئیں اور ہم سے فارغ خطی لکھوالیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

مضمون کا دوسرا حصہ یہاں ملاحظہ فرمائیں: شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ- 2 | اردو محفل فورم (urduweb.org)
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
عمدہ تحریر ہے۔۔۔ عروض سے واقفیت تو بعد میں ہوئی تھی، اول اول تو ہم بھی یونھی گنگنا کر شعر کہتے تھے۔ :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
گنگنا کے شعر عروض کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں بیچارے اچھے بھلے شاعروں کے شعروں کی درگت بنا چکا ہوں،
ویسے نو آموز شاعروں کے لئے مشورہ اچھا ہے۔
کہ شاعری تو خون جگر مانگتی ہے،
اور ہمارے پاس اتنا وقت کہاں کہ شاعری میں سر کھپاتے رہیں اور فاعلات، فاعلاتن کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
 

یوسف-2

محفلین
فاعلاتُن، فاعلاتُن، فاعلات
ایک تھپڑ، ایک گھونسا ایک لات
گویا جو (اُستادوں کی) ’ایک تھپڑ، ایک گھونسا ایک لات‘ کھانے اور لتا منگیشکرکے گانے، گانے یا گنگنانے کے ”قابل“ نہ رہا ہو، وہ شاعری کا خیال ہی دل سے نکال دے ۔ :eek: اگر یہ مان لیا جائے ، اور مانے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں کہ شاعری اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن پھر (شاعری کی) چولی کے پیچھے کیا ہے؟ موسیقی کا دامن یا مغنیہ کا دل :biggrin: گویا شاعری ”سیکھنے“ کے لئے پہلے موسیقی سے ”دل لگانا“ پڑے گا؟ (اگر آپ صحیح بحر میں شاعری کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو موسیقی کی مدد لینی پڑے گی۔) اور موسیقی سے دل لگانے کے لئےپہلے مغنیاؤں (بروزن میاؤں ؟) سے راہ و رسم پیدا کرنی ہوگی ؟؟؟ آپ کہتے ہو شاعری اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موسیقی اور اعضاء کی شاعری (رقص) میں قدم بہ قدم، ردھم بہ ردھم کا ساتھ ہے۔ ماہرین رقص کہتے ہیں کہ رقص کا ریاضی سے گہرا تعلق ہے۔ :eek:
کہاں سے لاؤں صبر حضرتِ ایوب اے ساقی
خُم آئے گا، صراحی آئے گی تب جام آئے گا
(شاد عظیم آبادی)
یعنی اُستاد @محمد خلیل الرحمٰن کے بقول پہلے رقص آئے گا، پھر موسیقی آئے گی تب شاعری کا جام آئے گا۔ ایک بڑے شاعر سے پوچھا گیا کہ ہمیں شاعری سیکھنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اساتذہ کے کم از کم پانچ ہزار (نصف جس کے ڈھائی ہزار ہوتے ہیں) عمدہ اشعار صحیح تلفط کے ساتھ منہ زبانی یاد کریں۔ اب لگتا ہے کہ اشعار سے پہلے پانچ دس ہزار فلمی گانے یاد کرنے پڑیں گے۔ :eek:
آپ ہماری اِن باتوں پر غور کیجیے۔ اور سے اور ہوئے جاتے ہو، طور سے طور ہوئے جاتے ہو، جب سے رکھا ہے (شاعری کی) جوانی مین قدم، قابلِ غور ہوئے جاتے ہو:D ۔ نت نئی بحروں میں فلمی گیتوں پر غزلیں کہیے،
گائیے گیتوں کو جتنا گائیے؛ وہ اگر گائیں تو پھر کیا گائیے ؟ مشاعروں میں مترنم پیش کیجیے ، ملکہ ترنم اور ترنم ناز کو یاد رکھتے ہوئے؟ اور مشاعرے لُوٹیے، بنک اور قومی خزانہ لوٹنے کے اس عہد میں مشاعرہ کی آڑ میں دوہزار روپے لوٹیے؟ جی ہاں! ہمارے کثیر القومی ادارے کے مشاعرہ میں شریک قومی سطح کے مزاح گو شعراء کی خدمت میں مبینہ طور پر فی کس مبلغ دوہزار روپے، نصف جس کے ایک ہزار ہوتے ہیں، بہ عزت و احترام پیش کئے گئے۔ اور اسی ادارے کے تحت ہونے والی محفل موسیقی کی واحد شریک چوتھے پانچویں درجے کی رقاصہ و مغنیہ کی خدمت میں مبنینہ طور پر مبلغ پچاس ساٹھ ہزار روپے نچھاور کئے گئے۔
اور ہم چلے۔ چل چلئے، دنیا دی اُس نُکڑے، جتھے شاعری نہ شاعری دی ذات ہوئے۔ اللہ بیلی۔:chalo:
 

