سینگ لڑانے کی کوشش مت کیجئے اپنی ڈیوٹی دفاعِ وطن پر دھیان دیں

زیرک

محفلین
سینگ لڑانے کی کوشش مت کیجئے اپنی ڈیوٹی دفاعِ وطن پر دھیان دیں​
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار سیٹھ جو خصوصی عدالت کے سربراہ تھے کے جنرل مشرف کو ہائی ٹریژن کیس کے فیصلے کے قانونی پہلو بالکل درست ہیں اس میں کوئی لقونہ نہیں ہے، اگر کوئی سوال بن سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ ان کی جانب سے سزا پر عمل درآمد کا جو طریقہ بیان ہوا ہے وہ ہمارے نارمل طریقے سے ہٹ کر ہے، ملزم کو سزا دینے سے متعلق قانونی طریقۂ کار موجود ہے، اگر ہاتھی کے پیروکاروں کو اعتراض ہے تو پیرا گرف 66 نکلوانے کے لیے اعلیٰ عدالتی فورم موجود ہے، اس سے رجوع کیا جا سکتا ہے اور ایک دن کی سماعت کے بعد اسے حذف کروایا جا سکتا ہے۔ لیکن بالائے آئین قوتوں کا کچھ اور ایجنڈا ہے، ان کے اشارے پر سلیکٹڈ حکومت کا ایک جج کے لکھے چند جملوں کو لے کر آرٹیکل 209 کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی عادت خطرناک ہے جس کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ فیصلے میں موجود قانونی متن جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا کوئی جواز فراہم نہیں کر رہا، ہاں سزا پر عمل درآمد کے طریقۂ کار پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے جس کا درست فورم اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنا بنتا ہے۔ ممتاز وکیل و سابق چیئرمین سینٹ سینیٹر رضا ربانی کہا کہنا ہے کہ "جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی ہو گی، حکومت عدلیہ مخالف منظم مہم چلانے سے باز رہے"۔ حکومت کو ریفرنس کا دائر کرنے کا شوق ہے تو وہ بھی پورا کر لے، اس کا بھی جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس جیسا ہی حشر ہو گا، حکومت کو مزید ہزیمت اٹھانے کا شوق ہے تو وہ بھی پورا کر لیں۔ آج ہی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرنے سے پہلے خود سے منسوب پرویز مشرف کیس سے متعلق بیان پر وضاحت بھی پیش کی۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ میں نے میڈیا سے بات کی اور میں مشرف کیس پر اثر انداز ہوا۔ میڈیا پر تاثر دیا گیا کہ میں نے پرویز مشرف کیس فیصلے کی حمایت کی۔ یہ مجھے اور عدلیہ کو بدنام کرنے کی گھناؤنی سازش ہے، میرے اور عدلیہ کے خلاف گھناؤنی مہم چل پڑی ہے، مجھ پر الزام بے بنیاد اور غلط ہے، ہمیں اپنی حدود کا علم ہے، سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے، سچ کا بول بالا ہو گا، سچ سب کے سامنے آئے گا۔جج کو غیر جانبدار ہونے کے ساتھ دل سے شیر ہونا چاہئیے۔ میرے نزدیک ایک جج کو بے خوف وخطر ہونا چاہئیے۔ایک جج کا دل شیر کی طرح اور اعصاب فولاد کی طرح ہونا چاہئیے"۔
کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے
وہ تم کو خوف دلائیں گے​
لیکن بالائے آئین قوتوں کا کوئی اور ایجنڈا ہے وہ ساری عدلیہ کی گوشمالی کا ارادہ کیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کاش آج سزا کے طریقۂ کار پر اعتراض کرنے والے ماضی میں فوجی جنتا کی بالائے آئین حکومتوں میں عام عوام، صحافیوں اور پارٹی ممبران کو بھرے چوکوں اور پارکوں میں سرِ عام کوڑے مارنے کی سزاؤں پر بھی بولتے لیکن کیسے بول سکتے ہیں؟ کیونکہ جو ایسا کرتے تھے اور کرتے آ رہے ہیں ان کے ہاتھ میں سرکاری گن ہے اور چونکہ ان کے ہاتھ میں سرکاری گن ہے اس لیے ان کے کہے میں وزن ہے، ان کا کہا قانون و آئین بنا دیا جاتا ہے۔ بالائے آئین قوتوں سے یہ گزارش ہے کہ " آئینی اداروں سے سینگ لڑانے کی کوشش مت کیجئے، اس میں صراصرآپ کا ہی نقصان ہو گا، آپ اپنی اولین ذمہ داری دفاعِ وطن کی طرف توجہ دیں، کیونکہ ایک اذلی دشمن سرحدوں کو پامال کرنے کے لیے تیار کھڑا ہے مگر افسوس آپ اپنا فرض منصبی بھول کر عوام اور اداروں کو فتح کرنے کے چکر میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں؟، اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے تو کم از کم جو تنخواہ لیتے ہو وہ تو حلال کرو تاکہ کل مرنے کے بعد اللہ کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے"
 
Top