سینیٹ انتخابات آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوں گے، سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے

سینیٹ انتخابات آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوں گے، سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے
ویب ڈیسک | حسیب بھٹی 01 مارچ 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
603c62d60dcf2.jpg

عدالت نے 25 فروری کو رائے محفوظ کی تھی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے مطابق خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوں گے۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے صدارتی ریفرنس کے ذریعے مانگی گئی رائے پر اپنی رائے دی۔

اس 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل تھے۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 4 ایک کی اکثریت سے رائے دی اور چیف جسٹس نے رائے پڑھ کر سنائی اور بتایا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس رائے سے اختلاف کیا۔


چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ شفاف انتخابات کرائے اور کرپٹ باتوں سے الیکشن کو محفوظ بنائے۔

عدالتی رائے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے جبکہ تمام ادارے الیکشن کمیشن کے پابند ہیں۔

اکثریتی رائے میں عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں ہے، الیکشن کمیشن 218 کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ 25 فروری کو سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کی تھی۔


یہاں یہ واضح رہے کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات 3 مارچ کو ہونے ہیں اور ان انتخابات کو اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے رائے مانگی تھی۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ کی سامنے آنے والی کاز لسٹ سے معلوم ہوا تھا کہ آج اس معاملے پر رائے دی جائے گی اور اس سلسلے میں اٹارنی جنرل پاکستان، چیف الیکشن کمشنر، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو نوٹسز جاری کیے گئے تھے، مزید یہ کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز، چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز، اراکین الیکشن کمیشن اور دیگر کو بھی نوٹس جاری ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ صدر کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو بھیجے گئے ریفرنس پر پہلی سماعت 4 جنوری 2021 کو ہوئی تھی، جس کے بعد فروری سے اس پر روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں ہوئی تھیں۔


معاملے کا پس منظر
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر 2020 کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی تھی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی رائے مانگی تھی۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔

صدارتی ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔

بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: خفیہ بیلٹ سے متعلق معاملات پارلیمنٹ طے کرے گی، چیف جسٹس

صدر مملکت نے 6 فروری 2021 کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے تھے اور اسے جاری کردیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 کا نام دیا گیا تھا اور اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا تھا۔

آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گا، مزید یہ کہا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ سے سینیٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے مطابق رائے ہوئی تو خفیہ ووٹنگ ہوگی۔

علاوہ ازیں مذکورہ آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات کو الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دیا تو اوپن بیلٹ ہوگی اور اس کا اطلاق ملک بھر میں ہوگا۔


مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کرلی
 

جاسم محمد

محفلین
چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ شفاف انتخابات کرائے اور کرپٹ باتوں سے الیکشن کو محفوظ بنائے۔
یعنی اگر ہارس ٹریڈنگ ہوئی تو الیکشن کمیشن ذمہ دار ہوگا۔ زبردست فیصلہ!
سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہی ہوں گے، سپریم کورٹ کی رائے
ویب ڈیسک پير 1 مارچ 2021
2149178-supremecourt-1614576422-132-640x480.jpg

صدارتی ریفرنس میں تمام فریقوں کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے اپنی رائے محفوظ کرلی۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سینیٹ الیکشن ریفرنس پراپنی راے دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہی ہوں گے۔

صدارتی ریفرنس میں تمام فریقوں کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے 4 روز قبل محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلزاراحمد نے سپریم کورٹ کی رائے اوپن کورٹ میں سنائی۔ فیصلے کے مطابق سینٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہی ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے چارایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی رائے دی۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کے لیے تمام اقدامات کرسکتا ہے،تمام ادارے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کے پابند ہیں، الیکشن کمیشن کرپشن کے خاتمے کے لیے تمام ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کرسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں قراردے چکی ہے کہ سیکریسی کبھی بھی مطلق نہیں ہوسکتی اورووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا، ووٹنگ میں کس حد تک سیکریسی ہونی چاہیے یہ تعین کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