یوسف-2

محفلین
گنگنا کے شعر عروض کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں بیچارے اچھے بھلے شاعروں کے شعروں کی درگت بنا چکا ہوں،
ویسے نو آموز شاعروں کے لئے مشورہ اچھا ہے۔
کہ شاعری تو خون جگر مانگتی ہے،
اور ہمارے پاس اتنا وقت کہاں کہ شاعری میں سر کھپاتے رہیں اور فاعلات، فاعلاتن کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
تو (بھی) نہ دانی فاعلاتن فاعلات؟ :hatoff:
:) :):)
 

یوسف-2

محفلین
برادرم @محمد خلیل الرحمٰن
شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ کا حشر نشر کرنے پر بندہ معذرت خواہ ہے۔ سامعین پراثر کرنے والی تقریر سیکھنے کے خواشمندوں کو ایک بنیادی قاعدہ یہ سکھلایا جاتا ہے کہ جب آپ تقریر کرنے کھڑے ہو تو یہ تصور کرو کہ آپ کے سامنے موجود سامعین سب کے سب بےوقوف ہیں اور آپ ہی نے انہیں سب کچھ سکھلانا اور بتلانا ہے۔ اگر آپ بھی یہی کچھ تصور کرلیں کہ شاعری سیکھنے کے خواشمند ہم سب کے سب ۔۔۔ ہیں، تب شاید آپ ہمیں فاعلاتن فاعلات سکھلانے میں کامیاب ہوجائیں ورنہ تو ہم یہی کہیں گے کہ شاعری کے انگور کھٹے ہیں ( ہمارے پاس اتنا وقت کہاں کہ شاعری میں سر کھپاتے رہیں اور فاعلات، فاعلاتن کو سمجھنے کی کوشش کریں:D )
 

یوسف-2

محفلین
ہاں جی، بس ایک دفعہ دو شعر وہ بھی مغزل جی محنت سے عروض کے سانچے میں پورے کیے تھے ورنہ اب تک تو ایک تھپڑ، ایک گھونسا، ایک لات ہی کھاتا آیا ہوں۔
بھائی مغزل سے عروض کا سانچہ ہی کیوں نہ چھین لیا۔ اور آج مزے سے اس سانچے میں سے شعر ڈھالتے رہتے اور تھپڑ، گھونسا اور لات کھانے سے بچے رہتے؟
 
فاعلاتُن، فاعلاتُن، فاعلات
ایک تھپڑ، ایک گھونسا ایک لات
یعنی اُستاد @محمد خلیل الرحمٰن کے بقول

ایں چہ معنی دارد؟ کیا اس محفل میں کوئی استاد صاحب بھی وہی نام رکھتے ہیں جو اس حقیر فقیر ، پُر تقصیر کا ہے؟
ارے صاحب ! کیوں ہمیں بھی کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں اور اپنے تئیں بھی خطرے میں پڑتے ہیں۔ اس محفل میں جہاں اساتذہ کی چہل پہل کچھ زیادہ ہی ہے، ابھی سن پائیں تو آپ سے بھی ابھی کھڑے کھڑے فارغ خطی لکھوالیں۔ اس کندہ ناتراش کی اتنی جرات کہاں کہ اس زمرے میں شامل ہونے کا سوچ بھی سکے۔:)
 