واضح رہے کہ وفاق، پنجاب، کے پی کے اوربلوچستان نے ریفرنس کی حمایت کی تھی جب کہ سندھ ،الیکشن کمیشن، (ن) لیگ اورپیپلز پارٹی نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اکثریتی رائے میں عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں ہے، الیکشن کمیشن 218 کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے۔

حکومت کی الیکشن کمیشن کوسینیٹ کیلئے قابل شناخت بیلٹ پیپرچھاپنے کی تجویز

ویب ڈیسک پير 1 مارچ 2021
2149266-senateelectionvideo-1614593115-933-640x480.jpg

حکومت کا سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل درآمد کا مطالبہ

اسلام آباد: سینیٹ الیکشن صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومتی وفد نے فوری طور پر الیکشن کمیشن سے رجوع کرلیا۔

وفاقی وزراء پر مشتمل حکومتی وفد الیکشن کمیشن پہنچا اور چیف الیکشن کمشنر اور ممبران سے ملاقات کرکے فیصلے پر قانونی نکات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں شفافیت کی ضرورت ہے۔ بابر اعوان، شہزاد اکبر، شفقت محمود، فیصل جاوید، وفاقی وزیر فواد چوہدری اور آئینی ماہرین وفد میں شامل تھے۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت نے الیکشن کمیشن کو حمایت کا یقین دلایا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا ہے، سپریم کورٹ نے کہا ہے سینیٹ انتخابات خفیہ ہوگا لیکن شکایات پر الیکشن کمیشن ووٹ کو دیکھ سکے گا اور شناخت کرسکے گا، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ ووٹ قابل شناخت ہوگا، اس حوالے سے 1500 بیلٹ پیپرز چھاپنے کی ضرورت ہے، الیکشن کمیشن کو تمام ٹیکنالوجی فراہم کر سکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے فیصلہ کرنا ہے، دو گھنٹے میں بیلٹ پیپر چھپ جائیں گے، چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں اعلی سطح اجلاس عدالتی رائے پر غور کر رہا ہے جس میں ووٹ کی شناخت کے بارے میں فیصلہ کیا جائیگا۔

بابر اعوان نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے شارٹ آرڈر پر الیکشن کمیشن میں مشاورت ہوئی،عدالت نے کہا ہے ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں رہ سکتا، شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، پاکستان کی تاریخ میں شفاف انتخابات کے حوالے سے یہ فیصلہ کن مرحلہ ہے، 1500 لوگوں کے ووٹوں کی شناخت کی بات کی گئی۔

شفقت محمود نے کہا کہ بیلٹ پیپرز کی شناخت سے سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خریدوفروخت کو روکا جاسکتا ہے، ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے ہی تحریک انصاف کا موقف ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ شفاف انتخابات کرائے اور کرپٹ باتوں سے الیکشن کو محفوظ بنائے۔

جوچاہتے تھے وہ مل گیا، سپریم کورٹ نے قابل شناخت بیلٹ کا کہہ دیا، اٹارنی جنرل
ویب ڈیسک پير 1 مارچ 2021
2149200-khalidjaved-1614589820-355-640x480.gif

اب یہ الیکشن کمیشن پرہے کہ وہ بیلٹ پیپر پر بار کوڈلگائے یا سیریل نمبر، خالد جاوید خان

اسلام آباد: اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے قابل شناخت سینیٹ بیلٹ پیپرکا کہہ دیاہے، ہم جوچاہتے تھے وہ مل گیا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے سینیٹ الیکشن صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی مہربانی ہےجوچاہتے تھے وہ مل گیا، سپریم کورٹ نے قابل شناخت سینیٹ پیپرکا کہہ دیاہے، اب یہ الیکشن کمیشن پرہے کہ وہ بیلٹ پیپر پر بار کوڈلگائے یا سیریل نمبر۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ سپریم کورٹ کی یہ رائے بہت اہم ہے کہ بیلٹ پیپرکی سیکریسی حتمی نہیں ہے، سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاانتخابات صاف شفاف ہونے چاہئیں، حکومت کی جانب سے اوپن بیلٹ سے متعلق لایا گیا آرڈینس ختم ہوچکا، اب الیکشن شفاف بنانے کیلئے الیکشن کمیشن نے اقدامات کرنے ہیں۔
 
Top