عمدہ تحریر ہے۔۔۔ عروض سے واقفیت تو بعد میں ہوئی تھی، اول اول تو ہم بھی یونھی گنگنا کر شعر کہتے تھے۔ :)
واقعی دلچسپ ہے۔

مجھے بھی یہ مشورہ بیس برس پہلے ایک شفیق اور مہربان صاحب نے دیا تھا۔ :)
جزاک اللہ الخیر۔
یعنی ہر شخص فاتح یا محمد وارث نہیں ہوسکتا۔ ایک بھیڑچال ہم جیسے کندگانِ ناتراش کی ہے جو علمِ عروض کی ابجد سے بھی شاید ناواقف ہوں۔ خود ہمارا یہ حال ہے کہ سہہ حرفی فعل کے تینوں حروف کو ف ع ل سے تبدیل کرکے وزن نکالنے کی حد تک تو غنیمت ہے، کہیں اسم آگیا تو ہم چاروں خانے چت۔ گویا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں نا کہ ہماری ترکیب قابلِ عمل ہے؟ وزن کو اِس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب خلیل الرحمٰن صاحب،

بہت دلچسپ تحریر ہے۔ خود مجھے بھی موسیقی سے کچھ نہ کچھ شغف ہے اور میں اکثر کچھ نہ کچھ گنگناتا رہتا ہوں۔

ایک ہی بحر کی شاعری کو مختلف (گانوں وغیرہ کی ) طرز پر پڑھ کر بہت لطف آتا ہے اور میں اکثر یہ 'شغل' کیا کرتا ہوں۔ :) خاص طور پر اُداس گیتوں کو کسی شوخ و شنگ گانے کی طرز پر پڑھیے الگ ہی مزا ملے گا۔ ;) اکثر گانا مہدی حسن کا اور طرز لتا کے کسی گیت کی، الگ ہی لطف ہے بھائی۔۔۔۔! :chill: ہمارے ساتھ ایک دوست ہوتے ہیں وہ جب ایسا کوئی گیت سنتے ہیں وہ ایک منٹ کے لئے تو پریشان ہو جاتے ہیں کہ یہ گانا کون سا ہے اور طرز کونسی ہے اور پھر وہ اپنے تئیں ہمیں بتاتے ہیں کہ احمد بھائی یہ تو "وہ والا" گانا ہے۔ :D

لیکن اس کے باوجود جب کبھی بھی "ایسی" حرکتیں کی گئیں لطف تو بہت آیا لیکن شعر کہنے کا ماحول رخصت ہوگیا۔ شعر ہمیشہ تحت اللفظ میں ہی ہوا کرتے ہیں، وہ بھی اگر ہوئے تو۔۔۔۔ !
 

شمشاد

لائبریرین
خلیل بھائی زبردست تحریر ہے۔

بس یہ بتا دیں کہ "جب اپنے نانا ماموں کے چار کمروں کے فلیٹ میں شفٹ ہوئے " کہ یہ "نانا ماموں" کیا رشتہ ہوا؟ کہیں یہ تو نہیں کہ نانا اور ماموں یعنی کہ دو الگ الگ ہستیاں ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
جی یہ ”مرکب رشتے“ ہیں، جیسے ”ماموں سسر“ یا ”خالہ ساس“ یا جیسے ہندی میں کہتے ہین ”ساسو ماں“ :D
 

شمشاد

لائبریرین
ماموں سسر، خالہ ساس، ساسو ماں تو پہلے بھی سُن رکھے ہیں لیکن نانا ماموں پہلی دفعہ پڑھا ہے۔
 
Top